نئی عمارت میں زہریلی عبارت !

 

عارف شجر
حیدرآباد (تلنگانہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کسی نے نہیں سوچا ہو گا کہ ہندوستان کی آزادی سے لے کر امرت کال کے آنے آنے تک ملک کے ایوانِ بالا جیسے عظیم مقام کے اندر میں بیٹھے ممبران پارلیامنٹ کاذہن اس قدر زہریلا، غیر مہذب ناشائستہ حرکت اور زبان بے لگام ہوجائے گا کہ جمہوریت کے مندر میں گالی گلوج اور ایک خصوصی طبقہ یعنی مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا جائے گا۔ ویسے تو مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کوئی نئی بات نہیں ہے بی جے پی اور انکے ہمنوا پارٹی کے وزراء ممبران پارلیامنٹ اور ممبران اسمبلی کی صبح اٹھتے ہی نئی نئی ایجاد کردہ گالی گلوج اور ناشائستہ زبان کا استعمال کرکے اپنے دن کی شروعات کرتے ہیں حتہ کہ پی ایم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی مختلف مقامات پر اپنے سیاسی تقاریر کے دوران مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا ہے اور یہ سب پارلیامنٹ کے باہر ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے لیکن افسوس اور حیرت کا مقام یہ ہے کہ اب جمہوریت کا مندر کہے جانے والا ایوانِ بالا میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔21ستمبر کو نئے پارلیامنٹ کے اندر جو ہوا اسے انتہائی شرمناک اور ملک کے وقار اور جمہوریت کو نیست و نابود کرنے والا لمحہ اور سیاہ ڈے کہا جا سکتا ہے۔جنوبی دہلی کے ایم پی رمیش بدھوری چندریان کی کامیابی پر لوک سبھا میں بول رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے جمہوریت کے مندر میں قابل اعتراض زبان کا استعمال شروع کر دیا۔ انہوں نے بی ایس پی رکن اسمبلی دانش علی کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کیا۔ یعنی 11 منٹ میں 11 گالیاں دی گئی بدھوری نے یہ بھی نہیں سوچا کہ میں جس جگہ قابل اعتراض الفاظ کا استعمال کر رہا ہوں وہ کوئی گلی چوراہا نہیں ہے اور نہ ہی غنڈوں کی بستی ہے یہ جمہوریت کا مندر ہے یہاں مہذب الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں لیکن انہوں نے اسکا ذرا بھی خیال نہیں رکھا بلکہ انہوں نے کسی کی پرواہ کئے بغیر رکن پارلیامنٹ دانش علی کو گالی گلوج سے نوازتا رہا۔ انہیں اس بات کا علم تھا کہ اگر میں یہاں بھی اپنے ناشائستہ زبان کا استعمال کروں گا تو مجھ پر کوئی کاروائی نہیں ہو سکتی کیوں کہ میں اسپیکر اور پی ایم مودی کا قریبی اور چہتا اور دلارا ایم پی ہوں ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آرٹیکل لکھے جانے تک بدھوری پر نہ تو اسپیکر کی جانب سے اور نہ ہی پارٹی کی طرف سے اس فرقہ پرست ایم پی پر کوئی ٹھوس کاروائی کی گئی ہے اور نہ ہی اس کے لئے بدھوری نے معافی مانگی ہے۔ اب آپ اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بدھوری کتنا پاور فل ایم پی ہے۔ جب اپوزیشن کی طرف سے ہنگامہ ہوا تو وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایم پی کے تبصروں سے اپوزیشن کو تکلیف پہنچی ہے تو میں افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔ تاہم بی جے پی نے انہیں وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اسپیکر اوم برلا نے اس فرقہ پرست ایم بدھوری کو محض یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اس طرح کا نازیبہ الفاظ کا استعمال مستقبل میںنہ کریں لیکن دوسری طرف عام آدمی پارٹی کے سنجے سنگھ اور راگھو چڈھا کے علاوہ کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری کے ساتھ اسپیکر نے کس طرح سے فوری کاروائی کرتے ہوئے انہیں پارلیامنٹ سے سسپنڈ کر دیا تھا انہوں نے تو پارلیمامنٹ کے وقار اور جمہوری نظام کو قائم رکھتے ہوئے منی پور میں ہو رہے ظلم بربریت کے خلاف ایوان میں آواز بلند کی تھی بس یہی تو انکا گناہ تھا اور پھر انہیں بغیر نوٹس دیئے برخاست کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی گئی لیکن وہیں دوسری جانب بی جے پی ایم بدھوری نے جس طرح سے نئے پارلیامنٹ کے وقار کو مجروح کیا اور جمہوری نظام کی دھجیاں اڑائی یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے بی جے پی رکن پارلیامنٹ کی اس حرکت کو لے کر ایک عام آدمی بھی یہی کہے گا کہ اسے اسپیکر کو فوراً بدھوری سے ایم پی کا عہدہ چھین لینا چاہئے انہیں ایوان سے باہر کا راستہ دکھا دینا چاہئے لیکن حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ اسپیکر اوم برلانے ایسا کیوں نہیں کیا محض بچے کی طرح تنبیہ دے کر چھوڑ دیا گیا یعنی کہ پارلیامنٹ میں یہ اب رواج ہو چلا کہ کوئی بھی رکن پارلیامنٹ کسی کو بھی ایوان میں پہلی بار خوب بر ابھلا کہے گالی گلوج سے نوازے اور پھر اسپیکر صاحب انہیں آئندہ اسطرح کی حرکت نہ کرنے کی متنبہ کر چھوڑ دیں کیا یہی انصاف ہے ؟۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس وقت رمیش بیدھوری یہ سب کہہ رہاتھا اس وقت سابق مرکزی وزیر اور موجودہ بی جے پی ایم پی ڈاکٹر ہرش وردھن اور سابق مرکزی وزیر روی شنکر پرساد پیچھے بیٹھے ہنستے ہوئے نظر آئے۔ اس سے ایک بات تو ظاہر ہو گئی کہ جب بیدھوری دانش علی کو گالی دے رہا تھا اس میں ان دونوں قائدین کی بھی منظوری تھی تبھی تو بدھوری کو روکا نہیں گیا اور اسے گالی دینے کی چھوٹ دے دی۔ تاہم بعد میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بیدھوری کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا اگر رکن کے تبصرے سے اپوزیشن کو تکلیف پہنچی ہے تو میں معذرت کا اظہار کرتا ہوں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بدھوری نے نہ صرف دانش علی کو گالی دی بلکہ پورے مسلم سماج کو گالی دی ہے ان لوگوں کو گالی دی جو لوگ جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں۔
زہر افشانی حملے کو لے کرکنور دانش علی نے بھی سوشل میڈیا سائٹ ‘X’ پر ایک پوسٹ کرکے بی جے پی ایم پی رمیش بدھوری کے تضحیک آمیز تبصرے پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کیا آر ایس ایس کے شاکھوں اور نریندر مودی کی تجربہ گاہ میں یہی سکھایا جاتا ہے؟ جب آپ کا کیڈر پوری پارلیمنٹ میں دہشت گرد، انتہا پسند، ملا… جیسے الفاظ کے ساتھ ایک منتخب رکن پالیامنٹ کی توہین کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا، تو یہ ایک عام مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوگا؟یہ سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے۔” وہیںشیو سینا (ادھو ٹھاکرے دھڑے) کے راجیہ سبھا رکن سنجے راوت نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کو لے کر وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بنایا ہے۔سنجے راوت نے کہا، "یہ ایک بہت بڑا میگا شو ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہوٹل کتنے ستاروں کا ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سیون اسٹار، فائیو اسٹار ہے۔ جب میں اندر جاتا ہوں تو مجھے نہیں لگتا کہ میں پارلیامنٹ کے تاریخی عمارت میں ہوں ۔ "جب میں پرانی پارلیمنٹ میں جاتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ تاریخ میرے ساتھ چل رہی ہے تاریخ میرے ساتھ کھڑی ہے۔”پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں نہ تو تاریخ ہے اور نہ ہی راوایات۔۔ پہلے ہی دن بی جے پی ایم پی رمیش بدھوری کے تضحیک آمیز تبصرے ہوئے، پہلے ہی دن پارلیمنٹ کا وقار تباہ ہوا اور وزیراعظم، وزیر پارلیمانی امور اور وزیر داخلہ خاموش ہیں۔ کیا آپ نے اسے غنڈوں کے حملے کے طور پر دیکھا ہے ؟ راہداری نہیں، کوئی سنٹرل ہال نہیں، دستور ساز اسمبلی کے لیے کوئی جگہ نہیں، وہاں کیا ہے، یہ تو بس ایک بادشاہ کے ذہن میں آیا، بادشاہ کو ایسا لگا تو اس نے پارلیمنٹ بنائی۔ "کانگریس نے بھی لکھا پارلیمنٹ میں، بی جے پی ایم پی رمیش بدھوری نے دانش علی کی توہین کی جو انتہائی غیر اخلاقی اور غیر پارلیمانی گالی گلوج کی تھی۔ اور بی جے پی کے دو سابق وزیر فحش انداز میں ہنستے رہے تھے۔ رمیش بیدھوری کی یہ شرمناک اور گھٹیا حرکت ایوان کے وقار کو تباہ کرے گی۔ یہ ایک بدنما داغ ہے پورے ملک کے ساتھ کانگریس جمہوریت کے مندر میں نفرت کی ایسی ذہنیت کے سخت خلاف ہے۔آر جے ڈی کے سپریمو لالو پرساد یادو نے کہا کہ وزیر اعظم نے ملک کی بھرپور پارلیمانی روایات کے خلاف ایک ایسی مسخ شدہ سماجی و سیاسی ثقافت کو جنم دیا ہے جس میں اس کے ایک رکن پارلیمنٹ نے بابائے قوم گاندھی جی کا قتل کرنے والے دہشت گرد کی تعریف کی ہے۔وزیر اعظم کے کہنے پر، ایک بی جے پی رکن پارلیمنٹ کے اندر ایک اپوزیشن رکن اسمبلی کے خلاف جو ناشائستہ، غیر پارلیمانی اور حقیر زبان استعمال کر رہا ہے، وہ انتہائی قابل اعتراض، قابل مذمت اور جمہوریت اور سماج کے لیے تشویشناک ہے۔
بہر حال ! 2024 کا عام انتخابات قریب ہے بی جے پی ہمیشہ سے یہی کرتی آئی ہے کہ الیکشن کے قریب آتے آتے ہندو مسلم کا ایشو اٹھا کر ووٹ پولورائزیشن کیا جائے اور وہ اپنے اس ہتھکنڈے میں کامیاب رہی ہے چاہے وہ ریاستی الیکشن ہو یا پھر عام انتخابات۔ بی جے پی نے 2024 کا انتخابات جیتنے کے لئے ابھی سے ہی ہندو مسلم کا شوسہ چھوڑنا شروع کر دیا ہے۔جو نئے پارلیامنٹ کے اندر ساری دنیا نے دیکھی کہ کس طرح سے ہندو مسلم کیا گیا۔چرچہ یہ ہے کہ کیا پی ایم مودی نے نئے پارلیامنٹ کی تعمیر اس لئے ہی کی تھی کہ اس میں بی جے پی قائدین کو مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی چھوٹ ہو ۔ کیا یہ نیا پارلیامنٹ پرانے پارلیامنٹ سے اس لئے بہتر ہے کہ اس میں صرف گالی گلوج اور ہندو مسلمان کرکے ووٹوں کا پولورائزیشن کیا جائے ۔ حیرت اور تعجب تو یہ ہے کہ نئے پارلیامنٹ میں بی جے پی کی اس حرکت کے لئے پی ایم مودی کا کوئی تبصرہ بیان یا ایوان کے وقار کو مجروح کرنے والے رکن پارلیامنٹ کی پارٹی کی جانب سے سخت سزا دینے کی اب تک کوئی بات نہیں کہی گئی جو افسوس کی بات ہے۔

Comments are closed.