اصلاحی جلسوں کی اصلاح کا مطلب کیا ہے ؟

 

ثناءاللہ صادق تیمی

مترجم فوری حرم مکی، سعودی عرب

موجودہ صورت حال :

بڑے بڑے مروجہ جلسے دعوت وتبلیغ کی ضرورت پوری نہیں کرتے ۔ راتوں رات چلنے والے ان جلسوں سے بہت سے مفاسدجڑے ہوئے ہیں ۔ میلوں ٹھیلوں کی کیفیت ہوتی ہے ، بڑے بڑے شامیانے اور پنڈال لگائے جاتے ہیں جن پر اچھا خاصہ صرفہ آتا ہے ، حضرات و خواتین کا میل ملاپ بڑھتا ہے ، بہت سی جگہوں پر بہت سے ناخوشگوار واقعات پیش آئے ہیں ، بالعموم مقررین کے درمیان مقابلہ آرائی رہتی ہے ، عوام کی اکثریت میلا گھومتی نظر آتی ہے ، مقررین کو کم سنتی ہے ۔ان جلسوں میں سنجیدہ علماء کم اور قصہ گو مقررین زیادہ بلائے جاتے ہیں جن سے عوام کا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہ جلسے بھی انٹرٹینمنٹ کے ذرائع ہیں ۔کمال یہ بھی ہے کہ ان جلسوں کے موسم متعین ہیں جیسے اصلاح کی ضرورت کسی خاص موسم میں ہی ہو۔

کرنے کا کام :

گاؤں کے مکتب میں اچھے عالم کو رکھیں ، مسجد کی امامت کے لیے باصلاحیت عالم تلاش کریں اور ان سے کام لیں ، انہیں واقعی معقول تنخواہ دیں ۔ جب ایسا ہوگا تو وہ باضابطہ طریقے سے سماج کی ضرورتوں کے مطابق موضوعات طے کرکےلوگوں کی تربیت کرپائيں گے ، وہ نماز ، روزہ اور حج و زکوۃ کے احکام سےروشناس کراپائيں گے ، آداب طہارت بتا پائيں گے ، توحید وسنت پر لوگوں کی تربیت کرسکیں گے اور بدعات وخرافات سے انہیں اچھی طرح آگاہ کرسکیں گے اور وہ کام کر سکیں گے جسے تزکیہ کہا جاتا ہے ۔

مسجد کے امام صاحب جب اچھی صلاحیت کے مالک ہوں گے تو جمعہ کا خطبہ جاندار ہوگا ، الگ سے جلسوں کی ضرورت نہیں ہوگی ، مسجدوں میں خواتین کی نماز کا بھی نظم ہونا چاہیے ۔حسب ضرورت الگ سے مسجد میں یا گاؤں کی سطح پر مکمل پردے میں خواتین کی دینی تربیت کا بھی انتظام کیا جاسکتا ہے۔

آپ کے مکتب کے مولانا اور امام صاحب اگر واقعی اچھی لیاقتوں کے ہوں گے اورآپ انہیں واقعی معقول تنخواہ دیں گے تو وہ ان ساری ضرورتوں کی تکمیل کے لیے کافی ہوں گے جو آپ جلسوں سے چاہتے ہیں اور وہ ضرورتیں پوری بھی نہیں ہوتیں ۔

یہ علماء حسب ضرورت گاؤں ، محلے کا دورہ کریں گے ، جو بے نمازی ہيں انہیں مسجدتک لانے کی کوشش کریں گے اور یوں ایک بڑا انقلاب رونما ہوگا۔ساتھ ہی سود، بے حیائی ، غیبت، فضول خرچی، نکما پن اور دوسرے سماجی برائیوں کے انسداد کے ساتھ سنتوں کی عملی ترویج کے لیے کوشش کرسکیں گے ۔

یہ بحث غیر ضروری ہے :

اجرت اورڈیمانڈ کی باتوں کے پیچھے پڑنا عقل مندی نہیں ۔ کسی بھی فیلڈ میں کام کرنےوالے آدمی کی ضرورتیں ہیں ، ظاہر ہے کہ جو لوگ یہی کام کرتے ہیں ان کی ضرورت کیسے پوری ہوگی اگر انہیں اس کام پر پیسے نہیں ملیں گے ۔ جلسوں کی اصلاح میں یہ ثانوی درجے کی بات ہے کہ کوئی مقرر کتنا مانگتا ہے ؟ اصل یہ ہے کہ جلسوں کا یہ سسٹم ہی درست نہیں ہے ۔ اس پورے نظام کے مفاسد اس کے فوائد سےکہيں بڑھ کر ہیں اور اس سے جڑے فوائد سلیقہ برتنے پر مسجد کے امام اور مکتب کے مولانا کے ذریعہ زیادہ بہتر طریقے سےحاصل ہوسکتے ہیں۔

ہمیں کسی مقرر کو دیا جارہا پیسہ نظر آتا ہے لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ جلسے کے اس پورے نظام کے تحت ملت کتنے پیسے خرچ کرتی ہے ، پنڈال والے کو کتنا جاتاہے ؟ میلہ لگانے والے کتنا لے کر چلے جاتے ہیں ، عید وں سے بڑھ کر نظر آنے والی ان تقریبات میں اور کہاں کہاں پیسے صرف ہوتے ہیں ؟

اگر مقصد اصلاح سماج ہے تو یقین جانیں اتنے بڑے بڑے جلسوں کا کوئی مطلب نہیں ہے ۔آپ حسب ضرورت گاؤں کی سطح پر ایک دو مولانا کو بلا کر تین سے چار گھنٹے کا پروگرام کرکے زیادہ استفادہ کرسکتے ہیں ۔ سمجھدار معاشروں میں یہی طریقہ رائج ہے ۔کسی بڑے عالم سے استفادہ کرنے کی بہتر راہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہیں ہفتہ دس روز کے لیے بلا لیں ، ایک بلاک کو ٹارگیٹ کریں اور مختلف جامع مسجدوں میں حضرت کا پروگرام رکھ لیں ۔آپ دیکھیں گے کہ فائدہ بھی زیادہ ہورہا ہے اور آپ مفاسد سے بھی بچ جا رہے ہیں ۔

اگر ان جلسوں کا مقصد یہ ہے کہ چندے حاصل ہوں تو بھی یہ دانش مندی نہیں کہ جتنا حاصل کیا جائے اس کا اچھا خاصہ حصہ ایک ہی دن رات میں خرچ کردیا جائے ۔ میں نے احباب سے بھی اس موضوع پر بات کی ہے اور بہت سے احباب نے بتلایا بھی ہے کہ اگر علماء طے کرلیں تو یہ رائج طریقہ بدل بھی سکتا ہے اور عوام سے پھربھی چندہ ملے گا۔

اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی دینی تربیت اور اصلاح کے لیے یہ جلسے کارگر نہیں ہیں ، الٹے ان سے بہت ساری خرابیاں منسلک ہیں ۔ سنجیدہ علماء کو ان کی اصلاح کا شدت سے احساس ہے ۔ اس سمت میں پیش رفت کی شدید ضرورت ہے ۔

سماج کے ذمہ دار افراد اور دینی تنظیموں کے سربراہان کو آگے آنا چاہیے اور عملی کوششیں کرنی چاہیے ۔ مجھے بتائيے کہ سیمانچل میں جہاں بنگلہ اور اردو سے مل کر بنی ایک تیسری زبان بالعموم مسلمان بولتے ہیں وہاں کسی ” بھوجپوریا مقرر” کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے ؟ ہاں اگرہنسنا ہنسانا اور لطف لینا ہی مقصد ہو تو پھر کوئی بات نہیں !!

اللہ ہمیں درست سمجھ دے۔

Comments are closed.