Baseerat Online News Portal

ختم نبوت پر ہمارا ایمان کیسا ہو؟

 

از: محمد انصاراللہ قاسمی
آرگنائزر مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ وآندھراپرد یش

رسول اللّٰہ ﷺکی صفات اور خصوصیات میں سب سے اہم اور بنیادی صفت آپ ﷺ کی شانِ ختم نبوت ہے، اس صفت کی بنیاد پر آں حضرت ﷺکو آخری نبی تسلیم کرنا ضروری ہے ،اسلام میں داخل ہونے اور اُس سے وابستہ رہنے کے لئے اس صفت کوماننا ضروری ہے، اس صفت پر ایمان رکھنے کانام ’’ عقیدہ ختم نبوت‘‘ ہے ، اس عقیدہ سے متعلق چند ضروری وضاحتیں پیشِ خدمت ہیں:
عقیدۂ ختم نبوت کی تعریف اور اُس کے مفہوم:
۱ ) جیسےاللہ تعالیٰ کو اکیلا اور یکتا تسلیم کرنے کو ’’عقیدئہ توحید‘‘ کہتے ہیں، نبیﷺاور گذشتہ تمام انبیاء پر ایمان لانے کو ’’عقیدئہ رسالت ‘‘کہتے ہیں اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے ’’عقیدئہ آخرت ‘‘ کہتے ہیں اسی طرح حضرت محمد ا کو نبی اور رسول ماننے کے ساتھ آخری نبی تسلیم کرنے کو ’’عقیدئہ ختم ِ نبوت ‘‘ کہتےہیں ۔
۲) ختم نبوت(یعنی آخری نبی ہونا) حضرت نبی کریم ا کی امتیازی خصوصیت اور بنیادی صفت ہے، اس صفت کو تسلیم کیے بغیر رسول اللہ ا کی نبوت ورسالت کی گواہی واقرار کا کوئی اعتبار نہیں، جیسے اللہ تعالیٰ کو ایک وحدہ لاشریک مانے بغیر اُس کی خدائی پر ایمان لانے کا دعوی سراسر غلط اور جھوٹ ہے،اسی طرح رسول اللہ ا کو ’’آخری نبی ‘‘ مانے بغیر آپ اکو نبی اورپیغمبر تسلیم کرنے کا دعوی بالکلیہ جھوٹ اور ناقابل قبول ہے۔
۳ ) رسول اللہ اکو آخری نبی ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اب تاقیامت ہر زمانہ اورہرعلاقہ میں ’’نبوت محمدی‘‘ ہی کا سکہ چلے گا، اب جتنے انسان ہیں اور قیامت کی صبح تک جتنے انسان پیدا ہوں گے، سب کو ایمان کی دولت آخری نبی حضرت محمد اکی نبوت ورسالت کی گواہی دینے سے ملے گی اور آخرت میں اسی کی بنیاد پر ان کی نجات وکامیابی ہوگی۔
انبیاء کرام کے لئے مخصوص امتیازات و کمالات کا اختتام:
رسول اللہ اکے آخری نبی ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ تمام امتیاز ات بھی ختم ہوگئے جو نبی اور رسول ہونے کی حیثیت سے وقت کے ہر پیغمبر کے لئے خاص تھے مثلاً :
الف: معصوم عن المعصیۃ ہونا: یعنی گناہ کرنے سے بالکل معصوم ہونا ،اللہ تعالیٰ کی جانب سے رسول اللہ ا اور گذشتہ تمام انبیاء کرام کوگناہوں کے سرزد ہونے سے خاص طور پر محفوظ رکھاگیا، آپ اکے آخری نبی ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دنیا میں کوئی ذات اور شخصیت گناہوں سے معصوم نہیں ہوگی اور نہ کسی امام اور پیشوا کے بارے میں گناہوں سے معصوم ہونے کا عقیدہ رکھنا درست ہے ۔
ب : مفترض الطاعۃ ہونا: آں حضرت ااور گذشتہ تمام انبیاء کرام کی اتباع وپیروی اور اطاعت وفرمانبرداری فرض اور واجب تھی، اب آں حضرت اکے بعد کسی کی حیثیت ’’مفترض الطاعۃ ‘‘ کی نہیں ہوگی ،کسی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا صحیح نہیں ہوگا کہ ہر حال میں اُس کی اطاعت کرنا اوراُس کی باتوں پر چلناضروری ولازم ہے۔
ج : نزول وحی کا ہونا: نبی اور وحی دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہے، حضرت جبرئیل؊ کے واسطہ سے آسمانی خبروں اورغیب کی باتوں کا معلوم ہونا، یہ صرف نبیوں اور پیغمبرو ں کے لیےخاص ہے، نبی ہوں گے تو وحی کا نزول بھی ہوگا، نبی نہ ہوں گے تو حضرت جبرئیل ؊ کے ذریعہ غیب کی باتوں اورآسمانی خبروں کا علم بھی کسی کو نہ ہوگا، رسول اللہ اکے بعد چوں کہ نبیوں کی آمد کا سلسلہ بندہوگیا، اس لئے حضرت جبرئیل ؊ کے واسطہ سے اب دنیا میں کسی پر آسمان سے وحی بھی نازل نہیں ہوگی ، اگر کوئی شخص اپنے اوپر نزول ِ وحی کا دعوی کرے تو یہ دعوی سراسر باطل ہے،یہ دعوی کرنے والا خود بھی گمراہ اور کافرہے ، اس کے دعوی کو قبول کرنے والوں کا حکم بھی یہی ہے ۔
د : آسمانی والہامی کتاب کاحامل ہونا : اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء کرام پر آسمانی کتابیں بھی نازل فرمائی ،جیسے توراۃ ،زبور ، انجیل ،اور قرآن مجید وغیرہ ، ہر نبی وپیغمبر کا صاحب ِ کتاب اور صاحب شریعت ہونا ضروری نہیں، لیکن جنہیں بھی کتاب اور شریعت دی گئی وہ نبی اور رسول ہی تھے ،غیر نبی ورسول کو کوئی آسمانی کتاب نہیں دی گئی، معلوم ہوا کہ آسمانی کتاب کا حامل ہونا انبیاء کرام کی خصوصیات میں سے ہے، رسول اللہا کے بعد چوں کہ رسولوں کا سلسلہ ختم ہوگیا، اس لئے تاقیامت کوئی اس خصوصیت کا حامل نہیں ہوگا، جیسے آں حضرت ا آخری نبی ہیں، اسی طرح آپ ا پر نازل کردہ آسمانی کتاب قرآن مجید بھی آخری آسمانی کتاب ہے، آ ں حضرت ا کے بعد کسی نبی اور پیغمبر ماننے کا تصور نہیں کیا جاسکتا ،اسی طرح قرآن مجید کے بعد کسی کتاب کے بارے میں ’’آسمانی کتاب‘‘ ہونے یا ’’وحی مقدس‘‘ ہونے کا نظر یہ اور عقیدہ رکھنا بھی درست نہیں ہے ۔
ہ : معجزات کا ظہور : دنیا کے عام دستور اور نظام ِ اسباب کے خلاف اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوئی بات اگر کسی نبی اور پیغمبر کے ہاتھوں پیش آئے تو اُس کو ’’معجزہ ‘‘ کہتے ہیں ،اور اگر ایسی بات اللہ کے کسی نیک بندہ اورولی کے ہاتھوں پیش آئے تو اُس کو ’’کرامت ‘‘ کہتے ہیں اوراگر کسی شعبدہ باز فاسق وفاجر ایسی باتوں کا مظاہرہ کرے تو وہ ’’جادو‘‘ اور ’’نظربندی‘‘ ہے، نیک لوگ اور بُرے لوگ تو دنیا میں قیامت تک رہیں گے، اس لئے اولیاء اللہ سے کرامتوں کا ظہور ہوتا رہے گا اور بُرے لوگ بھی اپنی جادو گری کا مظاہرہ کرتے رہیں گے، لیکن چو ں کہ رسول اللہ اکے بعد دنیا میں نبیوں کے آنے کا سلسلہ ختم ہوگیا ،اس لئے اب خلاف ِ عادت پیش آنے والے واقعات کو ’’کرامات ‘‘ تو کہا جائے گا، لیکن ’’معجزہ‘‘ نہیں کہیں گے، اس لئے کہ معجزہ صرف نبیوں کے لئے خاص ہے، اگر کوئی شخص اپنے ذریعہ معجزات کے ظہور کا دعوی کرتا ہےتو یہ دعوی سراسر غلط اور باطل ہے، ایسا شخص درپردہ نبی اور پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتاہے۔
ز : صحابی کا لقب: جن خوش نصیب اور سعادت مند افراد کو بحالت ایمان وقت کے نبی وپیغمبر کا دیدار اور ملاقات نصیب ہوئی ، انھیں ’’صحابی‘‘ کہتے ہیں، یہ لقب صرف نبیوں کے باایمان ساتھیوں کے لئے خاص ہے ، آں حضرت ا آخری نبی ہیں، آپ ا کے بعد تاقیامت کسی کو نبوت وپیغمبری ملنے والی نہیں، اس لئے اب کسی یہ حیثیت نہیںکہ اُس کے فیض ِ صحبت سے دوسرےلوگ ’’صحابیت ‘‘کا شرف پاسکیں ۔
ی : ام المؤمنین کا لقب : ہر نبی وپیغمبر کی زوجۂ مطہرہ اُس نبی کی امت کے لئے ’’روحانی ماں‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں اور انھیں ’’ام المؤمنین ‘‘کہا جاتا ہے، رسول اللہ ا کی ازواج مطہرات مسلمانوں کے لئے ’’روحانی ماں‘‘ کادرجہ رکھتی ہیں،مسلمان انھیں ’’امہات المؤمنین ‘‘مانتے ہیں، ان کی عظمت واحترام کا خاص مقام یہ ہے کہ وقت کے نبی وپیغمبر کے وصال کے بعد کوئی دوسرا شخص ان سے نکاح نہیں کرسکتا۔
رسول اللہ ا کے آخری نبی ہونے کی وجہ سے جیسے دیگر پیغمبر انہ امتیازات اور انبیائی خصوصیات ختم ہوگئیں، اسی طرح یہ خصوصیت اور فضلیت بھی ختم ہوگئی ،اس لئے اب دنیا میں کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو ’’ام المؤمنین ‘‘ کہے اور نہ دوسروں کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے مذہبی پیشواؤںاور رہنماؤں کی بیویوں کو ’’ام المؤمنین ‘‘ کا نام اور مقام دیں ۔
نبوت کی من گھڑت اقسام :
دنیا میں صرف دوطرح کے نبی اور پیغمبر آئے، ایک وہ جنہیں کتاب وشریعت دی گئی ، جیسےحضرت داؤد علیہ السلام کو ’’زبور‘ ‘ حضرت موسیٰ ؊ کو ’’توراۃ‘‘ حضرت عیسیٰ ؊ کو ’’انجیل‘‘ اور حضرت نبی کریم ا کو ’’قرآن مجید ‘‘ ان انبیاء کرام کو نبی کے ساتھ ساتھ ’’رسول‘‘ بھی کہتے ہیں، دوسرے وہ پیغمبر جن پر کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوئی، انھیں الگ سے کوئی نئی کتاب اور نئی شریعت نہیں دی گئی، بلکہ وہ اپنے سے پہلے رسولوں کی شریعت ہی کے پابنداورپیروکار تھے، جیسے حضرت ہارون ؊ ،حضرت یوشع ؊ ، حضرت سلیمان ؊ وغیرہ، ان انبیاء کرام کو صرف ’’نبی ‘‘ کہتے ہیں، پہلی قسم کی نبوت کو اصطلاح میں ’’تشریعی نبوت ‘‘ اور دوسری قسم کی نبوت کو ’’غیر تشریعی نبوت ‘‘ کہتے ہیں، آں حضرت ﷺ کے آخری نبی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب دنیا میں کسی کو نہ تشریعی نبوت ملے گی اور نہ غیر تشریعی نبوت، نبوت وپیغمبر ی کی ان دوقسموں کے علاوہ نبوت کی کوئی تیسری قسم اسلام میں نہیں ہے، جو لوگ نبوت کی دوسری اقسام بیان کر تے ہیں، مثلاً ظلی نبوت، بروزی نبوت، امتی نبی ، تابع نبی وغیرہ ،یہ سب قسمیں خود ساختہ اور من گھڑت ہیں، گمراہی کی ان باتوں کا دین وشریعت سے کوئی تعلق نہیںہے ۔
یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ ’’تشریعی نبوت ‘‘ کا مطلب ’’جدید شریعت کے حامل پیغمبر ‘‘ اور ’’غیر تشریعی نبوت‘‘ کا مطلب ’’پہلے سے موجود شریعت کے حامل پیغمبر ‘‘اس لئے شریعت اور نبوت ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہے ، نبوت کے بغیر شریعت کا تصور نہیں اور شریعت کے بغیر نبوت کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ، پہلی قسم کی شریعت کے حامل پیغمبر کو ’’نبی‘‘ کے ساتھ ’’رسول ‘‘ بھی کہتے ہیںاور دوسری قسم کی شریعت کے حامل پیغمبر کو صرف ’’نبی ‘‘ کہتے ہیں، قادیانی فرقہ کے یہاں ’’غیر تشریعی نبوت ‘‘ کے عنوان سے نبوت کی جو تقسیم جس معنی ومفہوم میں کی گئی ،اسلام میں نبوت کی ایسی تقسیم کا کوئی وجود اور تصور ہی نہیں ہے، (مفہوم وخلاصہ عبارت کتاب ’’ختم ِ نبوت کامل ‘‘ ص:69حاشیہ از حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ)
منصبِ نبوت وہبی ہے نہ کہ کسبی:
نبوت ورسالت کا منصب خالص اللہ تعالیٰ کا انعام وعطیہ ہے ،کوئی شخص خود سے نبی اور پیغمبر نہ بنا ہے اور نہ آئندہ قیامت تک بن سکتاہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور مرضی سے جس کو چاہتے ہیںنبوت ورسالت سے سرفراز فرماتے ہیں، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’اللّٰہ اَعلم حیث یجعل رسالتہٗ۔(الانعام: 44)اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں جس کو وہ اپنا رسول بناتے ہیں۔‘‘
اس بات کو خاص مذہبی اصطلاح میں یوں بیان کیا جاتاہے کہ ’’نبوت وپیغمبر ی وہبی ہے کسبی نہیں ہے‘‘ کسبی کا معنی یہ کہ آدمی اپنی عبادت وریاضت ، اتباع وپیروی، اور دعا ومناجات کے ذریعہ نبوت کا عہدہ ومنصب نہیں پاسکتا ، نبوت کے حصول میں آدمی کے عمل ،اُس کی عقل، اُس کی صلاحیت واہلیت اور نیکی وشرافت کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے، مطلب یہ کہ ہر نبی وپیغمبر نیکی وشرافت اور تقوی وطہارت کے انتہائی اعلیٰ معیار پر ہوتاہے ، لیکن ہر متقی اور شریف آدمی کا نبی وپیغمبر ہونا ضروری نہیں ۔
نزولِ عیسیٰ کا عقیدۂ، ختم نبوت کےعقیدہ کے خلاف نہیں:
قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ ؊کی آسمان سے تشریف آوری (نازل ہونا) عقیدئہ ختم نبوت کے منافی اور مخالف نہیں ہے، نزول عیسیٰ کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے عقیدئہ ختم ِنبوت میں کوئی بگاڑ اور فساد لازم نہیں آتا، اس لئے کہ رسول اللہ ا کے آخری نبی ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ اکے بعد کوئی شخص نبوت ورسالت کے منصب پر فائز نہیں ہوگا، کسی کو نبوت وپیغمبر ی نہیں ملے گی، کوئی نبی نہیں بنے گا، رہا حضرت عیسیٰ؊ کا معاملہ، آپ ؊ کو تو نبوت ورسالت آں حضرت ا سے پہلے ہی مل چکی ہے، آں حضرت ا سے پہلے ہی حضرت عیسیٰ ؊ نبوت ورسالت کے وصف سے متصف ہوچکے ہیں ، پس سوال یہاں نبوت ورسالت کے ملنے کا ہے نہ کہ کسی نبی وپیغمبر کی آمد کا ، اس لئے مفسرین نے آیت ’’خاتم النبیین‘‘ میں اس کی وضاحت فرمائی ہے :مشہور مفسر ِ قرآن شیخ محمود آلوسی ؒ (۱۲۷۰/۱۲۱۷ھ)لکھتے ہیں :
ترجمہ: عقیدئہ ختم ِ نبوت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے متعلق عقیدہ کے ہرگز خلاف نہیں ہے، جس پر امت مسلمہ نے اجماع کیاہے، اور جس کے بارے میں احادیث بہت ہی مشہور ہیں، شاید یہ احادیث’’تو اتر معنوی‘‘ کے درجہ کو پہونچی ہوئی ہوں، ایک قول کے مطابق قرآن مجید میں اس عقیدہ کی صراحت موجود ہے، جس پر ایمان رکھنا واجب ہے، اس عقیدہ کے انکار کرنے والے کو کافر سمجھا گیا، جیسے فلاسفہ، قیامت کے قریب آخری زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا عقیدہ رسول اللہ ا کے بعد سلسلۂ نبوت رسالت کے بندہونے کے منافی نہیں ہے، اس لئے کہ آں حضرت ا کو اس عالم میں منصب ِ نبوت سے سرفراز کیئےجانے سے پہلے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبوت ورسالت کے وصف سے متصف ہوچکے تھے ۔
ایک دوسرے مائیہ ناز مفسرعلامہ زمخشری ؒ(۴۶۷ھ ۔۵۴۵ھ )فرماتے ہیں :
ترجمہ: ’’(قادیانیو ں کی طرح) اگر کوئی یہ کہے : آپ ا آخری نبی کس طرح ہوسکتے ہیں ، جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ میں آسمان سے اتریں گے، اس کا جواب یہ ہے کہ آپ ا کے آخری نبی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ا کے بعد کسی کو نبی نہیں بنایا جائے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان لوگو ں میں سے ہیں جن کو آپ اسے پہلے نبی بنایاجاچکا ہے،حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہونے کے بعد شریعت محمدی کی پیروی کریں گے،کعبۃ اللہ کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھیں گے گویا آپ علیہ السلام بھی امتِ محمدیہ میں سے ہے۔
(تفسیر کشاف :3/553 الاحزاب :40)
حضرت عائشہ ؆ کی طرف منسوب ایک قول کی وضاحت:
قرآن وحدیث اور دیگر اسلامی لٹریچر میں جہاں بھی آں حضرت ا سے متعلق ’’خاتم النبیین ‘‘ کا لفظ آیا ہے، اُس کا معنی ’’آخری نبی‘‘ کے ہیں، اس لفظ کی تشریح خود آپ ا نے ’’لانبی بعد ی‘‘ کے جملہ سے فرمائی ہےکہ ’’میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ‘‘ کتاب وسنت سے ثابت ’’خاتم النبیین ‘‘ کے اس واضح اور صریح مفہوم کے خلاف قادیانی گروہ کی طرف سے حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب ایک قول پیش کیا جاتا ہے، جس میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں :
’’قولواخاتم النبین ولاتقولوا لانبی بعدہٗ ‘‘
’’تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کہو اور یہ مت کہو کہ آپ ﷺکے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘‘
(حوالہ: مکمل تبلیغی پاکٹ بک، ص:492،ص:527،مصنفہ ملک عبد الرحمن خادم قادیانی ،مطبوعہ:ڈسمبر۱۹۴۵ء )
حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب اس قول کا معنی ومفہوم قادیانی فرقہ کی طرف سے یہ بیان کیا جاتاہےکہ ’’خاتم النبیین ‘‘ کا مطلب ’’آخری نبی ‘‘ کے نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی اور پیغمبر ہوسکتے ہیں، اسی لئے حضرت عائشہؓ’’لانبی بعدہٗ‘‘ کہنے سے منع فرمارہی ہیں ۔
حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب اس قول سے متعلق چند امور قابل توجہ ہیں :
الف: قادیانیوں نے حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب یہ قول صوبۂ گجرات کے مشہور اور بلند پایۂ محدث علامہ طاہر پٹنی (۹۱۴ھ /۹۸۶ھ)کی کتاب ’’تکملہ مجمع بحار الانوار ج:۳ص:۸۵سے نقل کیا ہے،یہ قول بہت ہی کمزور اورضعیف سند کے ساتھ حدیث کی کتاب ’’مصنف ابن ابی شیبہ ‘‘ میں موجود ہے، دیکھئے :(باب من کرہ ان یقول لا نبی بعد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کتاب الادب ،حدیث نمبر:27186ج:13،ص:566)۔
اس کتاب میں مذکور اِ س قول کی سند دو طرح کی ہے، کتاب کے قدیم نسخوں میں حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب قول کی سند میں حضرت جریربن حازم اورحضرت عائشہؓ کے درمیان کوئی راوی نہیں ہے، یعنی یہ بتایا گیا کہ حضرت جریربن حازم نے براہ راست حضرت عائشہؓ سے اُن کے اس قول کو سنا ہے، جب کہ یہ حقیقت واقعہ کے بالکل خلاف ہے، اس لئے کہ حضرت جریر بن حازم کی حضرت عائشہؓ سے ملاقات اور سماعت تو بہت دور کی بات وہ آپؓ کے زمانہ میں پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، حضرت عائشہؓ کی وفات ۵۸ھ میں ہوئی جب کہ حضرت جریربن حازم ۹۰ھ میں پیدا ہوئے ۔
مصنف ابن ابی شیبہ کتاب کے نئے اور ایڈٹ شدہ نسخوں میں اس قول کی سند میں حضرت جریر بن حازم ؒ کے بعد مشہور تابعی حضرت محمد بن سیرینؒ کے نام کا اضافہ ہے، یعنی یہ بتایا گیا کہ حضرت محمد بن سیرین نے حضرت عائشہؓ سے اس قول کو سنا ہے،لیکن یہ بھی خلاف واقعہ ہے اس لئے کہ محدثین کی تحقیق کے مطابق حضرت محمد بن سیرین ؒ نے حضرت عائشہؓ کا زمانہ تو پایا ہے، لیکن آپؓ سے اُس کی ملاقات اور سماعت ثابت نہیںہے، چنانچہ مشہور محدث یحییٰ بن معین(المتوفی ۲۳۳ھ)لکھتےہیں:’’ابن سیرین لم یسمع عن عائشۃ شیئاً‘‘(تاریخ ابن معین ،ج:1، ص:127 )
حضرت عائشہؓ سے منسوب قول کی سند کی اس حقیقت کی وجہ سے محدثین نے اس کو ’’منقطع‘‘ قرار دیا ہے اور جس قول کا سلسلۂ سند منقطع ہوتو وہ ضعیف احادیث میں شمار ہوتا ہے، ضعیف احادیث عقائد کے باب میں ناقابل استدلال ہے، بالخصوص ایسے موقع پر جب کہ ’’لانبی بعدی‘‘ کے الفاظ صحیح سند کے ساتھ صریح اور مرفوع احادیث میں موجود ہیں، ایسے موقع پر منقطع سند کے ساتھ منقول حضرت عائشہؓ کے اس قول کو دلیل بنانا بالکلیہ طورپر غلط ہے۔
ب : فن حدیث کے محققین اور دین وشریعت کے ماہرین کے یہاں یہ بھی ضابطہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابیؓ سے ثابت شدہ کسی بات میں بظاہر کوئی تعارض یا تضاد معلوم ہوتو ایسے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہی قابل ترجیح ہوگی اور صحابیؓ کی بات کی تاویل کی جائے گی ۔
حضرت عائشہؓکے قول میں اگر سند کی کمزوری کو نظر انداز بھی کردیاجائے تو زیادہ سے زیادہ یہ ایک جلیل القدر صحابیہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ کا قول ہے ، لیکن آ پؓ سے زیادہ بلند مقام ومرتبہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کا ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے بارے میں ایک سے زائد مرتبہ ’’لانبی بعدی‘‘کے الفاظ فرمارہے ہیں تو یقینی اور قطعی طور پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہی قابل ترجیح ہوگی۔
ج : دین کے مسلمہ حقائق کو بیان کرنے میں مخاطب کی ذہنی سطح اور اُس کے فکر ی معیار کو بھی بعض مرتبہ پیش ِ نظر رکھنا ضروری ہوتاہے، اس لئے کہ اپنی کم علمی اور ناسمجھی کی وجہ سے مخاطب بعض دفعہ دین کے مسلمہ حقائق کا انکار کربیٹھتا ہے ،حضرت عائشہؓ کے قول کوبھی اسی پس منظر میںدیکھنا اور سمجھنا چاہیے ،آپؓ کے اس کا قول کا مقصد ومنشا قادیانی فرقہ کی طرح ہرگز یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کو بھی نبی اور پیغمبر ماننے اور اُس پر ایمان لانے کی گنجائش باقی رکھی جائے، بل کہ آپؓ کے اس قول کی اصل غرض وغایت یہ ہے کہ دین کے ایک مسلمہ اورضروری عقیدہ ’’عقیدئہ نزول عیسیٰ ‘‘ کے بارے میں عام لوگوں کو گمراہی اورغلط فہمی سے بچا یا جائے، رسول اللہﷺ کے اسوئہ حسنہ میں اس کی مثالیں موجود ہیں،خود حضرت عائشہؓ کی روایت ہے، آں حضرتﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا :
’’اے عائشہؓ : اگر تیری قوم نئی نئی اسلام میں داخل نہیں ہوئی ہوتی تو میں (حضرت ابراہیم کی تعمیر کردہ) کعبۃ اللہ (کی عمارت) میں تبدیل کرتے ہوئے اُس کے دودرازے بنادیتا، ایک دروازہ سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازہ سے نکلتے ……..‘‘
(صحیح بخاری،کتاب العلم ،باب من ترک بعض الاختیار ……حدیث نمبر:1276)
خلیفۂ چہارم امیرالمؤمنین سید نا حضرت علیؓ فرماتے ہیں :
’’لوگوں سے وہ باتیں بیان کرو جن کو وہ سمجھ سکتے ہیں (عوام کے سامنے مشکل باتیں بیان کرکے) کیاتم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اُس کے رسول کی بیان کردہ باتیں جھٹلادیں جائیں ‘‘(صحیح بخاری ،کتاب العلم ،باب من خص با العلم …….حدیث نمبر 127)
د : حضرت عائشہؓ کا یہ مقصد اور منشاحضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی روایت سے معلوم ہوتاہے ، روایت یوں ہے:
’’ایک صاحب حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی مجلس میںشریک تھے، انھوں نے رسول اللہﷺپر ان الفاظ میں درود بھیجا:
اللہ تعالیٰ حضرت محمدﷺ پر رحمت نازل فرمائے جو آخری نبی ہیں، جن کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
اس پر حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے اُن صاحب سے کہا :تمہارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’خاتم الانبیاء ‘‘ کہنا کافی ہے، اس لئے کہ ہم لوگوں سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے، پھر جب وہ نازل ہوں گے تو وہ رسول اللہﷺ سے پہلے بھی نبی تھے اور آپ ﷺکے بعد اپنے زمانۂ نزول میں بھی وہ نبی اور پیغمبر رہیں گے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الادب ،حدیث نمبر 27187باب من کرہ ان یقول لا نبی بعد النبی )
اہم بات یہ بھی ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب میں یہ روایت حضرت عائشہؓ کے قول کے فوری بعد نقل کی گئی تاکہ آپ ؓ کے قول کا مقصد ومنشا اچھی طرح واضح ہوجائے، دھوکہ دہی غلط فہمی اور گمراہی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔
ہ: حضرت عائشہ ؓ کے اس قول کا مقصد ومنشا رسول اللہﷺ کے آخری نبی ہونے کی نفی کرنا ہرگز نہیں ہے، اس لئے آپؓ پور ی امت ِ مسلمہ کی طرح عقیدئہ ختم ِ نبوت کے قائل ہیں اور اس سلسلہ میں خود آپؓ کی روایت موجود ہے، جس میں آپؓ نے اس عقیدئہ کو امت تک پہونچا یا اور اُس کو سمجھا یا ہے، چنانچہ حضرت عائشہؓ رسول اللہﷺ کے آخری نبی ہونے کی روایت یوں بیان کرتی ہیں :
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ ﷺکے بعد سوائے مبشرات کے نبوت کی کوئی چیز باقی نہیں ہے، صحابہؓ نے عرض کیا :ائے اللہ کے رسول ! مبشرات کیا ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا : وہ اچھے خواب ہیں ، جو مسلمان دیکھتا ہے یا اُس کو دیکھائے جاتے ہیں ‘‘
(مسند احمد ،حدیث نمبر :24977)
ز : حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب یہ قول تکملہ مجمع بحار الانوار ،مصنف ابن ابی شیبہ اور جن دوسری کتابوں میں نقل کیاگیا ،تقریباً سب جگہ یہ قول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے پس منظر میں پیش کیاگیا، اور یہ وضاحت کی گئی کہ یہ قول’’ لانبی بعد ی ‘‘ حدیث کے الفاظ کے خلاف نہیں ہے اور نہ اس قول سے کسی کی نبوت وپیغمبری کو ثابت کیاگیا، بل کہ اس کی وجہ سے ختم ِ نبوت کے بارے میں جو شک وشبہ ہوسکتاتھا اُس کو بھی ختم کیاگیاـــــــمگریہ قادیانیوں کی خیانت اور بددیانتی ہے کہ ان لوگوں نے حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب اس قول کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے انکار اور مرزا غلام قادیانی کی جھوٹی نبوت کے اقرار کی دلیل بنادیا، کہنے والے نے بہت خوب کہا:’’ اذالم تستحی فااصنع ماشئت‘‘ جب تمہارے اندر شرم وحیاء ہی نہ ہوتو جو چاہو کرسکتے ہو ۔
نوٹ: حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب اس قول سے متعلق تفصیل دیکھنے کے لئے کتاب ملاحظہ ہوں: حضرت عائشہؓ پر قادیانی فرقہ کابہتان ۔
جھوٹے مدعیانِ نبوت کا انکار:
عقیدئہ ختم نبوت کے اقرار کی وجہ سے مرزا غلام قادیانی کے بشمول تاقیامت پیدا ہونے والے تمام جھوٹے مدعیان ِ نبوت کے دعوئ نبوت کا انکار کرنا بھی لازم ہے، نبوت کا دعوی کرنے والے اور اُس کے دعو ئ نبوت کو قبول کرنے والوں کافر جاننا اور سمجھنا ضروری ہےاس لئے کہ نبی ا کے بعد نبوت کا دعوی کرنے والوں کو احادیث میں دجال ، مکار،عیار، جعلساز اور دھوکہ باز فرمایا گیا، یہ لوگ بھی کافر اور ان کے ماننے ولے بھی دائرئہ اسلام سے خارج ہیں ۔
۞ ۞ ۞ ۞ ۞

Comments are closed.