مسلمانوں کی سیاست واقتدار سے غیر حاضری تشویش ناک امر

جاویدجمال الدین
گزشتہ نو ساڑھے نو سال کے دوران ملک میں ایک ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی سماجی،تعلیمی،سیاسی اور اقتدار میں ان کی حصّہ داری کے فقدان کا علم نہیں ہوا بلکہ اس کو مزید ابتر کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی بلکہ سازش رچی جاتی رہی ہے۔مذکورہ حالات پچھلے عشرے میں نہیں ہوئے اور نہ اچانک یہ سب کچھ ہوا بلکہ حقیقت ہے یہ ہے کہ یہ سب 76 برسوں سے کی جانے والی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ ہے ،ہاں 2015 سے مسلمانوں ذلیل ورسوا ، غداروملک دشمن قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے اور منفی اثرات مرتب ہوچکے ہیں،چلتی ٹرین میں پولیس اہلکار کاقتل عام،لوک سبھا کے ایوان میں ایک مسلمان ممبرپارلیمنٹ کو اس کے مذہب اور فرقہ کی بنیاد پر گالیاں بکنا اور بھر ی جماعت میں ایک کمسن۔مسلمان طلبہ کی دوسرے بچوں سے معلمہ کے ذریعہ پٹائی کروانا سنگین معملات ہیں اور ان منفی اثرات سے ہی مرتب ہوئے ہیں۔
ملک میں مسلمانوں کی کٹائی کے بعد دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی طرح طرح کے مشورے دینے لگے ہیں ،حال میں ایک مضمون کی اشاعت کے بعد بہار سے مقامی اخبار کے قاری نے ٹیلی فونیک رابطہ کیااور کہاکہ کیا اس کے لیے صرف بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) ہی ذمہ دار ہے،بی جے پی کو کیوں بُرا بھلا اور قصوروار ٹھہراتے ہیں۔خیر یہ غور کرنے اور بحثکا موضوع ہے۔آگے اعدادوشمار کی روشنی میں بحث کریں گے ،پہلے نصیحتوں کاجائزہ لیتے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے سابق سیاسی مشیر سدھیندرکلکرنی نے بھی مشورہ دے دیا ہے کہ موجودہ دور میں مسلمان آرایس ایس سے تعلقات استوار کریں اورتنظیم کے بانی اور نظریہ گروگووالکرکے آخری ایام میں مسلمانوں کے تعلق سے ان بدلے ہوئے نظریات پر سنجیدگی سے غور کیاجائے۔اس سے مثبت نتائج نکلنے کے امکان ہیں کیونکہ آج آر ایس ایس کی مضبوط پوزیشن ہے اور سیاسی میدان میں بھی وہ مکمل طورپر اثرورسوخ کی مالک ہے۔ان سب چیزوں کے درمیان سے آج کے مضمون میں مسلمانوں کی سیاست واقتدارسے غیر حاضری اور
ملک میں سیاسی طاقت کا فقدان کی وجہ سے مسلمان پسماندگی کاشکار نظر آتا ہے ۔اِن 76برسوں میں ان کا استحصال کیاگیا،جس کے لیے صرف سیاسی پارٹیاں ہی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن آف انڈیا، انتظامیہ اور انٹیلیجنس ایجنسیوں نے بھی بھرپور طورپر سرگرم رہی ہیں۔جس کی وجہ سے سنگین صورتحال اختیار کر گئی ہے۔حالانکہ سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا جمہوریت بچانے میں مسلمانوں کا اہم ترین رول رہا ہے
دراصل سابق اسپیشل آئی جی اور آئی پی ایس عبدالرحمن نے ایبسینت ان پالیٹکس اینڈ پاور،پالیٹیکل ایکسولیشن آف انڈین مسلمس( سیاست اور اقتدار سے مسلمانوں کی غیر حاضری اور سیاست سے باہر ہونا)نامی کتاب میں سرکاری اعدادوشمار پیش کرکے سنگین صورتحال سے آگاہ کیا ہے ،جس پر سنجیدگی سے غور وفکر کرناہوگا ۔
انہوں نے واضح طور پر لکھاہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ایک سازش کے تحت انہیں اقتدار اور سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کے لیے نہ صرف سیاسی پارٹیاں بلکہ انتظامیہ اور الیکشن کمیشن بھی ذمہ دارہے۔
عبدالرحمن نے مشہور دانشور جاوید عالم کے خیالات سے اتفاق کیا ہے ،انہوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ مسلمانوں نے ان سات آٹھ دہائیوں میں ملک کی جمہوریت اور سیکولر ازم کوبچایا ہےاور صرف مسلمان اورپسماندہ افراد نے اس طرف توجہ دی۔تاکہ ان کی ہر ایک میدان اورشعبے میں حفاظت ہوسکے۔اس کے برعکس امیرطبقہ بھی جمہوریت بچانا چاہتا ہے تاکہ اپنے مقصد کے لیے استعمال کیاجائے اور اسے اس کے مقصد میں ترقی ملے۔جہاں تک دنیا بھر کی اقلیتوں کامعاملہ ہے،اقوام متحدہ کے حوالے سے کہاگیاہے کہ ہر ایک ملک میں اقلیت کو سیاست اور اقتدارمیں حصہ داری ملنی چاہئیے ۔جبکہ ہندوستان میں سب کچھ منفی انداز میں پیش آیا ہے۔ان کے لیے جغرافیائی پرویزن بھی بہت اچھا نہیں ہے اور اعدادوشمارتو بہت خراب ہیں،صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ یہی حال پسماندہ طبقات کا بھی ہے۔ملک کی مختلف ریاستوں میں انہیں نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔مسلمانوں کوان کے اکثریتی علاقوں میں نہ نمائندگی ملی اور نہ ہی انہیں آبادی کے تناسب سے وزارت دی گئی ہے ۔
شمالی ہند کی ریاستوں میں اچھا تناسب ہونے کے باوجود انہیں سیاست ،اقتدار اور حکومت کام کاز سے بھی دور رکھا گیا ہے ۔مہاراشٹر کے اعدادوشمار انتہائی سنگین ہیں اور 1952 سے یہی سلسلہ جاری ہے۔
اس حقیقت کو پیش کیا گیا ہے کہ مسلمانوں نے جمہوریت بچانے کے لیے اپنی جان لگادی ،لیکن سیاسی جماعتوں نے حق ادا نہیں کیا ہے اور اس کے لیے دیگر سیاسی پارٹیوں سے زیادہ کانگریس اور این سی پی قصوروار ہیں،ان کی وجہ سے جوحال ہوا ہے تو رہی سہی کسر الیکشن کمیشن نے پوری کردی ہے۔کمیشن کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو احساس ہوگا کہ مسلمان اکثریتی حلقوں کومنصوبہ بند طریقے سے ریزرو مخصوص کردیا جاتا ہے۔اس کے بعد کے ملک کی انٹلیجنس ایجنسیاں اور ادارے بھی سرگرم ہوجاتے ہیں۔اتنے برے حالات کے دوران وقت آگیا ہے کہ ہمیں مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا،کیونکہ 76 سال کا عرصہ گزر چکا ہے ۔اس لیے سر جوڑ کر بیٹھنے کے لیے ہمیں آگے آنا ہے ورنہ مزید دیر ہو جائے گی۔میں اورنگ آباد سے مجلس اتحاد المسلمین کے ایم پی امتیاز جلیل سے اتفاق کرتا ہوں کہ کتاب کا ایک ایک صفحہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ 75 سال میں کس طرح مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے دراصل مسلمانوں کو غلط فہمی ہوگئی ہے کہ ملک کے سیکولرزم کو بچانا ان کی ذمہ داری ہے۔اس عرصے میں ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کا سیاسی وجود ختم کیا گیا اور آج سرعام یہ سب کچھ ہورہا ہے۔مسلمانوں کو خود اپنوں نے بھی ڈرا سہما کر رکھا ہے ۔اب وہ سیاست اور انتخابات سے ڈرتے ہیں ۔اور سیکولر پارٹیاں اس پر غور کرنے بجائے کنارہ کش ہوجاتی ہیں،مہاراشٹر میں دھولیہ، بیڑ،اورنگ آباد،شمال مشرقی ممبئی جیسے علاقوں سے مسلمان امیدوارکامیاب ہوسکتے ہیں۔لیکن یہاں ہی نہیں بلکہ متعدد ریاستوں سے مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہوچکی ہے۔اگر اے آئی ایم کے امتیاز جلیل اور نے آباد سے کامیاب نہیں ہوتے تھے۔
مسلم اکثریتی یا زیادہ تناسب والی آبادی والے شہروں میں حالت انتہائی پسماندہ ہے اور ان علاقوں کی ترقی کی جانب کسی نے توجہ نہیں دی۔ایک ایک قدم پر مسائل کا سامنا ہے اور کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔سبھی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
[email protected]
9867647741

Comments are closed.