Baseerat Online News Portal

پیغمبرسب کے لئے(صلی اللہ علیہ وسلم)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

غفران ساجدقاسمی
ڈائریکٹربصیرت جرنلزم اینڈلینگویج اکیڈمی ممبئی
چیف ایڈیٹربصیرت آن لائن
خالق کائنات نے جب دنیا کی تخلیق کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے جس انسان کی اپنے ہاتھوں تخلیق کی وہ مخلوق اس روئے زمین کا سب سے پہلا انسان بھی تھا اور سب سے پہلا نبی بھی، اس انسان کو ہم اور آپ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے نام سے یاد کرتے ہیں، اور پھر اسی کے ساتھ تخلیق انسانی کا سلسلہ چل پڑا، حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی رفیقہ حیات حضرت حوا علیہا السلام سے انسانی تخلیق کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ ہنوز جاری ساری ہے اور تا قیامت جاری و ساری رہے گا، ٹخلیق انسان کا سلسلہ جوں جوں دراز ہوتا گیا آبادیاں بڑھتی گئیں، آبادیوں کے بڑھنے سے بستیاں بڑھنے لگیں، بستیوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ شہریں آباد ہونے لگے اور پھر اس طرح مختلف زبانیں، مختلف تہذیبیں، مختلف ثقافتیں اور مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کی آبادیاں بڑھتی چلی گئیں، ان آبادیوں کے بڑھنے کے وجہ سے ضرورت محسوس ہوئی کہ ان کی اصلاح کے لئے ان کی زبان، ان کے علاقے اور ان کی قوم میں نبی اور رسول بھی بھیجے جائیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر علاقے، ہر زبان اور ہر قوم کی رعایت کرتے ہوئے نبی اور رسول کے مبعوث کرنے کا سلسلہ بھی جاری کردیا، اور ایسا بھی ہوا کہ ایک ہی قوم اور ایک ہی خاندان میں متعدد انبیا و رسول بھیجے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھ لیں کہ ان کی اولاد اور ان کے خاندان میں نبوت کا ایک طویل سلسلہ ہے، بنی اسرائیل بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہی اولاد کی ایک شاخ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ انبیا بنی اسرائیل میں ہی آئے، لیکن ان تمام انبیاء کرام کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایک محدود علاقے یا محدود قوم اور محدود وقت کے لیے آئے، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا تو انہیں کسی خاص قوم یا خاص علاقے اور رنگ ونسل اور زبان کی تحدید کے ساتھ مبعوث نہیں کیا بلکہ انہیں رحمت للعالمین بناکر بھیجا، پیغمبر انسانیت بناکر بھیجا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں خاتم الانبیاء والرسل کا اعلی وارفع منصب دے کر بھیجا اور یہ اعلان کردیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری پیغمبر اور رسول ہیں، ان کے بعد اب دنیا میں کوئی نبی نہیں آئے گا، قیامت تک کے لیے نبوت کا دروازہ بند کر دیا گیا۔
ساتھ ہی یہ اعلان بھی کردیا گیا کہ اب دین مکمل ہوچکا ہے، اب کسی نئے اور پرانے دین کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اب دین صرف اور صرف وہی دین قابل قبول ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے، اس سے پہلے جتنے بھی دین و شریعت تھے سب کو منسوخ کیا جاتا ہے اور اب دنیا کے ہر انسان کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ صرف اور صرف دین محمد پر عمل پیرا ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر چلے، جو کوئی بھی اس شریعت کی روگردانی کرے گا گویا وہ راہ راست سے ہٹا ہوا ہے اور وہ اللہ اور اس کے رسول کا باغی اور نافرمان ہے. اس اعلان کے ساتھ ہی دین محمد پر مہرلگ گئی اور یوں دین صرف دین محمد ہی قابل قبول رہا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کی تعداد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے اور پہلے نمبر پر مسیحی دین، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ دین محمد میں کوئی کمی ہے’’ نعوذبااللہ من ذالک‘‘، بس یہ اللہ کی مصلحت اور وہ اپنی مصلحت کا خوب جاننے والا ہے۔
مذہب اسلام اور اس کے پیروکاروں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسے داعی قوم بناکر بھیجا گیا ہے، یعنی یہ اس قوم کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی رہے، جس حالت میں رہے اپنے دین کی تبلیغ کرتا رہے، اپنے اسلام کی خوبیوں سے انسانیت کو واقف کراتا رہے، لیکن موجودہ حالات میں جب ہم اپنی اس صفت داعی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے اس فرض منصبی سے مکمل طور پر غافل ہیں اور ہم نے اپنا وہ اہم فریضہ ادا ہی نہیں کیا جس کے لئے ہمیں ہمارے خالق نے ہماری تخلیق کی اور جو ذمہ داری ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سونپی، اتنا ہی نہیں بلکہ ہم نے کبھی بھی پیغمبر انسانیت کو دنیائے انسانیت کے سامنے پیغمبر انسانیت کی حیثیت سے متعارف نہیں کرایا بلکہ ہم نے انہیں پیغمبر اسلام تک ہی محدود کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس ذات گرامی کواللہ تعالیٰ نے عالم انسانیت کاپیغمبراورمحسن انسانیت بناکربھیجاہم نے اپنی کم عقلی اورکم فہمی سے انہیں صرف پیغمبراسلام بناکررکھ دیا،ہم نے عالم انسانیت کے سامنے جس طرح سے پیغمبرآخرالزماں محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کاتعارف کراناچاہئے تھا،نہیں کراسکے،اورآہستہ آہستہ انسانیت کابڑاطبقہ ہم سے دورہوتاچلاگیا،اس موقع کافائدہ اٹھاکردشمنان اسلام نے بھولی بھالی انسانیت کواسلام،پیغمبراسلام،قرآن مجیداورشریعت اسلامیہ کے خلاف ورغلانے لگی،ان کے سامنے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی غلط تصویرپیش کیا،سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کوغلط طریقے سے توڑمروڑکرپیش کیاجس سے وہ اسلام اورپیغمبراسلام سے برگشتہ ہوگئے،اورپوری دنیامیں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف نفرت کاماحول بنتاچلاگیااورآج نوبت بایں جارسیدکہ دنیامیں مسلمان ہوناگویاگالی بن گیا،جوچاہے جہاں چاہے اورجب چاہے مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکادے،اسلام کے خلاف توہین آمیزریمارکس کردے،پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پرتوہین کرنے لگے۔اورحقیقت یہی ہے کہ ان سب کے ذمہ دارخودہم مسلمان ہیں کوئی اورنہیں۔
جب ہم اپنے ملک انڈیاکاجائزہ لیتے ہیں توہمیں اچھی طرح سمجھ میں آتاہے کہ آج ہمارے ملک کےبرادران وطن ہم سے کس قدر دور ہیں، دعوت کے کام کوچھوڑدینے کے نتیجے میں وہ ہم سے اتنے دورجاچکے ہیں کہ آج جوچاہتاہے ان کے ذہن میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف نفرت کی بیج بو دیتاہے اورپورے ملک کونفرت کی بھٹی میں جھونک دیتاہے۔آج ہم اپنے ملک میں سینکڑوں سال سے رہتے ہوئے بھی آج ہماراحال یہ ہے کہ ہمیں ہرسطح پر اچھوت بنادیاگیاہے،آج ملک کے چندخودساختہ مالک ہمیں اپنے ہی گھرسے بے گھرکرنے کی کوششوں میں جٹے ہوئے ہیں۔جب ہم ان نتائج پر غور کرتے ہیں تواس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ جس کام کے لئے ہمیں اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکلف بنایاتھا،جس فریضہ کوانجام دینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی،ہم نے اس میں غفلت برتااوراپنے فرائض کواداکرنے میں کوتاہی کی ،اگرہم نے برادران اسلام کے سامنے پیغمبراسلام کو پیغمبر انسانیت بناکرپیش کیاہوتا،نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے روشناس کرایاہوتا،توآج یہ نوبت نہ آتی،پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کااسوہ اتناکامل اور مکمل ہے کہ انسانیت کے جس طبقے کے سامنے آپ پیش کریں گے یقین کامل ہے کہ وہ طبقہ متاثرہوئے بغیرنہیں رہے گا۔اسلامی تاریخ اورسیرت نبوی کاایک ایک گوشہ اس حقیقت سے پرہے کہ ہزاروں افرادصرف اخلاق نبوی سے متاثرہوکرحلقہ بگوش اسلام ہوگئے،جونبی کوقتل کرنے آئے تھے،وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے ایسے متاثرہوئے کہ خوداسلام کے اسیرہوکررہ گئے۔توآج وہ معجزہ کیوں نہیں ہوسکتاہے،آج بھی اگرہم مخلص ہوکر،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت،ان کااسوہ اوران کی تعلیمات سے دنیائے انسانیت کوروشناس کرائیں توآج بھی وہ معجزہ ہوسکتاہے اوریقیناہوسکتاہے،شرط ہے صرف دعوت کی محنت ۔
الحمدللہ گذشتہ سال سے ممبئی کے چندباہمت افرادنے اس جانب خصوصی توجہ کی اورعالم انسانیت کوپیغمبرانسانیت سے متعارف کرانے کے لئے، پیغمبرانسانیت کی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لئے ایک مہم چلائی اوراس مہم کانام دیا’’پرافیٹ فورآل‘‘یعنی پیغمبرسب کے لئے۔اس مہم کامقصدربیع الاول کے ۱۲دنوں تک برادران وطن میں مختلف طریقوں سے پیغمبرانسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کواوران کی تعلیمات کوپہونچاناہے۔اس کے لئے مہم کے ذمہ داران نے مختلف طریقے وضع کئے ہیں اورتمام مسلمانوں بالخصوص اہل علم ودانش،اہل فکرونظر،اورملت کے ہرطبقہ کے نمائندہ افرادسے یہ اپیل کی ہے کہ آپ ان ایام میں اپنے نبی کی تعلیمات کوعام کرنے کے لئے ان طریقوں کواپنائیںاورصرف ان ہی طریقوں کونہیں بلکہ اس کے علاوہ ہروہ طریقہ جس سے برادران وطن متاثرہوسکیں ،ان تمام طریقوں کواپنائیں اوردنیائے انسانیت کویہ بتادیں کہ پیغمبرصرف مسلمانوں کے نہیں ہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپوری انسانیت کے لئے پیغمبراوررحمت بناکربھیجاہے۔اس کوکسی شاعرنے کیاہی خوب اندازمیں بیان کیاہے:
عشق ہو جائے کسی سے، کوئی چارہ تو نہیں صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
پرافیٹ فورآل مہم کے ذمہ داران نے عام مسلمانوں اوراہل علم ودانش اورسماجی وملی کام کرنے والوں کے لئے کچھ رہنماہدایات بھی جاری کی ہیں، جس کی روشنی میں آپ پرافیٹ فورآل مہم کوکامیابی سے ہم کنارکرنے میں مہم چلانے والوں کاتعاون کرسکتے ہیں،اوراسے تعاون نہ کہ کراگریہ کہاجائے تو زیادہ بہترہوگاکہ اس طرح آپ بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے دنیائے انسانیت کوروشناس کرانے کی سعادت حاصل کریں گے۔آپ کی معلومات اورسہولت کے لئے ہم ان رہنماہدایات کوذکرکردیتے ہیں ۔وہ رہنماہدایات یہ ہیں:
پرافیٹ فارآل مہم کوکامیاب بنانے میں آپ کیاتعاون کرسکتے ہیں؟
ہم میں سے ہر ایک کو اس عظیم مشن میں شامل ہونا چاہیے۔ آئیے نبی کریم محمد ﷺ اور ان کے امن، محبت اور بھائی چارے کے پیغام کو عام کریں۔
۱۔اپنے گھروں، مسجدوں یا اداروں کے آس پاس صفائی کا خاص خیال رکھیں۔
✅ ۲۔سیرت رسول ﷺ کے بارے میں عوامی مقامات پر ہورڈنگ، بینرز اور پوسٹرز لگائیں جس پر حدیث نبوی ﷺ تحریر کی جائے۔
✅ ۳۔رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو عام کریں۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو پیغمبر اسلام کی اہمیت سے آگاہ کریں اور ان کے درمیان آپ کی سماجی زندگی کو پیش کیاجائے۔
✅۴۔ مسلمانوں اور خاص طور پر ہمارے دوسرے عقائد کے دوستوں کے لیے علمائے کرام کے ذریعے سیرت نبوی ﷺ پر لیکچرز منعقد کریں۔
✅ ۵۔اپنے اپنے علاقوں میں اسکول اور کالج کے طلباء کے لئے، سوسائٹی یا ادارے کے اندر خصوصی طور پر سیرت کے مقابلوں کا اہتمام کریں اور انعامات دیں۔
✅ ۶۔برادرانِ وطن دوستوں اور پڑوسیوں کو اپنے گھر، مسجد اور اداروں میں لنچ/ڈنر پر مدعو کریں۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت، ایثار اور ہمدردی کی تعلیمات سے ان کو خاص طور پر آگاہ کریں۔
✅ ۷۔غریبوں اور ضرورتمندوں کو صدقہ دے کر حضرت محمد ﷺ کی سنت پر عمل کریں۔ ضرورت مندوں میں کھانا تقسیم کریں، پینے کے پانی کے لیے اسٹال لگائیں۔
✅۸۔ ہسپتالوں، اولڈ ایج ہومز، یتیم خانوں کا دورہ کریں اور مستحق لوگوں کی مدد کریں۔
✅ ۹۔اگر ممکن ہو تو کسی غریب یا ذہین بچے کی تعلیم کو سپانسر کریں۔
✅ ۱۰۔سوشل میڈیا پر رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو عام کریں۔
✅ ۱۱۔تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مہم کے مواد کو فروغ دیں۔
✅۱۲۔سب سے پہلاکام تویہ کریں کہ ہم میں سے ہرفردنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پرمکمل طورپرعمل پیراہونے کاعہدکرے۔
یہ وہ رہنماہدایات ہیں جن کی روشنی میں آپ پیغمبرانسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کوعام کرسکتے ہیںاوراس طرح پرافیٹ فارآل مہم یعنی پیغمبرسب کے لئے مہم کوکامیاب بناسکتے ہیں۔
یہاں ایک بات کاذکرکردینابہت مناسب سمجھتاہوں کہ جس طرح پیغمبرانسانیت سب کے لئے ہیں،اسی طرح پیغمبرہردن کے لئے ہیں،یعنی سال کے ۳۶۵دنوں کے لئے ہیں،ایسانہیں ہے کہ ہم صرف ماہ ربیع الاول میں پیغمبرانسانیت کی تعلیمات پرعمل کریں،اسے عام کریں اورسال کے بقیہ دنوں میں اسے فراموش کردیں،ہرگزنہیں،اگرایساہم نے کیاتواس کامطلب ہوگاکہ ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں ہے بلکہ ہم جوکچھ بھی کررہے ہیں وہ صرف نام ونموداورریاکاری کے لئے ،اوراگرایساکیاتویقین جانیں کہ پھرکوئی فائدہ ہونے والانہیں،اورثواب کی بجائے الٹاگناہ کے ہم مستحق ہوجائیں گے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج جوکچھ مصائب کاہم سامناکررہے ہیں اس کی بڑی وجہ اپنے اعمال میں ریاکاری اوردکھاواکی وجہ سے ہی ہے،ہمیں اپنے ہرعمل کوخالص للہ فی اللہ انجام دیناہوگاتبھی جاکراس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے اورہم اپنے مقاصدمیں کامیاب ہوں گے،ورنہ چاہے لاکھوں روپے خرچ کرلیں،کڑوروں روپے پانی کی طرح بہادیں،لیکن نتیجہ صفرکاصفرہی رہے گا،توسب سے پہلے ہمیں اپنے عمل میں خالص ہوناہوگا،اپنی نیتوں کوپاک وصاف کرناہوگااورخالص اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی محبت میں اس مہم کاحصہ بنناہوگاتبھی یہ مہم بھی کامیاب ہوگی اورہم بھی اجرکے مستحق ٹھہریں گے۔
آخرمیں میں ان جیالوں کومبارکبادپیش کرناچاہتاہوں جنہوں نے یہ بابرکت مہم ’’پیغمبرسب کے لئے‘‘پرافیٹ فارآل مہم کی شروعات کی،میں سب سے پہلے ایسوسی ایشن آف مسلم پروفیشنلس کے صدرجناب عامرادریسی صاحب،اسلام جمخانہ کے چیئرمین جناب یوسف ابراہانی صاحب،مشہورسماجی کارکن سعیدخان صاحب،اردوکارواں کے صدرفریدخان صاحب،معروف سیاسی رہنمااورکانگریس کے ترجمان جناب نظام الدین راعین صاحب،صابوصدیق پالی ٹیکنک کالج کی پرنسپل محترمہ زیباملک صاحبہ،آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے اصلاح معاشرے کےممبئی حلقہ کے کنوینرجناب مولاناحافظ اقبال چوناوالاصاحب،مرکزالمعارف کے ڈائریکٹرمولانابرہان الدین قاسمی صاحب،ممبئی جامع مسجددارالافتاکے مفتی محمداشفاق قاضی صاحب،گل بوٹے کے مدیراعلیٰ جناب فاروق سیدصاحب،ماہم درگاہ کے چیئرمین جناب سہیل کھنڈوانی صاحب کومبارک بادپیش کرتاہوں کہ انہوں نے ایک ایسے وقت میں جب کہ انسانیت کوسب سے زیادہ پیغمبرانسانیت کی تعلیمات سے واقف کرانے کی ضرورت تھی ،اس پرخصوصی توجہ دی اورپیغمبرانسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کوعام کرنے کے لئے ’’پرافیٹ فارآل‘‘ کے نام سے مہم چلائی،ان شاء اللہ یہ مہم کامیاب ہوگی ،برادران وطن پیغمبرانسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے روشناس ہوں گے اورنفرت کے بادل چھٹیں گے اورایک بارپھرسے وہ ماحول بنے گاجس میں تمام مذاہب کے لوگ آپس میں شیروشکربن کررہیں گے،آپسی بھائی چارہ قائم ہوگا اوراسلام کاسربلندہوگا۔ان شاء اللہ

Comments are closed.