پلولزم اور اقلیت – ایک ارتقائی مطالعہ

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
پوری دنیا میں اقوامِ متحدہ کے مطابق 195 ممالک میں ہیں جن 54 ممالک افریقی براعظم میں 48ایشیا میں ، 44 یوروپ میں، 33 لیٹن امریکہ میں، 14اوسینانا اور 2 نارتھ امریکہ میں ہیں۔ ان میں سے کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں صرف ایک مذہب، ایک زبان اور ایک رنگ و نسل کے لوگ رہتے ہیں۔ خالص نسل اور اعلیٰ نسل کا تصور جو یہودیوں، جرمن، برہمن اور آریائی قوموں میں پایا جاتا ہے یہ محض ایک واہمہ ہے۔ خود کو سوریہ بنشی اور چندربنشی کہنا ایک ڈھکوسلہ کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور ملی جلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں کسی کو کسی پر کوئی نسلی اور قومی برتری حاصل نہیں ہے۔ نہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر نہ کالے کو گورے پر اور نہ گورے کو کالے پر، نہ آریائی نسلوں کو غیر آریائی نسلوں پر۔ اس طرح کے تصورات جہالت پر مبنی تعصبات کی پیداوار ہیں جن کو بائیولوجی، جینٹک سائنس اور علم الانسان رد کرچکی ہے۔ قدیم تہذیبوں کے جو آثار ملے ہیں اس سے بھی اس کی نفی ہوتی ہے تاہم ان سماجوں میں بھی طبقاتی برتری کا تصور پایا جاتا تھا۔ لہٰذا یہ قدیم جاہلیت کے وہ اثرات ہیں جو آج بھی قائم ہیں اور آج دنیا کی تعلیم یافتہ اور نام نہاد مہذب قوموں میں یہ جہالت ان کے ڈی این اے میں داخل ہے، جسے یہودیوں میں، سفید فام اقوام میں اور بھارت میں برہمنوں میں، مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ بغیر کسی اختصاص کے خود کو اشرف مانتے ہیں، جو ان کے ذہنی دیوالیہ پن اور دینی جہالت کی دلیل ہے۔ یہ ایک پہلو ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں مخلوط آبادی نہیں رہتی ہے اور وہاں ایک سے زیادہ مذہب، زبان، کلچر، اور رنگ ونسل کے لوگ نہیں رہتے ہیں۔ قدیم زمانے میں جب کے رسل و رسائل کے ذرائع بہت محدود تھے تو لوگوںکا ایک علاقہ سے دوسرے علاقے میں جانا قریب قریب ناممکن تھا، اس لیے ان کے خاندانی، تمدنی، سماجی اور معاشی رشتے محدود ہوا کرتے تھے۔ فاتحین کے لشکر اور حملہ آور اور فوج جب کسی ملک، خطے اور علاقے میں فوج کشی کرتے تو وہاں بہت ساری تباہی ہوتی تھی، ساتھ ہی ساتھ لوگوں اور تہذیبوں کا ملن بھی ہوتا تھا۔ سماجی، تمدنی اور تجارتی رشتے بنتے تھے، لوگ ایک دوسرے کے مذہب اور عقیدے سے متاثر ہوکر ان کے ہم رنگ ہوجاتے تھے۔ اس طرح ایک ملے جلے سماج کا تصور پروان چڑھتا تھا۔
دوسری طرف مہم جو تاجر حضرات سمندر کے راستے دور دراز کے بازار تک پہنچ کر اپنا سامان بیچتے اور وہاں سے وہاس کے سامان اپنے ملک اور علاقے میںلاتے۔ اس طرح ایک جگہ کے مصنوعات دوسری جگہ اور تیسری جگہ پہنچے۔ یہ سفر مہینوں اور برسوں کا ہوتا۔ وہ راستے میں مختلف جگہ رکتے ہوئے آگے بڑھتے۔اس درمیان مقامی آبادی سے ان کا ربط ضبط ہوتا، شادی بیاہ ہوتی اور اس طرح ان کی نسلیں مختلف جگہ آباد ہوجاتیں۔
نامعلوم عہد سے دنیا بھر میں غلامی کا رواج تھا۔ اشیاء اور جانوروں کی طرح غلاموں اور لونڈیوں کے بازار لگتے اور لوگ ان غلاموں اور لونڈیوں کو خرید کر لے جاتے اور ان کے ساتھ بالکل جانوروں جیسا سلوک کرتے۔ یہ ایک ایسا نظام تھا جس کو ارسطو نے فطری نظام قرار دیا تھا۔ جاگیردارانہ سماج کی معاشی گاڑی بھی غلام کھینچتے تھے۔ جب جاگیر داری نے سرمایہ داری کا چولا اوڑھا اور یورپ میں انڈسٹریل ریولیوشن آیا اس نے نہ صرف افراد کو بلکہ پورے پورے ملک کو غلام بنانا شروع کیا اور پوری دنیا کو اپنی نو آبادیات بنادیا۔ اس کے لیے ان کو بہت مین پاور کی ضرورت تھی، لہٰذا فوجی خدمات، زراعت، تجارت اور مختلف امور کو انجام دینے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ لوگوں کو لے جانے اور بسانے کا نظم کیا۔ اس طرح دنیا کے مختلف خطوں میں غلام، گرمٹیا مزدور اور دیگر لوگ جاکے بسنے لگے اور وہ مقامی آبادی کا جزولاینفک بن گئے۔ ان کے درمیان شادی بیاہ اور دیگرتمدنی رشتے قائم ہوگئے۔ وہ بالکل بھول گئے کہ وہ کب اور کہاں سے آئے تھے۔
اس وقت رسل و رسائل میں فروغ کی وجہ سے بہت سے لوگ تعلیم، تجارت، نوکری اور کئی دیگر وجوہات سے دنیا میں جہاں ان کے بہتر مواقع نظر آتے ہیں وہاں جاتے ہیں اور بستے بھی ہیں یا جب تک وہاں ان کو کام کے مواقع میسر آتے ہیں وہاں قیام کرتے ہیں۔ اس طرح آپ کو دنیا کے ہر ملک میں مختلف قوموں، مذہبوں اور زبانوں اور نسلوں کے لوگ ملیں گے جس کی بنیاد پرہم کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ہم لوگ ایک ملی جلی سوسائٹی جس کو انگریزی میں Plural Society کہتے ہیں اس میں رہ رہے ہیں۔
اس سوسائٹی میں کچھ لوگ گنتی میں زیادہ ہیں تو کچھ لوگ گنتی میں کم ہیں، جن کو ہم اقلیت کہتے ہیں۔ اقلیتوں کو ہر طرح کا تحفظ دنیا اکثریت کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اس وقت جس سوشیل کنٹریکٹ تھیوری کی بنیاد پر ہمارا سماجی اور سیاسی ڈھانچہ کھڑا ہے اس میں اقلیتوں کو جان، مال، عقیدے، زبان، ان کے رسم ورواج، طریقِ عبادت اور دیگر انسانی حقوق کا تحفظ کسی بھی ریاست اور سماج کی قانونی ذمہ داری ہے۔ کون سا ملک کتنا مہذب، انسان دوست ہے اور وہاں قانون کی حکمرانی ہے یا نہیں اس کا ایک بڑا پیمانہ یہ ہے کہ وہ ملک اپنے مذہبی، لسانی،تمدنی اور نسلی اقلیت کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ اس معاملے میں بھارت کا گراف بہت نیچے ہے۔
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلام نے توحید کے بعد سب سے زیادہ زور انسانی شرف اور آزادی پر دیا ہے۔ مگر مسلمان ملکوں کا ریکارڈ اس معاملہ میں بہت افسوسناک ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا میں مسلمانوں کی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ جب میں یہ خبر پڑھتا اور سنتا ہوں کہ پاکستان میں اور بنگلہ دیش میں وہاں کی عیسائی اور ہندو اقلیتوں کو سب و شتم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کے چرچ اور مندروں کے بے حرمتی کی جاتی ہے، ہندو لڑکیوں کو اغوا کرکے ز بردستی ان سے شادی رچائی جاتی ہے، ان کے مردوں کو جلانے کی اجازت نہیں ہے تومیرا سر شرم سے جھک جاتا ہے، اور سمجھ میں نہیںآتا کہ اگر کچھ غنڈے اور شرپسند عناصر یہ حرکتیںکررہے ہیں تو وہاں کی دینی اور سیاسی جماعتیں، علماء اور مشائخ کیوں آواز نہیں اٹھاتے، کیوں سڑکوں پر نہیں آتے اور کیوں ان شرپسند عناصر کو قرار واقعی سزا نہیں دلاتے ہیں۔ پاکستان میں اہانت دین کا جو قانون ہے اس کا اطلاق مسلمانوں پر ہونا چاہیے نہ کہ غیر مسلموں پر، اس قانوں کو منسوخ کیا جانا چاہیے۔ یہ اصول ذمہ ا ور اصول شہریت دونوں کے خلاف ہے۔ آج کی مہذب دنیا ایسی ظالمانہ حرکتوں کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔
Website: abuzarkamaluddin.com
Comments are closed.