جمعہ نامہ : قتل ِ مادر کا فتنہ

ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے :”اور (یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ وعدہ لیا کہ اللہ کے سوا (کسی کی) عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ۰۰۰‘‘۔ قرآن حکیم میں جہاں ایمان کے ساتھ عمل اور نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکر بار بار آتا ہے وہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ والدین سے حسنِ سلوک کی تلقین بھی تکرار کے ساتھ ملتی ہے۔ اولاد کے ساتھ والدین کا تعلق نہایت شدید ہوتا ہے بالخصوص ماں کا جو ہمیشہ اپنے بچوں کی محبت میں ہر قیمتی اور نفیس چیز قربان کر دیتی ہے اس کی بہ نسبت والدین کے ساتھ یہ رشتہ نسبتاً کمزور ہوتا ہے(الاماشاء اللہ) لہذا قرآن کریم میں والدین کے ساتھ حسن سلوک پر زیادہ زور دیا گیا ہے تاکہ طرفین کی محبت میں توازن آجائے ۔قرآن حکیم میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین تفصیل کے ساتھ اس طرح کی گئی ہے کہ :’’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو ‘‘۔
مندرجہ بالا آیت کے اندر والدین کی کبر سنی میں ناروا سلوک سےبچنے کی تنبیہ کردینے کے بعد ان کے لیے دعائے خیر کرتے رہنے کا حکم اس طرح دیا گیا ہے کہ:’’ اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا‘‘۔ اس کے بعد یہ بشارت بھی سنائی گئی ہے کہ :’’تمہارا رب ان (باتوں) سے خوب آگاہ ہے جو تمہارے دلوں میں ہیں، اگر تم نیک سیرت ہو جاؤ تو بیشک وہ (اﷲ اپنی طرف) رجوع کرنے والوں کو بہت بخشنے والا ہے‘‘۔ رسول اکرم ﷺ سے کسی نے سوال کیا :’’ سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ تو آپؐ نےارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں اس نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا :’’تمہاری ماں ۔ سوال کیا ، پھر کون؟ حضورِ اقدسﷺ نے پھر ماں کہا ۔ پوچھا کہ پھر کون؟ توارشاد فرمایا: تمہارا باپ‘‘۔ بے انتہا قربانیوں کے سبب ماں کے حق کا زیادہ ہونا فطری ہے ۔اپنی اولاد کے لیے ایک ماں ہنسی خوشی حمل، وضع حمل پھر دودھ پلانے جیسی زحمت اٹھاتی ہے اور اولاد کی پرورش میں خود کو کھپا دیتی ہے۔
حضرت لقمان کی نصیحت اس پہلو کاخصوصی اعتراف کیا گیا ہے:’’اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اِسی لیے ہم نے اُس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے‘‘۔ اس آیت میں خالق کائنات نے اپنے لیے اظہارِ تشکرکے ہمراہ والدین کے تئیں شکر بجا لانے کا حکم دیا ہے۔ قرآن حکیم میں حرمت کے حوالے فرمانِ ربانی ہے :”اے محمدؐ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ا ن کو بھی دیں گے “۔ زمانۂ جاہلیت میں لوگوں کو قتلِ اولاد سے روکا گیا مگر عصرِ حاضر کے نام نہاد مہذب معاشرے میں بات قتلِ والدین تک پہنچ گئی ہے۔
موجودہ دور کا انسان اس قدر خود غرض و خود پسند ہوگیا ہے کہ وقتاً فوقتاً اولاد کے ذریعہ والدہ کے قتل کی دل دہلا دینے والی خبریں بھی شائع ہوجاتی ہیں ۔ آج ہی کے اخبار میں ایسی دو وارداتیں موجود ہیں۔ بہار کے بتیاّ میں ایک مردود بیٹے نے زمین جائیداد کی خاطر پہلے اپنے بھائیوں پر گولی چلائی اور پھر اپنی ماں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ اسی کے ساتھ گیا میں ایک عورت کی لاش ملی جس کو اس کی داروغہ بیٹی نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ہلاک کردیا ۔ پچھلے تین ماہ میں کئی ایسے واقعات منظر عام پر آئے ۔ پریاگ راج میں ایک بیٹا معمولی کہا سنی پر غصے میں آکر ماں کے ساتھ بہن کو مار ڈالتا ہے اور گھر میں آگ لگا دیتا ہے۔ کوئی بیٹا نشہ کرنے سے روکنے پر ماں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے تو کوئی پیسہ نہیں دینے پر ایسا جرم عظیم کرگزرتا ہے۔ کسی کو اپنی ماں کے کردار پر شک ہوتا ہے تو وہ اسے جان سے مار دیتا ہے تو کوئی اپنی والدہ کے علاج سےتنگ آکر قتلِ مادر کا مرتکب ہوجاتاہے۔
بھارت ماتا یا گئو ماتا کے نام بے قصور لوگوں کی جان لینے والے ہندوستانی سماج میں عدم برداشت کا معاملہ اپنی مادرِ حقیقی تک کے قتل تک پہنچ گیا ہے۔ اس طرح کے سانحات کسی مخصوص صوبے تک محدود نہیں ہیں بلکہ ملک کے طول و ارض بہار، یوپی ،اڑیشہ، مہاراشٹر ، گجرات اور آندھرا تک میں رونما ہوتے ہیں۔ ان کا ارتکاب کرنے والوں میں پڑھے لکھے پروفیسر بھی شامل ہیں اور بلا تفریق مذہب و ملت دونامراد مسلمان بیٹوں کا بھی شمار ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ نے تو ارشاد فرمایا ’’اس شخص کی ناک خاک آلود ہوجس نے اپنے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوا‘‘۔ یعنی والدین کی خدمت کرکے انسان اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنا سکتا ہے لیکن افسوس کہ ان کے ساتھ بدسلوکی بلکہ قتل تک جاکر لوگ باگ اپنے لیے جہنم کا سامان کررہے ہیں۔ ایک شخص نے نبیٔ کریم ﷺ سے پوچھا کہ بیٹے پر والدین کا کیا حق ہے، تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا:’’یہ دونوں تیری جنت بھی ہیں اور دوزخ بھی،یعنی اگر تم ان کے حق میں رحم وکرم اور عجزو انکساری کے پیکر بن گئے تو وہ تمہارے لئے جنت ہیں ورنہ تم دوزخ کے مستحق ہوگے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انسانی معاشرے کو اس فتنۂ عظیم سے نجات بخشے۔
Comments are closed.