امام الہند اور ترجمان القرآن
۱۱؍ نومبر یو م تعلیم کی منا سبت سے

پرو فیسر شکیل احمد قا سمی
چیرمین، فاران فائونڈیشن انڈیا
M- 9431860419
اما م الہند مولاناابو الکلام آزاد، ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جس کا طرزِ فکر بھی جداگانہ تھا اور طرزِ عمل بھی دوسروں سے الگ۔ وہ فطری طور پر تخلیقی ذہن کے آدمی تھے۔ تقلیدی فکر خواہ کسی بھی حوالے سے ہو، ان کی جودتِ طبع سے قطعاً میل نہیں کھاتی تھی۔ وہ اپنی راہ خود نکالنے اور اپنی دنیا خود تعمیر کرنے کے قائل تھے۔ مذہبی عقائد کے حوالے سے اپنے اس مزاج کو بیان کرتے ہوئے وہ خود لکھتے ہیں کہ ’’عام حالات میں مذہب انسان کو اس کے خاندانی ورثہ کے ساتھ ملتا ہے اور مجھے بھی ملا مگر میں موروثی عقائد پر قانع نہ رہ سکا۔ میری پیاس اس سے زیادہ نکلی، جتنی سیرابی وہ دے سکتے تھے۔ مجھے پرانی راہوں سے نکل کرخود اپنی نئی راہیں ڈھونڈنی پڑیں‘‘ (مولانا ابوالکلام آزاد: شخصی پہلو)۔ وہ اتحادِ قوم و ملت کے جتنے بڑے علمبردار اور جس قدر اجتماعیت پسند تھے ، طرزِ فکر و عمل میں وہ اتنا ہی زیادہ انفرادیت پسند تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ انفرادیت پسندی میں بھی وہ اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے تھے۔ وہ ہر چیز میں ’’اپنی نئی راہ ڈھونڈنے‘‘ کے ذوق کے اسیر ضرور تھے لیکن یہ اسیری ’’تلاشِ حق‘‘ کی راہ میں ان کے لئے کبھی رُکاوٹ نہیں بنی۔ منزل کی تعیین میں وہ قرآن و حدیث کے رہنما اصول کے ہی پابند نظر آتے ہیں۔ ان کی سلامت روی اور اعتدال پسندی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ امتیاز کو پانے کی کوشش میں انہوں نے کبھی اعتبار مجروح نہیں ہونے دیا۔ سیاست کے متعلق عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اس میدان میں آنے کے بعد انسان اگر بدنام نہ ہو، تو پہلے جیسی نیک نامی بھی برقرار نہیں رہتی۔ اس معاملے میں بھی مولانا ابوالکلام آزاد دوسروں سے مختلف واقع ہوئے ہیں۔ ا نہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ سیاست میں گزارا لیکن اس کے باوجود سیاست ان کی نیک نامی پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوسکی۔ اپنے بعض سیاسی نظریات اور فیصلے کی وجہ سے وہ ناقدین کے معتوب ضرور ہوئے، مگر ان کے کردار اور اخلاص پر کسی ٹھوس بنیاد پر، انگلی اُٹھانے کی ہمت ان کے مخالفین کو بھی نہیں ہوئی۔
مولانا آزاد ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ بیک وقت وہ سیاست کے ماہر بھی تھے اور خطابت کے رمز شناس بھی۔ وہ اگر صحافت کی فنی باریکیوں سے واقف تھے تو قرآن و حدیث کی معنوی لطافت سے بھی آشنا تھے۔ ذوقِ ادب اگر ان کی گھٹی میں تھا تو فنونِ لطیفہ سے آگہی میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ ساری خوبیاں ان کے اندر اس قدر موجود ہیں کہ یہ فیصلہ کرپانا مشکل ہے کہ ان کی شخصیت کا امتیازی پہلو کیا ہے؟ وہ اگر سیاست کے اسٹیج پر ہیں تو مہاتما گاندھی، سردار پٹیل اور پنڈت نہرو جیسے قدآور رہنماؤں کے لئے قابلِ رشک ہیں۔ اگر خطابت کے ممبر پر ہیں تو ایسے خطیبانہ رنگ و آہنگ کی بنیاد ڈال رہے ہیں جو نہ پہلے کسی کے حصہ میں آیا تھا اور نہ ان کے بعد کسی کو میسر ہوسکا۔ ایسا خطیبانہ اسلوب جس کی تخلیق بھی انہوں نے کی، پروان بھی انہوں نے چڑھایا اور دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے خود اپنے ساتھ لے کر چلے بھی گئے۔ صحافت کے میدان میں قدم رکھا، تو ان کی صحافت بامعنی اور بامقصد صحافت کا استعارہ بن گئی اور ’’الہلال‘‘ و ’’البلاغ‘‘ کے جامے میں اردو صحافت کے اعلیٰ نمونے کی حیثیت سے زندہ و جاوید ہوگئی۔ قرآن کا ترجمہ و تفسیر لکھنے کی ٹھانی ، تو ’’ترجمان القرآن‘‘ کے نام سے ایسا شاہکار اپنے پیچھے چھوڑ گئے جس پر ریسرچ اسکالرز آج بھی انگشت بدنداں ہیں۔
مولانا آزاد کے فکری رجحان کو سمجھنے کے لئے ترجمان القرآن سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں ہو سکتا۔یوں تو ’’ہر تحریر ، صاحب تحریر کی فکری جہت کو متعین کرتی ہے ‘‘ کے اصول کے مطابق ان کی ساری ہی تحریریں ان کے طرز فکر کو سمجھنے میں مددگار ہو سکتی ہیں ، مگر ترجمان القرآن اس بنا پر ممتاز ہے کہ مختلف چیزوں کے متعلق ان کے افکار و خیالات یہاں یکجا ہو گئے ہیں ، جو دوسری کسی اور کتاب میں نہیں ہیں اور نہ وہاں یہ بات ممکن تھی ، اس لئے کہ دوسری تمام کتابیں کسی نہ کسی خاص غرض کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہیں ، اس لئے ان میں اسی خاص غرض سے متعلق افکار ونظریات ملنے فطری ہیں جبکہ ترجمان القرآن ، قرآن پاک کی مختلف آیات کا ترجمہ و تفسیر ہے جس میں آیات کے تفسیر کے ضمن میں اپنے خیالات پیش کرنے کا پورا موقعہ میسر آیا اور انہوں نے بھی دل کھول کر اپنے منفرد مگر معتدل نظریات کے موتی لٹائے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی تنگی اور بخالت کو روا نہیں رکھا ۔ خدائی کا تصور کیا ہے ؟ خدا پر ایمان لانے کے کیا تقاضے ہیں ؟ انسانی برادری کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھنا چاہئے ؟ مخلوق کا اپنے خالق کے ساتھ کیسا تعلق ہونا چاہئے ؟ کائنات اور خالق کائنات کے آپسی رشتے کی نوعیت کیا ہے ؟ تعلیم کا مقصد اور حصول تعلیم کی غرض و غایت کیا ہے ؟ ان تمام حقائق سے متعلق مولانا آزاد کے نظریات کی تصویر ہمیں ترجمان القرآن کے آئینے میں ہی نظر آ سکتی ہے ، دوسری کتابوں میں نہ اس کی گنجائش ہے اور نہ تاب۔ ہمارے اس خیال کی تصدیق ایک اقتباس سے ہو سکتی ہے جو مولانا آزاد کی معرکۃ الآرا تصنیف ترجمان القرآن کے سورۂ فاتحہ کی تفسیر سے ہے :
’’سورۂ فاتحہ ایک دعا ہے۔ فرض کرو ایک انسان کے دل و زبان سے شب و روز یہی دعا نکلتی رہتی ہے، اس صورت میں اس کے فکر و اعتقاد کا کیا حال ہوگا؟ وہ خدا کی حمد و ثنا ء میں زمزمہ سنج ہے، لیکن اس خدا کی حمد میں نہیں جو نسلوں، قوموں اور مذہبی گروہ بندیوں کا خدا ہے بلکہ اس ’رب العالمین‘ کی حمد میں جو تمام خلقت کا پروردگار ہے اور اس لئے تمام نوعِ انسانی کے لئے پروردگاری اور رحمت رکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے: صرف تیری ہی ایک ذات ہے جس کے آگے بندگی اور نیاز کا سر جھک سکتا ہے اور صرف تو ہی ہے جو ہماری ساری درماندگیوں اور احتیاجوں میں مددگاری کا سہارا ہے۔ وہ اپنی عبادت اور استقامت دونوں کو صرف ایک ہی ذات کے ساتھ وابستہ کردیتا ہے اور اس طرح دنیا کی ساری قوتوں اور ہر طرح کی فرمانروائیوں سے بے پروا ہوجاتا ہے۔ اب کسی چوکھٹ پر اس کا سر نہیں جھک سکتا۔ اب وہ کسی قوت سے ہراساں نہیں ہوسکتا۔ اب کسی کے آگے اس کا دستِ طلب دراز نہیں ہوسکتا۔‘‘
ترجمان القرآن دراصل معتدل اور متوازن تفسیر کے روایتی تسلسل کی ایک کڑی ہے، جس کا سرا حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے ہوتا ہوا ابن قیم اور علامہ ابن تیمیہ سے جاملتا ہے۔ ہر دور اور ہر زمانے میں علماء نے قرآن کی تفسیر لکھی ہے۔ حد یہ ہے کہ غیرمسلموں نے بھی اس فن میں طبع آزمائی کی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اسلامی لائبریریاں تفسیری تصانیف سے بھری پڑی ہیں لیکن اس کثرت کے باوجود اسلامی کتب خانوں میں ایسی تفسیر کی قلت نمایاں طور پر نظر آتی ہے جس میں بقول سید سلیمان ندوی: ’’عقل و نقل کی پر احتیاط آمیزش ہو، جس میں اگر روایتیں ہوں تو وہ بھی روایت و درایت سے پوری اور عقلیات ہوں تو افلاطون اور ارسطو کی پیروی سے آزاد‘‘۔ گنتی کی چند تفسیریں ایسی ہیں جو اس معیار پر کھری اُترتی ہیں۔ انہی چند تفسیروں کے درمیان ترجمان القرآن اپنا منفرد مقام رکھتی ہے۔ خانوادۂ شاہ ولی اللہ نے اسلامی ہند میں قرآن کی مستند و معتدل تفسیر نویسی کی جس روایت کا آغاز کیا تھا، مولانا آزاد کی ترجمان القرآن اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ ترجمان القرآن دراصل ایک تحریک ہے جس کا مقصد لوگوں میں قرآنی تعلیمات کو عام کرنا اور غفلت میں پڑے ہوئے مسلمانوں کو قرآنی فکر سے قریب کرنا ہے، کیونکہ مولانا آزاد کا اعتقاد یہ تھا کہ قرآن ہی وہ واحد نسخۂ شفا ہے جس میں زوال آمادہ مسلم قوم کی بیماری کا علاج چھپا ہوا ہے۔ سید سلیمان ندویؒ اپنے مخصوص ستائشی الفاظ میں اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں: ’’مصنف ترجمان القرآن کی یہ دیدہ وری داد کے قابل ہے کہ انہوں نے وقت کی روح کو پہچانا اور اس فتنہ فرنگ کے عہد میں اسی طرز و روش کی پیروی کی جس کو ابن تیمیہ اور ابن قیم نے فتنہ تاتار میں پسند کیا تھا اور جس طرح انہوں نے اس عہد کے مسلمانوں کی تباہی کا راز فلسفۂ یونان کی دماغی پیروی کو قرار دیا۔ اسی طرح اس عہد کے مسلمانوں کی بربادی کا سبب ترجمان القرآن کے مصنف نے فلسفۂ یونان و فرنگ کی ذہنی غلامی کو قرار دیا اور نسخۂ علاج وہی تجویز کیا کہ کلام الٰہی کو رسولؐ کی زبان و اصطلاح اور فطرت کی عقل اور فلسفہ سے سمجھنا چاہئے۔‘‘ (مولانا ابوالکلام آزاد: بحیثیت مفسر و محدث)۔
ترجمان القرآن کا تعارف، اس کی خصوصیات اور دوسری تفاسیر کے درمیان اس کے امتیاز پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی رقم طراز ہیں : ’’مولانا آزاد کی تفسیر ترجمان القرآن جو اپنی معنوی خصوصیات اور تفسیری نکات پر ایک گراں قدر علمی شاہکار ہے۔ اس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا آزاد نے اپنے عمیق علم، وسیع مطالعہ اور گہرے فکر و تدبر کے ساتھ اپنی تفسیر میں خدا کے مقدس کلام کی بہترین ترجمانی کی ہے اور ’الہلال ‘والے مولانا ابوالکلام آزاد نے قرآن کا ترجمہ ایسے الفاظ میں کیا جسے معمولی اردو جاننے والا بھی سمجھ سکتا ہے اور ہدایت حاصل کرسکتا ہے۔ خصوصاً مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تفسیر ترجمان القرآن میں مختلف آیاتِ قرآنی پر جو نوٹس (Notes) دیئے ہیں، وہ اپنی گہرائی اور گیرائی کی مثال آپ ہیں۔ نوٹس کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مولانا آزاد نے آیاتِ قرآنی پر تفسیر کے پورے ذخیرے کو کھنگالا ہے اور تمام مفسروں کی تحریروں کو سامنے رکھ کر وہ نوٹس تیار کئے ہیں او رلمبی بحثوں اور طویل مطالب کو چند الفاظ ا ور مختصر جملوں میں ادا کیا ہے، جو مولانا کی تحریر کا اعجاز ہے…‘‘
قدرت نے مولانا آزاد علیہ الرحمہ کی ذاتِ گرامی میں فکری اعتدال، علمی و تحقیقی ذوق اور بالغ نظری نیز کلامِ الٰہی کے رموز و اسرار سے آگاہی کے معاملے میں بڑی فیاضی سے کام لیا تھا۔ ترجمان القرآن کے اوراق اس کے شاہد ہیں۔ تشریحات اور نوٹس سے قطع نظر مولانا نے بعض مقامات پر ترجمہ ہی میں سلف کا بعض ایسا نادر قول اپنایا ہے کہ بے ساختہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس حقیقت تک فہم کی رسائی ان ہی کا حصہ تھا۔
ترجمان القرآن کے تعلق سے مندرجہ ستائشی تبصرہ اس لئے کافی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ حضرات اردو زبان و ادب کی فنی باریکیوں سے اچھی طرح واقف ہونے کے ساتھ فن تفسیر پر ماہرانہ نظر بھی رکھتے ہیں اور محتاط لب و لہجہ اور معروضی انداز و اسلوب کی وجہ سے ان حضرات کا تبصرہ کسی عقیدت مند کے بجائے ایک نقاد کا تبصرہ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔
قرآن کریم کتاب ہدایت ہے، اس کا مقصد نزول اللہ کے بھٹکے ہوئے بندوں کو سیدھے راستے پر لانا، گم کردۂ راہِ انسانیت کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنا ہے۔ یہ سچ ہے تو تفسیر نویسی کا بہترین نہج وہی ہوسکتا ہے جس میں قرآن کریم کے دعوتی اور ہدایتی پہلو کو نمایاں اور اُجاگر کیا جائے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تفسیر میں اسی نہج کو اپنایا ہے۔ انہوںنے قرآن کی دعوتِ فکر و عمل پر زور دیا ہے اور اپنی تحریر میں زور پیدا کرنے کے لئے اس خطیبانہ اسلوب کا سہارا لیا ہے جو مولانا آزاد کی خصوصیت اور ان کی تحریروں کا غالب عنصر ہے۔
ایک طرف قرآن کریم کا خطیبانہ آہنگ و اسلوب، دوسری طرف مولانا آزاد کا مقررانہ رنگ و انداز، دونوں نے مل کر ترجمان القرآن کو ایسا دوآتشہ کردیا ہے کہ وہ صحیح معنوں میں ’’ازدل خیزد بر دل ریزد‘‘ کی اعلیٰ مثال بن گئی ہے۔ ترجمان القرآن کا خطیبانہ اسلوب نگارش اس تفسیر کے امتیاز و انفرادیت کا دوسرا پہلو ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ قرآن کریم کتابِ ہدایت ہے۔ یہ انسانیت کے لئے ایک پیغامِ رشد و فلاح ہے۔ یہ طب و سائنس کی کتاب نہیں ہے، اس لئے سائنسی مسلمات کو قرآن سے ثابت کرنا یا طبی اصولوں کے لئے قرآن سے دلائل فراہم کرنا اور ان مقاصد کے حصول کے لئے قرآن پاک کے معانی میں بے جا کھینچ تان کرنا غیرمناسب ہے۔ مولانا آزاد نے اپنی تفسیر میں نہ اس قسم کے نظریات کو جگہ دی ہے اور نہ ہی وہ اس کے قائل نظر آتے ہیں۔ مولانا علی میاں ندوی ایک ذاتی ملاقات کے حوالے سے اس سلسلے میں ان کا نظریہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مولانا کا خیال تھا کہ ان جدید نظریات اور انکشافات کو قرآن مجید میں داخل کرنے میں اور قرآن مجید سے ان کی تطبیق کرنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے، اس لئے کہ سائنس ترقی پذیر اور تغیرات کو قبول کرنے والا ہے اور اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ نظریات و تحقیقات اسی طرح مقبول و مسلم رہیں گی جیسی ابھی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے طنطاوی جوہری کی تفسیر پر بھی تنقید کی جو اس طرزِ تفسیر کا خاص نمونہ ہے، اور اس میں معلوماتِ جدیدہ کو بڑی فیاضی کے ساتھ کتاب میں شامل کرلیا گیا ہے۔‘‘ (’’پرانے چراغ‘‘۔ حصہ دوم)
جو لوگ تفسیر کے حوالے سے یہ تصور رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی تفسیر وہی ہے جو امام جریر طبری (م- ۳۱۰ھ) کی عظیم تفسیر (جامع البیان) کی طرح (۳۰) ضخیم جلدوں میں ہو یا کم از کم امام فخر الدین رازی (م- ۶۰۶ھ) کی تفسیر (مفاتیح الغیب المعروف بہ تفسیر کبیر) کی طرح آٹھ جلدوں میں ہو، تو انہیں ترجمان القرآن سے مایوسی ہوگی۔ اس لئے کہ یہ ان تفسیروں کی طرح ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی نہیں ہے۔ یہ آسان اور عام فہم انداز میں لکھا ہوا قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کی تفسیر ہے جس میں الفاظ کے پھیلاؤ سے گریز کرتے ہوئے قرآن کریم کے نکات کو مختصر مگر جامع تفسیری نوٹس میں سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ مولانا آزاد سے پہلے ، ان کے عہد میں اور بعد میں بھی علماء نے اس سلسلے میں کامیاب کوششیں کی ہیں جس سے لوگوں کو بہت فائدہ پہونچا ہے ، جو قابل قدر اور قابل تحسین ہیں۔
Comments are closed.