Baseerat Online News Portal

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد مبارک کا عظیم مقصد

{قرآن سے بندوں کو جوڑنا‘ الٰہ واحد کی بندگی کی طرف بلانا ہے}
مولانامحمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگارو آزاد صحافی
Cell:984909922
سردار دو جہاں کا طائف کا سفر
آپ ﷺ کی حیات طیبہ کا ایک اور پہلو ہمارے سامنے یوں آتا ہے کہ، مکہ والوں کی ضد اور ہٹ دھرمی اور آپؐ کی دعوت حق کا مسلسل انکار ہوتا رہا لیکن داعی حق آنحضور ﷺ نے کبھی بھی ہمت نہیں ہاری اور برابر دعوت دین و اقامت دین {دین قائم} کرنے کیلئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا چنانچہ ایک مرتبہ آپؐ نے اس سلسلہ میں طائف کی طرف رخ فرمایا تا کہ طائف والوں تک اپنی بات پہنچائی جاسکے۔ نبی مکرم ﷺ نے اپنے ہمراہ زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حارث کو سات لے کر پیدل سفر کرتے ہوئے طائف کی طرف چل پڑے جو کہ مکہ سے ساٹھ میل کی دوری پر واقع ہے۔ ازراہ سفر آپ ﷺ نے طائف سے قبل دو ۲ قبیلوں سے ملاقات فرمائی اور انہیں بھی دعوت اسلام پیش کی گئی لیکن ان قبیلوں نے بھی آپؐ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ الغرض آپﷺ نے اپناسفر جاری رکھا یہاں تک کے آپؐ طائف میں داخل ہوئے۔ آپؐ وہاں پہنچ کر سب سے پہلے ان سرداروں سے ملاقات فرمائی جو اس علاقے میں اچھا اثر رکھتے تھے جو آج کی اصطلاح میں (VIP)کہا جاتا ہے،غرض کہ آپؐ نے ان کے سامنے وہی بات رکھی کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاو اور میری رسالت کا اقرار کرو تا کہ خسران آخرت سے بچ سکو۔ لیکن ان سرداروں نے بھی آپؐ کی دعوت کے جواب میں بڑا حقارت آمیز رویہ اختیار کیا یعنی اپنے باطل ومشرکانہ عقیدہ کی حمایت میں بولنے لگے اور آپؐ کی بات نہ مانی پھر آپؐ ان منکرین حق سے یوں گویا ہوئے کہ تم لوگ اپنے ان ناپاک اور نا معقول خیالات اپنے پاس ہی رکھو یعنی اپنے ان خیالات سے لوگوں کو گمراہ مت کرو، یہ بات فرما کر آپؐ نے عام لوگوں کی طرف اپنی دعوت کا رخ پھیر دیا اور اس کام میں آپؐ مصروف ہوگئے لیکن اس طرح نبی کریم ﷺ کا عوام الناس کو دعوت دین پیش کرنا طائف کے ان سرداروں کو ناگوار گذرا اور ان ظالموں نے آپؐ کے پیچھے سماج کے آوارہ اور بدماش لڑکوں کو لگادیا اور آپؐ جہاں بھی جاتے یہ اوباش و نابکار لڑکے آپؐ کو گالیاں بکتے ہوئے آپ ﷺ کا پیچھا کرتے اور ڈھیلے مارتے،آپؐ کے خادم حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حارث ہر طرح سے آپؐ کو زخمی ہونے سے بچاتے لیکن سرداران طائف کی طرف سے لگادیئے گئے ان غنڈہ عناصر کا انبوہ مسلسل پتھروں کی بارش کرتا ہوا آپؐ کا پیچھا کرتے ہوئے آگے بڑھتا یہاں تک کے نبی ﷺ اور آپؐ کے خادم حضرت زیدؓ (خادم رسول) بھی زخمی ہوگئے اور نبی کریم آقا ئے دو جہا ں صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت ہوچکی تھی کہ جسم اطہر سے نکلا ہوا خون آپؐ کی جوتیوں میں اس طرح جم چکا کہ آپؐ کے پیر مبارک ان جوتیوں سے چمٹ گئے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ظالموں نے اپنے ظلم اور نفرت کے جزبہ سے پر ہوکر لنچنگ کی انتہا کردی۔
حضور ﷺ رحمت عالم
کے پاس ایسے موقع پر ایک فرشتہ آتا ہے اور آپؐ سے درخواست کرتا ہے کہ اگر آپؐ اجازت دیں تو میں پہاڑ اٹھاکر ان اہل طائف پر ڈال دوں لیکن آپؐ کو جو کہ رحمت عالم بناکر مبعوث فرمایا گیا تھا اسی لئے آپؐ نے فرشتہ کی درخواست کو قبول نہیں فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ یہ قوم مجھے آج نہیں سمجھ رہی ہے۔ آئندہ ان کی نسلوں میں میری دعوت قبول کرنے والے پیدا ہوں گے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج طائف میں ہر طرف مسلمان پائے جاتے ہیں۔ اور اسی طرح دشمنان اسلام کی طرف سے آپ ﷺ پر مصائب و الام کا لامتنائی سلسلہ جاری رہا ہے۔ اس دین رحمت کی خاطر آپ پتھر کھائے اور اسی دین حنیف کے غلغلہ کیلئے آپؐ نے اپنے وطن عزیز شہر مکہ کو چھوڑا اور ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے اور اسی دین فطرت کی خاطر کفاران قریش کی طرف سے جنگ مسلط کردی گئی تھی،آپؐ اور آپ کے اصحابؓ کو مدینے میں بھی چین سے رہنے نہ دیا گیا لیکن داعی اعظم،رحمت عالم محمد ﷺ نے خدا کے دین کوخدا کے بندوں تک پہنچانے اور اس کے احکام اس کی زمین پر نافذ کرنے،کلمہ حق کو بلند کرنے اور کلمات کفر کو پست کرنے اور ختم کرنے کیلئے اور دین کی اقامت کی خاطر پوری شدت کے ساتھ اور حکیمانہ انداز سے جمے رہے اور اپنے اصحابؓ کو بھی اسی کی تلقین فرماتے رہے اتنی مشکلات اور مصائب جھیلنے کے باوجود آپ ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کی استقامت میں ذرا برابر فرق نہیں آیا۔
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ نبی ﷺ کی ۲۳ سالہ انتھک جدوجہد کے نتیجہ میں اللہ نے سرزمین عرب سے شرک وظلم کا خاتمہ کردیا اور توحید کا بول بالا ہوگیا اور رحمت کی ٹھنڈی ہوایئں دودر دور تک محسوس کی جانے لگیں۔ اسطرح نبی کریم ﷺ کی عظیم قیادت میں اسلامی تحریک کا قافلہ روز بروز آگے بڑھتا گیا اور اس راستہ میں اہل ایمان ہر طریقے سے آزماے جاتے رہے اور اپنی قربانیاں پیش کرتے رہے یعنی اللہ کی طرف سے جو بھی آزمائش ہوتی رہی اس میں ثابت قدم رہے پھر اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں فتح عطا فرمائی یعنی ایک دن ایسا بھی آچکا کہ جو لوگ محض اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کی پاداش میں مکہ مکرمہ سے نکالے گئے تھے وہی لوگ اپنے عظیم قائد سرکار دو جہاں ﷺ کے ساتھ فاتحانہ حیثیت سے مکہ شہر میں داخل ہوئے مرکز توحید کعبۃ اللہ کے اندر جتنے بت تھے یہ سب کے سب نکالدیئے گئے ایک وہ وقت بھی آگیا کہ دنیا کا ایک بڑا حصہ اسلامی پرچم تلے جمع ہوگیا۔
حالات حاضرہ میں سیرت کے اسباق سے ہم درس عبرت حاصل کریں؛
آج شیطان ملعون پرانے مشرکانہ عقائد و اعمال کو نیا لبادہ پہنا کر اولاد آدم کے سامنے پیش کررہا ہے،صیہونی طاقتیں اسلام کے خلاف کچھ اس طرح کی نامسعود حکمت عملیاں اپنائے ہوئے ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتیں۔
زر پرستی علانیہ ہورہی ہے،مقابلہ حسن کے حسین نام پر قوموں کی بیٹیاں برہنہ کردی جارہی ہیں، جہیز کی لعنت کی بنا پر روز انہ سینکڑوں خواتین کو تیل ڈال کر آگ لگائی جاری ہے اور دیگر طریقوں سے ان معصوموں کی جان لی جارہی ہے،دختر کشی کا عمل بھی ہورہا ہے،خواتین و لڑکیوں کی عزت و آبرو لوٹی جارہی ہے،زنا بالجبر کے واقعات عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے،فحاشی و زنابالرضا اور عریانیت انسانی سماج میں پائی جارہی ہے،بناو سنگھار کے بیجا اظہار نے صنف نازک کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے مخلوط تعلیمی ادارہ جات نے نوجوانوں کو اخلاقی پستی کی طرف ڈھکیل رہے ہیں،صرف بڑی عمر ہی کے نہیں بلکہ نوجوان طبقہ بھی شراب نوشی کا عادی ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں،اونچی ذات نیچی ذات کے احمقانہ مفروضے قائم ہوگئے ہیں۔ اسلام سے قبل کا وہی سودی نظام پوری شدت کے ساتھ نافذ ہوچکا،جس کی بدولت سرمایہ دار طبقہ غریبوں کا خون چوس رہا ہے،انسانوں کے بنیادی حقوق سلب کرلئے جارہے ہیں اور جس طرح ایام جاہلیت میں بڑے بڑے طاقتور قبیلوں کی اجارہ داری قائم ہوچکی تھی ٹھیک اسی طرح ایک دوسرے انداز سے طاقتور ممالک اور گروہ اپنی اجارہ داری اور دادا گری قائم کرچکے۔
اسلام کے نام سے اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کیلئے ہر طرح کی کوششیں کی جارہی ہیں، یہود و نصاری اور دیگر مشرکین، مقدس قرآن حکیم کی توہین کا اعلانیہ بار بار ارتکاب کررہے ہیں ؛
آقائے نامدار،سرکار دو عالم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخیاں کرنے کیلئے نت نئے طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے قبلہ اول پر ناجائز قبضہ تو ہوچکا اب ہر روز اسکی بیحرمتی کی جاتی ہے، وہاں کے اصلی باشندوں کو جیل نما علاقہ تک محدود کردیا گیا، اور جب چاہے بم باری کرتے ہوئے ان کے گھروں کو تباہ و برباد کردیا جارہا ہے۔ خود ہمارے اپنے ملک عزیز میں تاریخی مساجد کو جنونیوں سے خطرات پیدا ہوگے اور دیگر عبادت گاہوں پر انکی بری نظریں جم رہی ہیں۔
مسلمانوں کے تشخص کو ختم کرنے کی دنیا بھر میں کوششیں کی جارہی ہیں اور ملت اسلامیہ کی حالت یہ ہوچکی کہ ان کے ہاتھ لوگوں کو کچھ دینے کیلئے بنائے گئے تھے لیکن یہی ہاتھ اب صاحب اقتدار لوگوں کے سامنے کچھ کی تحفظات کی بھیک کیلئے پھیل رہے ہیں یہ اور اس طرح کی دیگر باتیں مسلمانوں کو بحیثیت مرد مومن لمحہ فکر دے رہے ہیں۔
آج جہالت قدیمہ اپنے پیر پسار رہی ہے؛
حکومت و اقتدار کی خواہش میں ناجائز طریقے اختیار کرنا ذخائر سم و زر کی حرص، بے روک ٹوک جنسی خواہشات کی تکمیل، زن و مرد کی مخلوط تہذیب،عریانی و بے حیائی، جوا شراب نوشی، حب وطن کی جگہ ملک پرستی و قوم پرستی، جیسے انسانیت سوز اعمال موجب فخر و ناز تھے۔ انسانوں پر انسانو ں کی حکومت تھی۔ یہ حالت صرف عربوں کی ہی نہیں تھی بلکہ کم و بیش پوری دنیا کا یہی نقشہ تھا۔
ذرا غور سے دیکھئے، تو معلوم ہوگا کہ آج کی نام نہاد مہذب اور ترقی یافتہ دنیا کی بھی وہی حالت ہے۔ مذہبی دنیا ہو کہ لا مذہب دنیا، ان کے معاشرے ان کی تہذیب، ان کے اخلاق و معاملات، ان کی حکومت اور سیاست کا جائزہ لیجئے تو صاف نظر آتا ہے کہ جہالت قدیمہ اور جہالت جدیدہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ چپہ چپہ پر فتنہ و فساد کی جو آگ بھڑک رہی ہے،انسان انسان ہی سے بد ظن و خائف ہے۔ مزدوروں اور سرمایہ داروں کی جو کشمکش ہے مخلوط تہذیب کے جو حیا سوز کارنامے ہیں،انسانوں پر انسانوں کی حکومت کی جو تباہ کاریاں ہیں یہ تمام جہالت ہی کی ہنگامہ آرائی ہے۔
جہالت قدیمہ بھی الٰہی تعلیم کو بھول جانے کا قدرتی رد عمل تھا اور جہالت جدیدہ بھی الٰہی و نبوی تعلیم سے اعراض و روگرداں ہونے کا رد عمل ہے، یہ ترقی یافتہ دنیا دراصل ترقی یافتہ جہالت ہے۔ مستفاد کتاب ’’اسوہ حسنہ ‘‘ از حضرت علامہ صفوۃ الرحمن صابر رحمت اللہ علیہ ( یاد رہے مذکورہ کتاب تقریباً ساٹھ برس قبل لکھی گئی تھی)
نبی کریم ﷺ کی یوم ولادت با سعادت کے مبارک موقع پر دنیا کے سارے مسلمان خوشی مناتے ہیں، خوشی کا اظہار کیوں نہ کریں جبکہ ایک ایسی عظیم ہستی دنیا میں تشریف لائی ہے جو حقیقت میں بہار انسانیت کی نوید لائی ہے لیکن مسلمان صرف سال میں ایک مرتہ چند گھنٹوں کیلئے خوشی کا اظہار کرلیں اور باقی تمام سال آپؐ کی بعثت کے مقصد کو فراموش کردیں،اگر ایسا ہورہا ہے تو فوری اس طرز عمل میں تبدیلی لانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ سال میں صرف ایک بار آپﷺ کو یاد کرلینا اور باقی ایام میں آپ ﷺ کے اصل مشن کو پس پشت ڈالدینا اہل ایمان کی شان کے خلاف بات ہوگی۔
مختصر یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے مشن کو جاری رکھنا اب ہم مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے کیونکہ جہاں پر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو رحمۃ للعالمین کا اعلیٰ اعزاز عطا فرمایا ( جو کہ پہلے کسی کو عطا کیا گیا تھا نہ قیامت تک کسی کو عطا ہوگا) وہیں پر آپؐ کی امت کو بہترین امت کے لقب سے سرفراز فرمایا ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد باری تعالیٰ یوں ہوا ’’تم بہترین امت ہو تمہیں لوگوں کی بھلائی کیلئے نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے لوگوں کو روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ پر بھاری ذمہ داری ڈالی ہے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپؐ کے مشن اقامت دین یا دین قائم رکھنے پر محنتیں کرتے رہیں تا کہ دنیا سے ظلم و بربریت کا خاتمہ ہو،انسانوں کو ان کے حقوق ملیں،اولاد آدم ایک خدا کی بندگی و غلامی اختیار کریں،زمین پر جھوٹی خدائی کا خاتمہ ہو اور حقیقی معبود کی ہر طرف بڑائی چلے اور سارے عالم میں حقیقی مقتدر اعلی کا قانون جاری و نافذ ہوسکے۔ اس راہ میں اہل ایمان کو تن، من،دھن کی بازی لگانا پڑے گا اور حقیقت یہ ہے کہ ’’مومنوں کی جان و مال اللہ تعالیٰ نے جنت کے عوض خرید لیا ہے۔ اس سلسلہ میں شاعر اسلام نے بہت عمدہ بات کہی:
’’بہ مصطفی برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست، اگر باونہ رسیدی تمام بولہبیت۔
مختصر یہ کہ نبی ﷺ کی اتباع و اطاعت میں سارے انسانوں کی دنیا وآخرت میں حسن زندگی ہے اور بہار ہے اس کے بغیر انسانوں کی ہر میدان میں ذلت اور موت ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ سب سے پہلے ہم خود قرآن و سنت اور روش صحابہؓ پر کامل طور پر عامل ہونے کی بھرپور کوشش کریں اور دیگر بندگان خدا تک اس کا صحیح پیغام پہنچائیں۔

Comments are closed.