Baseerat Online News Portal

اپنی قیادت کی دہائی دینے والوں کے پاس قوم کے لیے کیا منصوبہ ہے؟

قوم سے شکوہ کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے
عبدالغفار صدیقی
9897565066
مسلم سیاسی رہنمائوں کی جانب سے اپنی قیادت کا لفظ بار بار سننے کو ملتا ہے ۔قائدین کو مسلم عوام سے یہ شکایت ہے کہ مسلمان اپنی قیادت پر اعتماد نہیں کرتے ،اور مسلم عوام کو یہ گلہ ہے کہ جس پر اعتماد کیا گیا اسی نے بے وفائی کی ہے اور قائدین سے قوم کو فریب کے سوا کچھ نہیں ملا ۔موجودہ زمانے میں یہ صورت حال ہے کہ کسی کو کسی پر یقین نہیں ہے ۔اس وجہ سے ملکی سیاست میں مسلمانوں کی پوزیشن انتہائی نازک ہوگئی ہے ۔ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں؟کیا اپنی قیادت کو ووٹ کریں؟پھر اپنی قیادت کون سی ہو؟کیا اسے اپنی قیادت کہہ سکتے ہیں جس میں اپنی بات کہنے کا اختیار نہ ہو۔جو قیادت اپنے وابستگان کے دکھ درد میں شریک نہ ہو،جس میں ایک فرد واحد ہی سپریمو بن جائے اور باقی اس کے غلاموں کی طرح کام کریں ۔بھارتی سیاست کا اگر آپ تجزیہ کریں گے تو بیشتر مسلم قیادت کا یہی حال پائیں گے خواہ وہ مذہبی ہوں ،سماجی ہوں یا سیاسی۔ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی واضح نصب العین نہیں ،کوئی انتخابی منشور نہیں ،ہوسکتا ہے رجسٹریشن کے وقت کوئی دستور جمع کیا گیاہو مگر عمل میں کوئی نہیں ہے۔
اس وقت ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابات جاری ہیں ،اس کے بعد عام انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے ،نیا اتحاد وجود میں آچکاہے ۔ حکمراں پارٹی کسی بھی حال میں اپنا اقتدار گنوانا نہیں چاہے گی ۔اپوزیشن پارٹیوں میں سے ہر ایک کے اپنے مقاصد ہیں ۔دیکھیے آگے کیا ہوتا ہے ۔مجھے تو نئے اتحاد کے آثار بہت اچھے نظر نہیں آرہے ہیں ۔ملک نے گزشتہ دس سال میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں ۔حکومت کی پالیسیوں سے ،سوائے مذہبی جنونیوں کے تمام طبقات ناخوش نظر آتے ہیں ۔جن کے نزدیک صرف مسلمانوں کو تکلیف دینا اور بقول ان کے مسلمانوں کو اوقات میں رکھنا ہی موجودہ حکومت کا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ آئندہ حکومت دی جاسکتی ہے ۔اس ماحول میں مسلم سیاسی قائدین کی خواہش ہے کہ مسلمان انھیں ہی سپورٹ کریں ۔یہ خواہش کوئی بری نہیں ہے ۔لیکن مسلم سیاسی قائدین کو اپنے رائے دہندگان کے سامنے کوئی ٹھوس لائحہ عمل رکھنا چاہیے۔
مسلم سیاسی جماعتوں میں سر فہرست نام مجلس اتحاد المسلمین کا ہے ،جس کی ایک سے زائد ریاستوں میں شاخیں ہیں ۔ایک قدیم پارٹی مسلم لیگ ہے جس کا دائرہ اثر کیرالہ تک حدود ہوکر رہ گیا ہے ۔آسام میں مولانا بدرالدین اجمل صاحب کی سیاسی جماعت یوڈی ایف ہے ۔اترپردیش میں کئی جماعتیں مسلم قیادت کی دعوے دار ہیں ۔ان میں قابل ذکر ڈاکٹر ایوب صاحب کی پیس پارٹی ہے ۔کل ہند سطح پر خود کے موجود ہونے کا دعویٰ کرنے والی ایک سیاسی جماعت ویلفیئر پارٹی آف انڈیا ہے ۔حالانکہ اس کا اثر کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا ۔بیشتر پارٹیوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کے یہا ں شورائیت کا فقدان ہے اور شفافیت کے لفظ سے وہ ناآشنا ہیں۔مجلس میں بیرسٹر اسدالدین اویسی صاحب ،یوڈی ایف میں مولانابدرالدین اجمل قاسمی صاحب اور پیس پارٹی میں ڈاکٹر ایوب صاحب ہی عقل کل ہیں ۔ان کی جماعتیں ان کا طواف کرتی ہیں ۔کسی کو ان کے دربار عالیہ میں مشورہ دینے کی بھی ہمت نہیں ،کجا کہ ان کے فیصلوں پر تنقید کی جاسکے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ مسلم قائدین کے پاس کوئی واضح اور ٹھوس لائحہ عمل نہیں۔بس الیکشن کے آس پاس ان کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے ،صابن کے سے جھاگ اٹھتے ہیں۔الیکشن میں حصہ لینے والے مختلف الخیال افراد ابھرتے ہیں ،ٹکٹ فروخت ہوتے ہیں اور شور مچا کر بیٹھ جاتے ہیں ،پھر دوسرے الیکشن تک ان کے پاس کوئی کا م نہیں ہوتا ۔قوم کی جہالت ،غربت ،بیماری دور کرنے کا کوئی فارمولہ اس کے سوا نہیں ہے کہ انھیں ووٹ دیجیے اور اسمبلی و پارلیمنٹ میں بھیج دیجیے ۔لیکن جیتنے کے بعد نئے گل کھلائے جاتے ہیں، ان کے امیدوار اپنے ضمیر کا سودا کردیتے ہیں ،یوپی میں پیس پارٹی سے جیتنے والے چار ایم ایل ایز میں سے تین نے 2012میں خود کو سماج وادی پارٹی کے ہاتھ فروخت کردیاتھا ۔ اسی طرح گزشتہ سال بہار میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے پانچ میں سے چار ایم ایل اے آر جے ڈی میں شامل ہوگئے تھے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم نے اپنی قیادت پر اعتاد کا مظاہرہ توکیاتھا ۔لیکن قیادت نے ہی وفاداری نہیں کی ۔اب کس منھ سے اپنی قیادت کا راگ الاپا جارہا ہے ؟
سوال یہ بھی ہے کہ مسلم سیاسی قائدین نے مسلمانوں کے لیے کیا کیا ؟کیا تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے یونیورسٹی ،کالج ،اسکول کھلوائے ۔بیماروں کے علاج کے لیے میڈیکل کالج یا اسپتال بنوائے ،بے روزگاری دور کرنے اور سودی قرضوں سے نجات کے لیے کہیں کوئی بلاسودی قرض اسکیم لائے ۔کسی ایک گائوں یا ایک قصبہ کے مسائل حل کیے ؟آخر وہ کون سے کارنامے ہیں جن کی بنیاد پر وہ امت سے ووٹ کے طالب ہیں ۔جب جب یہ بات کہی جاتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ’’ سیاسی پارٹیاں یہ کام نہیں کرتیں ۔‘‘سوال یہ ہے کہ پھرسیاسی پارٹیاں آخر کیا کرتی ہیں ؟آزادی کے بعد مسلمان ہر شعبہ حیات میں پسماندگی کا شکار ہیں۔ہر دن وہ اتھاہ گہرائیوں میں گررہے ہیں ۔آخراس کا ذمہ دار کون ہے ؟
ملک میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو دیکھتے ہوئے موجودہ حالات میں کسی انتخابی عمل سے مسلمانوں کو طاقت و قوت حاصل ہونے والی نہیں ہے اور نام نہاد سیکولر جماعتوں سے بھی کوئی فائدہ لگنے والا نہیں ہے ۔یہ ووٹ لیتے وقت جی حضوری کرتی ہیں اور اقتداورقوت ملتے ہی بھول جاتی ہیں ۔اسی ہفتہ کرناٹک میں کانگریس کی حکومت ہوتے ہوئے کرناٹکا ایگزامنیشن اتھارٹی نے بھرتی ا متحانات میںحجاب پر پابندی کا فرمان جاری کردیا ۔جب کہ ہمیشہ اس کی اجازت دی جاتی رہی ہے ۔یعنی وہی حکومت جو آئی ہی حجاب کی ایشو پر ہے ،جس کی فتح میں باحجاب خواتین کا ناقابل فراموش تعاون رہاہے ،جس کے بننے پر مسلمانوں نے راحت کی سانس لی تھی ،لیکن اسی حکومت نے سانس لیتے ہی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا ۔اس لیے مسلمان کسی نام نہاد سیکولر پارٹی پر یقین نہیں کرسکتے ۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی متبادل یہی نام نہاد سیکولرپارٹیاں ہیں ۔اس صورت میں درج ذیل تجاویز پر غور کیا جاسکتا ہے ۔
مسلم قیادت والی سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اپنی پالیسی ،مقاصد اورپروگرام واضح طور پر اہل ملک کے سامنے پیش کریں ۔تحریری طور پر انھیں بتانا چاہئے کہ ان کے پیش نظر ملک کو مختلف مسائل سے نکالنے کا کیا لائحہ عمل ہے ؟صرف بی جے پی کو شکست دینا ،یا نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا متبادل بننا کوئی مثبت مقصد نہیں ہے ۔اسی طرح ان سیاسی جماعتوں کو اوپر سے نیچے تک شورائیت و شفافیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ان کی شوریٰ میں بھائی بھتیجا واد اور چمچوں کے بجائے اہل الرائے افراد ہونے چاہئیں ۔آپ یہ نہ فرمادیجیے گا کہ ایسے لوگ ہیں کہاں ؟ایسے لوگ آپ کے پاس چل کر نہیں آئیں گے بلکہ آپ کو ان کے پاس جانا ہوگا ۔ایسے افراد آپ کو پارٹی فنڈ میں موٹی رقم بھلے ہی نہ دے سکیں لیکن ان کی آراء دنیا کی تما م دولت سے زیادہ قیمتی ہیں ۔حساب ،کتاب ،آمد و صرف وغیرہ کا ریکارڈ اس طرح شفاف ہونا چاہئے کہ ہر شخص دیکھ سکے اور اطمینان کرسکے ۔پارٹی کے مقاصد سے اتفاق رکھنے والوں کو ہی پارٹی کی ممبر شپ دی جائے ،اور انھیں ہی امیدوار بنایا جائے ،امیدوار بناتے وقت مخلص پارٹی کارکنان سے مشورہ کیا جائے ،ٹکٹ کے نام پر کوئی رقم نہ لی جائے تاکہ وفادار امیدوار مل سکیں ۔جب ہم ٹکٹ بیچ کر اپنی تجوریاں بھر لیتے ہیں تو امیدوار پر ہمارا کوئی اختیار نہیں رہتا ۔اسی لیے امیدواران جیتنے کے بعد اپنے پیسے پچاس گنا وصول کرلیتے ہیں ۔میری اس تجویز کو آپ یہ کہہ کر ہوا میں اڑا دیں گے کہ سیاست کے گلیارے میں شورائیت ،شفافیت اور ایمانداری جیسے سکے، کھوٹے شمار کیے جاتے ہیں ۔لیکن میں آپ سے معلوم کرتا ہوں کہ آپ گزشتہ کئی دہائیوں سے جن سکوں کو چلا رہے،اس سے آپ کو اس کے سوا کیا ملا کہ آپ پر کوئی اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے ۔آپ کی آدھی عمر اسی وضاحت میں گزر گئی کہ ہم بی جے پی کے ایجنٹ نہیں ہیں اور باقی آدھی یہ شکایت کرتے گزرگئی کہ ملت ہمیں سپورٹ نہیں کرتی ۔
اپنے ایجنڈے میں صرف مسلم مسائل ہی نہ رکھیے ،بلکہ ملکی ایشوز کو سامنے رکھئے ۔عام انسانوں کی فلاح و بہبود کی بات کیجیے ۔آپ خیر امت ہیں ،ساری انسانیت کے لیے آپ کو برپا کیا گیا ہے ۔ہر وقت مسلمانوں کے ایشوز پر بولنا اورباقی ایشوز کو درکنار کردینا یا ہر ایشو کو مسلم ایشو بنا کر پیش کرنا مناسب نہیں اس سے ہم وطن قوم کے اندر حسد کا مادہ پیدا ہوتا ہے ۔اسی طرح مغلوں یا مسلم حکمرانوں کے کارناموں پر فخر کرنا اور اجاگرکر کرنا یا ان پر کی جانے والی تنقید کا جواب دینا ہمارے لیے ضروری نہیں ،مغلوں سے ہمارا رشتہ حاکم اور محکوم کا ہی تھا ۔وہ اپنی توسیع پسندانہ ذہنیت کے ساتھ حکمران رہے ۔عام مسلمانوں کو ان کے دربار میں کوئی اختیار حاصل نہ تھا ،ملک کو مقبروں اور مزارات کے سوا انھوں نے کچھ نہیں دیا ،مجھے ان کے زمانے کے تعلیمی نظام کے کوئی آثار نظر نہیں آئے ،کوئی شفاخانہ اور اسپتال نہیں ملا ۔جب وہ عالیشان مقبرے ،بنوا سکتے تھے ،جب وہ وسیع و عریض قلعہ تعمیر کراسکتے تھے تو اسکول اور اسپتال کیوں نہیں بنواسکتے تھے ۔آج جب ان کے شہروں اور سڑکوں کے نام بدلے جاتے ہیں تو ہمارے دل تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔اس کا علاج جذباتی بیانات نہیں ہیں ،بلکہ اقتدار میں پہنچنا ہے ۔
ہمیں جذباتیت سے بچنا ہے ۔ہمارے قائدین شعلہ بیانی میں یکتا ہیں ۔کاش شعلہ بیاں کے بجائے شگفتہ بیاں ہوتے ۔ان کی شعلہ بیانی نے کئی بار گلشن پھونک ڈالا ہے ۔ سنتے ہیں کہ ماضی میں آج سے بھی بڑے شعلہ بیان لیڈر تھے ۔آج کل ہمارے بیرسٹر صاحب خوب شعلہ بیانی کررہے ہیں ۔ان کے جذباتی خطاب کو ان پڑھ اور غریب مسلمان بہت پسند کرتے ہیں اور بہک جاتے ہیں ۔شعلہ بیانی کے بجائے سنجیدگی پیدا کیجیے ۔غصہ کی جگہ تحمل کا مظاہرہ کیجیے ۔ہم وطنوں کو دشمن نہیں برادران وطن سجھئے ۔
عام مسلمانوں کو بھی اپنے رویہ میں تبدیلی لانا چاہئے ۔الیکشن کے وقت امیدواروں سے بریانی کا مطالبہ اور ووٹ کے بدلے نوٹ کی ڈیمانڈ نے انہیں ذلیل کرکے رکھ دیا ہے ۔انسان کو غربت میں بھی اپنی خود داری کا خیال رکھنا چاہئے ۔جب آپ اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں تو کس منھ سے قوم کے لیے فلاحی اسکیموں کا مطالبہ کرسکتے ہیں ۔اپنے مسائل خود بھی حل کرنا چاہئے ۔آخر اسی ملک میں سکھ ازم اور جین ازم کے ماننے والے رہتے ہیں جو کبھی مطالبات کی فہرست لے کر سڑکوں پر نہیں آتے ۔اسی ملک میں بوہرہ فرقہ کے لوگ رہتے ہیں جن کا ڈسپلن اور باہمی تعاون بے مثال ہے ۔باقی مسلمانوں کو بھی اپنے مسلک یا برادری کی سطح پر اپنے مسائل حل کرنے کا ہنر سیکھنا چاہئے۔یقین کیجیے مسائل سے زیادہ ہمارے پاس وسائل ہیں ۔لیکن ہم وسائل کا استعمال کرنا نہیں جانتے ۔

Comments are closed.