امریکہ اور ہندوستان : تم نے تو صرف بے وفائی کی

ڈاکٹر سلیم خان
ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (APEC) بحرالکاہل کے ارد گرد کی معیشتوں کا ایک گروپ ہے۔ اس کا مقصد خطے میں تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینا ہے۔ یہ بلاک ایشیا پیسیفک کے بڑھتے ہوئے باہمی انحصار سے فائدہ اٹھانے اور علاقائی اقتصادی انضمام کے ذریعے خطے کے لوگوں کے لیے زیادہ خوشحالی پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔اے پی ای سی کا آغاز 1989 میں 12؍ارکان کے ساتھ ہوا تھا لیکن وقت کے ساتھ یہ تعداد 21 پر پہنچ گئی۔ اس گروہ میں امریکہ، چین، روس، جاپان، انڈونیشیا، جنوبی کوریا، کینیڈا، میکسیکو، پیرو، چلی، ملائیشیا، اور آسٹریلیا جیسے بڑے ممالک کے علاوہ برونائی، ہانگ کانگ، نیوزی لینڈ، پاپوا نیو گنی، فلپائن، ویت نام، سنگاپور، تھائی لینڈ اور تائیوان جیسے ننھے منے ممالک بھی شامل ہیں لیکن ان میں ہندوستان نداردہے ۔ 1991 میں رکنیت حاصل کرنے کی کوشش اکثریت کی حمایت کے باوجود ناکام ہوگئی کیونکہ اقتصادی پالیسیوں کےحوالے سے کچھ خدشات اور تحفظ پسندانہ رجحانات شمولیت کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ 1997 میں نئے ارکان کے داخلہ پر روک لگی جو 2012؍ میں اٹھی مگر پھر بھی دال نہیں گلی ۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ اجلاس میں ناظر کی حیثیت سے پیوش گوئل نے شرکت کی۔وزیر اعظم خود نہیں جاسکے۔ خیر مشیت کے آگے کسی کا زور نہیں چلتا ؟
ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (APEC) کانفرنس میں ہندوستان کی عدم موجودگی جس قدر حیرت انگیز ہے اتنی ہی تعجب خیز اس میں سرزمینِ امریکہ پر امریکی صدر جو بائیڈن کی ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ملاقات ہے۔ جی ٹوینٹی کے اجلاس میں جو رہنما اپنے پڑوسی ملک ہندوستان نہیں آسکا وہ ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے امریکہ پہنچ گیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بیجنگ کے ان دونوں پروگراموں کی اہمیت میں کتنا فرق ہے؟ جہاں تک وشو گرو بننے کا خواب دیکھنے والے ہندوستان کا سوال ہے اس کے لیے اپنے ہی علاقہ کے سلامتی اور تجارتی مباحث سے دور رہنا کس قدر اذیت ناک ہوگا اس کا اندازہ لگانے کی خاطر وزیر اعظم مودی کی روح کو ٹٹول کر دیکھنا ہوگا۔ امریکی اور چینی سربراہ ایک سال بعد ایسے وقت میں ایک دوسرے سے ملے جبکہ دونوں عالمی بحرانوں فلسطین و اسرائیل اور یوکرین و روس پر ان کے درمیان شدید اختلاف ہے ۔ بیجنگ نے غزہ میں شہریوں کی ہلاکت پر اسرائیل کے خلاف موقف اختیار کررکھا ہے اور روس کےمعاملے میں چین کی مخالفت واشنگٹن کررہا ہے۔ادھر مودی نے بائیڈن کی خوشنودی کے لیے چین سے پنگا لے لیا اُدھر شی جن پنگ نے امریکہ سے ہاتھ ملا لیا ۔ ایسےمیں عطاء اللہ کا یہ مشہور نغمہ یاد آتا ہے؎
اچھا صلہ دیا تو نے میرے پیار کا یار نے ہی لوٹ لیا گھر یار کیا
ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا یہ عالم ہے کہ مذکورہ بالا دونوں تنازعات میں وہ نہ اِ دھر کا ہے اور نہ اُدھر کا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے کوئی ایک بھی فریق مطمئن نہیں ہے ۔ مودی سرکار نے روس ، یوکرین ، فلسطین ، اسرائیل ، چین اور امریکہ سبھی کا اعتماد گنوادیا ہے۔اس کے برعکس شی جن پنگ نے امریکہ کی سرزمین پرجاکر کمال کی ڈھٹائی سے اعلان کردیا کہ چین نے نہ کسی پر کبھی حملہ کیا اور نہ کسی کی ایک انچ زمین لی ۔ یہ بات اگر درست ہے تو کیا گلوان اور ڈوکلام میں ہندوستان نے چین پر حملہ کیا اروناچل پر دیش میں در اندازی کسی خلائی مخلوق نے کی؟ عالمی سطح پر اس تنہائی اور سبکی کی جانب سے توجہ ہٹانے لے لیے مودی جی نےاسی دوران وائس آف گلوبل ساوتھ سمٹ کا انعقاد کردیا ۔ اس کا ورچول افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا جغرافیائی طور پر گلوبل ساؤتھ تو ہمیشہ سے رہا ہے لیکن اسے اس طرح سے وائس پہلی بار مل رہی ہے۔ ویسے 100 سے زیادہ ممالک کے اس فورم کی اس آواز کو کوئی سنتا نہیں جن کے مفاد اور ترجیحات یکساں ہیں۔
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ مغربی ایشیا کے واقعات سے نئے چیلنجز ابھررہے ہیں۔ بس اتنا کہہ کر اگر وہ رک جاتے تو اچھا تھا۔ اس کے بعد 7؍ اکتوبر کے حملے کو دہشت گردی ، شہریوں کی موت پر افسوس اور صدر محمود عباس سے بات کرکےفلسطین کے لوگوں کی انسانی امداد کا ذکر کرکے انہوں نے ایک ایسی کھچڑی پکائی کہ جس نے سب کا ذائقہ بگاڑ دیا۔ الیکشن باز مودی کو ایسا لگتا ہے کہ سب کی بات کرو سب ووٹ دیں گے لیکن عالمی سفارتکاری میںواضح موقف اختیار کرنا پڑتا ہے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو ورنہ اچھا خاصہ مذاق بن جاتا ہے اور ایسے ممالک کی حالت ’ نہ خدا ہی ملا اور نہ وصالِ صنم ‘کی سی ہوجاتی ہے۔ فی الحال ایس جئے شنکر کے ساتھ یہی ہورہا ہے۔اقوام متحدہ میں جب بھی کوئی قرار داد پیش ہوتی ہے اس بات پیشنگوئی مشکل ہوجاتی ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی تو یہ صحرا میں بگ ٹٹ دوڑتا ہے اور کبھی دھول میں لوٹنے لگتا ہے۔
خاموش طبع شی جن پنگ کی ایک خوبی یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی مانند گول مول باتیں نہیں کرتے ۔ امریکہ اور چین کے درمیان گلے کی ہڈی بنے ہوئے تائیوان پر وہ بغیر کسی روُ رعایت کے بولے کہ اس کو وہ چین کا حصہ بنا کر رہیں گے۔ شی جن پنگ نے سرزمینِ امریکہ پر کہا کہ امریکہ تائیوان کو ہتھیار دینا بند کر دے۔ بائیڈن نے چین کو جنوری میں منعقد ہونے والے تائیوان کے صدارتی انتخابات میں مداخلت نہ کرنے کو کہا تو جواب میں صدر شی نے زور دیا کہ امریکہ کو چاہیے کہ تائیوان کو مسلح کرنے کے بجائے چین کی پُرامن وحدت کی حمایت کرے۔ انہوں نے امریکیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا چین امریکہ کو پیچھے چھوڑنا یا بدلنا نہیں چاہتا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ بھی چین کو دبانا بند کرے۔امریکی انتظامیہ نے اس دوٹوک گفتگو کو سراہتے ہوئے فوجی رابطوں کی بحالی سے امریکہ اور چین کے درمیان تناؤ کے کم ہونے کی نویدسنائی ۔ امریکہ کی جانب سے تائیوان کے معاملے پر بھی چین کے لہجے میں نرمی کا اعتراف کیاگیا ۔
گزشتہ سال نومبرسے دونوں صدور کے درمیان سفارتکاری کا آغاز دفاعی سربراہان کی بات چیت سےہوا تھا۔ اب دونوں ملک کے کمانڈر فوجی مشقوں اور فورسز کی تعیناتی جیسے اُمور پر بات چیت کر رہے ہیں۔ امسال دس اکتوبر کو چین کے صدر شی جن پنگ نے اعلیٰ امریکی قانون سازوں کے ایک وفد سے بیجنگ میں ملاقات کے بعد کہا تھا کہ چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات ”انسانی تقدیر” پر اثر انداز ہوں گے۔شی جن پنگ نے کہا تھا کہ ”دنیا میں تبدیلی اور انتشار کے اس دور میں، چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت سے، بنی نوع انسان کے مستقبل اور ان کی تقدیر کا تعین ہو گا۔” چین اور امریکہ تعلقات کو ”دنیا کا سب سے اہم دو طرفہ رشتہ” قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ، ”میں نے متعدد صدور کے ساتھ کئی بار یہ بات کہی ہے کہ ہمارے پاس چین اور امریکہ کے تعلقات کو بہتر بنانے کی ہزاروں وجوہات ہیں، لیکن انہیں خراب کرنے کی ایک بھی وجہ نہیں ہے۔”چھ رکنی امریکی وفد کی قیادت کرنے والے امریکی سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر نے شی جن پنگ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا تھا کہ : ”ہمارے ممالک مل کر اس صدی کو تشکیل دیں گے۔ اس لیے ہمیں اپنے تعلقات کو ذمہ داری اور احترام کے ساتھ سنبھالنے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل سینیٹ کے وفد نے چین کے اعلیٰ سفارت کار اور وزیر خارجہ وانگ ایی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر وانگ ا یی نے کہا، ”مجھے امید ہے کہ اس دورے سے امریکہ کو چین کو زیادہ درست اور قریب سے دیکھنے میں مدد ملے گی اور چین-امریکہ تعلقات کو دوبارہ مضبوط ترقی پر لانے میں مدد ملے گی۔”وانگ نے کہا تھاکہ اس عمل کا ایک حصہ، ”موجودہ اختلافات کو زیادہ معقول طور پر سنبھالنا” ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس دور میں ہم جی رہے ہیں وہ تبدیلی کے ساتھ ہی بہت ہنگامہ خیز ہے، اس لیے اس کی اہمیت پہلے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ گزشتہ ماہ چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی نے واشنگٹن کا تین روزہ دورہ کیا جس میں انہوں نے اپنے امریکی ہم منصب اینٹنی بلنکن اور مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان سے ملاقات کرکے سان فرانسسکو میں ہونے والی دو طرفہ ملاقات کا ایجنڈا متعین کرنے کا راستہ ’ہموار‘ کردیا گیا۔ اس ٹھوس سفارتکاری کا نتیجہ یہ نکلا کہ بائیڈن اور شی نے اے آئی(مصنوعی ذہانت) کے محفوظ و بہتر بنانے کی ضرورت کی توثیق کی، اور عالمی سطح پر غیرقانونی ادویات سازی و اسمگلنگ سے نبٹنے کی غرض سے تعاون کرنے پر اتفاق کیااس طرح یہ کہا جاسکتا ہے۔ ایشیا پیشیفک اکونومی کوآپریشن کا یہ اجلاس اپنےمحدود مقاصد کے حصول میں بڑی حد تک کامیاب رہا۔ اس کا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ اب امریکہ واحد سپر پاور نہیں ہے بلکہ چین بھی ہم پلہ ہے اس لیے امریکی استعمار کی من مانی نہیں چلے گی ۔ امریکہ کے بغل بچہ اسرائیل کے لیے یہ بری خبر بہت برے وقت میں آئی ہے۔ امریکہ اور چین کی دوستی کے بعدمودی جی خود کو بہت فریب خوردہ محسوس کرر ہے ہوں گے۔ ان کی حالت پر خلیل الرحمٰن اعظمی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
ہم نے تو خود کو بھی مٹا ڈالا تم نے تو صرف بے وفائی کی
Comments are closed.