غیرت ایمانی اوربابری مسجد کامتبادل!

از: قاضی محمدفیاض عالم قاسمی
انسانی سماج میں غیرت ایک اہم اورقابل تحسین صفت مانی جاتی ہے،ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کے لئے غیرت کااہم کردار ہوتاہے۔اسلامی زندگی گزارنے کے لئے شریعت کے جتنے بھی اصول وضوابط ہیں سب میں مشترکہ طورپر اسلامی غیرت وحمیت کا عنصر موجود ہے۔ غیرت کے بغیر ایک خوشگوار معاشرہ کا وجودممکن نہیں۔شریعت میں غیرت کاجوہر دکھانے کی تاکید کی گئی ہے، اور اس کے برخلاف بے غیرتی کو بے حیائی اوربزدلی سے تعبیر کیا گیا ہے۔حتیٰ کہ اپنی جان ومال اور عزت وآبر کی حفاظت کی خاطر جان گنوادینے کو شہادت کا درجہ عطاکیاگیاہے، اس کے برخلاف اس آدمی کے لئے جنت کو حرام قراردیاگیاہے، جس کی بیوی سے دوسرے لوگ ہنسی مذاق اور غلط حرکتیں کرے اور وہ بے غیرتی کی وجہ سے خاموش رہے۔ (سنن ابی داود، حدیث نمبر:٤۷۷٢،مسند احمدؒ، حدیث نمبر:٥٣۷٢)
غیرت اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے، اللہ کا ایک نام الغیور بھی ہے، جس کے معنی ہیں بہت زیادہ غیرت والا، ایک حدیث میں ہے کہ اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں ہے۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر:٥٢٢۰(۔چوں کہ زمین پر انسان اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے، اس لئے یہ صفت بھی انسان کے اندر بہت حد تک پائی جاتی ہے،حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشادفرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ کو غیر ت ہوتی ہے، اورایک مؤمن بندہ کو بھی غیرت ہوتی ہے۔اللہ کی غیرت یہ ہے کہ مؤمن ان کاموں کو نہ کرے جن کو اللہ نے حرام کردیاہے ۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر:٥٢٢٣)
حضرت مغیرہ بن شعبۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ نےکہا کہ اگر اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی کو غلط حرکت کرتے دیکھوں تو اس کوضرور قتل کرڈالوں گا، آپ نےصحابہ کرام سے فرمایا کہ کیاتمہیں سعد کی غیرت سے تعجب ہورہاہے، پھر آپ نے ارشادفرمایا کہ میں ا س سے زیادہ غیرت مند ہوں اورمجھ سے زیادہ اللہ تعالیٰ غیرت مند ہیں۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر:١٤۹۹)
حضرت علامہ ابن القیم ؒ نے غیرت کی دوقسمیں کی ہیں، ایک یہ کہ غیرت محبوب کے لئے ہو، محبوب نے جن چیزوں کا حکم دیاہے، غیرت کی بناء پر ان کی نافرمانی نہ کی جائے،بلکہ ان پر عمل کیاجائےاوراس نے جن چیزوں سے منع کردیا ہے، ان کو اس ڈر سے نہ کیاجائے کہ ان کو کیا جواب دیں گے۔ شریعت کے سارے احکام اسی غیرت پر مبنی ہیں۔ یہی سب سے محبوب ا ور قابل ستائش غیرت ہے۔یہی وہ غیرت ہےکہ ایک مسلمان اللہ کی محرمات وحدود کو پامال ہوتے دیکھ کر طیش میں آجاتا ہےاور اس کی غیرت اس کو للکارتی ہے ۔ایک مرد مومن اپنے تیئں سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن محرمات کی پامالی کو لمحہ بھر کے لیے بھی روا نہیں رکھ سکتا ہے۔ایسی صورت میں غیرت مند مومن کے جذبات کا برانگیختہ ہوجانا اور اس کے تن من میں شعلوں کا بھڑک اٹھنا ایک بدیہی امر ہے۔
علامہ ابن القیم ؒ فرماتے ہیں کہ لوگوں میں دین کے لحاظ سے سب سے طاقتور وہ ہے جس کے اندر غیرت زیادہ ہو۔ غیرت کی دوسری قسم یہ ہے کہ محبوب پر غیرت ہو،یعنی کوئی آپ کی محبوب کی حمایت کرے تو آپ کی ضمیر اس کو گوارہ نہ کرے، کہ میرے رہتے ہوئے وہ کیوں اس کی حمایت یا مدد کررہاہے۔یہ ایسا ہی ہےکہ آپ کا بیٹا کسی اور کو ابا کہے اور اس سے جیب خرچ مانگے، آپ کی بیوی کسی اور سے نفقہ مانگے تو آپ کو غیرت آئے گی۔(خلاصہ روضۃ المحبین ونزہۃ المشتاقین:٢۷٣)
غیرت ایک ایسی صفت ہے جس سے انسان ازخود بہت ساری برائیوں سے بچ جاتاہے۔اسی پر بس نہیں، بلکہ اپناکوئی رشتہ دارمثلا ً بیٹا،بیٹی، بیوی وغیرہ کسی برائی کی طرف قدم بڑھائے تو فوراًہماری غیرت جاگ جاتی ہے، اورہم ان کو برائی سے روکنے پر تن من دھن کی بازی لگادیتے ہیں۔ اگراس کے باجود کوئی برائی کربیٹھتاہے تو مارے شرم کے منہ چھپائے پھرتے ہیں۔
غیرت مند شخص اپنے ایمان کی حفاظت کرتاہے۔مسلمان خواہ کتنا ہی مجبور ولاچار کیوں نہ ہو، لیکن آخری دم تک اپنے ایمان کی حفاظت کرتاہے، وہ کسی بھی قیمت پر اپنے ایمان کا سودا نہیں کرسکتاہے۔دنیاکی کوئی طاقت وقت، لالچ و رشوت وغیرہ اس کے ایمان کو خرید نہیں سکتاہے۔ وہ اپنی جان کانذرانہ تو پیش کرسکتاہے، لیکن ایمان پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتاہے۔ غیرت سے محروم شخص ایمان کی برکت سے محروم رہتاہے، ایسے شخص کو ایمان کی حلاوت نصیب نہیں ہوتی، اس کو اپنے ایمان اوراسلام کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے، ایساشخص روح کے بغیرزندگی جیتاہے۔اس کے نزدیک صرف دنیا کی زندگی ہی اصل زندگی ہوتی ہے، اس کو اپنی عزت وآبر وبھی عزیزنہیں ہوتی۔ اسے دو روپئے کا سکہ بھی اپنی جان اورایمان سے بھی زیادہ محبوب ہوتاہے۔ایسے لوگ نہایت ہی لالچی ہوتے ہیں۔وہ اللہ کی رحمت سے دورہوتے ہیں۔عوام کے نزدیک مبغوض رہتے ہیں۔ایسے لوگ ہمیشہ ذلیل وخوارہ ہوتے ہیں۔
اگرکوئی شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو تکلیف واذیت دیتا یا آپ صلی الله علیہ وسلم کا ذاتی جانی یا مالی نقصان کرتا توآپ صلی الله علیہ وسلم بڑے صبر وتحمل اور پوری خندہ پیشانی کے ساتھ اس کو برداشت کرلیتے تھے، لیکن جہاں کہیں کوئی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا اور شرعی حدود کو پامال کرنے کی کوشش کرتا وہاں آپ صلی الله علیہ وسلم کی غیرت وغضب قابل ِدید ہوجاتی اور آپ صلی الله علیہ وسلم اس وقت یوں ہی خاموش نہیں رہتے ،بلکہ اس برائی کو ختم کرنے کوشش کرتے، اس کےدورہونے تک درد وغم اور زجر وتوبیخ برابر برقرار رہتی ، اسی وجہ سے علماء کرام نے رسول ﷺ کی موجوگی میں کئے گئے ایسے عمل کو جس پر آپ نے نکیر نہیں کی، حجت گرداناہے، کیوں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سامنے کوئی خداکی نافرمانی کرے،شریعت کی حدود کو پامال کرڈالے اور آپ صلی الله علیہ وسلم اس پر خاموشی اختیار فرمائیں۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین اور حضرات صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین)کا بھی یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ دینی غیرت وحمیت کے جذبات سے سرشار تھے ،دینی احکام کی نافرمانی یا دین دشمنی دیکھتے توبڑی غیرت کامظاہرہ کرتے تھے اور جب تک اس کوختم نہ کرتے یا اس میں اپنی بھر پور طاقت استعمال نہ فرماتے،اس وقت تک چین کی سانس نہ لیتے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں بعض علاقوں میں ارتداد کی لہر دوڑی ،جس کا آپ رضی اللہ عنہ نے بروقت اور بالکل صحیح ادراک فرمایا، لیکن اس وقت بعض صحابہ کرام نے سخت اقدام کرنے کو مصلحت کے خلاف خیال فرمایا، اس وقت آپ نے ایک ایسا تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جو سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے اور قیامت تک کے مسلمانوں کے دینی جذبات اور ایمانی غیرت کےلئے کافی ہے،آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:”أینقص الدّین وأنا حیّ؟“کیا میرے زندہ رہتے ہوئے دین میں کمی کی جائی گی؟
صحابہ کرام میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت تو مشہور ہے، آپ کی غیرت کے واقعات سے حدیث اورتاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ کوئی آدمی شریعت کے کسی بھی حکم کی خلاف ورزی کرتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ غصہ میں لال پیلے ہوجاتے، آپ کی غیرت ایمانی جوش مارنے لگتی،اور آپ ﷺ سے اجازت مانگتے کہ کیامیں ا س نافرمان کاکام ہی تمام نہ کردوں؟ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ رسول ﷺ نے ایک یہودی اور ایک مسلمان کے درمیان کسی تنازع کا فیصلہ فرمایا، وہ فیصلہ یہودی کے حق میں تھا، مسلمان کے خلاف تھا، مسلمان نے سوچا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ یہودی اورکفارکے مقابلہ میں سخت ہیں، اس لئے وہ میرے حق میں فیصلہ کریں گے، یہ سوچ کر اس نے یہودی سے کہا کہ چلو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سےفیصلہ کرواتے ہیں، دونوں آپ کے پاس گئے، اورپوراماجراسنایا۔ یہودی نے کہا کہ تمہارے نبی ﷺ نے فیصلہ فرمادیاہے، لیکن یہ ماننے کو تیارنہیں، یہ سن کر حضرت عمررضی اللہ عنہ کی غیرت ایمانی جوش مارنے لگی، مسلمان سے اس کی تصدیق کرائی، اندر کمر ےمیں تشریف لے گئے،تلوارلیکر آئے اور اس آدمی کا سر قلم کردیا اورکہا کہ جو نبی کا فیصلہ نہ مانے اس کا یہی فیصلہ ہوناچاہئے۔ (تفسیرابن کثیر:٢/٣۰١)
یہ غیرت ایمانی ہی تھی کہ صرف تین سو تیرہ مسلمان وہ بھی بے سروسامان،ایک ہزارمسلح کافروں پر بھاری پڑگئے۔تاریخ کے اوراق میں اسلام کےہر دورمیں حضرت عمر،حضرت علی،حضرت خالد بن ولید،حضرت حنظلہ اورحضرت حمزہ جیسے جانبازمجاہدین کا تذکرہ ملتاہے،حضرت عمر بن عبدالعزیز، حضرت محمد بن قاسم ،حضرت محمود غزنوی اورحضرت سلطان صلاح الدین ایوبی وغیرہم جیسے دلیروں اور بہادروں کے فتوحات سے تاریخ کی کتابیں روشن ہیں۔ انھوں نے محض اپنی ایمانی غیرت کی بناء پر مسلمانوں کی سربلندی کے لئے اپنے سے زیادہ طاقتورقوم سے ٹکرلے لی۔غیرت ایمانی اورحمیت اسلامی ہی کانتیجہ تھا کہ انھوں نے باطل کو سر جھکانے پر مجبورکردیا،اوراسلام کاجھنڈا بلند سے بلند ترہوا۔اسلام کی شان وشوکت اور ایمان کی طاقت وقوت کاچہاردانگ عالم میں ڈنکہ بج گیا۔
صوبہ اترپردیش کے فیض آبادضلع میں ایودھیا نامی شہر میں ١٥٢۸ء میں وہاں کے گورنرمیرباقی اصفہانی ؒ نےایک مسجد تعمیر کروائی، چوں کہ یہ مسجد مغل سلطنت کے پہلے بادشاہ محمد ظہیرالدین بابرؒ کے حکم پربنائی گئی تھی،اس لئے ان ہی کی طرف منسوب کرکے بابری مسجدنام رکھاگیا؛لیکن بدقسمتی سےساڑھے تین سوسال کے بعد١۸٥٥ء میں جب ہندوستان پر انگریزقابض ہورہے تھے اوران کے خلاف ہندومسلم متحدہورہے تھےتو انھوں ایک بدھسٹ نجومی کے ذریعہ ایک کہانی گھڑوائی کہ شری رام چندرجی کی جنم استھان(جائے پیدائش) اورشرمتی سیتاکی رسوئی (باورچی خانہ)بابری مسجد کے احاطہ میں ہے۔اس لیے ہندؤوں نے اس مقام پر پوجاکرناچاہا،یہیں سے اختلاف شروع ہوا۔ یہ اختلاف شدت اختیارکرگیا، حتیٰ کہ ١۹۹٢ء میں بابری مسجد کوشہید کردیاگیا۔عدالتی کارروائی کے مختلف مراحل سے گزرکر۹/نومبر٢۰١۹ء کو ملک کو عدالت عظمیٰ نے مسلم فریق کے سارے اورشواہدکو تسلیم کرنےاورہندوفریق کے جرم کو اجاگر کرنےکے باجودیہ زمین ہندؤوں کو رام مندربنانے کے لئے دیدی،اور اس کے بدلہ میں مسلمانوں کو ایودھیاہی میں پانچ ایکڑ زمین دئے جانے کاحکم صادر کیا۔
مسلمانوں کی غیرت دیکھئے کہ انھوں نے اس زمین کو قبول نہیں کیا۔ آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ، اور جمعیۃ علماء ہندا س معاملہ میں فریق تھے انھوں نے اس پیشکش کو کرٹھکرادیا؛ کیوں کہ یہ صرف ایک مسجدکامعاملہ نہیں تھا، بلکہ یہ شریعت اور غیرت کامسئلہ تھا۔ایک مسلمان کی غیرت کیسے گوارہ کرسکتی تھی کہ مسجدکی اصل جگہ مندر کے لئے دیدے اوراس کے بدلہ میں دوسری جگہ لے، یہ تو مسجد کا سوداہوا، جس کی نہ شریعت اجازت دیتی ہے اور نہ ایک زندہ انسان کا شعور۔لیکن کیاکہئے کہ عبداللہ ابن ابی ، اور میر جعفرومیر صادق کی طرح ہر دورمیں چندمنافق اوربے غیرت لوگ رہے ہیں۔جن کے اندرنہ انسانی غیرت ہوتی ہے اور نہ اسلامی حمیت ،اگر ہوتی ہے تو دو ٹکے کی شہرت اور دو چار روپئے کی رشوت ۔ بدقسمتی سے بابری مسجد کے معاملہ میں یہی ہوا، چندبے غیرتوں نے زمین قبول کرلی۔اس زمین پر مسجدکی تعمیر بھی شروع ہوگئی۔اسی پر بس نہیں؛ بلکہ شہر در شہر گھوم پھر کرپروگرام منعقد کیاجارہاہے،عوام کی ذہن سازی یعنی ایمانی غیرت کا سوداکیاجارہاہے۔ایسے پروگراموں میں مسجد میں لگائی جانے والی اینٹوں کا درشن کیاجاتاہے اور لوگوں سے چندہ اکٹھاکرتے ہیں۔اس میں چندعلماء کرام بھی شامل ہورہے ہیں، جواپنے اعمال سےامت کو غیرت ایمانی بیچنے کا سبق دے رہے ہیں۔افسوس کہ اس نام نہاد مولویوں کو معلوم نہیں کہ
وقت کے ساتھ بدلنا تو بہت آساں تھا
مجھ سے ہر وقت مخاطب رہی غیرت میری
بلندی کے لیے بس اپنی ہی نظروں سے گرنا تھا
ہماری کم نصیبی ہم میں کچھ غیرت زیادہ تھی
ہم تو اپنوں سے بھی بیگانہ ہوئے الفت میں
تم جو غیروں سے ملے تم کو نہ غیرت آئی
٭٭٭٭
Comments are closed.