خلافت کا خاتمہ اور فلسطین کا قضیہ

 

ڈاکٹر سلیم خان

غزہ میں فلسطینی جارحیت کے عروج کے درمیان  جمہوریہ ترکیہ کے قیام کی 100ویں سالگرہ آگئی ۔ آج سے سو سال قبل ترکیہ میں برپا ہونے والے انقلاب کا آغاز  نوجوانان ترک نے 3 جولائی 1908ء کو کیا  اور جلد ہی وہ  تحریک ملک  بھر میں پھیل گئی۔ اس کا  نتیجہ یہ نکلا کہ  سلطان کو 1876ء کے آئین کی بحالی کا اعلان کرکے پارلیمان کا اجلاس  طلب کرنا پڑا۔اس  آئینی دور کے اندر جب   1909ء کا ردعمل اس طرح  سامنے آیا کہ  31 مارچ کو  سلطان عبد الحمید ثانی کے دور کا خاتمہ کر کے  انہیں جلاوطن کر دیا گیا اور ان کے بھائی محمد پنجم کو تخت نشین ہوئے۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں قسطنطنیہ پر قبضہ کے 13 دن بعد 30؍ اکتوبر 1918ء کو معاہدہ مدروس کے ذریعہ سلطنت عثمانیہ کی تقسیم کا عمل  شروع کیا گیا اور بعد ازاں استنبول اور ازمیر پر اتحادیوں کا  قبضہ ترک قومی تحریک کا سبب بنا۔مصطفٰی کمال پاشا کی زیر قیادت جنگ آزادی کا آغاز بالآخرجمہوریہ ترکیہ کے قیام کی بنیاد بن  گیا۔مصطفٰی کمال کی زیر قیادت ترک قومی تحریک نے 23 اپریل 1920ء کو ترکی میں بیرونی قبضے کو تسلیم کرنے سے انکارکرنے کے ساتھ استنبول میں عثمانی حکومت  کو بھی مسترد کر دیا۔

 ترک انقلابیوں نے عوامی فوج کے ذریعے یونان، اٹلی اور فرانس کو  اناطولیہ سے نکال باہر کیا۔  معاہدہ سیورے کے نتیجے میں جو علاقے جمہوریہ آرمینیا کودئیےگئے تھے انہیں بھی دوبارہ حاصل کرلیا ۔ اس  کے بعد استنبول پر قبضہ کرنے کے بعد  یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ 17؍نومبر 1922ءتاریخ اسلام کے وہ  منحوس دن  آخری سلطان محمد ششم وحید الدین کو ملک بدر کرکے معاہدہ لوزان کے تحت 24 جولائی 1923ء کو باضابطہ طور پر ترک جمہوریہ کو تسلیم کر لیا گیا اور 3 مارچ 1924ء کو خلافت کے خاتمے کا اعلان  ہو گیا ۔  یہی وہ دورِ پرفتن تھا جب اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی گئی اور اب  وہ ایک عالمی فتنہ بن چکا ہے۔ اس سے قبل معاہدہ سیورے  کے ذریعہ  مشرق وسطیٰ میں عثمانی مقبوضات کو برطانیہ اور فرانس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس موقع پر برطانیہ نے انتہائی چالاکی و عیاری کے ساتھ فرانس سے سائیکوس-پیکوٹ نامی خفیہ معاہدہ کرکے شام حوالے کرکے فلسطین پر اپنا اقتدار قائم کرلیا  یعنی 101 سال قبلٰ 1922ء میں فلسطین پر برطانیہ کاتسلط  قائم ہو گیا تھا۔

 یوروپ اور امریکہ کے عیسائی اس وقت یہودیوں سے سخت نالاں ہونے کے سبب  ان سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے اس لیے  1925ء میں برطانوی سفیر نے یہودیوں کی فلسطین منتقلی میں حائل قانونی مشکلات کو تقریباً ختم کردیا۔ ان کو وہاں جانے کے لیے ترغیب دینے کی خاطر نہ صرف عبرانی کو سرکاری زبان کا درجہ دلوایا بلکہ عبرانی یونیورسٹی کے قیام  کی راہ بھی ہموار کی۔ یہودی نظام تعلیم ترتیب دے کر  یہودی مزدوروں کی یونین قائم کروائی۔  1917ء سے لے کر 1930ء تک  برطانیہ نے فلسطین پر یہودی قبضے کی راہ ہموار کرنے کے  لیے جو  اقدامات کیے  ان  سے ناراض ہوکر برطانیہ کے سابق وزیراعظم آرتھر بالفور کو فلسطینی  دورےکے موقع پر  سیاہ جھنڈے دکھائے گئے۔  ’بغاوت براق‘  نامی  اس احتجاج میں  250 افراد شہید ہوئے اور 3 مجاہدین آزادی کوسزائے موت  دی گئی۔

فلسطین کے اندریہ غم و غصہ کی لہر  اس لیے تھی کہ  وزیر خارجہ کی حیثیت سے  آرتھرجیمز بالفور نے 2 نومبر 1917ء کو برطانیہ میں  یہودی  سماج  کے سربراہ لائیونل والٹر راٹسچائلڈ کو خط لکھ کریہودیوں کو یورپ سے فلسطین میں بسانے کا منصوبہ پیش کیا  اور اس پر عملدرآمد بھی  کروایا ۔ اس کھیل کا اندازہ مندرجہ ذیل اعدادو شمار سے لگایا جاسکتا ہے۔   1918ء  میں  فلسطین کے اندر مسلمانوں کی آبادی 6 لاکھ 66 ہزار  تھی جبکہ یہودی  صرف 60 ہزار تھے۔ البتہ 1922ء میں یہودیوں کی تعداد 83 ہزار 724 تک پہنچ گئی جو 1931ء تک ایک لاکھ 74 ہزار 610 تک پہنچا دی گئی۔ پانچ برس بعد 1936ء میں یہ تعداد 3 لاکھ 84 ہزار 78 ہوگئی جبکہ  1948ء میں وہ  7 لاکھ 16 ہزار 700 تک پہنچ چکی تھی۔ یہ اعدادو شمار گواہ ہیں کہ کس طرح مصنوعی طور پر  یورپ سے  یہودیوں کو ڈھکیل کر فلسطین بھیجا گیا ۔ اس میں ہٹلر کے قتل عام کا بھی بہت بڑا حصہ ہے لیکن اس سے قبل 1934 میں امریکہ کے اندر یہودیوں کو بچانے کے لیے ایک  کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھاتاکہ مختلف ممالک میں ان کے نقل مکانی کو آسان کیا جاسکے مگر  یوروپ و امریکہ نے بڑی تعداد  ویزہ نہیں دیا۔  وہ اگرانہیں اپنے یہاں بسنے کی ا جازت دے دیتے  تو ہٹلر کے قتل عام کو ٹالا جاسکتا تھا۔

سرزمینِ فلسطین پر ایک طرف عالمی استعمار غلامی کا جال بچھا رہا تھا دوسری جانب 1920ء  میں معروف مجاہدِ آزادی  عزالدین القسام نے  تحفظ و  حریت  کی جنگ چھیردی تھی ۔1930ء کی دہائی میں آزادی کی یہ   جدوجہد  زور و شور سےجاری رہی ۔ اس سے گھبرا کر  2 نومبر 1935ء کو برطانوی فوج نےالقسام کو شہید کردیا ۔ حماس کا عسکری  شعبہ آج بھی  انہی سے منسوب  ہے۔1936ء میں اعلان بالفور کے خلاف فلسطینی عوام  نے 6 ماہ تک ہڑتال کی  مگر برطانوی استعمار نے اسے ناکام کردیا اور یہودی دہشت گردوں  کی پشت پناہی  کرتے رہے جیسے کہ اب کررہے ہیں۔ 22 جولائی 1940ء کو فلسطین میں یہودی دہشت گرد تنظیم ارگن نے بیت المقدس پر بمباری کی ۔ اسرائیلی ریاست قائم کردینے  کےبعد اس دہشت گرد تنظیم کو  سرکاری فوج میں شامل کرلیا گیا۔1948ء میں لیہی نامی یہودی دہشت گرد تنظیم نے دیر یاسین میں فلسطینی عربوں کا قتل عام کیا۔

 نام نہاد مہذب عالمی برادری اور اقوام متحدہ نے یہودی دہشت گردی کو روکنے کے بجائے 1947ء میں قرارداد 181 منظور کرکےفلسطین کے اندر غاصب  اسرائیل کی داغ بیل ڈال دی۔  امریکی دباؤ میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد نے 5.5 فیصد یہودیوں کو فلسطین کے 56 فیصد حصے کا مالک بنا دیا۔فلسطینیوں نے اس قرارداد کو مسترد کردیا اور آج تک  مخالفت کررہے ہیں۔ 14 مئی 1948ء کو  جب اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا  تو  ایک لاکھ سے زائد فلسطینی  ہجرت کرنے پر مجبور کردیئے گئے اور  ہزاروں  شہید ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال 14 مئی کو یوم نکبہ منایا جاتا ہے۔1964ء میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی زیرِ قیادت فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کا قیام عمل میں آیا ۔1967 میں جب نہر سویز کے مسئلے پر مصر اور اسرائیل کی جنگ چھڑی تو اسرائیل نے مصر کے تحت  غزہ کی پٹی اور صحرائے سینا کے علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا۔ اس کے ساتھ شام سے  گولان کی پہاڑیاں اور اردن سے مشرقی بیت المقدس کا علاقہ بھی چھین لیا۔اس چھ روزہ جنگ میں ایک لاکھ فلسطینیوں کو مہاجر بننا پڑا۔

اس جنگ کے بعد  1987  میں  فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت یعنی  ’انتفاضہ‘  کاغزہ میں حماس کو جنم ہوا۔یہ1920 کی دہائی میں قائم ہونے والی  اخوان المسلمون کی ایک شاخ ہے۔ اوسلو معاہدے کے تحت  اسرائیل اور پی ایل او ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر متفق ہو گئے۔ اسی معاہدے کی رو سے 1994 میں فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ پی ایل او اس معاہدے کے بعد ایک آزاد فلسطینی ریاست کی جانب  قدم بڑھا نے کے لیے مسلح جدوجہد سے دستبردار ہوگئی  مگر حماس اور ’اسلامک جہاد‘فلسطینی ریاست کے قیام کی خاطر مسلح جدوجہدکے موقف پر قائم رہی  جو اس کا قانونی حق ہے۔عالمی قوانین میں  ہر طرح سے استعماریت کاخلاف جدوجہد کا حق  تسلیم کیا گیا ہے۔   اس سے لاعلمی  ۷؍ اکتوبر کے حملے کی اوٹ پٹانگ  تاویل کرواتی ہے۔  غزہ کی تاریختھوڑی منفرد ہے۔  پہلی جنگ عظیم کے بعد وہ برطانوی فوجوں کے تسلط میں چلا گیا۔1949 سے1967 تک وہاں مصر کی عمل داری رہی پھر اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کر لیا جو 1994 تک برقرار رہا مگر  اوسلو معاہدے کے تحت اسے  فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کیا گیا۔

2004 میں جب  یاسر عرفات  کے انتقال ہوگیا تو  فلسطین میں ان کے  سیاسی خلا کوحماس  نے پُر کیا۔ اسرائیل نے حماس کی مزاحمت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر  2005 میں غزہ سے نہ صرف  اپنی فوجوں کو واپس بلا لیا بلکہ تقریباً نو ہزار اسرائیلی آباد کاروں کو بھی انخلا  کا حکم دے دیا۔ 2006  کے اندر  فلسطینی پارلیمانی انتخابات میں حماس نے نہ صرف پی ایل او سے زیادہ ووٹ حاصل کیے بلکہ دوگنا نشستوں پر  جیت درج کرائی۔ اس کے باوجود اسے  پی ایل او کے ساتھ الحاق کرنے پر مجبور کیا گیا۔ 2007 میں اسرائیل نے  پی ایل او کی کالی بھیڑ کے ذریعہ تختہ الٹنے کی کوشش کی جسے ناکام بنا دیا گیا۔ اس کے بعد سے  غزہ کی پٹی پر حماس کی حکمرانی ہے۔اسرائیل نے حماس سے خوفزدہ ہوکر  غزہ کا محاصرہ کر لیا اس لیے  ہیومن رائٹس واچ غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دیتی ہے۔یہودیوں نے کسی زمانے میں جس طرح وارسا  کے عقوبت خانوں کو توڑا تھا اور آج کل ہر کوئی اس کی ستائش کرتا ہے  اسی طرح ۷؍ اکتوبر کے دن ایک  غیر قانونی جیل کو توڑا گیا ۔ حماس کے اس حملے نے اسرائیل کے غرور کو نیست و نابود کردیا اور ہیکڑی نکال دی ۔ اب وہ  کھسیانی بلی کی مانند کھمبا نوچ رہا ہے۔ بے قصور بچوں اور خواتین کو ہلاک کررہا ہےلیکن اس طرح آزادی کے چراغ کو بجھانا ممکن نہیں ہے۔غزہ  کے مجاہدین آزادی پر یہ  شعر من و عن صادق آتا ہے؎

اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو                             تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

 

Comments are closed.