مرکزعلم ودانش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کی اہم خبریں

’ہندوستانی آثار قدیمہ کے حالیہ رجحانات‘ پر دو روزہ بین الاقوامی سیمینار کل سے
علی گڑھ، 24 ستمبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبہ تاریخ کی جانب سے 25 تا 26 ستمبر ’’ہندوستانی آثار قدیمہ کے حالیہ رجحانات‘‘ موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی سیمینار منعقد کیا جارہا ہے۔
سیمینار کی کنوینر اور سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبہ تاریخ کی کوآرڈنیٹر و چیئرپرسن پروفیسر گلفشاں خان نے کہا کہ انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ، نئی دہلی کے مالی تعاون سے منعقد ہونے والے اس سیمینار کی اہمیت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ اس کی جڑیں ادارے کے شاندار تاریخی ورثے میں پیوست ہیں، کیونکہ ادارے کے بانی سر سید احمد خاں نے دہلی کے آثار قدیمہ اور تاریخی یادگاروں کو 1846 میں اپنی مشہور اردو تصنیف آثار الصنادید میں دستاویزی شکل دی تھی۔ اس سے ثقافتی ورثے کے تحفظ کی ضرورت کے بارے میں بیداری پیدا ہوئی اور اسکالرز کے لیے اس نے ایک علمی وسیلہ کے طور پر کام کیا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اے ایم یو کے شعبہ تاریخ نے آثار قدیمہ کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ شعبہ کی طرف سے اترانجی کھیڑا، لال قلعہ، جکھیڑا اور فتح پور سیکری کی کھدائی نے ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں سمجھ کو مزید گہرا کیا ہے۔
شعبہ تاریخ کے آرکیالوجی سیکشن میں اس وقت 9,000 سے زیادہ قدیم نوادرات کا ایک متاثر کن ذخیرہ موجود ہے، جس کی فہرست سازی کی کوششیں جاری ہیں۔ عرفان حبیب اور فیض حبیب کا تیار کردہ اٹلس آف اینشینٹ انڈین ہسٹری ایک تاریخی ایڈیشن ہے۔ ظہور علی خاں کی تحقیق ’اسٹڈیز اِن آکیالوجی: سراوستی ٹو ریلوے ایج‘ اور اقتدار عالم خاں کی حالیہ تحقیق’ریسرچیز اِن میڈیول آرکیالوجی ‘سے بھی چیزیں لی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ شعبہ کا آرکیالوجی سیکشن پروفیسر نورالحسن کی کوششوں کا نتیجہ تھا، جن کی سرپرستی میں اترانجی کھیڑا جیسی کئی اہم کھدائیاں ہوئیں، جس نے بعد کے ویدک دور میں لوہے کا استعمال ثابت کیا۔ بدقسمتی سے یہ سیکشن 2014 میں بند ہو گیا تھا۔ تاہم اس وقت کے صدر شعبہ پروفیسر سید علی ندیم رضاوی کی کاوشوں اور 2018 میں اس کے انچارج پروفیسر ایم کے پندھیر کی کوششوں سے اسے پھر زندہ کیا گیا۔
یونیورسٹی کے میوزیم میں نمائش کے لیے موجود زیادہ تر آثار قدیمہ کی اشیاء شعبہ کے مؤرخین کی جانب سے کی گئی کھدائیوں سے حاصل ہوئی ہیں۔ 2018 میں اس سیکشن کے اندر قرون وسطی کے آثار قدیمہ کا ایک الگ یونٹ قائم کیا گیا ۔
سیمینار میں نامور قومی اور بین الاقوامی اسکالرز شامل ہوں گے، جن میں پروفیسر سیما باوا (دہلی یونیورسٹی)، ڈاکٹر سوپنا لڈل، مشیر،انٹیک، جنوبی ایشیائی اور ایرانی آثار قدیمہ کے پروفیسر کیمرون اے پیٹری (یونیورسٹی آف کیمبرج) شامل ہیں۔ پروفیسر کیمرون سندھ تہذیب کے دوران دریائے سندھ طاس میں آباد کاری کے آثار قدیمہ پر روشنی ڈالیں گے، جب کہ ڈاکٹر ایڈم ایس گرین (یونیورسٹی آف یارک، یو کے) شمال مغربی ہندوستان کی تاریخی اور آثاری اہمیت کا جائزہ لیں گے۔
دیگر مقررین میں پروفیسر جے این پال (یونیورسٹی آف الہ آباد)، ڈاکٹر ڈی پی شرما (سابق ڈائریکٹر، کلا بھون، بی ایچ یو)، ڈاکٹر مادھوری شرما (آرٹ، ہسٹری و میوزیالوجی، بی ایچ یو)، ڈاکٹر بنانی بھٹاچاریہ (محکمہ آثار قدیمہ و عجائب گھر، ہریانہ)، ڈاکٹر سوتنتر کمار سنگھ (بی ایچ یو)، توسابنتا پادھان (نالندہ یونیورسٹی) اور ڈاکٹر ونے کمار (بی ایچ یو) وغیرہ شامل ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
ایسوسی ایشن آف اورل و میکسیلوفیشیئل سرجنس آف انڈیا کی سالانہ کانفرنس
علی گڑھ، 24 ستمبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے ایسوسی ایشن آف اورل اینڈ میکسیلو فیشیئل سرجنس آف انڈیا، اترپردیش شاخ کی آٹھویں سالانہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چہرے کے نقائص کو درست کرنے کے لیے اورل اور میکسیلو فیشیئل سرجری بہت اہم ہے ۔ میکسیلو فیشیئل سرجن گردن میں کئی قسم کی خرابیوں، چوٹوں اور نقائص، چہرہ، جبڑے اور منہ کے سخت اور نرم ٹشوز کا علاج کرکے عظیم طبی خدمات انجام دیتے ہیں۔
کانفرنس کا اہتمام ایسوسی ایشن آف اورل اینڈ میکسیلو فیشیئل سرجنس آف انڈیا، یوپی شاخ نے شعبہ اورل و میکسیلو فیشیئل سرجری، ڈاکٹر ضیاء الدین احمد ڈینٹل کالج، اے ایم یو کے اشتراک سے کیا ۔
انھوں نے مزید کہاکہ یہ کانفرنس نئی مہارتوں اور سرجری کے طریقے سیکھنے کے مواقع فراہم کرے گی اور سرجنوں کو اس شعبے میں جدید ترین ٹکنالوجی اور اختراعات سے آراستہ کرنے میں مدد کرے گی ۔
مہمان خصوصی اور ایسوسی ایشن کے قومی صدر ڈاکٹر وکاس دھوپر نے ایسوسی ایشن کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی اور مستقبل کے منصوبوں کا ذکر کیا۔ انھوں نے زیڈ اے ڈینٹل کالج میں کانفرنس کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیا۔
مہمان اعزازی اور ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر ایس گریش راؤنے منتظمین کی کاوشوں کو سراہا ۔ انھوں نے نئی تحقیق پر روشنی ڈالتے ہوئے نوجوان ڈاکٹروں کو تلقین کی کہ اختراعات پر توجہ دیں اور اپنی مہارت بڑھانے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہیں۔
ڈین، فیکلٹی آف میڈیسن، پروفیسر وینا مہیشوری نے کہا کہ اورل اور میکسیلو فیشئل سرجن ایسے مریضوں کا علاج کرتے ہیں جن پر نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی اثر بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اورل و میکسیلو فیشیئل سرجنوںکے ذریعہ مریض کو بیماری سے نجات دلانا ان کی زندگیوں پر دیرپا طور سے اثر انداز ہوتا ہے۔
پروفیسر حارث ایم خان، پرنسپل، جے این میڈیکل کالج نے کہا کہ اورل و میکسیلو فیشئل سرجری ایک متحرک اور کثیر جہتی اسپیشیلٹی ہے جس میں چہرے کی تعمیر نو سے لے کر دانتوں کی امپلانٹولوجی، عارضی جوائنٹ سرجری سے لے کر آرتھوگرافک سرجری تک بہت کچھ شامل ہے۔ یہ کانفرنس شرکاء کے لیے ایک انمول پلیٹ فارم ہے۔
پروفیسر آر کے تیواری، پرنسپل، ڈاکٹر زیڈ اے ڈینٹل کالج نے کہا کہ اورل اینڈ میکسیلو فیشئل سرجری کا شعبہ ریاستی سطح کی کانفرنسوں اور سیمیناروں کے انعقاد کے ذریعے علمی سرگرمیوں میں مسلسل شامل رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ورکشاپ ہندوستان میں دستیاب تکنیکوں اور علاج کی سہولیات میں علمی بحث کے نئے جہات طے کرے گی، جس سے شرکاء خاطر خواہ فیضیاب ہوں گے۔
قبل ازیں مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے آرگنائزنگ چیئرمین پروفیسر جی ایس ہاشمی نے کہا کہ یہ ملک بھر کے مندوبین اور خاص طور سے یوپی اور این سی آر خطے کے لیے ایک بہت مفید کانفرنس ہے۔اس میں اورل اور پوسٹر پریزنٹیشن کے ساتھ ساتھ نامور میکسیلو فیشیئل سرجنوں کے خطبات ہوں گے۔
آرگنائزنگ سکریٹری ڈاکٹر سجاد عبدالرحمٰن نے کہا کہ شعبہ میں یہ کانفرنس دوسری بار منعقد ہورہی ہے۔ٹرینی سرجنوں کو اس کانفرنس کے مختلف سیشن میں اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کا موقع ملے گا۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر شارق عقیل نے کی۔
٭٭٭٭٭٭
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے این آر ایس سی کلب میں سالانہ مجلس کا انعقاد
علی گڑھ، 24 ستمبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے این آر ایس سی کلب میں حضرت امام حسین کی عظیم قربانی کی یاد میں ’سالانہ ہال مجلس‘ منعقد ہوئی۔
مجلس کا آغاز محترم حمزہ کاظمی نے تلاوت قرآن سے کیا، اس کے بعد جناب شاہد حسین نے سوزخوانی کے فرائض انجام دیے ۔
حکومت تامل ناڈو کے چیف قاضی آغا غلام محمد مہدی صاحب نے مجلس کو خطاب کیا ۔ انھوں نے ’انسانیت کے لیے امام حسین کا پیغام‘ کے عنوان پر اظہار خیال کیا۔
مجلس کوخطاب کرتے ہوئے آغا مہدی صاحب نے تعلیم کے ساتھ تربیت کی اہمیت پر زور دیا ۔انھوں نے کہا کہ اگر والدین تعلیم یافتہ ہونگے تو اولاد کی تربیت میں میعاری کردار ادا کرینگے ۔ انہوں نے معاشرے میں تہذیب و آداب کے گھٹتے ہوئے رجحان پر خاص طور پر سماجی اجتماعات کے حوالے سے گفتگو کی۔ انہوں نے پیغمبر اسلام کی تعلیمات پر روشنی ڈالی اور حضرت امام حسین کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میدان کربلا میں یزید نے ظلم کی انتہا کر دی یہاں تک کہ چھ ماہ کے علی اصغر تک کو شہید کر دیا۔
طلباء برادری کو پیغام دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تعلیم کا مقصد صرف ذریعہ معاش نہ ہو بلکہ ایسی تعلیم حاصل کریں جس سے ہمارا معاشرہ ،ملک و قوم حقیقی معنوں میں ترقی کرے۔
خطاب کے بعد طلباء نے امام حسین علیہ السلام کی یاد میں نوحہ و سینہ زنی کی۔ آخر میں حاضرین میں تبرک تقسیم کیا گیا۔
مجلس میں یونیورسٹی کے طلباء کے علاوہ اساتذہ، عملہ کے اراکین اور دیگر افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

Comments are closed.