خواتین ریزرویشن : کیا کھویا ، کیا پایا ، کیا ہوگا؟

ڈاکٹر سلیم خان
9 ؍ مارچ 2010 میں خواتین ریزرویشن کا قانون راجیہ سبھا کے اندر پیش کیا گیاتھا۔ خواتین کی فلاح وبہبود کے لیے وضع کیے گئے اس قانون کے تحت ان کی خاطر33 فیصد ریزرویشن کا اہتمام تھا۔ یہ قانون ایوانِ بالا میں پاس ہو گیا تھا لیکن لوک سبھا میں منظور نہیں ہوسکا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مرکز میں یو پی اے کی منموہن سرکار ایس پی اور آر جے ڈی کی بیساکھی پر کھڑی تھی۔ وہ دونوں اس معاملے میں اس قدر حساس تھے کہ انہوں منموہن نے سرکار سے حمایت واپس لینے کی دھمکی دےڈالی ۔ ملائم سنگھ یادو کو اندیشہ تھا کہ اگر خواتین کو بغیر کسی حدود و قیود کے ریزرویشن دے دیا جائے تو پسماندہ طبقہ کی خواتین دیگر سماج کی پڑھی لکھی شہری عورتوں سے کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی اس لیے وہ اس دوڑ میں پچھڑ جائیں گی اور ان کا حق مارا جائے گا ۔ اپنی حکومت بچانے کے لیے منموہن سنگھ نے اس بل کو لوک سبھا میں پیش ہی نہیں کیا ۔ اس وقت سے اب تک خواتین ریزرویشن بل زیر التوا تھا ۔ یہ ضابطہ قومی و صوبائی سطح پر تو نافذ نہیں ہوا مگر بلدیاتی اور پنچایت انتخابات میں اس پر عمل ہونے لگا۔ اس تجربے نےملائم سنگھ جیسے لوگوں کے شکوک و شبہات کا خاتمہ کردیا ۔ اس لیے اب کی بار ایس پی و آر جے ڈی سمیت ساری علاقائی جماعتوں نے خواتین کے ریزرویشن کی حمایت کردی مگر اس کے ساتھ ایس سی-ایس ٹی اور پسماندہ طبقے کی خواتین کے لیے ایک تہائی ریزرویشن کا مطالبہ بھی کردیا ۔
ماضی میں کانگریس او بی سی خواتین کے لیے ریزرویشن کی حمایت سے گریز کرتی تھی مگر اس بار اس نے اپنا سُر بدل دیا ۔ راہل گاندھی کھل کر یہ اعلان کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ اس کے نفاذ کو مردم شماری اور نئی حد بندی کا بہانہ بناکر ٹالا نہ جائے ۔ کانگریس کی سیاست میں یہ نیا موڑ ہے جب راہل گاندھی کھل کر او بی سی مردم شماری کو انتخابی مدعا بنارہے ہیں ۔ 90؍سال قبل دیگر پسماندہ طبقات کی مردم شماری ہوےئ تھی اور اس وقت ان کی تعداد باون فیصد تھی۔ اس کے بعد تمام حکومتیں اس کو ٹالتی رہی ہیں۔ بی جے پی نے مودی کو وزیر اعظم کا امیدوار بناکر پسماندہ طبقات کو رجھانے کی کوشش کی کیونکہ وہ خود پسماندہ طبقہ سے آتے ہیں ۔ اترپردیش میں کلیان سنگھ، مدھیہ پردیش میں اوما بھارتی اور اور مہاراشٹر میں گوپی ناتھ منڈے کی مدد سے بی جے پی نے اپنی شبیہ بدلنے کی کوشش کی اور اس طبقہ میں سیندھ لگائی مگر بہار میں ہونے والی ذات پات کی مردم شماری مخالفت کرکے اس نے اپنا برہمنی چہرہ واضح کردیا۔ اب پسماندہ خواتین کے لیے ریزرویشن کے مطالبے کو نظر انداز کرکے اس نے اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی ہے۔
مودی سرکار اگر تھوڑاسا دماغ استعمال کرکے پسماندہ خواتین کے لیے ریزرویشن کے اندر مزید تحفظ فراہم کردیتی تو حزب اختلاف کے لیے بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوجاتا لیکن اس نے یہ نادر موقع گنوا دیا۔ اس نے سوچا خواتین کو ریزرویشن دے کر وہ پچاس فیصد عورتوں کو خوش کردے گی مگر عملاً باون فیصد او بی سی مردو خواتین اس کے خلاف ہوگئے۔ اس کے علاوہ ایس ْ ایس ٹی کو بھی بی جے پی نے ناراض کردیا۔ اس طرح ایک زمانے تک پسماندہ طبقات کی ہمدرد سمجھی جانے والی بی جے پی بالآخر بے نقاب ہوگئی۔ خواتین کے ریزرویشن کے قانون نے حزب اختلاف کو سرکار کے خلاف متحد کردیا۔ اور اب وی زعفرانی کمزوری کو خوب اچھال رہا ہے۔ بی جے پی نے اس بار جب اچانک یہ بل پیش کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کو خود اپنے ارکان پارلیمنٹ سے ہی خطرا لاحق تھا کیونکہ ہر بار وہی لوگ ہنگامہ کھڑا کرکے معاملہ بگاڑ دیتے ہیں ۔
کابینہ میں اس بل کی منظوری کے بعد بی جے پی صدر جے پی نڈا کے گھر پر 30 ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ دو گھنٹے کی میٹنگ ہوئی۔ اس میں سارے ہنگامہ باز ارکان کو بلا کر تاکید کی گئی کہ یہ بل کی منظوری کو یقینی بنایا جا ئے اور کوئی دھینگا مشتی نہ کرے۔ ذرائع کے مطابق اس احتیاطی نشست میں گوتم گمبھیر، میناکشی لیکھی، مہیش شرما، کرن رجیجو وغیرہ نے شرکت کی۔نڈا نے اخباری نمائندوں سے کہا کہ پچھلی بار جب لوک سبھا میں خواتین ریزرویشن بل لایا گیا تھا تو اس پر کافی تنازعہ ہوا تھا، اس لیے اس بار ممبران پارلیمنٹ کو بریفنگ دی گئی ہے تاکہ ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہو جس سے یہ معاملہ کھٹائی میں جاپڑے۔نڈا کا اصرار تھا کہ ارکان پارلیمنٹ کو بل پر بغیر کسی ہنگامے کے بحث کرنا چاہیے۔ سچ تو یہ ہے کہ حزب اقتدار کی مستقل ذمہ داری یہی کہ وہ ایوان کی کارروائی کو چلانے میں مدد کرے لیکن برسوں تک حزب اختلاف میں رہنے سے بی جے پی والوں کی عادت نہیں جاتی وہ خو د سب سے زیادہ شور شرابہ کرتے ہیں، اسی لیے مذکورہ احتیاطی تدبیر کی ضرورت پیش آئی۔
اب یہ بل تو پاس ہوگیا مگر بی جے پی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ اس سے قبل کانگریس نے اس مطالبہ کردیا تھا اور جیسے ہی سرکار اس پر راضی ہوئی راہل گاندھی نے پارٹی کی سیاست سے اوپر اٹھ کر غیر مشروط حمایت کا اعلان کردیا۔ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں پہلے دن جب ایوان میں کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری نے پی ایم مودی کے جواب میں پچھلی کانگریس حکومتوں کے کاموں کی گنتی شروع کی تو دوران میں ٹوک کر سونیا گاندھی نے انہیں خواتین کے مسائل پر بولنے کی تلقین کی۔ ویسے کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی پہلے ہی خواتین ریزرویشن بل کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ چکی تھیں ۔تلنگانہ کے سی ایم کے سی آر کی بیٹی کے۔ کویتا نے 13 ستمبر کو دہلی میں 13 اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ میٹنگ کی اس سے قبل کویتا نے 10 مارچ کو دہلی میں ایک روزہ بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔ جس میں آپ، اکالی دل، پی ڈی پی، ٹی ایم سی، جے ڈی یو، این سی پی، سی پی آئی، آر ایل ڈی، این سی اور سماج وادی پارٹی سمیت کئی جماعتوں نے حصہ لیاتھا۔
مودی سرکار کے ذریعہ اس قانون میں او بی سی کا کوٹہ متعین نہیں کرنے سے بی جے پی کا پہلا نقصان تو یہ ہوا کہ موجودہ بل کے تئیں کئی خواتین سیاستدانوں نے بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے خاتون ریزرویشن بل کی حمایت تو کی مگر حکومت کی نیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ انہیں اندیشہ ہے کہ نئے حلقہ ہائے جات کا تعین اگر مردم شماری کے بعد ہوتا ہے تو یہ معاملہ بہت دیر تک کے لیے ٹل جائے گایعنی 2024 میں نافذ نہیں کیا جاسکے گا۔ اس طرح پندرہ سال میں سے پانچ سال یونہی نکل جائیں گے ۔ یوگیندر یادو کے مطابق تو 2039 تک اس کے نافذالعمل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ بھی بی جے پی جملوں میں شمار ہوگا۔ اس پر مہوا مترا نے مسلمان خواتین کے لیے ریزرویشن کی بات کہی تو سمرتی ایرانی کو یاد آگیا کہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا لیکن اگر ریزرویشن صرف ذات پات کی بنیاد پر دیا جاسکتا ہے تو ہر طبقہ کے غریب طبقات کو دیا جانے والا دس فیصد بھی غلط تھا۔ انہوں نے اس کی مخالفت کیوں نہیں کی؟ یہ دراصل بی جے پی کی مسلم دشمنی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔
حزب اختلاف تو دور اس ریزرویشن سے بی جے پی کی رہنما اوما بھارتی بھی مطمئن نہیں ہیں کیونکہ اس میں دیگر پسماندہ ذاتوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ وہ خود لودھ ہیں اس لیے ان کے سماج کو اس ریزرویشن کا فائدہ نہیں ملے گا۔ ویسے سمرتی ایرانی کے برخلاف اوما بھارتی پسماندہ مسلم خواتین کے لیے ریزرویشن کی حامی ہیں ۔ اوما بھارتی تو آگے بڑھ کر بھوپال کے اندر پسماندہ طبقات لوگوں کا اجتماع بلانے کی تیاری کررہی ہیں۔ یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ خواتین کا بل منظور کروا کر بھی بی جے پی ان کے رہنماوں کو خوش نہیں کرسکی ۔مودی سرکار کا فی الحال کوئی تیر نشانے پر نہیں بیٹھ رہا ہے۔ وہ اس کی مدد سے اگلا انتخاب جیتنا تو چاہتی ہے مگر صحیح بات تو یہ ہے کہ سیاسی نقطۂ نظر سے خواتین کو خوش کرنے کے چکر میں اس نے او بی سی مردو خواتین دونوں کو ناراض کردیا ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ مودی اس میدان میں بغیر تیاری کے کود گئی۔ جلد بازی میں اٹھائے جانے والے ایسے اقدامات سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے ۔ بی جے پی کے ساتھ یہی ہوا۔ یہ خصوصی سیشن اس کو مہنگا پڑگیا ۔ مثل مشہور ہے چوبے جی چلے تھے چھبے بننے مگر دوبے بن کر لوٹ آئے ۔ بی جے پی اب اس معاملے کو بھیانک خواب کی مانند بھلا دینا چاہتی ہے۔ اس لیے جھنجھلاہٹ کو مٹانے کی خاطر سریش بھدوری جیسے بدزبان ارکان پارلیمان کنور دانش علی کو گالیاں دے کر خود اپنے ہی منہ پر کالک پوت رہے ہیں۔
Comments are closed.