Baseerat Online News Portal

مسلم قوم کب خوف و دہشت اوربزدلی سے باہر آ ئے گی؟

مفتی احمدنادر القاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی نئی دہلی
ہمارے نبی برحق اورآخری رسول ﷺ نے فرمایا ہماری امت کو جب ”وھن“یعنی حب دنیا اورموت سے خوف وناپسندیدگی کاروگ لگ جائےگا تودنیاکی دوسری قومیں اس کونرم چاراسمجھ کر نگلناشروع کردے گی۔ہم نے ہرلمحہ اللہ کی نافرمانیوں میں گزاری، اس پچاس سالہ زندگی میں خوب اس کامشاھدہ کیا۔ہم نے دوبار افغان قوم کو لقمہ اجل بنتے دیکھا۔عراق کے بیس لاکھ مسلمانوں کو امریکہ کے ہاتھوں برسائے گیے فضائی آگ میں جھلستے دیکھا۔چیچنیا اوربوسنیاکے مسلمانوں کو تہ تیغ ہوتے اوراپنی مسلمان ماؤں، بہنوں کی اجتماعی عصمتیں لٹتے دیکھا۔دمشق کی گلیوںمیںمسلمانوںکاخون بہتے اورلاکھوں مسلمانوں کو گھروں سے بھگاتےہوئے دیکھا۔گویابرمامیں لاکھوںمسلمانوں کو گاجراورمولی کی طرح کٹتے اورکباب کی طرح بھنتے ہوئے دیکھا۔مسلمانوں کی ایسی بےوقعتی اورذلت توشاید آسمانی اورزمینی تاریخ نے کبھی دیکھی ہو۔جب کتابوں میں بغداد کی سڑکوں پربہتے خون اوردجلہ وفرات میں پانی کی جگہ مسلمانوں کےتاتاریوں کےہاتھوں بہائے جانےوالے رواں خون کی داستانیں پڑھتے تھے اورآج کی دنیا کودیکھتے تھے جسے لوگ پرامن اور شائستہ کہتے ہیں تو دل کوتھوڑی دیر کے لیے تسلی ہوتی تھی، اب زمین پر شایدایسی خون ریزی نہیں ہوگی ۔مگر گزشتہ چاردہائیوں کی زمینی تاریخ نے سب کچھ غلط ثابت کردیا۔یہ دنیا کی علمی اورسائنسی ترقی تو”بندرکےہاتھ میں ناریل ثابت ہوئی“ جواپنے ہاتھ میں آتے ہی پتھرپہ پٹخناشروع کردیا۔انسان بھی اپنی ترقی کے ناریل کے ساتھ وہی کررہاہے۔
آج زمین پر بہنے والے خون زر، زمین اورزن ہی کانتیجہ توہے۔جس کی کوکھ سے حب دنیا اورموت سے ناپسندیدگی کابت جنم لیتاہے۔رسول برحق نے بزدلی سے پناہ مانگنے کی دعاسکھائی وہ اسی لیے تاکہ انسانوں پرہونے والے ظلم کو روک سکو۔اپنی جرأت ایمانی سے زمین پر انسانوں کاخون نہ بہنے دو۔اگربزدلی اورموت کاخوف تمہارے اندر آگیاتو ظلم ہوتارہے گااور تم اپنی جان اورمال کےخوف سے تماشہ دیکھتے رہوگے۔انسانوں کاخون بہتارہےگا۔ تم اپنے ملک،دولت اورسامان زندگی کی بربادی کے خوف سے صرف ہائے توبہ مچاتے رہوگے۔عورتوں کی عصمتیں لٹتی رہیں۔ مگرتم اپنے چندروزہ اقتدار چلےجانے کے خوف سے صرف سڑکوں پر احتجاج کرتے رہ جاؤگے۔آج ہم دنیامیں ایک سوتیس کڑور ہیں گنتی کے۔جن میں 90 فیصد بےنمازی ہیں ۔اورکام صرف کمانا،کھانا اورسوجاناہے۔حکم خداوندی اورہدایات نبوی پر ایمان صرف نام کا ہےیاپھرصرف سننے سنانے کی حدتک ہے۔کیااسی کو ایمان اورمسلمان کہتے ہیں ؟کیااس وقت کامسلمان حق پر ہے؟ عورتیں گھومنے کے شوق میں دیوانی اورمردکمانےکی فکرمیں پاگل۔یہ آج کی دنیاکاخلاصہ۔اسلام اوردین کے نام پر چنداینٹ گاروں کی دیدہ زیب مسجدیں بن جائیں ،قانون کےنام پر ہرمذھب کو اورہر انسان کواپنی مرضی سے جینےکی آزادی ہے کاقانون بن جائے ۔لوگ اپنی مرضی سے برہنہ گھومیں،ننگے ناچیں ہمیں اس سے کیامطلب ،بس اس کے بدلےہماری جیب میں پیسے آتےرہیں ۔یہ ہے موجودہ امت مسلمہ کا اسلامی کردار۔حقیقت یہ ہےکہ پوری دنیاکامسلمان اللہ کے پیغام اوررسول برحق کی تعلیمات سے کوسوں دورجاچکاہے۔ اورجب انسان ہدایت ربانی سے اس قدر دورچلاجاتاہےتواسکےدل ودماغ کی چکری صرف پیسےکے گردگھومتی ہےاورجب اس مقام پہ آدمی پہونچ جاتاہےتوپھروہی بزدلی والی بیماری پیداہوتی ہے جسے حدیث میں “وھن“کہاگیاہے۔کاش کہ مسلمان صرف اونچی اونچی بلڈنگیں کھڑی کرنے کی بجائے انسانیت کے تحفظ کاسامان پیداکرتا۔اب دنیاوی زندگی کے تصور اورتانے بانے میں مسلم قوم اورغیرمسلموں میں تنکے کےبرابربھی فرق نہیں رہ گیاہےوہ بھی جینے اورکھانے لیے زندہ ہیں ہم بھی بس جینے اورکھانے کےلیے ۔جب فکرجہاں اس مام کوپہونچ جائے گا تو بزدلی آئے گی یا جرات؟ آپ خوداندازہ کرلیجیے۔ایسے وہی گروہ برحق ہے۔جسے رسول برحق ﷺ نے فرمایا”طائفۃ من أمتی ظاھرین علی الحق“بس مٹھی بھرلوگ ہوں گے جو حق پرباقی بھی رہیں گے اورحق کے لیے سینہ سپربھی۔سلام ہواس طائفہ پرجوحق کی راہ میں لڑتے لڑتے جیت گیے تب بھی کامیاب اورمرگئے تب بھی سرخ رو۔ اللہ ہمیں معاف کردے تو اس کی مہربانی نہ معاف کردےتو ہم اسی کے مستحق ۔
میں دوہزار تیرہ میں پہلی بارحرمین شریفین کے سفرپہ عمرہ کی غرض سے گیاتومجھے یاد ہے میزاب رحمت کے بازو میں بیت اللہ کے غلاف کوپکڑکر اپنے رب کی بارگاہ میں التجاکررہاتھا اورمیرے بازو میں ایک فلسطینی خاتون تھی وہ بھی غلاف کعبہ کودونوں ہاتھوں سے جھنجھور کر بس ایک ہی جملہ اپنی زبان سے دہرارہی تھی ”الشباب۔یااللہ الشباب“ اس جملے کوسن کر میری آنکھوں سے بےساختہ آنسوجاری ہوگئےاوریہ سوچنے لگا کہ لوگ بیت اللہ پہونچ کر اپنی مرادیں اللہ سےمانگتےہیں۔ مگر یہ خاتون اللہ سے بس یہ مانگ رہی تھی ”اے اللہ مسلمانوں کے نوجوانوں کوبچالے۔اے پروردگا امت کے نوجوانوں کودنیاکےپرفریب فتنوں سے بچالے۔اے اللہ امت کےنوجوانوں کی حفاظت فرما۔یہی ملت کاانمول سرمایہ ہیں ان کے دل ودماغ کو نورہدایت سے جلوہ کرکردے۔اگریہ شباب اورہماری نوجوان نسل آج کی دنیاکے فتنوں سے بچ گیے تودنیاکی کوئی طاقت اس امت کومٹانہیں سکتی۔ شیطان سب سے پہلے اسی کاشکارکرتاہے۔آج میں جب نہتھے غزہ کے نوجوانوں کوحق کی خاطر اللہ کےدشمنوں کے آگے ڈٹاہوادیکھتاہوں تو وہی منظر میری نگاہوں میں گھوم جاتاہے۔اوران گناہ گارآنکھوں سے آنسوجاری ہوجاتے ہیں اوریہ محسوس ہوتاہےکہ انھیں غیورماؤں کے بیٹے ہیںاور اپنی اس ایمانی بہن سے سیکھ کر اپنے نوجوانوں کے لیے دعابھی کرتاہوںاورجی کرتاہے اقبال کی زبان میں ان سے کہوں؎
کبھی اے نوجواں مسلم تدبربھی کیاتونے وہ کیاگردوں تھاجس کا تواک ٹوٹاہواتارا
تجھے اس قوم نے پالاہے آغوش محبت میں کچل ڈالاتھاجس جس نے پاوں میں تاج سر دارا

Comments are closed.