ایک تاریخی جلسہ دربھنگہ کی سرزمین پر 

 

تحریر : غالب شمس

دارالعلوم شکری (مدہوبنی) دراصل مفتی اشرف عباس قاسمی استاد ادب و تفسیر دار العلوم دیوبند کے خوابوں کی تعبیر ہے، مفتی صاحب کی دلی خواہش تھی کہ شکری، نرائن پور، نظرا محمد آباد، اور نہرا کے علاقے میں ایک معیاری ادارہ ہو،اس کے لئے وقتاً فوقتاً خاکہ بناتے، علاقے میں مناسب جگہ تلاشتے، چنانچہ یہ مرحلہ بحسن و خوبی انجام پایا، پھر اساتذۂ دار العلوم دیوبند سے مشورہ کیا کہ ادارہ کا نام کیا رکھا جائے، تو اساتذہ نے مفتی صاحب کے تخیل اور مرکز فکر کو دیکھتے ہوئے کہا کہ ادارہ کا نام دار العلوم رکھیں، ان شاءاللہ یہ اپنے علاقے کا دار العلوم دیوبند بنےگا، چنانچہ علماء اور باحوصلہ عوام کی موجودگی میں مفتی اشرف عباس صاحب نے بہ مقام شکری 7 شوال 1437ھ مطابق 12جولائی 2016ء بروز بدھ مدرسے کی بنیاد رکھی، جو چھپر کے چند روم اور ایک چھوٹی سی مسجد پر محیط ہے، اس میں 140 طلباء سات سال سے نورانی قاعدہ، قرآن اور فارسی و عربی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں، اور بفضل خداوندی علاقے میں علم و علماء کا فیض خوب پھیل رہا ہے، مولانا محمد اسجد قاسمی کے زیر اہتمام یہ مدرسہ روز افزوں ترقی پر ہے، *مدرسہ کی مزید توسیع کے لیے اور نئی عمارت کے لئے دار العلوم شکری کی زمین نرائن پور ضلع دربھنگہ میں لی گئی، جس کی تقریب سنگ بنیاد اور 35 حفاظ طلباء کی دستار بندی 19اکتوبر 2023ء روز جمعرات کو ہونے والی ہے، اس موقع پر ایک عظیم الشان جلسہ کیا جارہا ہے* ، *جس میں ملک کے نامور علماء و مشائخ شریک ہوں گے، شیخ طریقت عارف باللہ حضرت مفتی ابو القاسم نعمانی مہتمم و شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند خاص طور پر قابل ذکر ہیں، دراصل مہتمم صاحب ہی اس جلسہ کی جان ہوں گے، دار العلوم دیوبند کے استاذ فقہ و تفسیر مفتی مزمل بدایونی مد ظلہ العالی، مولانا محمد احمد پرتاب گڈھی کے خلیفہ و مجاز حضرت مولانا محمود الحسن صاحب گرولوی بھی تشریف فرما ہوں گے، امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے نائب امیر شریعت مولانا محمد شمشاد رحمانی اور نائب قاضی شریعت قاضی وصی احمد قاسمی دربھنگوی، مولانا محمد شاہد الناصری (صدر ادارہ دعوت السنہ ممبئی)، بارڈولی جامعہ دار الاحسان کے استاذ حدیث مفتی محمد فاروق صاحب قاسمی،* مفتی شکیل احمد قاسمی استاد حدیث دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ پٹنہ، اور سینکڑوں بافیض اساتذہ،اور کبار علماء و مشائخ بھی اس اجلاس کو زینت بخشیں گے.

میری معلومات کے مطابق ہمارے علاقے میں پہلی مرتبہ ایسا عظیم الشان جلسہ ہونے جارہا ہے، تاریخی قدامت، علمی عظمت کے اعتبار سے بھی یہ خطہ اہم ہے، یہ علاقہ اختیار الدین محمد بختیار خلجی نےقطب الدین ایبک کے زمانے میں سن 599ھ مطابق 1292ء میں فتح کیا،کرناٹ اور اوئنوار خاندان کی بادشاہت رہی، سلطان شمس الدین التمش کی فتوحات میں بھی دربھنگہ شامل ہے، دربھنگہ پر تیسرا حملہ کفار چنگیز خانی نے کیا، دربھنگہ پر مسلمانوں کاچوتھا حملہ 697 ھ میں سلطان علاء الدین خلجی کے عہد حکومت میں ہوا تھا، عہد بعہد راجگان یہاں مسلم سلاطین کے باجگزار ہوتے رہے، غیاث الدین تغلق کے زمانے میں ہری سنگھ دیو کرناٹ خاندان کا آخری راجہ گزرا ہے، پھر احمد خاں ابنِ ملک تلیغہ حکمراں ہوا، اسی زمانے میں دربھنگہ کا نام تغلق پور ہوا، پھر 740 ھ مطابق 1339ء میں کامیشور جھا نے سلطان محمد تغلق سے ترہت کی حکمرانی حاصل کی، اسی خاندان کے راجہ دیو سنگھ نے اپنی ڈیوڑھی موضع دیو کلی نزد لہریا سرائے بنائی، اور اس کے ولی عہد کنور سنگھ نے لہرا ( موجودہ نہرا) میں قلعہ بنوایا، اس خاندان کے راجا ہمارے علاقے میں بابو صاحب کہلائے، عہد لودھی تک اس کے کئی راجہ ہوئے، مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے یہ علاقہ میتھل برہمن رگھونندن رائے کو سونپ دیا، انہوں نے اپنے گرو پنڈت مہیش ٹھاکر کو گرو دکچھنا کے طور پر دے دیا، یہی دربھنگہ راج کے بانی ہوئے، اس خاندان میں کل بائیس راجہ 1939 ء تک ہوئے، دربھنگہ یا سرزمین متھلا، یا کہ لیجیے ترہت،(جن کے حدود اربعہ بدلتے رہے ہیں) میں صاحب فضل و کمال، اور مشائخ طریقت کی زریں تاریخ کا ایک تسلسل ہے،

 

بقول حقانی القاسمی

"کتنا زرخیز ہے یہ علاقہ ، اتنی تخلیقی زرخیزی تو بہت کم زمینوں کا مقدر ہوتی ہے۔ یہاں تخلیق ، تنقید کے اتنے مہر تاباں اور ماہ منور ہیں کہ رشک آتا ہے کہ خالق مطلق کے سارے الطاف و عنایات شاید اسی سرزمین پر ہوئے۔ یہ باعث فخر ہے کہ مہا کوی ودیا پتی ، راجہ بھامتی، گوتم منی کی سرزمین اور اورنگزیب کی صاحبزادی زیب النساء کے استاد ملا ابو الحسن اور ملاجیون، بحر العلوم مولانا عبد العلی فرنگی محلی کے استاد مولانا ابومحمد ہدایت اللہ صدیقی کی اقامت گاہ دربھنگہ نے قدیم عہد سے جدید عہد تک میں اپنی تابانی برقرار رکھی ہے بلکہ رعنائی و جمال میں اضافہ ہی کیا ہے، یہاں کا ہر ذرہ آفتاب و ماہتاب ہے۔ اردو ادب سے جڑی ہوئی کسی بھی ممتاز ہستی کو دیکھ لیجئے اس کا تعلق دربھنگہ سے ضرور نظر آئے گا”۔

یہاں کی زبان میتھلی ہے، ہندو شدھ میتھلی بولتے ہیں، اور مسلمانوں کی میتھلی میں اردو زبان شامل ہے، قدیم دربھنگہ جس میں موجودہ دربھنگہ ،مدہوبنی سمستی پور، سیتا مڑھی اور مظفر پورکا کچھ علاقہ بھی شامل ہے، اسی کو میتھلانچل یا متھلا بھی کہا جاتا ہے ،اس کے حدود اربعہ کو اور وسیع کریں گے تو اسی پر ترہت کا بھی اطلاق ہوتا ہے ،یہاں عصری درسگاہیں خوب ہیں، دنیاوی تعلیم کی جانب لوگ متوجہ ہیں، لیکن دینی تعلیم و دینی تربیت کی کمی ہے، ایک دو مدرسے قائم ہوئے، لیکن سرکار اور بورڈ سے منسلک ہوتے ہی اس کی روح ختم سی ہوگئی، اس علاقے کی جبیں مفتی ظفیر الدین مفتاحی سابق مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی قاضی الشریعہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ و نائب امیر شریعت، اور امیر شریعت خامس مولانا عبد الرحمن دربھنگوی جیسی علم دوست ہستی سے تابناک رہی ہے، چنانچہ دار العلوم شکری کا نام بھی قاضی مجاہد الاسلام قاسمی علیہ الرحمہ سے منسوب ہوکر دار العلوم قاضی پورہ ( نرائن پور) کردیا گیا ہے۔ اللّٰہ اسے اسم بامسمی بنائے، ادارہ کو دن دگنی رات چوگنی ترقی نصیب فرمائے، اور نظر بد سے حفاظت فرمائے، اس سلسلے میں حضرت مفتی اشرف عباس قاسمی اور ان کے زیر سرپرستی کام کرنے والے دیگر علماء کرام مبارکبادی کے مستحق ہیں۔

 

 

Comments are closed.