بھاجپ مکت بھارت کے لیےاب راون آیا ہے

ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کا اصل کریڈٹ مخالفین کو جاتا ہے۔ لوگ جتنی زیادہ مخالفت کرتے گئے وہ اتنے ہی زیادہ مقبول ہوتے چلے گئے۔ اب بی جے پی والے وہی غلطی راہل گاندھی کے حق میں کررہے ہیں ۔ ان لوگوں نے ایک پوسٹر میں راہل گاندھی کو راون بتا نے والا پوسٹر سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر بی جے پی کے آفیشل ہینڈل جاری کیا جو جنگل میں آگ کی مانند وائرل ہو گیا۔ اس پوسٹر میں راہل گاندھی کوئی نحیف اور کمزور پپو نہیں ہے بلکہ ذرہ بکتر سے لیس ایک نہایت طاقتور سپہ سالار دکھائی دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہےکہ راہل گاندھی کا ایسا دھانسو پوسٹر ابھی تک کانگریس کا آئی ٹی سیل بھی نہیں بنا سکا۔ اس بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے یہ پوسٹر بنایا جس کے سابق صدر اور حالیہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک زمانے میں کانگریس مکت ( سے پاک) بھارت کا نعرہ لگایا تھا ۔ یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ اب نوسال سے زیادہ حکومت کرنے کے بعد بی جے پی کو کانگریس کے رہنما راہل گاندھی سے خوف محسوس ہورہا ہے ۔ وہ لوگ عوام کو کانگریس کے خطرے سے ڈرا کر اپنے لیے ہمدردی سمیٹ رہے ہیں ۔
اس کھیل کی ابتدا کانگریس نے کی اور بڑی چالاکی سے بی جے پی کواپنے جال میں پھنسا لیا ۔ پہلے کانگریس نے ایکس پر وزیر اعظم نریندر مودی کے دو پوسٹر شائع کیے۔ ان میں ایک میں مودی کی تصویر کے نیچے "سب سے بڑا جھوٹا” (Biggest liar) لکھا تھا ۔ اس کے بعد دوسرے پوسٹر میں گلی بوائے کی طرزپر وزیراعظم کو "جملے باز لڑکا ” کہا گیا تھا ۔ ان عنوانات کے ساتھ فلمی انداز میں یہ بھی درج تھا کہ بہت جلد انتخابی ریلی میں حصہ لینےکے لیے آرہا ہے۔ وزیر اعظم کے ایم،پی، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے مسلسل دوروں کے تناظر میں یہ طنز کیا گیا تھا۔ بس پھر کیا تھا اس کے ردعمل میں بی جے پی کا آئی ٹی سیل حرکت میں آگیا۔ اس نے شاہ رخ خان کی فلم را۔ون کے پوسٹر کا فوٹو شاپ سے سرقہ کرکے شاہ رخ کی جگہ راہل گاندھی کے سات سر چسپاں کر دئیے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ بھارت خطرے میں ہے۔ جارج سوروس کی ہدایت کاری میں میں بننے والی اس فلم کو کانگریس پارٹی کی پروڈکشن بتایا گیا ۔ اس پوسٹر کے ساتھ بی جے پی نے لکھا’’ نئے دور کا راون یہاں ہے۔ وہ بہت سفاک یابراہے، مذہب اور رام کے خلاف ہے۔ اس کا واحد ہدف ملک کو تباہ کرنا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ساڑھے نو سال سے جاری رام راج کو اچانک راون سے خطرہ کیوں کرلاحق ہوگیا؟
بی جے پی کا یہ پوسٹر دراصل اس کا بلا واسطہ اعتراف ِ شکست ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ راہل گاندھی کو نہایت طاقتور حریف تسلیم کر تی ہے اور اس سے خوفزدہ ہے۔ اس سے قبل خود راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو راون کی تشبیہ دی تھی ۔ یہ بہت پرانی بات نہیں ہے ۔ ایوان پارلیمان کے مانسون سیشن چل ہی رہا تھا کہ سپریم کورٹ نے ان کی رکنیت بحال کردی۔ اس کے بعد انہوں نے منی پور پرتحریکِ عدم اعتماد کی حمایت میں 9؍ اگست کوکہا تھا ’راون دو لوگوں کی باتیں سنتا تھا۔ میگھناد اور کمبھ کرن۔ اسی طرح نریندر مودی دو لوگوں کی سنتے ہیں۔ امیت شاہ اور اڈانی‘۔ وزیر اعظم کی دکھتی رگ اڈانی پر ہاتھ رکھنے نے بعد راہل نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ راون کو رام نے نہیں بلکہ اس کے تکبر نے مارا ہے۔ وزیر اعظم کا گھمنڈ آج کل آسمان سے باتیں کررہا ہے۔ ان کی بابت یہ خبر بھی گردش کررہی ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد اسی وجہ سے وہ موہن بھاگوت سے ملنے سنگھ کے صدر دفتر نہیں گئے۔
اس دوران نریندر مودی کئی بار ناگپور کا دورہ کرچکے ہیں۔ ایک بار وہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی خاطر دکشا بھومی پر گئے تو سنگھ کے کارکنان نے ان سے صدر دفتر آنے کی گزارش کی ۔ اس پر انہوں نے ٹالنے کے لیے کہہ دیا کہ وہ اس کام کے لیے نہیں آئے ہیں ۔ یہ اس پردھان سیوک کا جواب ہے جو بن بلائے بغیر کسی پروگرام کے نواز شریف کی سالگرہ میں اسلام آباد چلا جاتا ہے اور ان کی والدہ سے آشیرواد لے کر لوٹتا ہے لیکن اپنی مادرِ تنظیم آر ایس ایس کے مرکز ی دفتر نہیں جاتا ۔ اس وقت تو یہ معمہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا مگر یہ بات بھی میڈیا میں گردش کررہی ہے کہ وزیر اعظم کو موہن بھاگوت نے پیغام بھجوایا اور شکایت کی وہ ناگپور تو آتے ہیں مگر سنگھ کے دفتر نہیں آتے اس سے غلط تاثر جاتا ہے۔ اس کے جواب میں مودی نے کہا ان سے کہو اگر میں بی جے پی میں نہیں جاتا تو سر سنگھ چالک ہوتا اور عمر میں بھی بڑا ہوں اس لیے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کسے کس کے پاس جا نا چاہیے ؟
ویسے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ سنگھ پرچارک کے طور پرجب نریندر مودی سر سنگھ چالک بننے کا خواب دیکھنے لگے تو انہیں جان بوجھ کر بی جے پی میں روانہ کردیا گیا ۔ اس لیے کہ سنگھ کا سربراہ تو برہمن ہی ہوتا ہے۔ اس معاملے میں راجندر سنگھ عرف رجو بھیا استثناء ہے مگر وہ بھی راجپوت تھے اور بیچارے نریندر مودی تو پسماندہ تیلی سماج سے آتے ہیں۔ ان سر سنگھ چالک بن جانا تو آر ایس ایس کے بنیادی نظریہ سے متصادم ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ مودی کو اول تو اس کا بہت افسوس تھا مگر وزیر اعظم بننے کے بعد وہ دُکھ دور ہوگیا۔ اب وہ وزیر اعظم کی حیثیت سے وہی سب کررہے ہیں جو سنگھ کا سربراہ بی جے پی کے ساتھ کرتا ہے۔ وہ سنگھ کی ایک نہیں سنتے بلکہ جب بھی موقع ملتا ہے اس کے مشورے کو پسِ پشت ڈال کر یہ ثابت کردیتے ہیں کہ اصل باس تو وہی ہیں۔مغربی بنگال انتخاب میں بی جے پی کی ناکامی کے بعد سنگھ نے مودی کو ریاستی انتخاب سے دور رہنے کا جو مشورہ دیا تھا اس کو وزیر اعظم نے اترپردیش میں پوری طرح مستردکر دیا ۔ اتفاق سے یوپی میں بی جے پی جیت گئی اس لیے سنگھ کو خاموش رہنا پڑا لیکن کرناٹک کی شکست کے بعد اس نے انتقام لیتے ہوئے آرگنائزر میں لکھ دیا کہ انتخاب جیتنے کی خاطر مودی کا چہرہ کافی نہیں ہے۔ سنگھ پریوار کے اندر جاری و ساری اس مہا بھارت کی بنیادی وجہ مودی کا غرور ہے۔ مودی جی کی نرگسیت کا یہ عالم ہے کہ ان کے خیال میں لوگ انہیں بھگوان سمجھتے ہیں۔
راہل گاندھی نے جب ایوان میں مودی کو راون کہا اور ساتھ میں اڈانی کا لاحقہ بھی لگا دیا تو بی جے پی والوں نے اسے وزیر اعظم کی توہین قرار دے کر خوب ہنگامہ مچایا لیکن اب دھڑلے کے ساتھ راہل کو سات سر والا راون بتا رہے ہیں ۔ کیا یہ کمل والوں کا دوہرا معیار نہیں ہے کہ جن القاب کو اپنے لیے توہین سمجھتے ہیں مخالفین کو انہیں سے نوازتے ہیں۔ اس دوغلے پن کا مظاہرہ بی جے پی نے دوسری بار کیا ہے۔ گجرات کے اند ر انتخابی مہم کے دوران کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے مودی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی والے مودی کے چہرے پر ووٹ مانگ رہے ہیں ۔ اس کے بعد وہ بولے مودی کا چہرا ہر جگہ نظر آتا ہے۔ قومی انتخاب ہو یا ریاستی الیکشن ہر جگہ بی جے پی کےپاس صرف مودی کا چہرا ہے اور بلدیاتی چناو میں بھی وہی دکھایا جاتا ہے۔ یہ کہنے کے بعد کھڑگے نے سوال کیا تھا کہ کیا آپ کے کندھے پر سو سر ہیں ؟ کیا آپ راون ہیں؟ اس تبصرے پر بی جے پی آگ بگولہ ہوگئی تھی اور اس کے ترجمان سمبت پاترا نے اسے پورے گجرات کی توہین قرار دیا تھا ۔ اب راہل کو راون کہنا کیا پورے حزب اختلاف کی توہین نہیں یا کم از کم وائناڈ حلقۂ انتخاب کے رائے دہندگان کی تضحیک نہیں ہے جنھوں نے انہیں اپنا نمائندہ منتخب کرکے ایوانِ پارلیمان میں بھیجا ہے۔
کانگریس کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے راہل کا راون سے موازنہ کرنے کو "شرمناک” بتاتے ہوئے مذمت کی ۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ بی جے والے راہل کو قتل کرنے کے کے مذموم عزائم رکھتے ہیں۔ اس کے بعد مظلومیت کا کارڈ کھیلتے ہوئے وہ بولے راہل نے اپنی دادی کو کھو دیا اور اپنے والد کی قربانی دی ہے۔ کانگریس کے ترجمان جے رام رمیش نے بھی ایکس پر لکھا کہ، ”بی جے پی کے آفیشل ہینڈل پر راہل گاندھی کو راون کے طور پر دکھانے کے خراب گرافکس کے پیچھے اصل مقصد کیا ہے؟ "اس کا واضح طور پر صرف ایک مقصد ہے – کانگریس کے ایک رکن پارلیمنٹ اور پارٹی کے سابق صدر کے خلاف تشدد کو بھڑکانا ، جس کے والد اور دادی کو ان طاقتوں نے قتل کر دیا تھا۔وہ ہندوستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی تھیں۔” یہ وہی حکمت عملی جو ایک زمانے میں نریندر مودی استعمال کیا کرتے تھے۔ وہ اپنے خلاف حملوں سے فائدہ اٹھا کر عوام کی ہمدردی سمیٹتے تھے۔ دیکھنا یہ ہے کیا راہل گاندھی بھی اس حربے کو استعمال کرکے مودی کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب وقت دے گا۔2024میں فیصلہ ہوجائے گا کہ کل یگ میں رام کی فتح ہوتی ہے یا راون کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔
Comments are closed.