بی ایچ یو کے ہندو سنسکاراور طالبات کا جنسی استحصال

ڈاکٹر سلیم خان
اتر پردیش کے اندر ہندووں کا ایک مقدس شہر بنارس ہےجسے کاشی بھی کہا جاتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ماں گنگا کے بلانے پر اسی شہر کو انتخاب لڑنے کے لیے منتخب کیا ۔ اس طرح وہ وزیر اعظم کا شہر بن گیا۔گنگا نے تو مودی جی کو وزیر اعلیٰ سے وزیر اعظم بنادیا مگر انہوں نے نو سال کے اندر اس کا یہ حال کیا کہ مرکزی پولیوشن بورڈ کے مطابق اب گنگا کا پانی پینے تو دور نہانے کے قابل بھی نہیں رہا۔ مودی جی نے نہ صرف گنگا کو آلودہ ہونے سے نہیں بچا سکے بلکہ گنگا جمنی تہذیب کا بھی بھٹاّ بیٹھا دیا ۔ اس کے علاوہ ہندو شعائر کی بقاء کےلیے قائم ہونے والی 107سال پرانی بنارس ہندو یونیورسٹی کو بھی برباد کردیا ۔ بی ایچ یو کے احاطے میں کرمن بابا مندر کے قریب پچھلے دنوں ایک طالبہ کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ بنارس ہندو یونیورسٹی آئی آئی ٹی کی اس طالبہ کو نصف شب میں ہاسٹل کے قریب تین موٹر سائیکل سوار مردوں نے مبینہ طور پر چھیڑ چھاڑ کی۔ اس طالبہ کو بندوق کی نوک پر روکا گیا ۔ اس کو زبردستی چومنے کے بعد اسے کپڑے اتارنے پر مجبور کیا گیا اور اب تازہ الزام یہ ہے اس کی اجتماعی آبرو ریزی بھی گئی۔
بی جے پی کے دیش بھگت اس سے بھیانک حرکت منی پور میں کرچکے ہیں ۔ اب یہ کام مودی اور یوگی کے بنارس میں دوہرایا گیا ۔ سرکاری تحفظ اور سر پرستی کے سبب ان بدمعاشوں کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ اس نازیبا حرکت کی ویڈیو بھی بنانا شروع کردی گئی۔ ہندو راشٹر کے قیام سے قبل وہ اس طرح اپنی جھلکیاں دِ کھا رہا ہے۔اس ظلم کے خلاف یو نیورسٹی کے 2500 طلبہ نے باالمقابل راجپوتانہ ہاسٹل احتجاج کرکے اترپردیش کا نام روشن کیا مگر مودی جی کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اسرائیل کے ساتھ چند گھنٹوں کے اندر یکجہتی کا اظہار کرنے والے مودی نے ان طالبات سے ہمدردی میں ایک لفظ نہیں کہا۔ کنگنا رناوت کی فلم پر رونے کی اداکاری کرنے والے یوگی کی آنکھ میں اس پرایک آنسو کا قطرہ نہیں آیا ۔خواتین پر مظالم کے حوالے سے یہ ہے بی جے پی کا ’چال ، چرتر اور چہرا‘۔
خواتین کے استحصال کی بابت بنارس ہندو یونیورسٹی کا ریکارڈپہلے ہی بہت خراب رہا ہے۔ چار سال قبل یعنی مودی یُگ میں بی ایچ یوکے پروفیسر ایس کے چوبے پر کئی طالبات نے جنسی استحصال، فحش حرکتیں، نازبیا سلوک اور تبصرہ کرنے کے الزامات لگائے تھے۔ اس تنازع کی ابتدا اس وقت ہوئی جب اکتوبر 2018 میں شعبہ حیوانیات کی بی ایس سی کے طلبہ و طالبات نے وی سی کو خط لکھکر پروفیسر چوبے پر ایک ایجوکیشنل ٹرپ کے دوران طالبات کے ساتھ جسمانی چھیڑخانی اور فحش حرکتیں کرنے کا الزام لگاکر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا ۔اس سنگین شکایت کی تفتیش کا کام آئی سی سی کو سونپاگیا اور اس کے بعد پروفیسر چوبے کوب معطل بھی کر دیا گیا لیکن دسمبر 2018 میں کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد انتظامیہ نے ان پر کوئی خاص کارروائی نہیں کی۔اگلے سال غالباً انہوں نے مودی کے تعمیر کردہ گنگا گھاٹ میں ڈبکی لگا کر اپنے سارے پاپ دھولیے اس طرح اگست کے اندر ان کو دوبارہ تعلیمی ذمہ داری پر بحال کر دیا گیا۔
ستمبر 2019 میں طلباء نے پروفیسر چوبے کی بحالی پر مظاہرہ کیا ۔ ملک کے ایک قدیم اور مشہور مرکزی یونیورسٹی میں، لڑکیوں کو چھیڑنے کے خلاف اس احتجاج میں کیمپس کے قریب دروازے کے سامنے لڑکیاں دھرنے پربیٹھ گئیں۔ اس سے آ بگولا ہوکر یوگی انتظامیہ طاقت کا استعمال کیا اور جنسی استحصال کے خلاف مظاہرہ کرنے والی بہادر بیٹیوں پر وحشیانہ لاٹھی چارج بھی کیا ۔ مودی اور یوگی اس طرح خواتین کا احترام کرتے ہیں ۔سیاستدانوں کے علاوہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو اتنی بھی شرم نہیں تھی کہ وہ لڑکیوں سے ملاقات کرکے ان کے مطالبات و مسائل کو سن کران کا حل تلاش کرتے ۔ طالبات کا پہلا مطالبہ کیمپس میں 24 گھنٹے سکیورٹی کا تھا اس کے علاوہ ہوسٹل کے آنے جانے والے راستے پر مناسب روشنی انتظام ، کیمپس میں خواتین سکیورٹی اہلکار کی تعیناتی اورسی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کی بھی مانگ کی گئی تھی۔ بنارس ہندو یونیورسٹی میں اس وقت طالبات پر لاٹھی چارج کرنے کے بجائے ان کے مطالبات کو تسلیم کرلیا جاتا تو حالیہ واقعہ رونما نہیں ہوتا لیکن یوگی جی تو چاہتے ہیں یونیورسٹی کو تعلیم گاہ نہ رہے بلکہ آر ایس ایس کا اکھاڑہ بن جائے۔
طالبات نے بی ایچ یو کے وائس چانسلر گریش چندر ترپاٹھی کی بے حسی کے خلاف ان کی بھی برخاستگی کا مطالبہ کیا ۔ یہ احتجاج 26 گھنٹے تک چلا اور اس کے بعد وی سی نے یونیورسٹی کی کونسل کے ذریعہ آخری فیصلہ لئے جانے تک پروفیسر چوبے کو چھٹی پر بھیج دیا۔ بی ایچ یو انتظامیہ نے ایک بار پھر اس معاملے کو یونیورسٹی کی کونسل میں رکھنے کی یقین دہانی کرائی ۔اس وقت آئی سی سی کے ایک رکن نے رازداری کی شرط پر انڈین ایکسپریس کو بتایا تھا کہ آئی سی سی نے اپنی رپورٹ میں صاف کہا تھا کہ پروفیسر چوبے ‘ری پٹ آفینڈر ‘ یعنی عادتاً بار بار ایسا کرنے والے شخص ہیں، جو پڑھانے کے لئے ٹھیک نہیں ہیں لیکن جب سیاّں بھئے یوگی تو پھر ڈر کاہے کا۔ یوگی بابا کا بلڈوزر اپنوں کے لیے نہیں پرایوں کی خاطر ہے۔ ایک سال کے بعد پروفیسر چوبے کےمعاملے کی تفتیش کرنےوا لی آئی سی سی نے پروفیسر چوبے کو قصوروار پایا اور ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی سفارش کی ۔اس کے بعد وی سی راکیش بھٹناگر کی صدارت میں دہلی کے اندر 27 ستمبر کو ایک میٹنگ ہوئی ۔ اس میں پروفیسر چوبے کو کوئی سزا تو نہیں دی گئی مگر سبکدوش کردینے کا فیصلہ کیا گیا۔
آئی سی سی کی اس سفارش پر پہلے ہی عمل کرکے حیوان صفت پروفیسر چوبے کو سخت سزا دی جاتی تو نہ کوئی دوبے ایسی حرکت کرنے کی جرأت کرتا اور نہ طلبہ و طالبات کو احتجاج کرکے یوپی کا نام روشن کرنے کی زحمت کرنی پڑتی ۔ یوگی جی اگر کنگنا کی فلم دیکھنے یا ڈاکٹر کفیل خان جیسے بے قصور لوگوں کو پریشان کرنے کے بجائے خواتین پر مظالم کرنے والے مجرمین کی جانب توجہ فرمائیں تو صوبے کی حالت بہتر ہوسکتی ہے۔ ایک طرف بی ایچ یو میں خواتین کا استحصال ہوتا ہے اور دوسری جانب امسال ’منوسمرتی‘ پر ایک ریسرچ پروجیکٹ کے تحت سنسکرت ودیا دھرم سائنس فیکلٹی کا ’دھرم شاستر-میمانسا ڈیپارٹمنٹ‘21 فروری کو ’منوسمرتی کا ہندوستانی سماج پر اطلاق‘ نامی پروجیکٹ کے لیے فیلوشپ کا اشتہار دے دیتا ہے۔درج فہرست ذات یعنی دلت طبقہ کے طلبا اس پعجکٹ کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو متعلقہ شعبہ صدر پروفیسر شنکر کمار مشرا ایک دلچسپ انکشاف فرما دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں ہے جب منوسمرتی پڑھائی جا رہی ہے۔ جب سے یہ شعبہ بنا ہے، تبھی سے منوسمرتی سمیت کئی صحیفے کورس میں شامل ہیں اور پڑھائے جاتے رہے ہیں۔
پروفیسر شنکر کا کہنا ہے کہ ان کے شعبہ میں سبھی طبقہ کے طلبا موجود ہیں اور ڈگری لیتے ہیں۔ اس کے بعد طلبا پی ایچ ڈی بھی کرتے ہیں۔ منوسمرتی میں اچھے اخلاقیات کے لیے سبق ہے اور اس لیے ریسرچ کی ضرورت ہے۔ پروفیسر شنکر کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو سے تین دہائی میں سماج کے اندر انسانیت کا زوال ہوا ہے۔ منوسمرتی میں ایسا کوئی بھی واقعہ نہیں ملا جو ناموافق ہو۔ پھر بھی اگر ایسا لگتا ہے کہ منوسمرتی کی چیزیں آج کے مطابق مناسب نہیں ہے، تو میں اپنے پروجیکٹ میں اصلاح کے لیے درخواست دوں گا۔پروفیسر شنکر کا یہ بیان پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ یاتو انہوں نے منو سمرتی کو پڑھا ہی نہیں یا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ۔ منوسمرتی کے مطابق عورت کوکمزور اور بے وفا سمجھا گیا ہے اوراس کا ذکر ہمیشہ حقارت کے ساتھ آیا ہے۔ جھوٹ بولنے کو عورت کا ذاتی خاصہ بتایا گیا ہے۔
منو سمرتی کے مطابق عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ بچپن میں باپ کے اختیار میں رہے ، جوانی میں شوہر اور شوہر کی وفات کے بعد بیٹوں کے اختیار میں رہے ۔ اس ضابطۂ اخلاق کے مطابق اگر شوہر اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تو وہ اپنی بیوی کو کسی اور مرد سے تعلقات پیدا کرنے کو کہہ سکتا ہے تا کہ وہ اولاد پیدا کرسکے ، یہ عورت دوسرے مرد سے صحبت کرے گی ،بچہ جنے گی ،لیکن بیوی وہ اس پہلے شوہر کی ہی رہے گی ۔ اسی کے گھر میں رہے گی اور پہلا شوہر ہی نان و نفقہ کا ذمہ دار ہوگا ۔ان تعلیمات کے اندر اگر پروفیسر صاحب کو کوئی نا مواقف بات دکھائی نہیں دیتی تو ان کے دماغ کا علاج ہونا چاہیے۔ اس احمقانہ دلیل کے خلاف بھی بی ایچ یو کے طلبا نے احتجاج کیا۔ مظاہرین میں سے ایک اجئے بھارتی کا کہنا تھا کہ ملک منوسمرتی سے نہیں بلکہ آئین سے چلتا ہے۔ اس میں سبھی کو برابری کا حق دیا گیا ہے، جبکہ منوسمرتی میں ذات اور اونچ-نیچ کی باتیں موجود ہیں۔ آئین سبھی کو تعلیم و برابری کا حق دیتا ہے، جبکہ منوسمرتی میں ایسا نہیں ہے۔ اس لیے آئین کے مطابق اس طرح کا ریسرچ پروجیکٹ نہیں چلایا جانا چاہیے۔بی ایچ یو یا یوپی میں مسئلہ صرف پروجکٹ تک محدود نہیں بلکہ زہریلی ذہنیت کا ہے۔ یونیورسٹی سمیت معاشرے کے اندر خواتین اور طالبات کے جنسی استحصال کا بنیادی سبب یہی غیر انسانی تعلیمات ہیں جنہیں مقدس بناکر پیش کیا جارہا ہے۔
Comments are closed.