الشفاء اسپتال کی درندگی سے دیو استبداد بے نقاب

 

ڈاکٹر سلیم خان

پچھلے ہفتہ   اسرائیلی توپ خانہ نے غزہ شہر پر شدید گولہ باری کے بعد  الشفا میڈیکل کمپلیکس کو ایک گھنٹے کے اندر خالی کرنے کا حکم دے دیا تھا ۔ اس حکمنامہ پر غور کیا جائے تو ۷؍ اکتوبر کو حملے کی غرض و غایت ازخود سمجھ میں آجاتی ہے؟ اسرائیل کی  یہ درندگی امریکی حمایت کے مرہونِ منت ہے ۔13 ؍اکتوبر (2023)کو صدر جو بائیڈن نے کہا تھا ’’ زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب اس دنیا کو خالصتاً شر کا سامنا ہوتا ہے۔یہ سراسر شر انگیزی تھی کہ اسرائیل میں 1,000 سے زیادہ شہری ہلاک کر دیے گئے۰۰۰ ان میں کم از کم 14؍ امریکی شہری بھی شامل تھے۔‘‘ سوال یہ ہے اس کے بعد ہر روز جو کچھ ہورہا ہے وہ کون سا خیر ہے؟  بائیڈن نے الزام لگایا تھا کیا کہ ’’حماس فلسطینی عوام کے وقار اور خود ارادیت کے حق کے لیے کھڑی نہیں ہے۔اس کا اصل مقصد اسرائیل کی ریاست کا خاتمہ اور یہودیوں کا قتل ہے۔ وہ فلسطینی شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ حماس کے پاس دہشت گردی اور خونریزی کے سوا کچھ نہیں ہے اور اسے اس بات کی پروا بھی نہیں کہ اس کی قیمت کون چکا ئے گا‘‘۔

فی الحال یہ سارے الزامات اسرائیلی حکومت پر صادق آتے ہیں کیونکہ نیتن یاہوکا مقصد اسرائیل تحفظ نہیں ہے۔ وہ  اپنا اقتدار بچانے کی خاطر فلسطین کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اور غزہ کے عام لوگوں کا قتل عام کررہا ہے۔  وہ تحفظ کے حق کا بہانہ بناکر   ظلم و جبر کا ننگا ناچ کررہا ہے اور اس کے پاس دہشت گردی و خونریزی کے سوا کے سوا کچھ نہیں ہے ۔یاہو کو اس کی مطلق پروا نہیں کہ  اس کے ہوسِ قتدار کی قیمت عام یہودی چکائیں گے۔ بائیڈن نے اپنے بیان کے اختتام پر کہا تھا کہ ’’ امریکہ اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اسرائیل کی یہودی اور جمہوری ریاست آج اور کل اپنا دفاع کر سکے جیسا کہ ہم نے ہمیشہ کیا ہے۔امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے‘‘۔ یعنی امریکہ جیسی جمہوریت اسرائیلی جمہوریت کے لیے کمربستہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر یہی جمہوریت ہے تو ایسے سیاسی نظام پر لعنت ہے۔ علامہ اقبال  اسی لیے کہا تھا ؎

دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب                      تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

صدر جو بائیڈن کو اگلے سال الیکشن لڑنا ہے اور اس کے لیے صہیونی سرمایہ داروں سے چندہ جمع کرنے کی خاطر انہوں  نے مندرجہ بالا بیان تو دے دیا مگر اس سے جو جن بوتل سے باہر آیا تو اب وہ بے قابو ہوگیا۔ اسرائیل پر جنگی قیدیوں کو چھڑانے کا دباو ہر دن بڑھ رہا ہے ۔ اسرائیلی حکومت اپنی اس ناکامی  کے جانب سے توجہ ہٹاے کی خاطر بے قصور بچوں اور خواتین کو شہید کیے جارہی  ہے۔  ایسے میں امریکی صدر کو اپنے   پہلے بیان کے ایک ماہ بعد  14؍ نومبر (2023)   کو کہنا پڑا کہ غزہ کی پٹی کےاسپتالوں کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ صدر بائیڈن نے واضح انداز میں  کہا تھا  کہ وہ امید کرتے ہیں  اسرائیل الشفا ہسپتال میں ’کم دخل اندازی‘ کرے گا جس کے طبی عملے کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری اور سنائپرز نے بار بار اس اسپتال کو نشانہ بنایا ہے‘۔انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ ’ ہم اسرائیلیوں کے ساتھ اس حوالے سے رابطے میں رہیں گے‘۔اس کے علاوہ قیدیوں کی رہائی کے مسٔلے پر  جنگ بندی کے لیےقطری حکام کے ساتھ بات چیت سے پر امید ہونے کا اعلان بھی کیا ۔

بائیڈن کے بیان   کا اسرائیل پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ اس نے اگلےہی دن الشفا اسپتال پر حملہ کرکے اسے خالی کروا دیا۔اسلامی تحریک مزاحمت (حماس)  نے بجا طور پر اس کی ذمہ داری  امریکی صدر جو بائیڈن پر ڈال کر  کہا  کہ  : ’ وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کا یہ غلط موقف کہ الشفا میڈیکل کمپلیکس کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اسرائیل  کو شہریوں کے خلاف مزید حملوں کی شہہ دے رہا ہے۔‘ اس کے بعد  جنگ  42 ویں دن  غزہ میں ہزاروں عام شہریوں کی شہادت کے بعد امریکی  انتظامیہ نے  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جب   انسانی بنیادوں پر جنگ بندی  کے لیے قرار داد پیش ہوئی   تو اسرائیل کو قوی امید تھی کہ اپنی روایت کے مطابق  امریکہ اس کو ویٹو کردےگا لیکن ایسا نہیں ہوا اور وہ  منظور ہوگئی۔ امریکہ کی عدم حمایت  اسرائیلیوں کو تشویش  کا سبب بن گئی۔ امریکی  صدر بائیڈن   کے ذریعہ  اسرائیل کو دفاع کا حق  کے ساتھ  اور جنگ کے قوانین پر عمل درآمد   پر اصرار  سامنےنہیں آتا تھا  مگر پہلی بار اس کا اظہار  ہوگیا حالانکہ  اس  سے بھی زمینی حقائق پر کوئی اثر نہیں ہوا کیونکہ بقول علامہ اقبال ؎

مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق                             یہ بھی اک سرمایہ‌داروں کی ہے جنگِ زرگری

15؍ نومبر( 2023) کواقوام متحدہ کی  15؍ رکنی سلامتی کونسل میں بچوں اور مسلح تنازعات پر کونسل کے ورکنگ گروپ کی سربراہی کر نے والے مالٹا کی جانب سے جو قرارداد پیش کی گئی اس میں  غزہ کے اندر  فوری جنگ بندی، علاقے میں امدادی مقاصد کے لیے محفوظ راہداریاں قائم کرنے اور حماس کی قید سے  تمام یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ تھا جو منظور ہوگئی۔ اس  کے حق میں 12 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ امریکہ، روس اور برطانیہ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ روس چونکہ  فوری، مستقل اور دیرپا جنگ بندی کا قائل تھا اس لیے وہ  غیر حاضر رہا۔ 7 ؍اکتوبر  کے بعد سے غزہ اور اسرائیل کے مابین جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے پیش کی جانے والی یہ  پانچویں قراردادتھی ۔ اس سے پہلے چار قراردادیں ویٹو یا مطلوبہ تعداد میں ووٹ نہ ملنے کے باعث ناکام رہی تھیں۔ اس بار فلسطین کے حوالے سے برطانیہ، فرانس اور امریکہ کے اندر رائے عامہ کی تبدیلی نےانہیں اسرائیل کی حمایت سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور کردیا۔  یہ تبدیلی   تو اسرائیل کے خلاف ہونے والے مسلسل بڑے مظاہروں سے آئی  سروے کے نتائج نے اس کی تائید کی  ۔

"رائٹرز "اور تحقیقی ادارے "اپساس ” کا مشترکہ جائزہ ظاہرکرتا ہے کہ امریکہ کے اندر ایسے لوگوں کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے جو چاہتے ہیں کہ امریکہ اس تنازع میں ایک غیرجانبدار ثالث کا کردار ادا کرے۔ سروے کے مطابق اب 39 فیصد امریکی اپنے ملک کو ایک غیر جانبدار ثالث کے طور دیکھنا چاہتے ہیں ۔ گزشتہ ماہ ایسے لوگوں کی شرح 27 فیصد تھی۔ امریکہ کو اسرائیل کی حمایت کرنی چاہیے یہ کہنے والے افراد اب  32 فیصد رہ گئے جبکہ پچھلی بار ان کی تعداد 41؍ فیصد تھی ۔اسرائیل کی حمایت میں یہ کمی امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے حامیوں، خاص طور پر عمررسیدہ لوگوں میں پائی گئی ہے۔تقریباً تین چوتھائی ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز کی نصف تعداد غزہ میں جنگ بندی کی حامی ہے ۔ 68 فیصد  لوگوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اسرائیل کو جنگ بندی کا اعلان کر کے مذاکرات کرنے چاہییں۔

امریکہ میں میڈیا اسرائیل کا بہت بڑا حامی ہے  اس کے باوجود رائے عامہ کی یہ تبدیلی عوامی بیداری اوراحتجاج  کے سبب سے واقع ہوئی ہے۔ اس کا اثر خود کو یہودی کہنے والےامریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن پر یہ ہوا کہ انہوں نے اسرائیل سے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف آباد کاروں کے تشدد کو روکنے کے لیے "فوری اور ٹھوس” اقدامات کرنے کا مطالبہ کردیا۔اس بابت انہوں نے یاہو کے بجائے اسرائیلی اپوزیشن کے رہنما  بینی گینٹز سے فون پر بات کی جو وزیر اعظم پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔  اس کی ایک وجہ اسرائیلی فوجیوں کی مسلسل ہلاکت بھی ہوسکتی ہے۔۔  ایک اسرائیلی عہدیدار نے حال میں  اعتراف کیا ہے کہ ہر گھنٹے میں اسرائیلی فوج کا ایک فوجی غزہ میں ہلاک ہو رہا ہے۔اسرائیلی فوجی قبرستان کے ڈائریکٹر نے انکشاف کیا کہ غزہ کی پٹی میں ہونے والی لڑائیوں میں اسرائیلی قابض افواج کی ہلاکتوں کی تعداد سرکاری طور پر اعلان کردہ تعداد سے بہت زیادہ ہے، انہوں نے زور دے کر کہا کہ 50 فوجیوں کو اس قبرستان میں دفن کیا گیا جہاں وہ گذشتہ دو دنوں کے دوران کام کر رہے تھے۔ .ماؤنٹ ہرزل ملٹری قبرستان  کے ڈائریکٹر ڈیوڈ اورین باروچ نے ایک ویڈیو کلپ میں کہا کہ  "اب ہم بہت مشکل دور سے گذر رہے ہیں۔ ہر گھنٹے یا ڈیڑھ گھنٹے میں ایک لاش آتی ہے۔ مجھے بڑی تعداد میں قبریں کھولنی ہیں۔ "صرف ماؤنٹ ہرزل قبرستان میں ہم نے 48 گھنٹوں کے اندر 50 فوجیوں کو دفنا دیا”۔

 القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ بار بار کہہ چکےہیں کہ غزہ جنگ میں مجاہدین کے ہاتھوں قابض فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے مگراسرائیلی حکومت غزہ جنگ میں نقصان کو چھپا رہی ہے۔گزشتہ ہفتے کے اختتام پر غزہ میں اسرائیل  کے 11؍ افسران اور فوجی ہلاک اور 7 دیگر شدید زخمی ہوئے ۔ اس دوران غزہ میں 17 اسرائیلی گاڑیوں اور ٹینکوں  کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کر دیاگیا۔ بہت ممکن ہے کہ تصادم کی طوالت اور جنگی قیدیوں کی رہائی میں تاخیر بھی عوام رائے کی تبدیلی کا سبب بنی ہو۔ خلافت میں اللہ کی خوشنودی کے لیے فلاحِ آخرت کی خاطر شریعتِ محمدی نافذ کی جاتی ہے جبکہ جمہوریت کے اندر  اقتدار کے حصول کی غرض سے رائے عامہ کے مطابق عوام کو بہلایا  پھسلایا جاتا ہے۔ غزہ کے مجاہدین نے اپنی  جوانمردی سےدنیا بھر کے عوام کو اسرائیل کا دشمن اور اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں جو ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔ بقول علامہ اقبال ؎

دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی                        افق سے آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی

مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے                        تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

 

Comments are closed.