کیا کے سی آر تیسری مرتبہ حکومت تشکیل دے پائیں گے؟

از: ناظم الدین فاروقی
تلنگانہ اسمبلی کی119 نشستوں کے لئےہنگامہ خیز اختتام پذیر انتخابی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایسی خاص چونکا دیکھنے والی بات سامنے نہیں آئے گی۔ لیکن سیاسی جماعتوں کی اسمبلی کی اکثریتی نشستیں حاصل کرنے کے لئے جو مسابقتی جان توڑ جہد وجہد جاری ہے وہ Election engineering الیکشن انجینریئنگ کے ماہرین کے مطالعہ کا دلچسپ موضوع بن چکا ہے ۔ بی آر ایس ‘ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سہ رخی مقابلہ ہے ۔ جہاں تک بی آرایس اور کانگریس کے درمیان مقابلہ کا معاملہ ہے وہ بڑاسخت ہے اور آئندہ 5 سالوں کے لئے یہ جماعتیں ریاست تلنگانہ کی سیاسی قسمت بدل تو نہیں سکتے لیکن اپنے اپنے جاری کردہ سیاسی منشور کے مطابق وعدے پورے کئے جائیں تواس سے بڑی ترقیاتی مثالی علاقائی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ آندھراپردیش کو 2013 میں تقسیم کر کے تلنگانہ ریاست کا درجہ دلانے میں کانگریس کی کوششیں رہیں ۔ اگر کانگریس کی مرکزی حکومت یہ بل پاس نہ کرتی تو تلنگانہ ریاست کی تشکیل نہ ممکن تھی ۔ کے سی آر KCR تلنگانہ تحریک کی وجہہ سے ایک مقبول عام محبوب قائد کے طور پراپنی چیف منسٹری کے دو معیاد تکمیل کر چکے ہیں ۔انہوں نے درجنوں عوامی فلاح وبہبود کے اسکیم کو متعارف کروایا۔ کسانوں کو مفت بجلی کی فراہمی سے لے کر پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے لئے کئی اسکیمات نافذ عمل کیا۔ ان کے 10سالہ معیاد میں ریاست میں کہیں بھی فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے۔
کے سی آر ایک مسلم دوست سیاسی قائد :
بحثییت ایک مسلم دوست سیاسی قائد کے انہوں نے مقبولیت بھی حاصل کی۔ دکنی اردو میں عوام کے دلوں کو چھونے والی بڑی صاف صاف باتیں کر تے ہیں بلکہ وہ نظام دکن کے مداح اور قدران بھی ہے ۔ آزادی ہند اور سقوط حیدرآباد کے بعد پہلی مرتبہ 300 سالہ قدیم قطب شاہی قلعہ گولکنڈہ پر 15؍ ا گست اور 26؍ جنوری کو پرچم ہند لہرا کرسلامی کے سرکاری رواج کا آغاز کیا ۔ نظام ثامن میر برکت علی خان بہادر کے 15 ؍جنوری 23 کو انتقال پرپورے سرکاری اعزازات کے ساتھ مکہ مسجد میں تدفین عمل میں لائی گئی۔ یہ دراصل اعتراف آصف جاہی نظام حکومت تھا۔ بی جے پی اور دوسرے فرقہ پرست عناصر سقوط حیدرآباد کے وقت رضا کاروں کےمظالم کا ذکر کرتے ہوئے لیل و النہارسب و شتم سے نوازتے رہتے ہیں اور آج بھیRSSزبردست عوامی سطح پر یہ پروپگنڈہ جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن کے سی آر نے کبھی مسلمانوں سے دل آزاری کی بات کی اور نہ ہی فرقہ پرستوں کے مذہبی تہواروں میں شرکت کر کے انہیں تقویت پہنچائی ۔ اس کے علاوہ جس طرح کانگریس حکومت میں سابقہ وزیر شبیر علی کی مسلمان پسماندہ طبقات کو 4% ریزرویشن کی کامیاب کوششوں کو مسلمانان تلنگانہ بھلا نہیں سکتے ۔ ٹھیک اسی طرح KCR نے مسلمان اور اقلیتی طلباو طالبات کے لئے ساری ریاست کے 31 اضلاع میںTMREIS کے نام سے 204 اعلیٰ معیاری انگلش میڈیمResidential Schools کا جال بچھا یا ۔غریب خاندانوں کے بچوں کو بورڈنگ لاڈجنگ ‘ اسکول و کالج کی مفت تعلیم کی سرکاری سطح پر فراہمی کا بہترین مثالی کارنامہ کر دکھایا۔ سارے ملک سے حکومتی عہدیداروں اور سیاسی قائدین اور ان اقامتی اقلیتی اسکولس کے مشاہدہ کے لئےآتے رہتے ہیں۔ان کی حقیقت پسندانہ پالسیوں اور عام دوست حکمرانی نے ایک قد آور سیاسی قائد تسلیم کر لیا۔ KCR نےحیدرآباد کو دنیا میں 5واں سب سے بڑا ترقی پذیر شہر کا درجہ دلانے میں کامیابی حاصل کی۔ KCRکی ریاستی سطح پر کامیاب حکمرانی کے باوجودان کی دوغلی سیاسی پالیسی کی وجہہ سے وہ بد نام ہو رہے ہیں اور سیکولر سیاسی جماعتوں نےKCRکےبی جے پی و نریندر مودی کے ساتھ ان کے خفیہ مفاہمتوں کواشکار کردیا ۔ گذشتہ 10 سالوں میں پارلیمنٹ میں مسلم مخالف قوانین کی منظوری میں بی جے پی کوBRS کے ارکان پارلیمنٹ کی تائید حاصل رہی ۔ BRS کی دوہری سیاسی چال جیسے ریاست میں وہ مسلم دوست ہیں اور مرکزی سطح پر مسلم مخالفت پالیسی اختیار کی جو ان کو بہت مہنگی پڑ گئی ہے ۔ کانگریس باربار یہ بھی سوال اُٹھا رہی ہے کہ کس منہ سے BRS اپنے آپ کوتلنگانہ میں سیکولر جماعت کہہ سکتی ہے RSSو بی جے پی کے فاسد نظریات کو عملی جامعہ پہنچانے میں BRS کی بھی خدمات رہیں۔ ترقیاتی کاموں کی آڑ میں بہت بڑے بڑے اسکیامس بھی ہو تے رہے ۔ جو ہو سکتا ہےحکومت بدل جائے تو بعد میں منظر عام پر آئیں! کانگریس کا کہنا ہے کہ جو بھی ووٹ BRS یا مجلس کو ڈالا جاتا ہے وہ ووٹ دراصل بی جے پی کے حق میں جاتا ہے جس کی وجہ سے بی جے پی مرکز میں کامیاب و مضبوط ہو ئی ہے ۔ جس دن بی جے پی شکست کھائے گی اس دن یہ دونوں تلنگانہ کی پارٹیوں کا خاتمہ ہو جائے گا وغیرہ۔یہ سیاسی نشیب و تیر ہیں جس میں کچھ حقیقت اور کچھ مذاق بھی شامل ہو تاہے ۔
KCRکی تائید میں مسلم ووٹ گذشتہ دو اسمبلی انتخابات میں بڑے پیمانے پر حاصل ہو ئے تھے۔ مسلمانوں نےبڑھ چڑھ کر انہیں ووٹ دیا تھا۔2023 کے انتخابات میں اب وہ صورت حال باقی نہیں رہی۔مسلم ووٹ کی تقسیم یقینی ہے ۔ کانگریس کے اٹھائے گئے بعض سیاسی نکات ساری ریاست میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔
تلنگانہ میں جملہ 3 کروڑ 20لاکھ ووٹرس ہیں۔ جس میں 52% OBC ‘ 17% SC ‘7% ST اورریڈیز 7% جبکہ مسلمان ووٹروں کی جملہ تعداد کا 13%فیصد ہیں ۔ ریاست میں لگ بھک 40لاکھ مسلم ووٹرس ہیں ۔ تلنگانہ میں سیاسی میدان میں طبقاتی کشمکش ہمیشہ جاری رہتی ہے ۔ طاقتور اقلیتی طبقہ جیسے ریڈیز اور ویلما (اعلیٰ ذات) کے ہمیشہ سیاست میں حکمران رہا کرتے ہیں۔تلنگانہ میں 0.20% ویلما طبقہ ہے ۔ تمام سیاست دانوں کا الزام یہ ہے کہ مٹھی بھر KCR کے خاندان نے تلنگانہ کے عوام اور سیاست کو زبردستی 10 سال سے اسیر بنا رکھا ہے ۔ اب اندازہ کیجئے2023کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں BRS نے ریڈیوں کو 35نشستیں دی ہیں جو آبادی کا صرف 7% ہیں۔ اسی طرح Upper Cast کو 16نشستیں ‘OBC کو صرف 24نشستیں دی گئیں ہیں جبکہ کل ووٹروں کا 52%حصہ ان کا ہے ۔ سب زیادہ ناانصافی مسلمانوں کے سلسلہ میں تمام سیاسی پارٹیاں کر تیں آئی ہیں۔ BRS نے 13% آبادی والی مسلم اقلیت کو صرف دو نشتیں دی ہیں ۔ جس میں ایک بہت کمزور ہے وہ اس لئے دی گئی کہ بی جے پی کے اُمید وار کو کامیاب بنائیں ۔ کانگریس نے بھی گذشتہ کے مقابلہ میں اس اسمبلی انتخابات میں صرف 4 نشتیں مسلم اُمیدواروں کو دی ہیں۔ جبکہ گذشتہ 2018میں 7نشستیں دی گئیں تھیں۔مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے کم از کم12 ارکان اسمبلی کی نشستیں مسلمانوں کو ملنی چاہیے۔تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات میں ایم آئی ایم کے 12 اُمید وار ہو تے ہیں جن میں عام طور پر7 پر کامیابی حاصل کرتےہی اویسی صاحب کی سیاسی گرفت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ریاست کےاضلاع کے دوسرےانتخابی حلقوں میں بہ آسانی مسلم ووٹ کو بی آر ایس یا دوسرے اُمیدوار کو کامیاب بنانے کے لئے منتقل کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ بی جے پی کو ریاست میں قدم جمانے کے لئے BRS نے کافی اندرونی طور پر مدد کی ہے ۔ تلنگانہ میں جہاں ایک بی جے پی MLA کا کامیاب ہو نا مشکل تھا ۔ گذشتہ اسمبلی میں BRS اوربی جے پی ‘ خفیہ سیاسی مفاہمت کے ذریعہ بی جے پی کو 4 MLA اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ریاست کے 17 پارلیمانی حلقوں میں 4 پر کامیاب کروایا گیا ‘جبکہ کانگریس کو صرف 3 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ اس کے علاوہ حیدرآباد میونسپل کارپوریشنس میں جہاں کبھی دو چار بی جے پی کے اُمید وار ہوا کرتے تھے منصوبہ بند طریقے سے اس مرتبہ 40 سے زیادہ بی جے پی کاونسلروں کو کامیاب کرواکر اربن علاقوں میں بی جے پی کی منتخب سیاسی طاقت میں اضافہ کیا۔بڑی طویل تفصیلات ہیں جس کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔
راہول گاندھی و کانگریس کمیونسٹ پارٹی و دیگر اپوزیشن سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ KCR مقامی اپنی حکومت کو بچانے کے لئے مرکز میں بی جے پی سرکار کو مکمل BRS کی حمایت حاصل ہے۔کہا یہ جاتا ہے کہ اگر BRS ‘ TDP اور جگن کی پارٹی اپنی خفیہ مفاہمت توڑدے تو بی جے پی کا مرکز میں سیاسی زوال ہو سکتا ہے۔ کانگریس کرناٹک کے تجربہ سے فائدہ اُٹھا تے ہوئے پڑوسی ریاست کی اپنی قیادت کو تلنگانہ کے انتخابات میں بھر پور طور پر استعمال کر رہی ہے ۔ جس کا بڑا فائدہ کانگریس کو انتخابات میں ہو سکتا ہے ۔کانگریس کے ریڈی طبقہ کی اپنی لڑائیوں کو ختم کرانے میں کرناٹک کانگریس نے بڑا رول ادا کیا ہے بلکہ تلنگانہ کا الیکشن ان ہی کی سرکردگی میں لڑا جارہا ہے ۔
BRS کی دوغلی پالیسی کو عوام کی سطح پر کانگریس نے کھول کھول کر رکھ دیا جس کی وجہہ اس انتخابات 2023 میں ووٹوں کی سہ رخی تقسیم یقینی ہے ۔ مسلمان ریاست میں BRS کو پسند کر نے کے باوجود بی جے پی کی مخالف مسلم جابرانہ پالیسوں سے تنگ آکر مجبوراً کانگریس کو کامیاب کرانے کے لئے سنجیدہ طور پر سوچ رہے ہیں یہ بات ضرور ہے کہ انتخابات میں مسلم ووٹ بکھرنے والا ہے ۔ جس کالازمی طور پر فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔
اکثر تجزیہ نگار تلنگانہ کے حالیہ انتخابات کا جائزہ کرناٹک میں کانگریس کی انتخابی کامیابی کے تناظر میں کرتے ہیں دراصل کرناٹک میں صرف بی جے پی اورکانگریس میں مقابلہ تھا جبکہ تلنگانہ میں ایسا نہیں ہے بلکہ یہاں سہ رخی مقابلہ ہے ۔ مقامی ریاستی سیاسی پارٹی BRS کی ایک مضبوط حیثیت ہے حکومت کی کارکردگی کی رپورٹ بھی بڑی مثالی اور خوش آئند ہے۔ 10 سال حکومت سے باہر رہنے کے بعد کانگریس مقامی نئی سیاسی صورتحال میں دوبارہ کس طرح سے برتری حاصل کرے گی یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ۔
یقیناً تلنگانہ ہمیشہ سے کانگریس کا مضبوط ووٹ بینک رہا ہے ۔ لیکن KCR نے کانگریس کے اس مفروضے کو توڑتے ہوئے زبردست حکمت عملی کے ذریعہ اپنی ایک سیاسی طاقت بنالی ہے۔گذشتہ الیکشن میں BRS کو 47.4% فیصد اور کانگریس کو 28.7% ووٹ حاصل ہوئے تھے ۔
جاری انتخابات میں کرپشن اور EVM نشستوں میں الٹ پھیر و بوگس ووٹنگ سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ ہر پارٹی کے انتخابی ماہرین وسائنٹسٹ رات دن سرجوڑ کر اس کام میں لگے ہوئے ہیں کہ کس طرح سے 119 نشستوں والی اسمبلی میں اکثریتی نشستوں پر کامیابی حاصل کریں۔ اور حکومت تشکیل دیں۔قریب قریب یا دونوں کو مساوی ووٹ حاصل ہو ں تو ھنگ اسمبلی یا پھر کانگریس ‘ ٹی آر ایس کی مخلوط حکومت کے تشکیل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
کے سی آر پہلے بھی کانگریس حکومت میں مرکزی وزیر رہ چکے ہیں ۔سیاسی قائدین سے بات کرنے پر پتہ چل رہا ہے کہ اس مرتبہ تلنگانہ کا الیکشن بہت مہنگا اور بجٹ سے زیادہ خرچ کرنا پڑرہا ہے ۔BRSپا نی کی طرح پیسہ خرچ کر رہی ہے ۔ خرید و فروخت ‘ توڑ جوڑ ‘ بوگس ووٹوں کی شرح بڑھانے کا سارا کھیل آخری 48گھنٹوں میں ہی رہتا ہے ۔ بقول وزیر اعظم نریندر مودی جی کے ہمیں یوتھ مینجمنٹ کو فعال اور مضبوط بنانا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے اگرووٹنگ بوتھ پر سے کسی سیاسی پارٹی کی گرفت کمزور ہوتی ہے تو پھر وہ متعلقہ اُمید وار کے پارٹی کا معمولی یا اکثریتی دونوں کے نقصان سے شکست کھانا لازمی ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ اس مرتبہ کانگریس کی کارکردگی بہت اچھے نتائج لائے گی اور اپناووٹ شیر28.8% سے بڑھا کر 38 تا 42 تک کرسکتی ہے جس کی وجہ سے 50 تا 55 نشستیں با آسانی حاصل ہو سکتی ہیں۔بڑھاتے ہوئے نشستوں میں بھی بڑا اضافہ کر سکتی ہے ۔ بھارتی راشٹریہ سمیتی کے کارکنوں میں بڑے پیمانے پر باغیانہ تیور اور اندرونی خلفشار اضلاع کی سطح پر دیکھنے میں آرہا ہے ۔ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہBRS کا اندرونی خلفشار انتخابات میں پارٹی کی شکست کا باعث بن سکے گی۔ ہر دونوں صورتوں میں چاہے کانگریس یا BRS اکثریت میں آئے یا نہ آئے MIM کی پوزیشن ایک بادشاہ گر کی رہا کرتی ہے ۔ 3؍ڈسمبر کو سب کچھ نتائج سامنے آجائیں گے ۔ پھر یہ نتائج آئندہ 2024 کے 18ویں لوک سبھا انتخابات پر اثر انداز ہو ں گے ۔ کانگریس کے لئے دوہرا فائدہ ہے ۔ تلنگانہ میں حکومت سازی نہ بھی کرسکے تو موجودہ ووٹنگ فیصد میں اضافہ کا فائدہ لوک سبھا الیکشن میں ضرور پہنچے گا۔
Comments are closed.