کمرشیل مشاعرے
فہیم اختر۔لندن
میں ایک عرصے سے ذہنی طور سے اس تگ و دو میں تھا کہ کسی طرح فرصت سے آج کل کے مشاعروں کے بارے میں چند دلچسپ حقائق کا انکشاف کروں۔حقیقتاً دنیا کے اتنے مو ضو عاتِ مسائل ہیں کہ مشاعرے کے حوالے سے لوگوں سے بات تو ہوتی ہے تاہم باقاعدگی سے اس پر کوئی تفصیلی گفتگو نہیں ہو پاتی۔
پھر سوچا کہ آخر کیوں نہ دنیا بھر میں بکثرت ہو نے والے مشاعروں کی رسم و تہذیب اور معائب و محاسن پر اردو زبان و بیان کے حوالے سے کسی بحث کی پیشرفت کی جائے۔شاعری اردو زبان کی وہ مرغوب صنف ہے جس سے ہر عمر، مذہب اور زبان کے بولنے والے دلچسپی رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں تقریباً سبھی اہلِ قلم اپنی زبان میں صنفِ شعر وسخن میں خامہ فرسائی کرتے ہیں جن میں ایسے بھی صاحبِ سخن ہیں جو ا پنے گردو پیش کے سیاسی اور سماجی مسائل کو اپنا موضوعِ سخن بنا تے ہیں جو نہ صرف حسن و عشق بل کہ سماجی ظلم و جبر اور نا انصافیوں کے خلاف سیاسی احتجاج کو بھی اپنا موضوعِ سخن قرار دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو شاعری عصرحاضر کے تمام اردو زبان کے شائقین میں مقبول ہے۔ ہندوستان، پاکستان کے علاوہ برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، یورپ، ترکی،مشرق وسطیٰ سمیت نیپال، بنگلہ دیش وغیرہ ممالک میں بھی اردو شعرو سخن کی پزیرائی ہو تی ہے جو اردو زبان کے فروغ و مقبولیت کی بجا طور پر ضامن ہے۔اردو کے نو آباد ملکوں میں برطانیہ ایک ایسا ملک ہے جسے ایک عرصے تک” اردو کا تیسرا مرکز” کہا جاتا رہا ہے۔یہاں دیارِ مغرب کے اردو شعرا میں ساقیؔ فاروقی، اکبرؔ حیدرآبادی، خالدؔ یوسف،رفعتؔ شمیم، ڈاکٹر عبدالغفار عزمؔ، ڈاکٹر جمالؔ سوری، باسط ؔکانپوری، فاروق حیدؔر، غالب ؔماجدی وغیرہ ایسے اہم نام ہیں جو تعارف کے محتاج نہیں، اردو زبان کے فروغ اوراس کی شناخت میں ان کا یقیناً قابلِ قدر حصہ رہاہے۔ افسوس کہ ان میں سے چند ادیب و شاعر رفتہ رفتہ ہم سب سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے جس کے سبب مشاعروں کی رونق ماند پڑ گئی۔
تاہم اب بھی مشاعروں کا سلسلہ ہنوز جا ری و ساری ہے۔ لیکن مجھے یہ کہتے ہوئے دُکھ ہو تا ہے کہ مجموعی طور پر شرَکائے مشاعرہ کی کی تعمیری،تہذیبی او ر ثقافتی قدریں مبتذل ہو کر دم توڑ گئی ہیں۔مہذب انداز سے سے دادو ستایش کی بجائے سو قیا نہ لب و لہجے میں تالیوں کے ساتھ واہ واہ کا طوفانِ بد تمیزی اکثر دیکھنے سننے میں آ تا ہے اور ہمارے اردو کے نو سکھیے نوجوان تو اب سیٹی بجاکر بھی داد وینے سے باز نہیں آ تے۔سچ پوچھیے تو میں حتی ا لا مکان اسی خوف سے مشاعرے میں شریک ہو نے سے اکثر گریزکرتا ہوں۔ بلا شبہ برِ صغیر پاک و ہند کے
علاوہ دنیا بھرکے چند دیگرممالک میں بھی آج ہماری اردو شاعری ا ردو زبان کے شائقین کی ثقافت کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔اردو کے کئی معروف شعرا کے اشعار آج بھی لوگ گنگناتے ہیں اور محظوظ ہو تے ہیں۔ جن میں میر تقی میرؔ، مرزا غالبؔ، ابراہیم ذوقؔ، داغ دہلوی، میر انیسؔ،، میر دبیرؔ،علامہ اقبالؔ، جوش ؔملیح آبادی اور کئی مقتدر شعرا ہیں جن کا کلام آج تک لوگ پڑھتے اور سر دھنتے ہیں اور دنیا بھر کے اخباروں اور اردو رسالوں میں ان کی شعری تخلیقات منظرِ عام پر گاہے بگا ہے نمایاں ہو تی رہتی ہیں۔
لیکن افسوس ہے کہ اب اردو شاعری نے بڑی حد تک کمرشل صورت اختیار کر لی ہے۔ یعنی شعرا کو منہ مانگی اجرت دے کر مشاعرے میں بلایا جاتا ہے۔ بل کل اسی طرح جس طرح کس مزدور کو اس کی محنت کے صلے میں اس کی اجرت دی جا تی ہے اور طرہ اس پر یہ کہ سننے والے حضرات داد دینے کی بجائے تالی اور سیٹی بجا بجا کر شاعر کی پزیرائی کرتے ہیں۔ حیرت تویہ سن کر ہو تی ہے کہ جب دبئی میں چند بڑی بڑی ایوینٹ کمپنیوں نے مشاعرے کرانے کی بدعت اختیار کی ۔تو بس جناب پھر کیا تھا، مراثیوں سے لے کر متشاعروں کا ایک جم ِ غفیردبئی مال کمانے کی غرض سے باہر نکل پڑا۔جس کی ایک مثال حال ہی میں دیکھنے کو ملی جہاں چند شعرا کے ساتھ ایک غیر ملکی خاتون شاعرہ کو بھی بلا کر مشاعرے میں پڑھوایا گیا اور داد دینے والے نوجوانوں نے سخن فہمی کی بجائے شاعرہ کی خوبصورت شکل پر سیٹیوں اور بے ہنگم جملوں سے خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس پر سونے پر سہا گہ یہ کہ دوسرے دن سوشل میڈیا پر ایونٹ منیجر اورایک غیر ملکی شاعرہ کو دبئی کے کلب میں شیش پیتے ہوئے پا یا گیاجس کی مختلف تصویریں اور حرکات و سکنات کی نمایش لو گوں کی زینتِ نگاہ بن گئیں۔
اسی دوران ایک اور ایونٹ منیجر کا فون آیاجنہوں نے دبئی مشاعرے کی روداد سنائی اور تفصیل سے بتایا کہ دبئی میں کمرشیل مشاعرے کا زور رواج پا رہا ہے اور ہر سال دو تین گروپ اس طرح اسی اند از سے مشاعرے منعقد کر وارہے ہیں جن میں وہ کسی حسین و جمیل عورت کو مدعو کر تے ہیں اور انجامِ ِکار خا صے روپے بٹورلیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مدعو شعر ا کو منتظمین کی جا نب سے ہوائی سفر کا ٹکٹ اور بھاری بھرکم لفافہ بھی عطا کیا جا تا۔ چنانچہ جس سے اس بدعت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اب مشاعرہ کس حد تک کمرشل ر وپ دھار چکا ہے۔
در حقیقت مجھے اس بات کا تجربہ 2006میں ہوا جب ہمارے ایک ہندوستانی دوست نے ایک ایکٹر نما شاعر کو لندن بلانے کی گزارش کی۔میرے دوست نے فر ما یاکہ حضرت کو لندن جا کر اپنے شعرو سخن سے مال و زر کمانے کی شدید خواہش ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ موصوف نے محض اپنی گرج دار آواز میں "ماں ” کو موضوعِ سخن بنا کر جذباتی اندازِ سخن سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا۔ خیر ہماری شامت کہ ہم نے انہیں بلا لیا اور مشاعرے کے بعد جب ایک لفافے میں ڈنر کے بعد جو رقم پونڈ کی شکل میں پیش کی تو وہ قبلہ آپے سے باہر ہوگئے اور انہوں نے اپنی کرخت آواز میں کہا کہ” آپ نے ہماری بے عزتی کی ہے”۔ڈنر پر موجود کمیٹی کے ممبران کے علاوہ باقی مہمانانِ گرامی سب کچھ دیکھ کر سخت حیران ہوگئے۔بس پھر کیا تھا آناًفا ناً میں شاعر اعظم نے اب اپنی گرج دار آواز کا استعمال کیا اور یوں لب کشائی کی کہ”
آپ جب تک ہمیں ایک لاکھ روپئے نہیں دیں گے ہم اس ریستوران سے نہیں اٹھنے والے، ہم یہیں ستیہ گرہ کر دیں گے”۔ یہ سنتے ہی ہمارے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے، زندگی میں پہلی بار اس نوع کے المیے سے دو چار ہو نے کا حادثہ پیش آیا تھا۔مرتے کیا نہ کرتے، فوراًہم سب کمیٹی کے ممبر الگ کہیں دور سر جوڑ کر مشورے میں جٹ گئے۔بدنامی اوررسوائی سے بچنے کے لیے اردواوراردوکے مشاعرے کی لاج رکھنا ہی بہترسمجھا اور مدعو شاعر اعظم کو ان کی منھ مانگی اجرت دے کر جان چھڑائی۔
اگر دیکھا جائے تو مشاعرے کا معیار اب زوال پزیر نظر آرہا ہے۔ یعنی اتنے شعرا اب شاعری میں گل افشانی فر ما رہے ہیں کہ سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ اس بھیڑ میں کون صحیح معنوں میں شاعر ہے۔ اب تو عام طور سے سنجیدہ اور معیاری شاعری کا فقدان ہی نظر آ تا ہے۔ سامعین کی اچھی خاصی تعداد شاعری سمجھنے کی بجائے خواتین شاعرات کی بے سر پیر کی شاعری پر مر مٹتی دکھائی دیتے ہیں۔ یوں کہیے تخیل سرے سے نا پید ہے، محض الفاظ بندی کو ترجیح دی جا تی ہے۔
سوشل میڈیا پر جس طرح نئے پرانے شعرا آئے دن تعارف ہورہے ہیں اس سے بہر حال یہ خوشی ضرور ہوتی ہے کہ اردو ادب میں جتنے شعرا ہیں شاید اتنے کسی اور زبان میں نہیں ہیں۔ لیکن وہیں یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ شعرا کی اس قدربہتات کہیں اردو فکر و ادب کے لیے غیر ِافادی نہ ثابت ہو۔کیوں کہ اس خدشے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آج کے دور میں فکر و سخن کی تعمیری مقبولیت کوتاجرانہ معیار پر پرکھا جانے لگاہے۔ یعنی جو شاعر جتنی تعداد میں مشاعروں میں بلایا اور پڑھوایا جاتا ہے اسی قدر وہ ممتاز و اعلیٰ شاعر شمار کیا جا تا ہے۔
ہمارے بہت سے اچھے شاعر بدقسمتی سے اس کمرشل مرض میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ایک محترم شاعر جو اپنے آپ کو استاد ا لشعرا کے منصب پر فائز سمجھتے ہیں ان کے شعر وسخن کے تاجرانہ رویے کا یہ حال ہے کہ جہاں کسی موٹی آ سامی کو مشاعرے میں براجمان دیکھتے ہیں تو جھٹ سے مشین کی طرح اس کی شان میں کچھ اشعار ڈھال دیتے ہیں اور ان کو بصد فخر و مبا ہات پیش کرتے ہیں۔اس طرح ان کی سخن گوئی کی دھاک ان کے شاگردوں کے دلوں پربا آسانی مسلط ہو جاتی ہے اور با یں صورت کچھ جلبِ منفعت کی گنجایش بھی نکل آ تی ہے۔ یہی اردو شاعری کا ابتذال ہے۔ اس قماش کے استادا لشعرا اپنی موزونی ِ طبع کے ذریعے شاعری کو مشینی کل پرزوں میں تبدیل کردیتے ہیں اور پھراپنے کمرشل فائدے کی خاطر اپنے میکانکی طرزِ سخن کے سبب وقتی نام و نمود کے پیشِ نظر رفتہ رفتہ شعر کے تخلیقی عمل سے بے بہرہ ہو کر دم توڑ دیتے ہیں۔
ان نا مُساعِد حالات میں بھی بہر حال وہ تمام شعرائے اردو جنہوں نے اپنی شعری تخلیقات سے نہ صرف اردو زبان کے فروغ اور اس کی نشو و نما میں ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ بلکہ اپنے فکر و فن اور ادبی کاوشو ں سے اردو زبان کی مقبولیت میں اضا فہ کیا ہے وہ سب صد لائقِ
تعریف ہیں۔تاہم اگر کمرشل مشاعروں کی یہی صارفانہ روش قائم رہی تو اردو کے صحت مند تعمیری مستقبل کے لیے یہ بد شگو نی ثابت ہو گی پھر شاید ہر کوئی متشاعر کسی سے لکھوا کرایک بھاری بھر کم لفافے کے عوض اردو شاعری کے ساتھ بد دیا نتی اور نا انصافی کرے گا جومستقبل میں ایک نہایت ہی افسوس ناک انجام کا پیش خیمہ ہو گی۔
Comments are closed.