یہ  کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

 

ڈاکٹر سلیم خان

اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنے ایک  بدبختانہ  بیان میں  کہا تھا  کہ جس طرح امریکہ پرل ہاربر پر بمباری کے بعد یا نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد جنگ بندی پر راضی نہیں ہوا تھا، اسی طرح اسرائیل بھی سات اکتوبروالے حملے کے بعد حماس کے ساتھ دشمنی ختم کرنے پر راضی نہیں ہو گا۔ یاہو نے مثال تو بڑی زبردست دی کیونکہ پرل ہاربر کے حملے کا بہانہ بناکر مہذب کہلانے والے امریکہ نے جاپان کے شہروں  ہیروشیما اور ناگا ساکی پر جوہری بم کا استعمال کردیاتھا۔ یہ انسانی تاریخ کی بدترین سفاکی ہے جس نے سب سے زیادہ تعداد میں کئی نسلوں تک تباہی مچائی ۔ اس مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ظالموں کے  ارادے کیا ہیں ؟ وزیر اعظم کے گفتگو کے ۵؍ دن بعد اسرائیلی وزیر ثقافت اورنیتن یاہو کے حکمراں اتحاد میں  ایک انتہائی قوم پرست سیاست دان امیچے ایلیاہو نے توایک  انٹرویو میں یہاں  کہہ دیا تھا کہ وہ  فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کی جانب سے کی گئی انتقامی کارروائیوں کی شدت سے بالکل  مطمئن نہیں ہے۔جب  اس درندے  سے سوال کیا  گیا کہ کیا وہ غزہ کی پٹی پر سب کو مارنے کے لیے کسی قسم کے ایٹم بم کو گرانے کا حامی ہے  تو وہ بولا  ’یہ بھی  ایک آپشن ہے‘۔ یعنی ایسا کرنے سے وہ پس و پیش نہیں کریں گے۔ اسرائیل نوازوں کو سوچنا چاہیے کہ آج جو جوہری بم فلسطینیوں کے خلاف  اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے پاس ڈیڑھ سو بم ہیں اور کل وہ کسی پر بھی گر سکتا ہے۔اس لیے اپنے محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا صہیونیوں کا شعار ہے۔ اس  کا مظاہرہ ساری دنیا کررہی ہے۔

امیچے ایلیاہونے ویسے تو یہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سمیت سارے صہیونیوں  کے من کی بات تھی  مگر اس کی تردید شروع ہوگئی اور یہ کھوکھلا دعویٰ کیا گیا  کہ اسرائیل غزہ میں ان لوگوں کو بچانے کی کوشش کررہا ہے جو جنگجو نہیں ہیں۔ پانچ ہزار سے زیادہ بچوں کی شہادت اس دعویٰ کے خلاف منہ بولتا ثبوت ہے اور ایک امریکی سفارتکار کا اسے حق بجانب ٹھہرا کر گرفتار ہونا ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ میں رہنے بسنے والے اسرائیل نواز اہلکاروں کو  بھی بچوں کی ہلاکت پر  چنداں افسوس نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے دنیا کودکھانے کے لیے ایلیاہو کو  تاحکم ثانی معطل کرکے کابینی  اجلاس میں شرکت سے روک دیا مگر یہ محض لیپا پوتی کی کارروائی تھی کیونکہ اسی طرح کے لوگوں کی مدد سے یاہو وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان  ہے ورنہ اسرائیلی قوانین کے مطابق بھی اس کو جیل میں ہونا چاہیے۔ امیچے ایلیاہو نے 240 یرغمالیوں کے بارے میں  کہا تھا کہ جنگ میں ہم قیمت ادا کرتے ہیں، تو یرغمالیوں کی جانیں فوجیوں کی جانوں سے زیادہ قیمتی کیوں ہے؟ اس کا مطلب تھا فلسطینیوں کے ساتھ انہیں بھی موت کے منہ میں جھونک  دیا جائے۔ اس سے گھبرا کریرغمالوں کے رشتہ داروں کی نمائندگی کرنے والے فورم نے امیچے ایلیاہو کے بیان کو غیرذمہ دارانہ قرار دے کر اس  کی مذمت کردی تھی۔

بینجمن نیتن یاہو نے اپنے مذکورہ بالا بیان میں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا  تھا کہ مغویوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کرایا جائے۔ یہ عجب معاملہ تھا کہ وہ خود عالمی برادی کی  جنگ بندی والی تجویز کو مسترد کرنے کے بعد اس سے اپنی بات منوانے کا مطالبہ کررہا تھا۔ یاہو کی اکڑ فوں کے پیچھے امریکی تائید کارفرما تھی۔قصر ابیض کے ترجمان  جان کربی نے اس وقت  جنگ بندی کے بجائے امداد پہنچانے کے لیے ‘وقفے‘ کی تجویز پیش کی تھی  اسی لیے یاہو ہوا میں اچھل رہا تھا ۔ جان کربی کی دلیل یہ تھی کہ اس وقت جنگ بندی سے حماس کو فائدہ  ہوگا کیوں کہ اسرائیل اس کی قیادت کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ جان کربی کی وقفہ کے حوالے سے  نیت کا  کھوٹ اسی بیان میں سامنے آگیا ۔  اس نے کہا  مقامی آبادی کے لیے انسانی ہمدردی کے تحت وقفے کیے جائیں تاکہ امداد مخصوص آبادیوں تک پہنچ سکے اور شاید انخلا میں بھی مدد ملے‘‘۔ اس کا  مطلب ہے امریکہ چاہتا تھا کہ بمباری کے خوف سے فلسطینی اپنی سرزمین اسرائیل کے حوالے کرکے نکل جائیں اور ماضی کی مانند انہیں ریلیف کیمپوں میں بسا دیا جائے لیکن اب وہ زمانے لد گئے۔ فلسطینی  اب کی بار وہیں  رہ کر اسرائیلیوں کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ اسی عزم و حوصلے نے اسرائیل اور امریکہ کو جنگ بندی پر راضی ہونےیا  دوسرے معنیٰ میں  گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا  ہے۔  آقا و غلام کی حالتِ زار  پر  افتخار عارف کا یہ شعر صادق آگیا ؎

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا                            یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

حماس کے ساتھ جنگ بندی اسرائیل کی کتنی سنگین مجبوری تھی اس کا   اندازہ سی این این کی ایک رپورٹ سےلگایا جاسکتا ہے ۔ 14؍نومبر (2023) کو تل ابیب کے اندر  مشرق وسطیٰ میں امریکی رابطہ کار بریٹ میک گرگ کی موجودگی میں ایک  کابینی اجلاس چل رہا تھا۔ اس کے اندر یرغمالوں کی رہائی کے پر گفتگو  ہورہی تھی کہ جنگ بندی کے مسئلہ  پرتنازع کھڑا ہوگیا اور ارکان آپس میں دست و گریباں ہوگئے۔  ایسے میں میک گرگ اجلاس سے باہر آگئے۔ ان کے باہر نکلتے ہی  اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو  باہر نکلا   اورمیک گرگ کا کندھا پکڑ ان کو روکتے ہوئے کہا :’’ہمیں اس معاہدے کی سخت ضرورت ہے‘‘۔  بینجمن نیتن یاہو کو درپیش  کئی مسائل میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ امریکی صدر کو یرغمالوں کو چھڑانے کے لیے حماس کے ساتھ  معاہدہ  کرنے کا یقین دلا چکا تھا  لیکن دیگر ارکان اس کے لیے راضی نہیں ہورہے تھے ۔  یاہو نے سوچا ہوگا ملک کے اندر زمین کھسک ہی چکی ہے ایسے میں اگر امریکہ ہاتھ بھی سر اٹھ جائے تو وہیں کا نہیں رہے گا۔ اس لیے وہ میک گرگ کو سمجھا منا کر اندر لے آیا ۔ یہ دیکھ دیگر لوگ بھی راضی ہوگئے۔ امریکی صدر نے سان فرانسسکو میں اپنی ساری مصروفیت کے باوجود  14؍نومبرکو پر فون سے رابطہ کیا  تھا اور اس کے اگلے دن قطر میں میک گرگ نے ۶؍ نکات پر اسرائیل اور امریکہ کی رضامندی ظاہر کرکے گیند حماس کے پالے میں اچھال دی۔ اس طرح پیشکش اسرائیل کی جانب سے ہوئی اور حما س نے اپنی شرطوں پر  اسے قبل کیا ۔ یہ صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد و نصرت سے ممکن تھا  اور ہو گیا۔

جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی    کے عالمی برادری اثرات  کو جاننے کے لیے سب سے بڑے  مسیحی  رہنما  پوپ  پال فرانسس   کے تاثرات  کو دیکھا جاسکتا  ہے۔ انہوں  نے ویٹیکن سٹی میں اسرائیل کے ان خاندانوں سے ملاقات کر کے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کی جن کے اعزہ و اقارب   کوحماس نے جنگی قیدی کے طور پر اپنی تحویل میں لے رکھا ہے۔  اس موقع پر پوپ نے امن کے لیے دعا بھی کی لیکن اسی روزانہوں  نے غزہ میں اسرائیلی بمباری میں  شہید ہونےوالے ہزاروں فلسطینیوں میں سے کچھ کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کرکے ان کی مزاج پرسی بھی کی  ۔  ان خیر سگالی ملاقاتوں  کے بعد  پوپ نے اسرائیل حماس جنگ کو دہشت گردی قرار دے دیا ۔ حماس کو دہشت گرد کہنا تو مغرب میں ایک فیشن بنا ہوا ہے مگر    اسرائیل کو  کسی معروف عیسائی مذہبی رہنما کا   دہشت گرد کہنا ایک بہت بڑی خبر تھا۔ انہوں نے فریقین کو جنگی جذبے میں مزید آگے نہ جانے کا مشورہ دیا جبکہ اسرائیل کا اسے جاری رکھنے پر اصرار ہے۔اس سے ناراض ہوکر اٹلی میں قائم یہودی ربیوں کی اسمبلی (اے آر آئی ) نے الزام لگایا کہ  ‘ پوپ نے سر عام دونوں اطراف کو دہشت گردی کا مرتکب کہا ہےااورسات اکتوبر کے حملے کی مذمت نہ کر کے اسرائیل اور حماس کو ایک ہی طیارے پر سوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘

اس معاملے میں فلسطینی وفد  نے وضاحت کی کہ   پوپ نے حماس کے حملے کی مذمت تو  کی مگر ساتھ میں   یہ   بھی کہا کہ   کسی ایک کی دہشت گردی  دوسرے کی دہشت گردی کا جواز نہیں بن سکتی ہے۔ ‘وزیر اعظم نریندر مودی کی مانند اٹھتے بیٹھتے ایک بہت بڑی دہشت گردی کو نظر انداز کرنے والوں کے لیے اس بیان نے مشکلات کھڑی  کردیں۔   اس کے علاوہ پوپ نے غزہ میں جاری صورت حال کے لیے ‘نسل کشی’ کی اصطلاح  استعمال کرکے صہیونی بیانیہ کی دھجیاں اڑا دیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکہ سمیت پوری دنیا کے یہودی اب پوپ پال کی مذمت کررہے ہیں مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ مسیحی رہنما کا ان پر کوئی انحصار نہیں بلکہ اسرائیل کے وجود کا دارومدار عیسائی ممالک کی حمایت پر ہے۔  ان لوگوں کی مخالفت سے کوئی خاص فرق بھی  نہیں پڑتا کیونکہ جب   اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گویترس نے کہا تھا کہ  ‘حماس نے جو کچھ کیا یہ خلاء میں نہیں کیا ہے۔’ تو یو این  میں اسرائیلی سفیر نے ان کے استعفے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ اب اٹلی سے تعلق رکھنے والے ربی اعتراض کررہے  ہیں  کہ جب یہودیوں پر حملہ ہوا تو ویٹیکن نے قلابازیوں والی سفارتکاری کا انداز اختیار کر لیا۔ اس کے جواب میں پوپ کے ایک دیرینہ ساتھی نےصہیونیوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے  ہوئے  کہہ دیا  کہ ‘ پوپ نے کسی کو ایک جہاز پر نہیں بٹھایا البتہ وہ  اسرائیلی حکومت کے پس پردہ محرکات کو سمجھتے ہیں۔’ یہودیوں اور مسیحیوں کے درمیان  پیدا ہونے والی یہ خلیج اگر وسیع ہوجائے تو اسرائیل کے وجود پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جائے گا اور وہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔ ان شاء اللہ ۔

 

Comments are closed.