نظام و نصاب کی افادیت

مولانامحسن علی
صدرجمعیۃ علماء گوونڈی
شروع سے اب تک تمام قسطوں کا خلاصہ یہی ہے کہ خیر القرون سے علماء نے وراثتِ نبوی کو اپنی کل متاع سمجھتے ہوئے اس کو دوسری نسلوں تک منتقل کرنا اپنے اوپر فرض کر لیا، پھر اہلِ کتاب کی دسترس سے دور ایک ایسا مرکز تیار ہوا جہاں دینی و فکری تجدید ہوتی رہے اس کو غزوہِ ہند کا علمی باب کہ سکتے ہیں، مگر جب انگریزوں کے منحوس قدم مشرق کی سرزمین پر پڑا اس وقت سے علماء میں یہ احساس پیدا ہوگیا کہ دراصل یہ مال و دولت سے زیادہ کسی اور شئے کے لئے یہاں آئیں ہیں، پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے علاقے کو جہاں مالی اعتبار سے قلاش کردیا وہیں قرآن مجید کو جلایا علماء کو سولی پر لٹکایا اور ہزاروں مدارس کو ڈھا دیا اسلئے کہ حریتِ کا آب صافی یہیں سے نکلتا ہے، مزید انگریزوں نے مشنریز اور مستشرقین کی سرپرستی کی اس کے علاوہ لارڈ میکالے کے نصاب کو نافذ کیا اسی کا اثر تھا کہ کسی زمانے میں مسلم یونیورسٹی میں بھی اسلام کا مزاق اڑایا جاتا تھا، دوسری طرف علماء کو بھی احساس ہو گیا کہ انکا مقابلہ اس حزب شیطان سے ہے جس نے ہر زمانے میں رشد و ھدایت کو روکنے کا کام کیا ہے اس لئے مدارس کی سرپرستی جو اب تک ریاست کرتی تھی اس کی زمہ داری علماء نے اپنے سر لے لی، دستِ سوال دراز کرنے کی ذلت کو خدمتِ دین کے نام پر فخریہ قبول کیا اس تواضع کے سبب انہیں غریب عوام نے اپنے گاڑھے پسینے کی بابرکت کمائی دی جس سے چہار سو مدارس کا نظام پھیل گیا، بدلے میں انھوں یہ نہیں چاہا کہ ہمارے بچوں کو ڈاکٹر انجینئر بناؤ بلکہ وہ بھی جانتے تھے کہ ان مدارس کا مقصد دینی تعلیم کی بقا و اشاعت ہے، شروع میں نصاب میں کچھ ایسے علوم بھی شامل تھے جن سے کچھ روزگار وابستہ تھا جیسے حساب و طب مگر اسپلائزیشن کے بغیر محض ان معلومات کا کوئی خاص نفع نہیں تھا، اور یہ یونانی طریقۂ علاج تھا جس کی مانگ مسلسل کم ہوتی جارہی تھی وہیں مغرب اس میدان میں بھت آگے نکل چکا تھا اور معاشرے میں اس کی موٹی کمائی کی وجہ مانگ بڑھ گئی تھی، مزید کسی کے زمہ ایسا کام دیا جائے جو اس کا ماہر نا ہو خود ایک طرح کا ظلم ہے اس کے لئے جہاں مستقل جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی وہیں علی گڈھ سے روابط استوار رہے، ایسا نہیں ہے کہ نصاب کوئی منصوص شئے ہے بلکہ وقتاً فوقتاً اس میں اصلاح ہوتی رہی ہے مگر تجدد پسند طبقہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسے ایک سیکنڈری سکول کی طرح کا ادارہ بنا کر طلبائے علومِ نبوت کو کچھ دینیات پڑھا کر اعلی تعلیم کے لئے یونیورسٹی کی طرف ہانک دیاجائے، اس سے یہ ہوگا کہ اچھی ڈگری اور نوکری مل جائے گی مگر حفاظتِ دین کا کام جو ان مدارس کا اصل مقصود ہے ہرگز حاصل نہیں ہوگا گویا علماء اس دیوار کی مرمت پر معمور ہیں جس کے نیچے یتیموں کا خزینہ دفن ہے جسے انکے صالح والد نے رکھا ہے!
جس وقت ہندوستان میں شیخ الہند بابائے قوم لانچ کر رہے تھے اسی وقت مسلمانوں کے لئے ایک عدد امیر الہند کی بھی ضرورت تھی اور اس کے لئے آپ کا انتخاب ابو الکلام آزاد تھے، ساتھ میں ایسی جماعت کی ضرورت تھی جو اسلامی تعلیمات و مزاج سے واقف ہو اس کے لئے جماعتِ علماء سے بہتر کون ہو سکتا تھا لہذا 1919 میں جمیعت علماء ہند کی بنیاد رکھی گئی، اس کی بنیاد میں غیر دیوبندی علماء بھی شریک تھے اسلئے کہ تحریک آزادی ہر ایک کی ضرورت تھی خاص طور پر علمائے اہلِ حدیث اور فرنگی محل پیش پیش تھے، مولانا ابوالکلام آزاد نے الہلال میں اپنی صحافت کے ذریعے ایسے جوہر دکھائے کہ امیر الہند کے لئے انکا نام تقریباً طے تھا مگر آپ کی حیات میں اسکے باقاعدہ اعلان کی صورت نہیں بن سکی، بعد میں گاندھی جی کے ہوتے اس کی ضرورت نہیں سمجھی گئ یا کچھ کے عدمِ اتفاق کی وجہ سے معاملہ ٹل گیا اور جمیعت علماء کے صدور بدلتے رہے، اس جماعت کو کانگریس کی بی ٹیم بھی سمجھا جاتا تھا اسلئے کہ مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ کے نام سے پہلے سے موجود تھی جس میں اکثریت نوابوں اور جاگیر داروں کی تھی اور ایک طرح سے انگریزوں کے وفادار تھے اس کا قیام فسادات اور شدھی تحریک کا ردعمل تھا، جو مسلم مسائل کے لئے انگریزوں سے زیادہ شدت پسند ہندوؤں کو زمہ دار سمجھتی تھی اور عوام کی بجائے خواص کے حلقے تک محدود تھی، جمیعت علماء اور تحریک خلافت کو ننگے بھوکے لوگوں کے لئے انہیں کے مثل ایک لیڈر مل گیا تھا اب انگریزوں کو ہندؤں کی بھی شدید مخالفت جھیلنا پڑ رہی تھی، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں سے انگریز کا جانا طے ہوگیا تو پھر سے فسادات میں شدت آگئی اور الیکشن میں مذہب اور ذات بڑا مدعا بنا، ایسے میں جب تقسیم طے ہوگئی تب جمیعت علماء نے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے جہاں جان کی امان کی کوشش کی وہیں تعلیمی وزارت کا حصول مدارس کے نظام کے لئے ڈھال بنا، آزادی کے فوراً بعد جمیعت علماء ہند نے سیاست سے کنارہ کشی کا فیصلہ کیا اور پوری طرح مسلمانوں کی رفاہی و اصلاحی تنظیم کی شکل اختیار کرلی اور علماء اپنے بیرکوں میں یعنی مدارس میں لوٹ گئے!
جس طرح تاریخ دعوت وعزیمت میں برصغیر کو اہمیت دی گئی ہے اسی طرح یہ سلسلہ بھی اسی کا فیض ہے مگر قلب و ذہن پر ایک لمحہ کے لئے یہ احساس نہیں ہوا کہ لسانِ مبین والوں پر کسی طرح کی کوئی فوقیت حاصل ہے، ہم کو نسبتِ بلالی و رومی کافی ہے کہ انکی جوتیاں سیدھی کرنے کا موقع ملا جس طرح شہزادے کا اتالیق شاہی خاندان کی حرمت سے واقف ہوتا ہے اور محض خیرخواہی سے سختی کرتا ہے اور مفوضہ خدمت پر جوابدہ ہوتا ہے، عالمِ اسلام کی غلامی والی صدی میں کوئی اگر کوئی عظیم تحریک اٹھی جس نے مسلمانانِ عالم کو شیروشکر کر دیا تو وہ تبلیغی جماعت کی خدمات ہیں، یقیناً یہ ہمارے سلسلے کے بزرگوں کے اخلاص کا پھل ہے کہ سرحدیں کھینچے جانے کے باوجود سب کو محض دینی غیر سیاسی نسبت سے جوڑے رکھا اور مدارس کے فیض کو بالواسطہ یا بلا واسطہ پہنچایا، اس کو سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ یہ ہمارا مقدر ہے کہ روزگار کے لئے کھاڑی ممالک ہمارا دوسرا وطن ہے اور ذہنی صلاحیتوں کا قبرستان امریکہ ہے یعنی خدمت و ہجرت ہی ہماری صلاحیتوں کو کمال تک پہنچاتی ہے، اور یہ مدارس کا نظام بھی محض قرآن و صاحبِ قرآن کی خدمت ہے یہی ہمارے لئے رب العزت کا فضل اور شفاعت کی امید ہے باقی نا اپنی علمیت کا دھوکہ ہے اور نا پرسائی کا زعم، اگر نئی مارکیٹنگ اصطلاح میں بیان کیا جائے تو تبلیغی جماعت مدارس کے ایم آر ہیں یعنی محلوں اور بستیوں میں مدارس کے پروڈکٹ اور سروس کے تعارف کا ذریعہ ہے یقیناً آج تک یہ خدمات مفت میں دستیاب ہیں، باقی جو چھوٹی موٹی چپکلش چلتی رہتی ہے وہ تو ہر گھر کی کہانی ہے چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی عزت کم ہی کرتا ہے اور کام خراب ہونے پر معاشرے میں بدنام بھی ہوتا ہے اسلئے کہ علم والے اور بغیر علم والے برابر نہیں ہوسکتے، قرونِ اولیٰ سے اہل علم کی غیر سیاسی پالیسی کا رنگ اس تحریک میں واضح نظر آتا ہے جو دراصل فتنوں سے حفاظت کا ذریعہ ہے، حضرت جی ثانی مولانا یوسف صاحب کو جب اخوان المسلمین کے سیاسی عزائم کا علم ہوا تو آپ نے ایک آہ بھری شاید اس بات پر تھی کہ بنی اسرائیل کو ظلم سے نجات دلانے لئے جو گاندھی گری یعنی عدمِ تشدد کی راہ اختیار کی گئی تھی وہی پالیسی اختیار کرنی چاہیے تھی، اسلئے کہ آج فراعینِ عالم جو فخر سے فرعونیت سے اپنی نسبت ظاہر کرتے ہیں ان کے دسترخوان پر پروسے ہوئے ہیں اور اپنی باری کے انتظار میں ہیں، اس وقت موسوی اسوہ جو قرآن میں سب سے زیادہ بیان کیا گیا ہے ہی قابلِ عمل ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا صبر و تقوی ہی تم کو ظلم سے نجات دلا سکتا ہے یعنی اپنی اصلاح کی فکر کرو عوام میں تبلیغ جماعت کی دعوت کا یہی خلاصہ ہے!
اب تک اگر میں یہ بات واضح نہیں کر سکا تو مجھے معذور سمجھے کہ میں اس سے زیادہ آپ کا وقت لینا نہیں چاہتا البتہ اس سلسلے کو ختم کرتے ہوئے چند باتوں کی وضاحت کردینا چاہتا ہوں، مدارس سے ایسی تعلیم و تربیت کی خواہش رکھنا جس سے پیسہ اور نوکری کے مواقع میسر ہو اسکی روحِ وراثت نبوی لا اسلئکم اجرا ان اجری الا علی اللہ کے خلاف ہے، وہیں مدارس کے طلبہ میں حصولِ اقتدار کی خواہش پیدا کرنا ان ہر ظلم ہے اسلئے کہ علم کا موضوع تہذیبِ اخلاق اور شہادت علی الناس ہے، علم روح و دماغ کی غذا ہے نا کہ پیٹ پالنے کا ذریعہ اسلئے جب یہود نے آیتوں کا سودا کیا تو انہیں گدھا کہا گیا اور پیٹ بھرنے سے عقل کھالی ہوتی ایسا دانا کہتے ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ جو مدرسے میں آکر زکوٰۃ کے ٹکڑوں پر پلنا چاہتا ہے اسکا اسوہ اصحاب صفہ ہیں جو صدقات سے قوتِ لا یموت حاصل تو کرتے تھے مگر مدینے کے بازار اور باغات میں جا کر محنت مشقت نہیں کرتے تھے، البتہ تعلیم کی تکمیل کے بعد انہیں آزادی ہے کہ وہ زور حيدر، فقر بوذر، صدق سلمانی میں جیسے چاہے اختیار کرے بلکہ تعلیم کے زمانے کی کامل یکسوئی آئندہ انکے جوہر کی چمک اور بڑھا دے گی، جو لوگ تیراکی نہیں سیکھتے وہ غواص کیا بنے گے پھر انہیں دریائے حوادث کے ساحل پر اپنے پیروں کی ریت کے پھسلنے کا انتظار کرنا ہے۔
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
جبکہ مدارس ناموافق ہواؤں کے جھکڑ کا مقابلہ سیکھاتے ہیں ان کے پاس ماضی کے شواہد موجود ہیں جہاں من و سلوی اور مائدہ اترا ہے وہیں
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اب جبکہ موجودہ ترقی قیامت لانا چاہتی ہے وہیں طالب علم کے لئے سمندر کی مچھلیاں تک دعاگو ہے کہ ان کی زبان پر اللہ کے ذکر کی برکت سے قیامت ٹلتی رہے گی، جو لوگ چاہتے ہیں کہ مدارس بھی اسکول کالج کی طرح کے پروڈکٹ تیار کرے تاکہ کارپوریٹ انکی بولی لگائے ان سے گزارش ہے کہ آپ اپنے اداروں میں دین پڑھانے سے رہے کم از کم اپنے بچوں کو معیاری تعلیم ہی دے دیجیے کہ بے روزگاری کی شب طویل سے طویل ہوتی جارہی ہے، آپ کے پی ایچ ڈی کلرک بننا چاہتے ہیں اور انجینئروں کو پکوڑے تلنے کہا جا رہا ہے خیر ایک دن کھیل تماشوں کے نشئے گراں بار سے اٹھ کر آپ سے حساب لینگے فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ، مگر افسوس! جب اپنے ہی دین کے کیلے کو تبدیل کرنے پر تلے ہیں اور مدارس کو دقیانوسی سوچ کا محور قرار دیتے ہیں اور شاہین بچوں کو تربیتِ پرواز سے پہلے ہی کتوں کے سامنے ڈالنا چاہتے ہیں، کچھ کو اس بات کا دکھ ہے کہ زکوٰۃ کیوں لوٹ لے جاتے ہیں اسکے لئے قارونوں کے سامنے ذلیل ہوتے پھرتے ہیں اور نئے نئے فارغ التحصیل کے لئے آگے بند گلی ہے، یقیناً مدارس میں فینسی تعمیرات کا ایک طرح کا مقابلہ چل رہا ہے اور جس تعلیمی معیار کی امید تھی اس کا عشر عشیر بھی اب قائم نہیں رہا، ضرورت اس بات کی ہے مدارس پلیسمنٹ پروگرام چلائے یعنی حسبِ استعداد میدانِ عمل تجویز کرے اور نگرانی اور تعاون کرے مزید کوانٹٹی سے زیادہ کوالٹی پر فوکس کرے، اور کوالٹی وہی جو شاہین میں ہوتی ہے یعنی فقر کی سلطنت کا شہنشاہ ہونا
خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی نہیں ہے سنجر و طغرل سے کم شکوہ فقیر
Comments are closed.