ہندوستان اتنا ہی مسلمانوں کا ملک ہے جتناکہ برادران وطن کا
روایات اور تاریخی شواہدکی روشنی میں

ڈاکٹرمحمد شمیم اختر قاسمی
اسسٹنٹ پروفیسر وسابق صدر شعبہ اسلامک تھیالوجی،
عالیہ یونیورسٹی، کولکاتا۔700014 (مغربی بنگال)
نامعلوم زمانہ تاریخ سے ہی برصغیر مختلف اقوام وملل کی آماج گاہ رہا ہے۔تغیر زمانہ کے ساتھ دنیا کے مختلف خطوں اور متعددعلاقے کی قومیں یہاں آکر سکونت پذیر ہوئیں۔ چاہے وہ بہ تقاضائے بشریت یہاں آئے ہوں،یا پھر انہیں یہاں کی طبعی اور فطری نیرنگیوں نے ادھر کھینچ لائی ہو۔ لیکن محققین و مورخین اورماہرین آثار قدیمہ آج تک حتمی اور نتیجہ خیز بات کہنے سے قاصر ہیں کہ قدیم ہندوستان کے اصل باشندےکون ہیں، کہاں سے ، کیوں اور کب آئے ؟ دراوڑ،کول، منگول اور آریا وغیرہ دنیا کے دیگر علاقوں سے نقل مکانی کرکے یہاں آئے ضرورتھے، مگر اس بات پر بیش تر عالموں کا اتفاق ہے کہ یہاں کی اصل اور پہلی قوم دراوڑ ہے۔۱؎اس کے بعد ہی دوسری قوموں نے یہاں بسیرالیا ۔آریا کے یہاں آنے اور پھرایک عرصہ کے بعد، اس کا سرزمین ہند میں مستحکم اثرو رسوخ قائم کرلینے کی وجہ سے دراوڑ، اقوام کی جھرمٹ میں کس کے ساتھ ضم ہوگئی، اس کا تعین بھی امر دشوار ہے ۔جب کہ جنوبی ہند کا ایک طبقہ خود کو دڑاوری قوم کی نسل سےبتاتا ہے، جس کو مورخین کے ایک طبقہ نے ناکار دیا ہے۔ بہر حال آریا یہاں کب آئے اور اس کی تاریخ کیا ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مشہور مورخ راما شنکر ترپاٹھی رقم طراز ہیں:
”آریوں کے مورث کون تھے، ہمارے تاریخی حدود میں وہ کہاں سے ابھر کر داخل ہوئے؟ اس قسم کے سوالات نے گم راہ کن تاریخی اختلافات پیدا کردیے ہیں۔بعض ہندوستانی عالموں نے پرانوں کی شہادت کی بنا پر یہ رائے قائم کی ہے کہ آریہ ہندوستان کے اصلی اور سب سے قدیم باشندے ہیں، لیکن ان کے دلائل کو عالموں کی عام تائید حاصل نہیں ہوسکی۔دیگر علما نے اتنے ہی زور کے ساتھ دعویٰ کیا ہے کہ آریوں کا اصل وطن’دائرہ قطب شمالی‘ تھا (بی.جی.تلک)؟یا’باختر‘تھا (ردھور)یا ’پامیر‘ تھا۔ بہر حال عام خیال یہ ہے کہ ہندی آریہ نیز اوستاکے دور کے ایرانی، قدیم ہندی جرمنوں (ہندی یورپیوں)کی ایک شاخ ہیں یا’ورد‘ [ گلائلس ’ورد‘ کی اصطلاح ان آدمیوں کے لئے استعمال کی ہے جو قدیم زبانوں میں ملتے ہیں] ہیں۔مشرق کی جانب انتقال آبادی سے قبل ان کا مسکن ایک طویل عرصے تک مشترک رہا،جسے میکس مولر نے ’وسط ایشیا‘ کو، بنفے نے’بحر اسود‘ کے شمال میں روس اور سائبیریا کے شمالی میدانوں کو، گیگر نے مغربی اور وسطی جرمنی کو، یاپی گاٹائس نے اسٹریا، ہنگری اور بوہمیا کو قراردیا ہے۔ انتقال آبادی کا باعث یاتو یہ ہوا ہوکہ وہ گروہوں میں بٹ گئے، یا ان میں آپس میں پھوٹ پڑگئی اور اختلافات شروع ہوگئے، یا ان کے مسکن کے محدود علاقہ میں، ان کی آبادی حد سے زیادہ بڑھ گئی۔“ ۲؎
وادی سندھ کے طول وعرض میں واقع ہڑپہ اورموہنجوڈارو کی قدیم تاریخی یاد گاروں کے باقیات اور کھنڈرات کی کھدائی ومشاہدہ کی روشنی میں آریا قوم کے آنے اور اس کے زمانہ قیام کا حتمی تعین مشکل ہے، اس حوالے سے جو بات بھی سامنے آئی ہے ، وہ سب خیالی بنیادوں پر مبنی ہے۔ اپنیشدہوکہ پران یا پھر مہابھارت کی رزمیہ داستانیں اور اشلوک کی ترتیب وتالیف کا زمانہ بہت بعد کا ہے۔اگرچہ ان کتابوں سے قبل مقدس وید کی تدوین عمل میں آچکی تھی ، مگر اس کا مدون کون ہے ، کوئی اتا پتا نہیں ہے ۔ البتہ قیاس آرائیوں کے ذریعہ یہ طے ضرور کیا جاتا ہے کہ اسے مختلف خان دان کے شاعر پنڈتوں نے جمع و تصنیف کیاتھا، ان میں اکثر مرد اور دویا تین عورتیں ہیں۔ٗ ۳؎ اس میں آریا قوم کے بعض اعمال وافعال کا اشارہ ضرورملتا ہے، مگراس کی رو سے بھی آریا کے احوال کا ٹھیک ٹھیک پتا لگانا امر مستبعد ہے۔ تاہم مورخین اور محققین نے انہی شواہد اور نشانات کی روشنی میں قدیم ہندوستان کی تاریخ مرتب کرنے میں مدد لی ہے، جن کی رو سے ہم یہاں کی قدیم معاشرت اور تہذیب وتمدن کا علم حاصل کرتے ہیں ۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ برطانوی ہند کے مورخ و نسنٹ ارتھراسمتھ (۱۸۴۸-۱۹۲۰ء) کی کتاب ’قدیم تاریخ ہند‘ کے دیباچہ میں یہ صراحت موجود ہے کہ قدیم ہندوستان کی تاریخ کا انحصار یونانی سیاحوں کے سفرنامےہیں، ان کے بعد چینی اور پھر عرب سیاح کچھ حوالوں سے مواد فراہم کرتے ہیں۔۴؎ راما شنکر ترپاتھی تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے اصل باشندوں کا پتا لگا ناہی مشکل ہے کہ وہ کون تھے، کب یہاں آئے؟ کیوں کہ تاریخ کا فقدان ہے،جو بھی شہادت ہم کو ملتی ہے اس کا زیادہ تر دارو مداریونان اور روم کی کلاسیکی کتابوں کے علاوہ چینی ادب پر ہے، جو قدیم ہندوستان کی تاریخ مرتب کرنے میں بڑا سہارا دیتا ہے۔ پھر وہ مسلمان مورخین کا نام لے کر بتاتے ہیں کہ ان کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے رفتہ رفتہ ہندوستان کو کیوں کر فتح کیا اور کس طرح ہندوستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا۔ اس میں انہوں نے ابو الریحان البیرونی (۹۷۳ – ۱۰۱۸ء) کو سر فہرست رکھا ہے۔۵؎ لہذاجب دنیا کی متعدد اقوام کی ہندوستان میں آمد اور سکونت پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے ، تو پھر مسلمانوں کے یہاں آنے اوراس کے استقرارپر کسی کو بھی معترض نہیں ہونا چاہئے۔دیکھنا یہ ہے کہ ان اقوام نے مل کررائج تہذیب وثقافت کو کس طرح نئی جہات عطا کیں، نیر اس نے ا سے دنیا کے سامنے متعارف کرانے میں اپنا کیا رول ادا کیا۔
مذہبی تناظر میں بھی دیکھا جائے تو دستیاب تاریخی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قبل از اسلام برصغیر میں متعدد مذاہب پائے جاتے تھے ۔ ہر مذہب کا پیروکار ایک دوسرے پر اپنا مذہبی تفوق جتنانے میں لگا ہواتھا اور مذہب کا لبادہ اوڑھ کر کشت و خوں کا سخت بازار گرم کر رکھا تھا۔ فرماں روا اشوک (تقریبا ۲۶۹ ق م) کے طویل زمانہ حکومت میں یہاں کیا کچھ نہیں ہوا ، نہ جانے کتنے لوگوں کا اس نے خون بہایا،ا گرچہ بعد میں اس نے پرستاران انسانیت کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔یہی حال جینیوں کا بھی تھا۔جب ان کے درمیان مذہبی مناظرے اور منافشے کی مجلسیں آراستہ ہوتیں تو اس کے شور سے فضا گونج اٹھتی تھی۔
یہودو نصاریٰ نے بھی زمانہ قدیم کے کسی دورانیے میں ہندوستان کا رخ کیا تھا اور ایسی شہادتیں بھی کثرت سے ملتی ہیں کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے اس ملک کو اپنا مسکن بنالیا تھا۔ ’ملیبار‘ کے مصنف اور ماہر آثار قدیمہ سید شمس اللہ قادری (۱۸۸۵ -۱۹۵۳ ء) لکھتے ہیں کہ عہد عتیق کے مقدس صحیفوں سے پتا چلتا ہے کہ داؤد اور سلیمان علیہم السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل نے جنوبی ہند میں واقع ساحلی علاقہ ’مالابار‘ سے تجارتی تعلقات قائم کرلئے تھے۔ ۶؎ مزید برآں ۵۲ء میں مذہب نصاریٰ کی اشاعت کے لئے مقدس’تھوما‘ یہاں کے ایک علاقہ ’کرنگانور‘ میں آیا اور وہ اپنے مذہب کی اشاعت میں مصروف ہوگیا تھا۔اس کی دعوت پر کافی لوگوں نے مسیحی مذہب کو قبول کر لیا تھا۔ اس بنا پر یہاں کے مختلف مقامات پر آٹھ کلیساؤں کی تعمیر کی نوبت آن پری تھی۔پھر وہ یہاں سے نکل کر جنوبی ہند کے مشرقی ساحل ’معبر‘ پہنچا، تاکہ اپنے دین کو مزید وسیع کر سکے، مگر یہاں کے مقامی باشندوں نے اس کا قتل کردیا۔۷؎قادری نے یہودیوں اور عیسائیوں کے یہاں آنے اور قیام کے حوالے سے اور بھی تاریخی معلومات فراہم کئے ہیں ۔ماضی بعیدمیں انگریز نہ صرف برصغیر میں آئے تھے، بلکہ اپنی کمال دانش مندی کی وجہ سے کافی عرصے تک یہاں اپنی حکم رانی کا جھنڈا بھی لہرایا تھا، اگرچہ بعد میں اس کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ان میں سے جو لوگ یہیں رہ گئے وہ بھی یہاں کی مٹی سے رل مل گئے۔ ان سب کے علاوہ ان کے بارے میں ان کی آسمانی کتابوں میں مذکو ر بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی ان کا رشتہ تعارف کے طور پر ہی سہی،ہندوستان سے جڑا ہوا تھا۔ علامہ سید سلیمان ندوی ؒ (۱۸۸۴ -۱۹۵۳ء) لکھتے ہیں:
”مسیح سے دوہزار برس پہلے جو عرب تاجر بارہا مصر کو جاتے دکھائی دیئے ہیں، ان کا سامان یہ تھا:بلسان، صنوبر اور دوسری خو ش بو دار چیزیں۔[پیدائش، ۳۷: ۲۶] یمن کی ملکہ حضرت سلیمان ؑ کے لئے جو تحفہ ۹۵۰ ق م میں شام لائی تھی وہ بھی’خوش بوکی چیزیں، بہت سا سونا اور بیش قیمت جواہر‘[دوم ایام، ۹س:۶] جز قیال نبی (سنہ ۵۲۸ق م) کے زمانہ میں اوزال (یمن) سے فولاد، تیز پات اور مسالہ ،عرب ہی ملک شام کو لے جاتے تھے۔ جز قیال نبی کہتے ہیں کہ:’اوزال(یمن) سے تیرے بازار میں آبدار فولاد، تیزپات اور مسالحہ بیچنے آتے ہیں۔‘ [جزقیال، ۲۷: ۱۹]یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ لوبان اور قسم قسم کی خوش بو پھول خود یمن میں پیدا ہوتے تھے، مگر آبدار فولاد (تلوار)، تیز پات اور مسالوں کا ملک ہندوستان ہی تھا اور تلوار، تیز پات اور مسالوں کا ملک وہی آج بھی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ عربوں کے ہندوستان کے تجارتی تعلقات مسیح سے کم ازکم دوہزار برس پہلے سے ہیں۔۸؎
اسی طرح تاریخ کے معلوم اور روشن عہد میں ہندوستان کو عرب مسلمانوں نے اپنے وجود مسعود سے زینت بخشی اور مرور زمانہ کے ساتھ ،یہاں کی تہذیب و ثقافت کو مالا مال کیا۔ جب ہم اسلام کے ابتدائی زمانہ کی تاریخ اورتذکروں کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے ’الٰہی نظام حیات‘ پر سختی سے کاربند تھے اور اس کا نتیجہ یہ برآمد ہواکہ ہندوستان کے باشندے کم وبیش چاہے جس قوم سے تعلق رکھتے ہوں،یا جس مذہب کے ماننے والے ہوں، ان میں سے اکثریت نے مسلمانوں کا اور ان کے ساتھ لائے ہوئے ’الٰہی نظام حیات‘کا استقبال کیا۔ابتدا میں معمولی جھڑ پوں کا ہونا فطری امر تھا ، جو ہوا۔ آریائی قوم کے ساتھ بھی تو ایسا ہی ہواتھا، مگر بعد میں سب ایک دوسرے سے گھل مل گئے۔
دنیا کے آسمانی مذاہب کی فہرست میں اسلام کو غیر معمولی تفوق حاصل ہے۔ یہ عالم گیر اور آفاقی مذہب ہے، جو دنیا میں پھیلنے کے لئے آیا ہے۔ اس کا پیغام کسی بھی ملک ، کسی بھی قوم اور کسی بھی فردکواپنا گرویدہ بنا سکتاہے، جس کا مشاہدہ ہم آئے دن کرتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں نے ہندوستان میں قدم رنجہ فرمایا تو ان کے پاس’قرآن‘ کی شکل میں ایک لازوال’نظام حیات‘ تھا اور جس میں یہ صراحت موجود ہے کہ دنیا کے تمام انسان مٹی سے پیدا ہوئے ہیں اور سب آدم کی اولاد ہیں اور انہیں مختلف قبائل میں بانٹ دیا گیا ہے،تاکہ وہ ایک دوسرے کو پہچان سکیں اور اللہ تعالیٰ کو وہی شخص زیادہ محبوب ہے، جو متقی ہے ۔ (الحجرات: ۱۳)اس کی تفسیر وتفصیل’حدیث نبوی‘ کی شکل میں ان کے ہاتھوں میں موجود تھی۔
زمانہ قدیم سےہی ہندوستان کا تعلق دیارِعرب سے کتنا گہرا تھا، اس کی تفصیلات جاننے کئے لئے سید غلام علی آزاد بلگرامی ؒ (۱۷۰۴ -۱۷۸۶ء) کی کتاب ’سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان‘ کے مقدمہ کی طرف مراجعت کی جائے، یا قاضی اطہر مبارک پوریؒ (۱۹۱۶ – ۱۹۹۶ ء) کی کتاب ’عرب وہند عہد رسالت‘ کا مطالعہ کیا جائے۔ ان کتابوں میں ہندوستان کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے اور محققانہ کلام کیاگیا ہے، جس سے اس ملک کی دوسری مملکت پر برتری اور فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ دوسرے شواہد سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں اسلام اپنا تعارف عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی کراچکا تھا اور اہل ہند کے دلوں میں اس کے جاننے اور سمجھنے کی خلش پیدا ہوگئی تھی۔۹؎حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم بھی اہل ہند سے خوب اچھی طرح واقف تھے اور اس کے بارے میں کئی مواقع سے تحسین آمیز کلمات زبان مبارک سے ادا فرمائے۔ چناں چہ معجزہ ْمعراج نبویٗ کے احوال بیان کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا:
”رأیت عیسیٰ وموسیٰ وابراھیم، فاما عیسیٰ فاحمر جعد عریض الصدر، واما موسیٰ فادم جسیم سبط کا نہ من رجال الزط“۔۱۰؎
(میں نے عیسیؑ موسیٰؑ اور ابراہیمؑ کو دیکھا۔ جہاں تک عیسیٰ کا تعلق ہے وہ سرخ،گھنگھریالے بال اور چوڑے سینے والے تھے اوررہی بات موسیٰ کی ہے تو وہ گندمی رنگ کے خوش قامت تھے، گویا وہ جاٹوں میں سے تھے۔)
قوم ’زط‘ کا تعلق ارض ہند سے ہے، جسے ہندوستان میں ’جاٹ‘ کے لقب سے جانا جاتا تھا۔
ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا:
”من ھٰولاء القوم کانھم رجال الھند۔“ ۱۱؎
(یہ کون لوگ ہیں،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہندوستانی ہیں۔)
یہاں تک کہ نبیؐ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ہندوستان کے حوالے سے بہت سی بشارتوں سے بھی نوازا تھا۔ امام نسائی نے اپنی سنن میں اس سلسلے کی کئی احادیث نقل کی ہیں۔ ان میں سےدوکے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور تیسری کے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ ہیں۔۱۲؎ان سب کے علاوہ ایسی بھی شہادتیں بہ کثرت ملتی ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی عرب وہند آپس میں تجارتی لین دین کیا کرتے تھے۔ یہ لوگ اپنی اپنی کشتیوں اور جہازوں کو سمندر کی لہروں پر بل کھاتے ہوئے آتے اور ایک دوسرے سے نہ صرف ملتے جلتے، بلکہ تجارتی اشیا کی خریدو فروخت کرکے اپنے اپنے وطن لوٹ جاتے تھے اور انہی میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے، جو ان ساحلی علاقوں پر مقیم وآباد ہوگئے تھے، اس طرح دونوں ملکوں کی آبادی میں دن بہ دن اضافہ ہوتاگیا اور اسی وجہ سے ان ساحلوں پر باضابطہ بستیاں وجود میں آگئی تھیں۔ جنوبی ہند کا ساحلی علاقہ اس کی واضح مثال ہے۔ پروفیسر محمد اسلم (۱۹۳۲-۱۹۹۸ء) لکھتے ہیں:
”عرب وہندکے تجارتی اور ثقافتی تعلقات ازمنہ قدیم سے چلے آتے ہیں۔ابھی حال ہی میں ’مسقط‘ و’عمان‘ میں کھدائی کے دوران ماہرین آثار قدیمہ نے وہاں وادی سندھ کی تہذیب وثقافت کے نمونے دریافت کئے ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کی ولادت سے تین ہزار سال قبل عرب اور سندھ کے درمیان تجارت ہوا کرتی تھی۔یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ جنوبی عرب کا قدیم رسم الخط ’مسند‘ کہلاتا ہے جو ’سندھ‘ سے مشتق ہے۔ یمن میں ایسے کتبے ملے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جنوبی عرب سے بڑی تعداد میں لوگ تلاش معاش میں قلات چلے آئے تھے۔“۱۳؎
قرآن کریم میں بھی کئی مقامات پر بحری جہازوں کا ذکر موجود ہے، جس سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ اہل عرب بحری سفر کیا کرتے تھے۔ وہ ’بحر ہند‘ کے ساحلوں پر آتے اور تجارتی اشیا خریدو فروخت کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی بہت سی اشیا ئے خوردو نوش کے اسما کثرت استعمال کی وجہ سے عربی میں مستعمل ہونے لگے۔مثلا:’بیڑے‘ کو عربی میں ’بارجہ‘،’چندن‘ کو ’صندل‘، ’کپور‘ کو ’کافور‘، ’کرن پھل‘ کو ’کرنفل‘، ’پلپل‘ کو ’فلفل‘، ’نیلوپھل‘ کو ’نیلوفر‘،’جائے پھل‘ کو ’جائیفل‘، ’تری پھل‘ کو ’اطریفل‘ اور ’ناریل‘ کو ’نارجیل‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اور بھی دیگر اشیا کے نام ہیں، جن کی تفصیلات احادیث نبوی، عربی لغت اور تاریخ وسیر کی کتابوں میں موجود ہیں۔علامہ سید سلیمان ندویؒ نے متعدد حوالوں کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ تین ہندی الفاظ ایسے ہیں، جن کا تذکرہ ہماری مقدس کتاب قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”اس سلسلہ میں اچھا خاصہ علما میں اختلاف رہا ہے ،کہ قرآن پاک میں کسی غیر زبان کا لفظ ہے یا نہیں؟ لیکن فیصلہ یہی ہوا ہے کہ غیر زبان کے ایسے الفاظ موجود ہیں جو عربی کی زبان میں آکر مستعمل ہوگئے تھے اور وہ اپنی پہلی صورت بدل کر عربی زبان کے لفظ بن گئے۔ حافظ ابن حجر اور حافظ سیوطی نے قرآن پاک کے اس قسم کے لفظ جمع کئے ہیں۔ ہم ہندیوں کو بھی فخر ہے کہ ہمارے دیس کے بھی چند لفظ ایسے خوش نصیب ہیں جو اس پاک اور مقدس کتاب میں جگہ پاسکے۔پہلے علما نے جن الفاظ کا ہندی ہونا ظاہر کیا تھا وہ تو لغو اور بے بنیاد تھے، مثلا ’ابلعی‘ کی نسبت یہ کہنا کہ ہندی میں اس کے معنی ’پینے‘ کے ہیں یا ’طوبیٰ‘ کو ہندی کہنا، جیسا سعید بن جبیر سے روایت ہے[الاتقان فی علوم القرآن،نوع :۳۸]بے بنیاد ہے، مگر اس میں شک نہیں کہ جنت کی تعریف میں اس جنت نشان ملک کی تین خوش بوؤں کا ذکر ضرور ہے ،یعنی مسک(مشک)، زنجبیل(سونٹھ یا ادرک) اور کافور(کپور)۔“۱۴؎
یہ اسما قرآن کریم کی درج ذیل سورتوں میں وارد ہوئے ہیں:
”إِنَّ الْأَبْرَارَ یَشْرَبُونَ مِن کَأْسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوراً۔“(الدہر: ۵)
(نیک لوگ (جنت میں)شراب کے ایسے ساغر پئیں گے، جن میں آب’کافور‘ کی آمیزش ہوگی۔)
”وَیُسْقَوْنَ فِیْہَا کَأْساً کَانَ مِزَاجُہَا زَنجَبِیْلاً۔“ (الدہر:۱۷)
(نیک لوگوں کو وہاں (جنت میں)ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے، جس میں ’سونٹھ‘ کی آمیزش ہوگی۔)
”یُسْقَوْنَ مِن رَّحِیْقٍ مَّخْتُومٍ،خِتَامُہُ مِسْک۔“ (المطففین:۲۵-۲۶)
(نیک لوگوں کو (جنت میں) ایسی نفیس ترین سربند شراب پلائی جائے گی، جس پر’مشک‘کی مہر لگی ہوگی۔)
قرآنی آیات میں شامل اشیا کی بڑی اچھی وضاحت کرتے ہوئے قاضی اطہر مبارک پوری ؒنے لکھتے ہیں:
”نہ ان کی تعریب ہوئی ہے اور نہ تہنید، بلکہ دونوں زبانوں کے یہ الفاظ اصلی ہیں اور ان کو مستقل حیثیت حاصل ہے۔البتہ ان ناموں کی جو چیزیں ہیں وہ خاص ہندوستانی ہیں اور یہیں سے عرب میں جاتی تھیں۔ان اسما واشیاکے لئے قرآنی الفاظ بننا بڑے فخر کی بات ہے۔ پھر مزید برآں یہ کہ جنت کے نعائم ولذات میں ان کو خاص مقام حاصل ہے، یعنی جنت کی یہ نعمتیں اور لذتیں دنیاوی نعمت ولذت کے انداز میں ہندوستان کو حاصل ہیں اور اس کی خبر قرآن حکیم نے دی ہے۔“ ۱۵؎
عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل عرب ممالک میں بھی ہندوستانی بڑی تعداد میں موجود اورایک ساتھ مل جل کر رہتے تھے۔ انہیں وہاں بہ طور تعارف مختلف القاب اور ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ تاریخ عرب میں ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی ہے کہ اہل عرب نے ہندیوں سے کبھی یہ سوال کیا ہو کہ تم یہاں کیوں آئے اور تم نے یہاں کیوںسکونت اختیار کر رکھی ہے؟ قاضی اطہر مبارک پوریؒ لکھتے ہیں:
”ہندوستان اور عرب کے قدیم ترین تجارتی تعلقات کے بعد ایران کے توسط سے اس حاکمانہ تعلق نے ان میں عرب سے مزید دل چسپی پیدا کی اور یہاں کے لوگ ہندوستانی اشیا کی تجارت، عرب کے جہازوں اور کشتیوں پر ملازمت اور عرب میں آباد ہوکر وہاں کے اقامت میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینے لگے، جس کے نتیجہ میں عہد رسالت میں عرب کے اندر ہندوستانیوں کی مختلف قومیں اور جماعتیں رہنے لگیں اور ان کو عرب کے باشندے اپنی زبان میں مختلف ناموں سے یاد کرتے تھے۔چناں چہ عربوں نے اپنے ملک میں آباد ہندوستانیوں کو زط، اساورہ، سیابجہ،احامرہ، مید، بیاسرہ اور تکاکرہ وغیرہ کے ناموں سے موسوم کیا۔کسی ملک کے آدمیوں کے اتنے زیادہ نام ولقب سے یادکرنا اس کی صریح دلیل ہے کہ وہاں ان کی تعداد بہت زیادہ تھی اور وہ ہرطرف مشہور تھے۔ چوں کہ عربوں اور ہندوستانیوں میں بڑی حدتک مذہبی یک جہتی تھی اس لئے وہ بڑی آسانی سے عربوں کی زندگی میں مل جل گئے۔“۱۶؎
مسلمان یہاں ایسے ہی نہیں آئے تھے، بلکہ اسے وہ اسپرٹ، وہ بھینی بھینی خوش بواور وہ فضیلت لے کر آئی تھی،جس کے بارے میں اس نے قرآن کی آیتوں سے جانا،زبان نبوی سے سمجھا، دستیاب کتابوں میں پڑھا اور اپنے بزرگوں سے سناتھا کہ مذہب اسلام کا دیار ہند سے کیا رشتہ ہے ۔ اس رشتہ کو نبھا نے چاہے کی جو بھی وجہ بنی ہو اورجس بنا پر وہ یہاں آئے ، مگر جب آگئے تو یہیں کے ہوکر رہ گئے اور اپنے وجود مسعود سے وطن کے لئے، ملک کے باشندوں کے لئے اور یہاں کی ہر چیز کے لئے نافع بننے کی کو شش کی۔ اس کا ثبوت ملک کے چپے چپے میں پھیلے ہوئے اسلامی ثقافت اور تہذیب وتمدن سے معمور ومنور باقیات الصالحات ہیں، جو ماضی کی یاد یں تازہ کراتے ہیں۔ پھر بھی مسلمانوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ تمہارا اس ملک سے کیارشتہ ہے اور یہاں تمہارا کیاہے؟
’بحرین‘کے دوقبیلے ’بنوتمیم‘ اور ’بنو عبدالقیس‘ تاجر تھے اور ان کے تجارتی تعلقات سر اندیپ (موجودوہ سری لنکا) اور وہاں کے راجا سے بڑے اچھے تھے۔ بنو تمیم کی ایک ذیلی شاخ ’بنی یربوع‘ تھی۔ اسی خان دان کی مظلوم خاتون نے راجا’داہر‘ کے زمانے میں جو سندھ کا راجا تھا، یہاں کے ایک مقام ’دیبل‘ کے ’قزاقوں‘ کے ہاتھوں لوٹ مار اورگرفتاری کے وقت حجاج بن یوسف ثقفی گورنر عراق (۶۶۱ -۷۱۴ء) کو اپنی مدد کے لئے آواز لگائی تھی۔۱۷؎یہ اور اس طرح کی بعض دوسری وجوہات تھیں ، جن کی بناپر مسلمانوں کے لئےتسخیر سندھ کا فوری جواز پیدا ہوگیا تھا ۔ حجاج بن یوسف کے حکم سے محمد بن قاسم الثقفی (۶۹۵ -۷۱۵ ء) ارض سندھ و ہندپر حملہ آور ہوئے ۔ انہوں نے دوتین سالوں کی مختصر مدت میں نہ صرف پورے سندھ کو اسلامی قلم رو میں شامل کرلیا تھا، بلکہ سندھ کے ملحق علاقے ،جن کا تعلق ہندوستان سے تھا، وہاں تک اپنے قدم جمالئے تھے۔۱۸؎ اس نوجوان صالح نے سندھ کی زمین کو ہی فتح نہیں کیا تھا، بلکہ اپنے مقناطیسی اخلاق وکردارنے یہاں کے باشندوں کےاذہان و قلوب کو بھی مسخر کرلیا تھا۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جب محمد بن قاسم بغض وعناد کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں چلے گئے اور اس کی خبر اہل سندھ وہند کوہوئی تو اس نے نہ صرف افسوس کا اظہار کیا اورآنسو بہائے ،بلکہ مستقبل میں ان کی یادوں کا دریچہ کھلا رکھنے کے لئے ْکیرج ٗ کے لوگوں نے ان کی شبیہ بناکر نصب کرلی تھی:”فبکی اھل الھند علی محمد وصوروہ بالکیرج۔“ ۱۹؎
اس کے بعد ہی عرب مسلمانوں نے کثرت سے شمالی ہند کا رخ کیا اور وہ بتدریج ہندوستان کے طول و عرض میں چھا گئے۔ مسلمانوں نے مقامی باشندوں کے ساتھ مل جل کر اسلامی تہذیب وثقافت اور تعلیم وتعلم کو فروغ دیا ، نئے سماج ومعاشرہ کی تشکیل کی اور ایک جدید ہندوستان کی داغ بیل ڈالی۔مسلمان خان دانوں کے متعدد سلاطین نے یہاں کم و بیش ایک ہزار سال تک، بلا تفریق مذہب و ملت حکومت کی اور اپنے وجود مسعود کی برکات سے ہندوستان کو دنیا کی سلطنتوں میں وہ مقام دلایا،گویا کہ فرش سے عرش تک پہنچادیا، جس پر دوسروں کی دزدیدہ نظر یں ٹک گئی تھیں۔چناں چہ مغلیہ حکومت کی کم زوری سے فائدہ اٹھاکرانگریزوں نے یہاں اپنا اقتدارقائم کرلیا تھااور کم وبیش دو سوسالوں تک یہ ملک اس کے قبضہ میں رہا۔ اگرچہ اہل ہند کی مشترکہ انتھک کوششوں اور عظیم قربانیوں کے بعد ۱۹۴۷ ء میں برطانوی سامراج کے قبضہ واقتدار سے ہندوستان آزاد تو ہوگیا، مگرجاتے جاتے اس نے ملک کی تقسیم کا جو زہرگھول دیاتھا، اس کے تلخ نتائج سے سبھی کو دوچار ہونا پڑا اورعرصہ گزر جانے کے بعد ،آج بھی اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔ ہجرت مکانی کے واقعات نے بڑے ہی کرب ناک اوردل خراش نقوش ثبت کئے ہیں۔ نہ وہاں قرار ہے اور نہ یہاں سکون۔ بقول شاعر:
جدائیوں کی یہ راتیں تو کاٹنی ہوں گی
کہانیوں کو کو ئی کیسے مختصر کردے
ہندوستان کے اصلی باشندے کون ہیں؟ جو ماضی کے خیالی داستانوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے، کون یہاں کب آیا اور کس کو یہاں رہنا چاہئے یا نہیں ،کو موضوع بحث بنا نے یا اس کی آڑ میں خاص کریہاں کی ایک بڑی اقلیت پر نشانہ سادھنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ یہ فضول اور لغو باتیں ہیں ، جن سےجہالت و عصبیت پر مبنی فکر کی غمازی ہوتی ہے ۔مزید برآں یہ باتیں تو کسی بھی مہذب سماج اور ترقی پذیرملک کے لئے بدقسمتی کی علامات ہیں۔ ہاں! گفت گو اس بات پر ضرور ہونی چاہئے کہ جن کے آباؤ اجداد نے تاریخ کے کسی بھی دورانیے میں، یہاں سکونت اختیار کی اور اس کی خاک میں پیوست ہوگئے،وہ سب ہندوستانی ہیں اور ہر ایک کو ہندوستانی کہلانے کا اتنا ہی حق ہے، جتنا کہ ہندو، بدھ، جین،سکھ بھائیوں کو ہے اور اسی طرح مسلمانوں کو ہے اور مزید دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی ۔ہر ایک شہری کی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت اور ضمات کی ذمہ داری نہ صرف حکومت وقت ، بلکہ ہم سب کی بھی ہے۔ اسے سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔یہی ہندوستان کے آئین کی روح اور گنگا جمنی تہذیب کی پکار ہے۔ جب تک یہ تصور عام نہیں ہوگا، ہم ہندوستان کی تنظیم نو اور تعمیر جدیدکا خواب شرمند تعبیر نہیں کرسکتے۔چاہے کیوں نہ ْسب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا بسواس ٗ کامالا جپتےرہیں۔ اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ نااہل سیاست دانوں کے دجل و فریب، خود غرض مورخوں کی کذب بیانی اور مفاد پرست قومی رہنماؤں کی چاپلوسی سے ہم محفوظ رہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھریہ تصور بھی عام ہوگا کہ ہم سب ہندوستانی ہیں، یہ ملک سب کا ہے اور ہم اتحادو اتفاق اور امن و سکون کے ساتھ یہاں رہنا چاہتے ہیں، جیساکہ ہم نے ماضی کے جھروکھوں سے یہاں کی قومی یکجہتی کی شان دار روایات کا مشاہدہ کرکے اذہان وقلوب کو سرشار کیا ہے۔ مجاہد آزادی اور ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزادؒ(۱۸۸۸ – ۱۹۵۸ ء) نے ’رام گڑھ‘ کے سالانہ کانگریس سیشن ۱۹۴۰ء کاخطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا:
”ہندوستان کے لئے قدرت کا یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ اس کی سرزمین انسان کی مختلف نسلوں،مختلف تہذیبوں اور مختلف مذہبوں کے قافلوں کی منزل بنے۔ابھی تاریخ کی صبح بھی نمودار نہیں ہوئی تھی کہ ان قافلوں کی آمد شروع ہوگئی اور پھر ایک کے بعد ایک سلسلہ جاری رہا۔اس کی وسیع سرزمین سب کا استقبال کرتی رہی اور اس کی فیاض گود نے سب کے لئے جگہ نکالی۔ ان ہی قافلوں میں ایک آخری قافلہ ہم پیروان اسلام کا بھی تھا۔یہ بھی پچھلے قافلوں کے نشان راہ پر چلتا ہوا یہاں پہنچا اور ہمیشہ کے لئے بس گیا۔یہ دنیا کی دو مختلف قوموں اور تہذیبوں کے دھاروں کا ملان تھا۔یہ گنگا اور جمنا کے دھاروں کی طرح پہلے ایک دوسرے سے الگ الگ بہتے رہے، لیکن پھر جیساکہ قدرت کا اٹل قانون ہے، دونوں کو ایک سنگم میں مل جانا پڑا۔ ان دونوں کا میل تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا۔ جس دن یہ واقعہ ظہور میں آیا، اسی دن سے قدرت کے مخفی ہاتھوں نے،پرانے ہندوستان کی جگہ ایک نئے ہندوستان کے ڈھالنے کا کام شروع کردیا …..ہم اپنے ساتھ اپنا ذخیرہ لائے تھے، یہ سرزمین بھی اپنے ذخیروں سے مالا مال تھی۔ ہم نے اپنی دولت اس کے حوالے کردی اور اس نے اپنے خزانوں کے دروازے ہم پر کھول دیئے۔ ہم نے اسے اسلام کے ذخیرے کی وہ سب سے زیادہ قیمتی چیز دے دی، جس کی اسے سب سے زیادہ احتیاج تھی۔ہم نے اسے جمہوریت اور انسانی مساوات کا پیام پہنچادیا……تاریخ کی پوری گیارہ صدیاں اس واقعے پر گزرچکی ہیں۔ اب اسلام بھی اس سرزمین پر ویسا ہی دعویٰ رکھتا ہے، جیسا دعویٰ ہندو مذہب کا ہے۔ اگر ہندومذہب کئی ہزار برس سے اس سرزمین کے باشندوں کا مذہب رہا ہے، تو اسلام بھی ایک ہزار برس سے اس کے باشندوں کا مذہب چلا آتا ہے۔جس طرح آج ایک ہندو فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ وہ ہندوستانی ہے اور ہندو مذہب کا پیرو ہے، ٹھیک اسی طرح ہم بھی فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہندوستانی ہیں اور مذہب اسلام کے پیرو ہیں۔میں اس دائرے کو اس سے زیادہ وسیع کروں گا۔ میں ہندوستانی مسیحی کا بھی یہ حق تسلیم کروں گا کہ وہ آج سر اٹھاکے کہہ سکتا ہے کہ میں ہندوستانی ہوں اور باشندگان ہند کے ایک مذہب یعنی مسیحیت کا پیرو ہوں…..ہماری گیارہ صدیوں کی مشترک (ملی جلی) تاریخ نے ہماری ہندوستانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنے تعمیری سامانوں سے بھردیا ہے۔ ہماری زبانیں، ہماری شاعری، ہمارا ادب، ہماری معاشرت، ہمارا ذوق، ہمارا لباس، ہمارے رسم ورواج، ہماری روزانہ کی بے شمار حقیقتیں، کوئی گوشہ بھی ایسا نہیں ہے، جس پر اس مشترکہ زندگی کی چھاپ نہ لگی ہو۔ہماری بولیاں الگ الگ تھیں،مگر ہم ایک ہی زبان بولنے لگے۔ ہمارے رسم ورواج ایک دوسرے سے بے گانہ تھے، مگر انہوں نے مل جل کر ایک نیا سانچا پیدا کرلیا۔ ہمارا پرانا لباس تاریخ کی پرانی تصویروں میں دیکھا جاسکتا ہے ، مگر اب وہ ہمارے جسموں پر نہیں مل سکتا۔یہ تمام مشترک سرمایہ ہماری متحدہ قومیت کی ایک دولت ہے اور ہم اسے چھوڑ کر اس زمانے کی طرف لوٹنا نہیں چاہتے ، جب ہماری یہ ملی جلی زندگی شروع نہیں ہوئی تھی۔“۲۰؎
٭٭٭
مراجع:
۱؎ راما شنکر ترپاٹھی،قدیم ہندوستان کی تاریخ،ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، ۱۹۸۱ ء، ص:۳۹
۲؎ ایضا، ص: ۵۲ -۵۳
۳؎ ایضا، ص: ۵۴
۴؎. وی.اے. اسمتھ، قدیم تاریخ ہند،تخلیقات، علی پلازہ، مزنگ روڈ، لاہور، پاکستان، ۲۰۰۱ء، ص:۵
۵؎ ترپاٹھی، قدیم ہندوستان کی تاریخ، ص: ۲۷-۲۸
۶؎. حکیم سید شمس اللہ قادری، ملیبار، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ۱۹۳۰ ء،ص:۱۱
۷؎. ایضا، ص:۱۶ -۱۷
۸ ؎ علامہ سید سلیمان ندویؒ،عرب و ہند کے تعلقات، دارالمصنفین، اعظم گڑھ، ۲۰۰۱ء، جدید ایڈیشن،ص:۵۵
۹؎ زین الدین المعبری،تحفۃ المجاہدین فی احوال البر تغالین، موسسۃ الوفا، بیروت، لبنان، ۱۹۸۵ ء، ص: ۲۲۳-۲۲۴
۱۰ ؎ ابو عبداللہ محمد بن اسمعیل بخاری،الجامع الصحیح،کتاب الانبیاء،باب قول عزوجل واذکر فی الکتاب مریم اذا نتبذت من اہلہا
۱۱ ؎ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، مطبوعہ مصطفی البابی الحلبی،۱۳۵۵ھ، ص:۵۹۳،ج:۲
۱۲ ؎ عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی بن سنان النسائی،سنن النسائی،کتاب الجہاد،باب غزوۃ الہند
۱۳؎ پروفیسر محمد اسلم، محمد بن قاسم اور ان کے جانشین، ریاض برادرذ، اردو بازار، لاہور، پاکستان، ۱۹۹۶ء، ص:۱۹
۱۴ ؎ عرب و ہند کے تعلقات،ص:۵۴
۱۵ ؎ قاضی اطہر مبارک پوری ؒ، عرب وہند عہد رسالت میں، تخلیقات، علی پلازہ، مزنگ روڈ، لاہور، پاکستان، ۲۰۰۴ ء، ص:۱۵۴
۱۶ ؎ ایضا،ص:۱۲
۱۷ ؎ احمد بن یحٰی البلاذری،فتوح البلدان، (تحقیق: عبداللہ انیس الطباع)،موسسۃ المعارف، بیروت، لبنان، ۱۹۸۲ ء، ص:۶۱۱
۱۸ ؎ ایضا،ص:۶۱۲وبعد
۱۹؎ ایضا،ص:۶۱۸
۲۰؎ مولانا ابوالکلام آزاد، خطبات آزاد(مرتب: مالک رام) ساہتیہ اکادیمی، نئی دہلی،۱۹۸۷ ء، ص:۲۹۸ -۲۹۹
Email: [email protected]
Comments are closed.