جمعہ نامہ:شوقِ جہاد اور خوف جہاد کا فرق  

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے:’’اور ایمان والے کہتے ہیں کہ (حکمِ جہاد سے متعلق) کوئی سورت کیوں نہیں اتاری جاتی؟ ‘‘مومن تو جہاد کے حکم کی تمنا کرتے ہیں کیونکہ حکم جہاد کی تعمیل ایمان کی دلیل ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب حماس نے بڑی  حکمت وتیاری کے ساتھ حملہ کیا تو  مجاہدین اسلام اس پر لبیک کہہ کر باطل سے نبرد آزما ہوگئے ۔ غزہ کے اندر کمال  جرأتمندی  کا مظاہرہ کرنے والوں کے علاوہ   ایسے ایمان کے دعویدار بھی  ہیں کہ جن  کی حالت  پرسورۂ نساء کی آیت  77صادق آتی ہے:’’ کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا جن لوگوں سے کہا گیا کہ تم اپنے ہاتھوں کو روک لو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں سے ایک فریق لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگا جیسے اللہ کا ڈر ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور کہنے لگے اے ہمارے رب ہم پر تو نے جہاد کیوں فرض کردیا تو نے ہم کو قریب کی مدت تک ڈھیل کیوں نہ دی ؟‘‘۔ اس طرح کی کیفیت کا شکار لوگوں سے یہ  کہنے کا حکم دیا گیا ہے کہ:’’ دنیا کی متاع بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے آخرت بہت ہی بہتر ہے اور تم پر بالکل ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا‘‘۔  غزہ کے جہاد نے  داعیانِ ایمان کو شوقِ جہاد سے جان و مال کا نذرانہ پیش کرنے والے  اور  خوف جہاد سے تھر تھر کانپنے والے دو گروہوں میں تقسیم کردیا  ہے۔

اس آیت  کے اگلے حصے میں ربِ کائنات نے فرق کی وجہ  بھی یہ  بیان  فرما دی   :’’ جب ایک محکم سورت نازل کر دی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو‘‘۔ یعنی دل میں اگر نفاق کی بیماری ہوتوایسا  ہوتا ہے ۔آگے کی آیات میں ان کے حال پر افسوس کرنے کے بعد بتایا گیا اپنی  زبان سے  اطاعت کا اقرار اور اچھی اچھی باتیں  کرنے والےاگر قطعی حکم کے بعد اللہ سے اپنے عہد میں سچے نکلتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا۔ اس کے بعدالٹے منہ پھرنے والوں سے سوال  کیا گیا کہ کیا اب تم  زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟ ایسی روش اختیار کرنے والوں پر  اللہ کی لعنت   اور انہیں  اندھا اور بہرا بنا دینے کی وعید سنائی گئی۔ ان سے پوچھا گیا کہ  انہوں  قرآن پر غورکیوں  نہیں کیا، یا اُن کے دلوں پر  قفل چڑھے ہوئے ہیں؟ تذکیر وتنبیہ  کے اختتام پر ارشادِ فرقانی ہے:’’کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کے کھوٹ ظاہر نہیں کرے گا؟‘‘ سچ تو یہ ہے غزہ کی موجودہ کشمکش نے پوری دنیا کے مسلمانوں  اورخاص طور حکمرانوں کے نفاق کو بے نقاب کردیا ہے۔

قرآن حکیم میں یہاں پرابتلا و آزمائش کی حکمت یہ بیان  کی گئی ہے کہ :’’  ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تاکہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں ؟‘‘ کشمکش حق و باطل سے اول تو مجاہدو منافق کا فرق واضح ہوجاتا ہے نیز عام حالات میں مخفی رہنے والی  قلبی کیفیت بھی   ظاہر ہوجاتی ہے۔  اس کے بعد منکرینِ حق کی ریشہ دوانیوں  سے متعلق ڈھارس بندھائی گئی  کہ :’’جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اور رسول سے جھگڑا کیا جبکہ ان پر راہ راست واضح ہو چکی تھی، در حقیقت وہ اللہ کا کوئی نقصان بھی نہیں کر سکتے، بلکہ اللہ ہی ان کا سب کیا کرایا غارت کر دے گا‘‘۔ ایسے میں  اہل ایمان کوترغیب دی گئی کہ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو‘‘ نیز خبردار کیا گیا کہ:’’ اور اپنے اعمال کو برباد نہ کر لو‘‘۔اس تمہید کے بعد یہ اصولی ہدایت دی گئی کہ :’’ پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو تم ہی غالب رہنے والے ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں دب کر صلح و آشتی کے لیے ہاتھ پھیلانے سے منع کیا گیا ہے اور یقین دلایا گیا ہے چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے اس لیے غلبہ و کامرانی  تمہارا  مقدر ہے ۔ دنیا و آخرت میں ان اعمال کا  بہترین صلہ مل کررہے گا۔  

قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے :’’ اگر کفار صلح کی طرف مائل ہوں تو آپ بھی مائل ہو جایئے‘‘۔  ان دونوں آیات کی روشنی میں  ایک بات تو یہ نکل کر آتی ہے کہ  اگر  کفار کی طرف سے صلح جوئی کی ابتدا ہو تو اسے قبول کیا جاسکتا ہے مگر مسلمانوں کی جانب  سے  درخواست نہ  کی جائے ۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مسلمان بھی  صلح  کی ابتدا کرسکتے ہیں مگر وہ  محض بزدلی اور عیش کوشی کے سبب نہ ہو۔  اس کا منشاء اللہ کی راہ میں جہاد سے فرار ،وہن اور سستی و بزدلی کے بجائے  امت  کی مصلحت کا تقاضا ہو۔ یہ کیفیت اسی وقت رونما ہوسکتی ہے جب  آگے کی یہ  آیت مستحضرر ہے جس میں فرمایا گیا:’’یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے اگر تم ایمان رکھو اور تقویٰ کی روش پر چلتے رہو تو اللہ تمہارے اجر تم کو دے گا اور وہ تمہارے مال تم سے نہ مانگے گا‘‘۔ یہاں پر دنیا کی حیثیت بتانے کے بعد مال کا اجمالاًذکر کردیا گیاکیونکہ  یہی محبت اہل ایمان کے دل میں نفاق کاسبب بن جاتی ہے۔ اللہ  تبارک و تعالیٰ عالم اسلام کو اس فتنہ سے محفوظ رکھے۔  

Comments are closed.