کوئلے کی دلالی میں منہ کالا

ڈاکٹر سلیم خان
برطانیہ کے معتبر اخبار فائنانشیل ٹائمز نے ابھی حال میں یہ انکشاف کیا ہے کہ جنوری 2019 سے اگست 2021 کے درمیان اڈانی گروپ نے کوئلے کی تیس کھیپ میں 73 ملین ڈالر یعنی تقریباً 600کروڈ سے زیادہ کی بدعنوانی کرکے سرکاری خزانے کو لوٹا ہے ۔ ایف ٹی نے یہ الزام لگایا ہے کہ اڈانی کا کوئلہ جب انڈونیشیا کے ساحل سے چلا تھا تو اس کی برآمدی قیمت 139 ملین ڈالر تھی مگر ہندوستان کے ساحل پر پہنچا تو وہ بڑھ کر 215 ملین ڈالر ہوگئی۔ یعنی راستے 52 فیصد کا اضافہ ہوگیا۔ اس طرح کاغذ پر قیمت بڑھا کر جو فائدہ حاصل کیا گیا وہ اڈانی گروپ کے بجائے اڈانی گروپ کے خفیہ شیئر ہولڈرس کی جیب میں چلا گیا۔ سوال یہ ہے کہ وہ خفیہ حصص بردار لوگ کون ہیں ؟ ان کے علاوہ سرکار دربار میں بیٹھے وہ کون کون سے لوگ ہیں اس میں ملوث ہیں جن کے سبب ای ڈی اور سی بی آئی دُم سادھے بیٹھی ہیں؟ اڈانی گروپ نے اس بار کم از کم اسے ہندوستان پر حملہ تو نہیں کہا مگر اس کو بدنام کرنے کی ناپاک عالمی سازش کا حصہ قرار دے کر مسترد کردیا۔ سوال یہ ہے ملک کی دیگر تجارتی اداروں پرایسی دشنام طرازی کیوں نہیں کی جاتی ؟ بار بار اڈانی کا فال کیوں کھل جاتا ہے؟
اڈانی گروپ اسے 2016 کا معاملہ قرار دے کر اس پر ہونے والی تفتیش کا حوالہ دے کر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کررہا ہے جبکہ یہ 2019 سے2021 کے دورانیہ کا قصہ ہے۔ مودی سرکار کے اشارے پر ممبئی ہائی کورٹ نے 2019 میں ڈی آئی آر کے ذریعہ لکھے خط کو ضابطے کی پابندی نہ کرنے کے الزام میں منسوخ کردیا تھا بعید نہیں ڈی آئی آر نے جان بوجھ کر وہ نقص رکھا ہو تاکہ عدالت اس کارروائی پر روک لگا دے اور بدعنوانی پر پردہ پڑ جائے کیونکہ مودی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے؟ اور مودی اور اڈانی کا رشتہ جگ ظاہر ہے۔ یہ معاملہ جب عدالتِ عظمیٰ میں پہنچا تو اس نے پہلے تو ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی اور تفتیش کا پھر سے آغاز کروایا ۔ امسال جنوری میں سپریم کورٹ کے اندر خود ڈی آر آئی نے کہا کہ وہ اپنی تفتیش کے ذریعہ کوئی لنک پیدا کرنے سے قاصر ہے اس لیے اس کی درخواست کو مسترد کردی جائے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ ہنڈن برگ اور او سی سی آر کو تو لنک مل جاتا ہے مگر ڈی آئی آر کو نہیں ملتا کیونکہ وہ نرملا سیتا رمن کے تحت کام کرتی ہے ۔ اس طرح سپریم کورٹ کے اندر اڈانی گروپ کے لیے راحت کا جوسامان کیا گیا ایف ٹی کی تازہ رپورٹ نے اس رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ اڈانی گروپ تو فی الحال یہ کہہ رہا ہے ہندوستان کی عدالتِ عظمیٰ کے اندر یہ معاملہ نمٹ چکا ہے مگر قیمتوں کے تفاوت کا جواز دینے سے اب بھی قاصر ہے۔
اڈانی گروپ نے جملہ 73 ملین ٹن کوئلے میں سے42 ملین ٹن تو خود درآمد کرلیا۔اس کی قیمت اوسطاً130 ڈالر فی ٹن تھی لیکن باقی 31 ملین ٹن کے لیے اسے دلالوں کی ضرورت پیش آگئی۔ ان لوگوں کے توسط سے جو کوئلہ درآمد ہوا اس کی اوسط قیمت 155 ڈالر فی ٹن یعنی 20 فیصد زیادہ تھا ۔ اس طرح جملہ 6660کروڈ دلالوں کی جیب میں ٹھونس دئیے گئے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس کی ضرورت کیا تھی اور وہ لوگ کس کے لیے دلالی کررہے تھے؟ اردو زبان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالا کہا گیا ہےتجارت میں نہیں ۔ موجودہ انکشاف کے اندر بھی تین عدد دلالوں کی مدد سے گھپلا کرنے کی بات سامنے آئی ہے۔ ان تینوں کو جولائی2021 کے بعد جملہ 4.8 بلین ڈالر کی رقم دی گئی اس کو اگر ہندوستانی روپیوں میں تبدیل کیا جائے تو یہ چالیس ہزار کروڈ بنتے ہیں۔ان گمنام کمپنیوں میں سے ایک تعلق تائیوان، دوسری کا دبئی اور تیسری سنگاپور کی ہے۔
کوئلے کے دلالوں کوجو کالا پرمیم دیا گیا جو بازار بھاو سے دوگنا بھی تھا۔ ان میں ایک کمپنی کا نام ہائی لنگوس ہے ۔ چانگ چنگ لی اس کو تائی پائی میں اپنے گھر سے چلاتا ہے۔ یہ بدنام زمانہ تاجر گوتم اڈانی کے بھائی ونود اڈانی کا قریبی رہا ہے ۔ 2013 تا 2017 کے درمیان وہ اڈانی گروپ کا سب سے بڑا حصص بردار تھا اور اس نے ان ممالک میں روپیہ سمیٹا ہے جنہیں ٹیکس کی جنت کہا جاتا ہے یعنی وہاں ٹیکس چرا کر دولت جمع کی جاتی ہے۔ نیوز کلک کے چینی کنکشن کو ڈھونڈنے والے چانگ چنگ لی کی جانب سے آنکھیں موندے بیٹھے ہیں۔ اس بات کا پتہ لگانا ضروری ہے کہ چانگ چنگ لی کس کے لیے دلالی کرتا ہے؟ دبئی میں مقیم کمپنی کا نام ٹوراس ہے۔ اس کا مالک محمد علی شعبان اہلی ہے۔ گزشتہ رپورٹ میں دبئی کے ناصر علی شعبان اہلی کام زیر بحث آیا تھا۔ ناصر علی گلف ایشیا ٹریڈ اینڈ انوسٹمنٹ کا خود مختار مالک ہے۔ وہ اپنی ملکیت ماریشس والی کمپنی مڈ ایسٹ اوشین ٹریڈ کا بھی مالک ہے اور اس کے توسط سے وہ اڈانی گروپ کو فائدہ پہنچاتا رہا ہے۔ اب یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ محمد علی شعبان اور ناصر علی شعبان کے درمیان کیا رشتہ ہے کیونکہ دونوں کے ناموں میں کمال درجہ مشابہت ہے اور وہ اہلی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔
اس دھندے میں ملوث تیسر ے دلال سنگاپور کی پان ایشیا ٹریڈ لنک کو اڈانی گروپ کا ایک سابق ملازم چلاتا ہے۔ اس کو سب سے زیادہ 30 فیصد منافع دیا گیا یعنی اس سے 169 ڈالر فی ٹن کے حساب سے کوئلہ خرید کر نو ہزار کروڈ سے زیادہ روپیہ کمانے کا موقع دیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں پر یہ نوازشات کیوں کی گئیں؟ کہیں یہ لوگ بھی بابا رام دیو یا چندن کے نام نہاد اسمگلر ویرپاّ کی مانند کسی پسِ پردہ ہستی کے اشارے پر کام کرنے والے کٹھ پتلی تو نہیں ہیں؟ حیرت اس پر ہے کہ یہ گورکھ دھندا اس سرکار کے زیر اثر ہوا جو سوئس بنک سے کالا دھن لاکر عوام کے کھاتوں میں پندرہ پندرہ لاکھ جمع کرنے کا خواب بیچا کرتی تھی۔ کورونا کے باوجود امسال گوتم اڈانی کے دنیا کا دوسرے نمبر کا امیر ترین بن جانے کی وجہ یہ ہے کوئلے کی اس تجارت سے ہی اڈانی کی 72 فیصد آمدنی ہوئی ہے ۔
اڈانی سیٹھ اس کاروبار میں دوسرے ذرائع سے بھی روپیہ بٹورتا تھا۔ انڈونیشیا ملک مشرق میں ہے اس لیے کوئلے کو مشرق ہندوستان کے ساحل پر واقع کسی بندرگاہ پر آنا چاہیے تھا مگر اس کو گجرات میں موجود مندرا بندرگاہ پر اتارا جاتا تھا۔ اس کی ایک حکمت تو یہ تھی مندرا بندرگاہ کو اس سے ملنے والی آمدنی اڈانی کی جیب میں جائے نیز جو دیگر مفادات ہوسکتے ہیں اس کا قیاس لگانا مشکل نہیں ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے اڈانی جیسے دیش بھگت کو آخر اپنے ہی ملک کوئلہ درآمد کرنے کی خاطر غیر ملکی دلالوں کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ وہ پہلے ہی دوسروں سے زیادہ مال خود اپنے نام سے در آمد کرچکے تھے ۔ اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے ۔ایسے میں سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس طرح کی بدعنوانی کا عام آدمی پر کیا اثر پڑتا ہے؟ اس بابت امسال اگست میں عام آدمی پارٹی سنجے سنگھ الزام لگایا تھا کہ اڈانی نے گجرات کے لوگوں کو مہنگی بجلی دے کر 3800 کروڑ روپے لوٹ لئے ہیں، اس کے باوجود مودی حکومت اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ- سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ای ڈی-سی بی آئی) خاموش ہیں۔ سنجے سنگھ تو اڈانی کی جانب تفتیشی ایجنسیوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتے تھے مگر ان لوگوں نے تو خود موصوف کو ہی گرفتار کرلیا۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے جس گجرات کے عوام نے وزیر اعظم نریندر مودی کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا انہیں کو پردھان سیوک نے اپنے قریبی دوست گوتم اڈانی اور ان کی کمپنی کے ذریعہ لوٹ لیا۔ سنجے سنگھ کے مطابق جب مودی جی 2007 میں گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو ان کی حکومت نے اڈانی کے ساتھ بجلی کا معاہدہ کیا تھا۔ اس کے مطابق اڈانی نے گجرات کے لوگوں کو اگلے 25 سال تک 2.25 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ مودی جی کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد اس کے بعد اڈانی اپنے وعدے اور معاہدے سے مکر گئے۔ سال 2018 میں اڈانی نے حکومت گجرات کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرلیا۔ اس میں کہا گیا کہ کوئلہ مہنگے داموں خریدنا پڑ رہا ہے، اس لیے حکومت کو بجلی کی مہنگی قیمت ادا کرنی پڑے گی، تاہم معاہدے میں یہ شرط لکھی گئی کہ آرگس گلوبل کمپنی کی جانب سے پوری دنیا کے ممالک کی خاطر کوئلے کی جو قیمت بتائی جائے گی اس کے مطابق ادائیگی کی جائے گی۔اڈانی کو جعلی طریقہ پر کوئلہ کی قیمت خرید کیوں بڑھانی پڑی؟ اس سوال کا جواب گجرات کی کیس اسٹڈی میں پوشیدہ ہے۔ معاہدے کی تجدید کے بعد 2018 سے 2023 تک گجرات حکومت اتنی ہی ادائیگی کرتی رہی جتنی اڈانی نے کوئلے کی قیمت بتائی ۔ گجرات حکومت نے اس مدت کے دوران اڈانی کی کمپنی کو 13,802 کروڑ روپے ادا تو کئے مگر آرگس گلوبل کمپنی کے ریٹ سے انڈونیشیا میں اس وقت کوئلے کی قیمت معلوم کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے اندھے بھگت صرف آنکھ موند کر ووٹ ہی نہیں دیتے بلکہ نوٹ بھی دیتے ہیں ۔ ان کو نہ جذباتی استحصال نظر آتا ہے اور نہ معاشی لوٹ مار دکھائی دیتی ہے۔ ویسے سرکاری خزانے سے ادائیگی کرنی ہوتو مال مفت دلِ بے رحم کا معاملہ ہوجاتا ہے۔
Comments are closed.