غیبت ( اخلاقی برائی)

 

 

ثانیہ یوسف (بھنگالہ)

اللہ تعالی نے انسان کو بہت سی نعمتوں سے نوازہ ہے۔ ان میں سے ایک نعمت زبان ہے۔ اس کا درست استعمال بہت سے اچھے نتائج کا سبب بنتا ہے۔ زبان کے درست استعمال سے ہمارے اعمال کی اصلاح بھی ہوتی ہے اور یہ ہماری بخشش کا بھی ذریعہ بنتی ہے۔ جب کہ اس کا غلط استعمال ہر قسم کے فساد کی وجہ بنتی ہے، اور یہ ہماری نیکیاں غارت کر کے رکھ دیتی ہے۔ زبان کے گناہوں میں ایک عظیم گناہ غیبت کا ہے۔ یہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔ لیکن دوسرے بڑے گناہوں کی نسبت یہ گناہ بہت عام ہے اور اس میں ہر دوسرا انسان ملوث ہے۔ اللہ کے نزدیک یہ نہایت قبیح فعل ہے۔

سب سے پہلے ہم جانتے ہیں ہیں غیبت کیا ہے۔ غیبت یہ ہے کے کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کے عیبوں کا تذکرہ کرنا، اور اس کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا۔ غیبت ایسی گفتگو کو کہتے ہیں جس میں انسان دوسروں کے عیبوں کو اس نیت سے بیان کرے کہ جس سے اس کی تحقیر اور تذلیل ہو۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کسی کی ٹوہ میں لگے رہنا، یعنی اس کی جاسوسی کرنا اس نیت سے کہ اس کا کوئی ایسا راز ہاتھ لگے جس سے وہ اس کو دوسروں کے سامنے ذلیل کر سکے۔ غیبت کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی عزت پر حملہ ہے۔ یہ حرام کاموں میں سے ایک کام ہے۔ جس طرح کسی کی جان اور مال کو نقصان پہچانا حرام ہے۔ اس طرح کسی کی عزت و آبرو کو نقصان پہچانا بھی حرام ہے۔

یہ گناہ سماجی اور اخلاقی اعتبار سے نہایت بُرا اور خطرناک ہے۔ اور اس گناہ کو ہم اتنا معمولی سمجھتے ہیں اتنا معمولی سمجھتے ہیں کہ ہر کوئی اس میں شامل ہے۔ کسی کی غیبت کرنا، عیب ٹٹولنا کہ کسی کی کوئی کمزوری ہاتھ لگ جاے تا کہ اس کے ذریعے اس کو ذلیل کر سکے

یہ تو ہمارے لیے کوئی بڑی بات ہی نہیں ، ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم دو منٹ آپس میں بیٹھ جائیں اور دوسروں کی غیبت نہ کرے کہ فلاں ایسا کرتا ہے، اس کو تو عقل ہی نہیں، اس کے گھر کا ماحول ایسا ہے ۔ آجکل غیبت کو ہم نے عام معمول بنا لیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اپنے بھائی کے اس عیب کو ذکر کرے کہ جس کے ذکر کو وہ ناپسند کرتا ہو آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ ﷺ کا کیا خیال ہے کہ اگر واقعی وہ عیب میرے بھائی میں ہو جو میں کہوں آپ ﷺ فرمایا اگر وہ عیب اس میں ہے جو تم کہتے ہو تبھی تو وہ غیبت ہے اور اگر اس میں وہ عیب نہ ہو پھر تو تم نے اس پر بہتان لگایا ہے۔

یعنی اگر کسی کے اندر وہ برائی ہے پھر بھی آپ دوسروں کے سامنے اس کو بیان نہ کرو کیونکہ ایسا کرنے سے اس کی عزت مجروح ہو گی اور اگر آپ کا مقصد اصلاح کرنا بھی ہو تو آپ دوسروں کے سامنے نہ کرے بلکہ علیحدگی میں سمجھائے اور اگر آپ لوگوں کے سامنے ہی اسے کہنا شروع کر دو گے تو وہ عمل غیبت کے زمرے میں آئے گا یعنی آپ کسی کے سامنے اس کے عیب ٹٹول رہے ہو گے جو اللہ کے نزدیک بہت بری چیز ہے ۔ اللہ رب العزت نے سورت الحجرات میں فرمایا اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں، اور بھید نہ ٹٹولا کرو، اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے ، کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ تم کو اس سے گھن آئے گی ، اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔

شریعت نے ہر ایسی چیز کو حرام قرار دے دیا جو مسلمان کی عزت مجروح کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ یعنی ایک مسلمان کا کسی مسلمان کی پرسنل باتوں یا اعمال کو برے ارداہ سے جاننے کے لئے جاسوسی کرنا ، چھپ کر اس کے عیوب تلاش کرنا ، ٹوہ میں پڑے رہنا وغیرہ سب حرام ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں انسان کی عزت کی بہت اہمیت ہے ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر کعبہ کو دیکھ کر کہا اے کعبہ ! تو کس قدر پاکیزہ ہے ، تیری خوشبو کس قدر عمدہ ہے اور تو کتنا زیادہ قابل احترام ہے لیکن اللہ کی نظر میں مومن کی عزت و احترام تجھ سے زیادہ ہے ۔

انسان کی عزت کی اللہ کے نزدیک بہت اہمیت ہے اس لیے اللہ تعالی نے یہ فعل کرنے والوں کو مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ہاں بد ترین گناہ کسی مسلمان کی عزت سے کھیلنا ہے۔ اللہ پاک نے ایسا فعل کرنے والوں پر اپنی لعنت بھیجی ہے یعنی اللہ کا غصہ اتنا زیادہ ہے کہ انسان اتنا گر گیا ہے کہ جس کو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا تھا اور اس کو اللہ نے کہا تھا کہ تم نے اپنی باقی انسانوں کی عزت جان مال سب کی اتنی ہی حفاظت کرنی ہے جتنی اپنی چیزوں کی۔ لیکن یہ انسان اتنا گر کیا کہ منہ پر اور پیٹھ پیچھے لوگوں کی برائیاں کرتا پھر رہا ہے جس سے اس کی دل آزاری ہو یہ اللہ کے نزدیک بہت ہی گرا ہوا گناہ ہے۔

یہاں ایک اور بات سمجھنے کی ہے کہ اگر آپ کسی کی عیب جوئی نہیں کر رہے، کسی کی برائیاں اس کی پیٹھ پیچھے نہیں کر رہے ہیں لیکن کوئی دوسرا شخص آپ کی برائی کر رہا ہے دوسروں کے سامنے آپ کو ذلیل کر رہا ہے تو آپ اس پر پریشان نہ ہوں کہ لوگ آپ کی غیبت کر رہے ہیں یا عیب ٹٹول رہے ہیں ، یااشاروں کے زریعے آپ کو تکلیف پہنچا رہے ہیں۔ تو آپ ایسا ہرگز نہ کرے کیونکہ یہ اللہ کے نزدیک نا پسندیدہ کام ہے۔ اسلام نسان کے ہر پوشیدہ اعمال کو راز میں رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ جو دوسروں کے راز کی حفاظت کرتا ہے اس کے لئے بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس ک عیب چھپائے گا۔ یعنی جو شخص دوسروں کی برائیاں بیان کرنے کے بجائے اپنے دل میں ہی دفن کرجاتا ہے، اللہ روز قیامت اس کے عیوب اور گناہوں پر پردہ ڈالے گا لوگوں کے سامنے اس کے گناہوں کا تذکرہ نہیں کرے ، گا، بلکہ اسے در گزر فرمادے گا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں غیبت اور عیب جوئی جیسے برے اعمال سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

Comments are closed.