جمعہ نامہ : جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں،وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے: ’’بیشک ہم نے آپ  کو ایک کھلی ہوئی فتح عطا فرمائی‘‘۔ عمرہ کیے بغیر صلح حدیبیہ کرکے لوٹنے والے اہل ایمان کے لیے فتح مبین کا ادراک مشکل تھا اس لیے  حضرت عمر ؓ نےسوال کیا یہ فتح ہے ؟ نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا ہاں۔ ایک اور صاحب نے اپنے ساتھیوں سے کہا ” یہ کیسی فتح ہے ؟ ہم بیت اللہ جانے سے روک دیئے گئے، ہماری قربانی کے اونٹ بھی آگے نہ جاسکے، رسول اللہ ﷺ کو حدیبیہ ہی میں رک جانا پڑا، اور اس صلح  کے سبب ہمارے دو مظلوم بھائیوں (ابو جندل اور ابو بصیر) کو ظالموں کے حوالہ کردیا گیا "۔ نبی اکرم  ﷺ تک یہ منفی پہلو بیان  کرنے والی باتیں پہنچیں  تو آپؐ نے فرمایا ” یہ بڑی غلط بات کہی گئی ہے ۔ حقیقت میں تو یہ بہت بڑی فتح ہے۔ تم مشرکوں کے عین گھر پر پہنچ گئے اور انہوں نے آئندہ سال عمرہ کرنے کی درخواست کر کے تمہیں واپس جانے پر راضی کیا۔ انہوں نے تم سے خود جنگ بند کردینے اور صلح کرلینے کی خواہش کی حالانکہ ان کے دلوں میں تمہارے لیے جیسا کچھ بغض ہے وہ معلوم ہے۔ اللہ نے تم کو ان پر غلبہ عطا کردیا ہے‘‘۔

آپ ﷺ نے آگے فرمایا :’’ کیا وہ دن بھول گئے جب احد میں تم بھاگے جا رہے تھے اور میں تمہیں پیچھے سے پکار رہا تھا ؟ کیا وہ دن بھول گئے جب جنگ احزاب میں ہر طرف سے دشمن چڑھ آئے تھے اور کلیجے منہ کو آ رہے تھے ” ؟  اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جنگ دور رس اثرات کی معرفت آسان نہیں  ہوتی ہے۔ سرزمیِن غزہ پر برپا  معرکۂ حق وباطل کے دور رس اثرات کو نہیں سمجھنے پانےوالے مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ابھی یہ خبر آئی کہ اسرائیل پچاس  یرغمالیوں  کے عوض تین سو فلسطینی قیدیوں کو رہا  ئی اور عارضی جنگ بندی کرنے پر راضی ہوگیا ہے۔ حماس کو   تبادلے کی تعدادکے معاملے  میں فوقیت حاصل ہے مگراس      سے قطع نظر اس معاہدے کے ساتھ جنگ بندی پر وہ نیتن یاہو  راضی ہوا ہے  جو بارہا جنگ بندی کو حماس کے آگے شکست کے ہم معنیٰ قرار دے چکا ہے۔

 اس معاہدے سے ایک دن قبل ہی  اسرائیلی وزیراعظم نے  فوکس نیوز پر کہا تھا  کہ:’’ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کا مطلب حماس کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہے۔ غزہ کی پٹی میں زیر حراست قیدیوں کی رہائی کے بغیر کوئی جنگ بندی نہیں ہو گی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ آخر ڈیڑھ ماہ کی وحشیانہ بمباری کے بعد بھی اسرائیل بزورِ قوت اپنے قیدیوں کو چھڑانے میں کیوں ناکام رہا ؟  اس مزاحمت نے اسرائیل کی سمجھا دیا کہ غزہ پر قبضہ جمانا غیر ممکن ہے اس لیےیاہو نے اعتراف کیا  کہ "ہم غزہ پر حکمرانی یا قبضہ نہیں کرنا چاہتے۔ غزہ میں حماس کے خلاف لڑائی جاری رہے گی، البتہ اس دوران عام شہریوں کے انخلاء کا راستہ شامل ہوگا‘‘اور اعتراف کیا کہ "ہم نے جنگ کے لیے بغیر ٹائم ٹیبل کے اہداف مقرر کیے کیونکہ اس میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے”۔ امریکی مدد کے باوجود مٹھی بھر حماس سےنمٹنےکے لیے زیادہ وقت ہدف کے ناممکن ہونے کی علامت ہے۔

 اسرائیل کے آقا امریکہ بہادر  نے  بھی مانا   کہ قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ ہونے پر اسرائیل جنگ بندی کو بڑھانے کے لیے تیار ہے۔دراصل  امریکی دباؤ نے  ہی اسرائیل کو مجبور  کیا ہے۔ اسرائیل کے ذریعہ حماس   کی کمر توڑنے کے دعویٰ  کی تردید تو  جنگ کے۴۴؍ ویں دن دارالخلافہ تل ابیب اور اس کے مضافات پر راکٹوں کے  حملے نے کردی ۔اسرائیلی فوج نے اعتراف  کیا کہ تل ابیب  اوراشدود سے ہرزلیہ تک ساحلی علاقوں میں 129 مقامات پر سائرن بجے۔  القسام بریگیڈز نے اسے عام شہریوں کے قتل عام کا جواب  بتایا ۔ اس طرح یہودی و مغربی پروپگنڈے کی ہوا نکل گئی۔    صلح حدیبیہ  میں پہلی بار  قریش نے اعلانیہ مسلمانوں سے دب کر بیت اللہ پر مسلمانوں کا حق تسلیم کیا تھا ۔ اسرائیل نے قیدیوں کی رہائی بھی دب کر کی ہے۔ مسلمانوں کو اپنا سفر عمرہ ایک سال ملتوی کرنے راضی  کی خاطر انہوں نے تین دن  کے لئے  شہر خالی کرنے کا وعدہ کیاتھاغزہ کی عارضی جنگ بندی اسی طرح کی رضامندی ہے۔

 حماس کو ساری دنیا نے اسرائیل کاحریف حقیقی تسلیم  کرلیا ہے،یہی تبدیلی  صلح حدیبیہ کے بعدواقع  ہوئی تھی ۔ اس کے بعد  عرب  قبائل کو مسلمانوں کا حلیف بننے کی چھوٹ مل گئی تھی۔ فلسطین کے حق میں مغربی  ممالک کی بڑھتی  حمایت حماس کے پلڑے میں جاتی ہے کیونکہ وہی   غاصب  اسرائیل سے لوہا لے رہا ہے۔  اسرائیل کا اپنی ناکامیوں کی پردہ داری کے لیے وحشیانہ بمباری کرکے توجہ ہٹا نا قریش کے ذریعہ جاہلانہ  حمیت کے تئیں حضرت ابوجندلؓ کو واپس لے جانے پر اصرار سے مماثل  حرکت ہے۔اس سے بپا ہونے والےہیجان نے  معاہدے کی  کامیابیاں کو نظروں سے اوجھل کردیا تھا   مگر فتح مبین کی فتح مبین حکمتوں کےبیان نے اسےاجاگر کردیا فرمانِ خداوندی ہے :’’ تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام الزامات کو ختم کردے اور آپ پر اپنی نعمت کو تمام کردے اور آپ کو سیدھے راستہ کی ہدایت د ے د ے ۔ اور زبردست طریقہ سے آپ کی مدد کرے‘‘ ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مددو نصرت سے  صلح حدیبیہ  جس طرح  فتح مکہ کا پیش خیمہ بنی  اسی طرح  فلسطین کی آزادی کا چراغ روشن ہوگا ۔ فرمانِ خداوندی ہے:’’  وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں تسکین نازل فرمائی تاکہ ان کے ایمان پر مزید ایمان کا اضافہ ہو ‘‘۔اسرائیلی تسلط کا خاتمہ   اہل ایمان کو  سکونِ  قلب  عطا کر کےان کے  ایمان میں اضافہ کاسبب بنے گا۔ان شاء اللہ ۔

ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں            وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں

 

 

Comments are closed.