انسانی تہذیب کی تعمیرمیں علماء کاکردار
مولانارضوان احمدقاسمی
سکریٹری مدرسہ اصلاح المسلمین بینی پٹی مدھوبنی
خادم التدریس حکومت بہار
ولقدکرمنابنی آدم وحملناھم فی البروالبحرورزقناھم من الطیبات وفضلناھم علیٰ کثیرممن خلقناتفضیلا‘‘(بنی اسرائیل:۷۰)
ترجمہ:یقیناہم نے اولادآدم کوبڑی عزت دی اورانہیں خشکی وتری کی سواریاںدیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں اورانہیں بہت سی مخلوق پرفضیلت عطافرمائی۔
اللہ رب العزت نے انسانی احترام اوراس کے حقوق واجبات کوشریعت کادرجہ دیتے ہوئے اس کی پوری کفالت کی ذمہ داری لی ہے تاکہ انسان کودنیاوآخرت میں ایک خوشگوارزندگی میسرآسکے۔
انسانی تہذیب کے تقابلی مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ جب سے یہ دنیاقائم ہے اس وقت سے آج تک جتنی تہذیبیں وجود میں آئیں،ان میں انسان کوبہ حیثیت انسان جاننے کاسبق اسلام سے ملا، جو تہذیب اسلام نے دی اس کے مقابلے میں کوئی بھی دوسری تہذیب نہ آسکی،اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسلام نے انسانیت کاسچاپیغام دیا،انسان کوانسانیت کے صحیح پیرایے میں ڈھال کرانسان کو بحیثیت انسان متعارف وروشناس کرایا،جب کہ دوسری تہذیبیں اس میں ناکام رہیں۔
اسلامی تہذیب کودوسری تہذیبوں میں سب سے زیادہ امتیازحاصل ہے کیوںکہ اسلامی شریعت میں انسان کی نفسانی کیفیتوں، قدرتی صلاحیتوں اورزندگی کے فطری تقاضوں کاخاصالحاظ ہے، زندگی کی فطری ضرورتوں کی ایسی رعایت ہے کہ وحی الٰہی کے بجائے محض انسانی زندگی کی مصلحتوں کو بنیاد بنا کے اعلیٰ ترین دماغ طے کرتے تواس سے بہترنہیں کرسکتے تھے،اسلام میں شریعت کومحض خداکی عبادت یعنی اپنے جسم وزبان سے خداکے سامنے فروتنی کرنے اورعاجزی ،التجاودعاکرنے تک محدودنہیں رکھاگیابلکہ اس میں انسان کے شخصی تقاضوں اورسماجی ضرورتوں کواس کے احاطے میں رکھاگیا۔
انسانی تہذیب وتمدن ایک زندہ اورواقعاتی موضوع ہے جس کاتعلق بعثت محمدی اوراسلامی پیغام وتعلیمات سے ہے،سیدنامحمدصلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کواس کی شرافت وعظمت واپس کی اوراس کاکھویاوقارواعتباربحال کیا اوریہ اعلان کیاکہ انسان اس کائنات کاسب سے قیمتی وجوداورگراںقدرجوہر ہے،یہاں اس سے زیادہ باعظمت اورمحبت وحفاظت کی مستحق کوئی اورشئی نہیں،آپ نے انسان کادرجہ اتنا بلندکیاکہ وہ اللہ کانائب وخلیفہ قرارپایا،جس نے اس کے لیے دنیاپیداکی اوراسے اپنے لیے پیداکیا۔
اسلامی تہذیب ایک ایسی تہذیب ہے جس کاضمیروخمیراللہ کااسم گرامی اوراس کایقین وایمان ہے،وہ خدائی رنگ (صبغۃ اللہ)میں رنگی ہوئی ہے اوراس کاخمیرایمان واذعان کی بنیادوں پرقائم ہے، اس لیے اس کودینی رنگ اورربانی آہنگی اورایمانی روح سے الگ کرناممکن نہیں اوراس پرجب بھی قومی عصبیت،جاہلی حمیت،نسلی کشمکش ،مادی ہوس،اخلاقی زوال یامعاشرتی انارکی طاری ہوئی تووہ عارضی طور پر یاخارجی اثرات یااس ماحول ومعاشرہ کی دین رہی ہے،جس سے کوئی اسلامی عنصرنکلاہے یااس میں اسلامی ثقافت سے عدم تاثرواستفادہ اورقرآن کریم وحدیث نبوی اوراسلام کے اولین اساسی مصادرسے عدم اشتغال کودخل رہاہے۔(تہذیب وتمدن پراسلام کے اثرات واحسانات)
آںحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست فیضیاب ہونے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسلامی تہذیب وتمدن کوپوری دنیاکے کونے کونے میں عام کرکے اورانسانیت کے مفہوم کوعملی جامہ پہناکرپوری دنیاکویہ باورکرادیاکہ اگراس سرزمین پرکوئی تہذیب کوئی ثقافت ہے جسے بالادستی حاصل ہوسکتی ہے تووہ صرف اورصرف اسلامی تہذیب وتمدن ہے۔
آغازاسلام سے لے کراب تک بالواسطہ ذات گرامی سے فیض حاصل کرنے والے وہ علماء امت جن کے بارے میں’’العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘کامژدہ سنایاگیا،انہوں نے اپنی اس وراثت نبوی کو پورے عالم میں عام کرنے کی جدوجہدکی جس کی مثال دنیاپیش کرنے سے عاجزودرماندہ ہے،ان کوان چندصفحات میں بیان کرنااوراس پرروشنی ڈالناناممکن نہیں تومحال ضرورہے،تاہم علماء امت کے اس بیش بہاکارناموں کی طرف اشارہ کیاجاتاہے۔امام دارالہجرۃحضرت امام مالک ہوں یاامام شافعیؒ،امام ابوحنیفہ ہوں یاامام احمدبن حنبل،حسن بصری ہوں یادوسرے امام وقت،سبھوں نے اسی کواپنامقصدزندگی بنا کراس اسلامی تہذیب وثقافت کوعام کرنے کی سعی کی،جس سے انسانیت متعارف ہوئی اورانسانی تہذیب جانی پہچانی گئی۔
آںحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیمات کے اشاعت کے نتیجہ میں ہرصدی میں علماء امت نے اپنی بساط کے مطابق اسلامی تہذیب کی ارتقامیں اہم رول اداکیا،کوئی بھی ملک اورکوئی بھی صوبہ انہوں نے نہیں چھوڑا جہاں انہوں نے انسانی تہذیب بالفاظ دیگراسلامی تہذیب کی تعمیرکافریضہ انجام نہ دیا ہو، انہوں نے تصنیف وتالیف،تقریروتحریرکرداروعمل اوراخلاق حسنہ کے ذریعہ دوسری تہذیبوں میں اسلامی تہذیب کو ممتاز حیثیت دلائی،ان ہی میں کچھ علماء وصوفیانے دیارہندیہ کارخ کیااوراس کام کے لیے اس کو منتخب کیا،جن میں حضرت شیخ المشائخ نظام الدین اولیاؒ،محمدبن قاسم اورحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی او ر ان کے آبا واجدادہیں جنہوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس ظلمت کدہ اورآماجگاہ شرک وبدعت میں لوگوں کو مذہب اسلام سے روشناس کرایا،آخرالذکراوران کے اولادواحفادنے ملک کے گوشہ گوشہ میں اسلام کا پرچم لہرایااوراپنی تصنیف وتالیف،تقریروتحریرکے ذریعہ اس ملک کے باشندگان تک اسلا م کاپیغام امن اور فطری تہذیب کوعام کرکے انسانی تہذیب کی تعمیرکاصورگھرگھرپھونک دیا۔
بارہویں صدی ہجری میں اسی خاندان سے بالواسطہ فیض یافتگان حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی ؒ بانی دارالعلوم دیوبند، مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودیؒ،مولاناحسین احمدمدنیؒ،حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ،سیدانورشاہ کشمیریؒ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ،مولانااحمدرضاخاں بریلویؒ،حکیم الاسلام قاری محمدطیب صاحبؒ،ڈپٹی نذیرحسین محدث دہلویؒ،نواب حسن خاں بھوپالی ودیگر علماء کرام نے اپنے کرداروعمل اوراپنے اخلاق حسنہ کے ذریعہ انسانی تہذیب کی تعمیرمیں اہم رول ادا کیا، آج ملک میں پھیلے ہوئے مختلف دینی مدارس،علماکی جماعتیں اورمختلف مسلم تنظیمیں ان ہی حضرات کے جذبہ اخلاص کی مرہون منت ہیں کہ علماامت ان ہی روایات کوباقی رکھتے ہوئے انسانی تہذیب کی تعمیر میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ماضی قریب میں مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی میاں ندویؒ اورفقیہ الامت حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ جیسے حضرات نے اس امت کی باگ ڈورسنبھال کراپنی حیات مستعارکوتعمیرتہذیب انسانیت میں صرف کردیا،جن کی خدمات کوامت اسلامیہ ہندیہ فراموش نہیں کرسکتی۔
اولٰئک آبائی فجئنی بمثلھم اذاجمعتنایاجریرالمجامع
Comments are closed.