غزہ پٹی سب سے بڑی جیل

 

کالم : بزمِ درویش
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

سات اکتوبر دنیا کے سب سے منافق بد معاش امریکہ کے پالتو کتے اسرائیل نے نہتے مظلوم غزہ پٹی فلسطین کے باشندوں پر دنیا کے خوفناک ترین اسلحے سے لیس ہو کر جو حملہ کر رکھا ہے دن رات معصوم بچوں عورتوں بوڑھوں جوانوں کا قیمہ بناتا جا رہا ہے عام آبادیوں کے علاوہ مساجد اور ہسپتالوں کو راکھ کے کھنڈرات میں بد ل کر رکھ دیا ہے فضائی زمینی سمندری علاقے سے جدید ترین جہازوں ٹینکوں آبدوزوں سے گھیر کر مسلسل بارودی جان لیوابارش کر کے نہتے مسلمانوں کو نگلتا جا رہا ہے امریکہ بہادر اور مغربی ترقی یافتہ اقوام کس دھڑلے سے یہ کہہ کر کے اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے اپنی منافقت اور دو عملی کا اظہار کر رہی ہے بد معاش امریکہ اور ظالم اسرائیل کو روکنے کی بجائے اُس کے حملے کو جابر قرار دے رہے ہیں ان گوری اقوام کے کسی علاقے میں اگر کوئی کتا جانور بھی اگر مر جائے تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں لیکن یہاں پر ہزاروں عورتوں بچوں بوڑھوں جوانوں کے جسموں میں آتشیں اسلحے سے سوراخ کرنے کے بعد زندہ انسانوں کا قیمہ بنانے کے بعد بھی لاڈلے اسرائیل کو روکا نہیں جا رہا ہے بلکہ اُس کی بمباری کو جائز قراردیا جارہا ہے غزہ پٹی کو راکھ کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا ہے غزہ پٹی اور اسرائیل کا آپس میں کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے کیونکہ غزہ پٹی ایسا چھوٹا سا آبادی سے بھرا ہوا علاقہ ہے جو دس کلومیٹر چوڑا اکتالیس کلومیٹر طویل ہے جس میں بیس لاکھ سے زیادہ لوگ رہائش پذیر ہیں جس کی سرحدیں اسرائیل ڈید سی اور جورڈن سے ملتی ہیں یہ علاقہ چاروں طرف سے اسرائیل نے گھیرا ہوا ہے جغرافیائی لحاظ سے بھی چاروں اطراف میں اسرائیل ہے اِس لیے اِس علاقے کو خوراک ادویات ہر قسم کی سپلائی بھی اسرائیلی علاقے کیمپ فلوم سے ہو تی ہے پہلے یہاں پر فلسطین کی حکومت تھی لیکن 2007سے یہاں پرحماس کی حکومت ہے غزہ پٹی پر چاروں طرف غربت کے سائے لہراتے ہیں 21فیصد آبادی 18ڈالر سے کم پر گزارہ کرتی ہے بیروزگاری چالیس فیصدسے زیادہ ‘بنیادی ضرورت بجلی اسرائیل اور مصر سے ملتی ہے جو اکثر بند رہتی ہے اِس لیے زندگی کو چلانے کے لیے اکثر گھروں میں جنریٹر ہو تے ہیں اِس علاقے کو دنیا کی سب سے بڑی اوپن جیل قرار دیا جاتا ہے جس کو دو لاکھ اسلحے سے لیس اسرائیلیوں نے گھیر رکھا ہے اسرائیل نے اپنی دولت اور ٹیکنالوجی کی بدولت اِس علاقے کو چاروں طرف سے میٹل کی دیوار سے گھیر رکھا ہے زمین کے اوپر اور نیچے میٹل کی دیوار سے بند کر دیا ہے تاکہ کوئی غزہ پٹی کا ریاستی سرنگ بنا کر یا اوپر سے اسرائیل پر حملہ نہ کر سکے دیواروں کے اوپر کیمرے ریڈار لگا کر غزہ کے شہریوں کی نقل و حرکت کو مسلسل واچ کیا جاتا ہے غزہ پر ظلم کا آغاز اقوام عالم اور UNOنے 1947 میں اُس وقت کیا جب دنیا بھر کے یہودیوں کا لا کر ریہاں پر آباد کیا جانے لگا اب اگر کسی ملک میں دوسرے مذہب کے لوگوں کا طاقت کے بل بوتے پر آباد کیا جائے گا تو نیچرل ہے مقامی لوگ شدید اعتراض اور مزاحمت کر یں گے غیر مسلم اقوام عالم نے مسلم دشمنی میںاسرائیل کو حکمران بنا یا پھر دنیا بھر سے چن چن کر یہودیوں کو یہاں لا لا کر بسایا تاریخ انسانی میں ہمیں ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی کہ کسی لاڈلی قوم کو اِس طرح کی سہولت اور مدد دی گئی ہو اُس وقت سے آج تک مسلسل یہ عمل جاری ہے اِس علاقے پر 1947سے 1967تک مصر کی حکومت تھی پھر بد معاش امریکہ کی فوجی برتری اور اسلحے کے ساتھ 1967میں اسرائیل نے صرف چھ دن میں عربوں کی مشترکہ فوجوں کو شکست دے کر مصر کو اِس علاقے سے نکال دیا اپنی فوجی برتری ثابت کر دی پھر 2006میں یہاں پر جہادی تنظیم حماس کی حکومت آئی جو آج تک جاری ہے غزہ میں حماس جبکہ دوسرے حصے ویسٹ بینک میں فتح پارٹی کی حکومت ہے 2008سے 2023 تک مختلف حملوں میں چھ ہزار سے زیادہ فلسطینوں کو شہادت کے جام پلانے اوراسرائیلی ظالم کی بربریت ظلم کا سلسلہ اِسطرح جاری ہے 2008کو اپنی دہشت پھیلانے کے لیے 23دن تک بمباری کے لیے غزہ کے شہریوں کا قیمہ بنا تا رہا 2012میں آٹھ دن تک مسلسل اپنی وحشت کی تسکین کے لیے جان لیوہ اسلحے کی بارش کر تا رہا 2014میں مسلسل پچاس دن تک اپنی وحشت کا اشتہار دنیا بھر کو دکھاتا رہا مظلوم شہریوں کو مارتا رہا پھر2012میں وحشی اسرائیلی شیش ناگ بن کر مسلسل 11دن معصوم شہریوں کو زہر آلودہ کر کے موت کے غار میں اتارتا رہا اب موجودہ 2023میں 7اکتوبر سے پھر وحشت بربریت ظلم کا نہ ختم ہونے والا خوفناک موت کا کھیل جاری ہے کوئی اِس کو روکنے والا نہیں ہے کوئی اِس پر تنقید کر نے والا نہیں ہے اب کی بار ایک بار پھر اسرائیلی دہشت گرد نے غزہ پٹی کے اطراف کو فضائی زمینی سمندری طور پر گھیر کر پھر جیل میں بد ل کر دکھ دیا ہے مسلسل کارپٹ بمباری سے شہری آبادی عمارات مساجد ہسپتالوں میں پناہ لیتے ہیں تو اُن کو بمباری کر کے زمین بوس کر دیتا ہے اسرائیل کی تاریخ کا اگر ہم مطالعہ کریں تو جب سے یہ قوم خدا کی نافرمان قرار پائی ہے اپنی اُسی منافقت ظلم سازشی حرکتوں کی وجہ سے مختلف ادوار میں کسی کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوتی ہے مثال جرمن ہٹلر کی ہے جو ساری زندگی یہودیوں کی نسل کشی کر تا رہا بار بار کہتا رہا کہ کرہ ارضی پر اگر میرا من چاہیے تو سب سے پہلے یہودیوں کو زمین سے پاک کر یں پھر اُس نے ہولو کاسٹ اور لاکھوں یہودیوں کو کرہ ارضی سے پاک کیا اگر تاریخ کے اندر اور گہرائی میں جا ئیں تو تخت نصیر جیسے حکمران جس نے لاکھوں یہودیوں کو قتل کرنے کے بعد باقی یہودیوں کو غلام بنا کر لے گیا پھر کئی نسلوں تک یہودیوں کو غلام بنا کر رکھا دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی غیر مسلم اقوام نے مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے یہودیوں کو مسجد اقصی کے اطراف میں آبادیاں خالی کرا کے اسرائیل کی بنیاد رکھنی شروع میں تو مسلم ممالک اِس کے خلاف رہے لیکن موجودہ ظلم و بربریت میں پورا عالم اسلام کو فہ بن چکا ہے جہاں پر گلیوں میں آل رسول ؑ کو ننگے سر پھیرا یا گیا سب نے خاموشی اختیار کر لی تھی جس طرح اُس وقت سب خاموش تھے آج بھی جب اسرائیل آتش اسلحے سے لیس نہتے بچوں عورتوں بوڑھوں پر چڑھ دوڑرہا ہے دن رات اسلحے کی بارش کر کے غزہ کے شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے عالم اسلام کوفہ بن کر اپنی عیاشیوں کی دلدل میں دھنسا جارہا ہے پھر امریکہ کی لونڈی اقوام متحدہ کا کردار دیکھیں چند فقروں اور الفاظ سے مذمت کر کے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھا یا جارہا ہے دنیا کا سب سے بڑا بد معاش امریکہ جب بھی اسرائیل کے خلاف یا جنگ بندی کی قرار داد پیش ہوتی ہے تو ویٹو کر دیتا ہے یہ رویہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ دنیاکو ہیڈ کر نے والے امریکہ کا ہے اسرائیل امریکہ کی وجہ سے جس غرور میں مبتلا ہے ماضی سے سبق لے۔ اپنی انہی بدمعاشیوں ظلم کی وجہ سے ماضی میں کوئی حکمران اٹھتا تھا پھر لاکھوں کی تعداد میں یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا اب پھر وہ وقت قریب آنے والا ہے جب اللہ تعالی کی لاٹھی مظلوموں کی مدد کے لیے حرکت میںآئے گی اور ظالم اسرائیلیوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل دیا جائے گا وہ دن اب دور نہیں ۔

Comments are closed.