مرکزعلم ودانش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کی اہم خبریں

اے ایم یو میں یوم آئین منایا گیا
علی گڑھ، 28 نومبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات، اسکولوں اور اقامتی ہالوں میں یوم آئین منایا گیاجس میں مقررین نے آئین ہند کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے آئین کی تمہید کو پڑھا اور آئین مرتب کرنے والے عظیم رہنماؤں کو خراج عقیدت پیش کیا۔
لاء فیکلٹی میں منعقدہ پروگرام میں وزارت ثقافت، حکومت ہند کے تیار کردہ آئین ہند کی اصل کاپی کی نقاب کشائی کی گئی۔ اس موقع پر مہمان خصوصی مسٹر سنجیو کمار سنگھ، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج، علی گڑھ نے آئین ہند میں مذکور بنیادی حقوق اور فرائض کی اہمیت پر روشنی ڈالی، جب کہ مہمان اعزازی یونیورسٹی لائبریرین پروفیسر نشاط فاطمہ نے عوام میں آئین کے سلسلہ میں بیداری پیدا کرنے میں لائبریریوں کے کردار پر زور دیا۔
قبل ازیں، اپنے خطبہ استقبالیہ میں ڈین پروفیسر ایم زیڈ ایم نعمانی نے آئین کی تیاری سے متعلق اہم واقعات، خاص طور پر گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 سے لے کر 1950 میں آئین کو اپنائے جانے تک کے واقعات کا ذکر کیا۔
بی اے ایل ایل بی کی طالبات عالیہ سرفراز خان، ارحم خان، فدا فاطمہ کے کے اور جاوید عالم نے آئین کے مختلف پہلوؤں اور اس کے ارتقاء پر گفتگو کی ۔ صدر شعبہ پروفیسر محمد اشرف نے شکریہ کے کلمات ادا کئے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سنٹر مرشد آباد ، مغربی بنگال میں طلباء اور اساتذہ نے یوم آئین کو جوش و خروش کے ساتھ منایا۔
’’ہندوستان: جمہوریت کی ماں‘‘ اور’’ آئینی خواہشات بمقابلہ حقیقت‘‘ موضوع پر پوسٹر سازی کے مقابلے میں سویرا پروین کی ٹیم نے اول انعام حاصل کیا جبکہ وبھا سنگھ اور سمن عتیق کی ٹیموں نے بالترتیب دوم اور سوم انعام جیتا۔
’’آئین ہند‘‘ کے موضوع پر نعرہ نویسی مقابلہ میں عون اللہ خان، گل نگار اور صائبہ خان نے بالترتیب اول، دوم اور سوم انعام حاصل کیا۔ شائلہ محمود اور ڈاکٹر مسعود احمد بالترتیب دونوں مقابلوں کے جج تھے ۔
اس موقع پر ’’کانسٹی ٹیوشن آف انڈیا: لاء آف لاز‘‘ کے عنوان پر منعقدہ ایک سیمینار میں ڈاکٹر سید عاطف جیلانی، یونٹ کوآرڈینیٹر (ایم بی اے) نے مقررین کا خیرمقدم کیا اور یوم آئین کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
مسٹر اخلاق الاعظم، یونٹ انچارج (بی اے ایل ایل بی) نے عوام میں نیشلزم کو فروغ دینے میں آئین کے کردار پر زور دیا اور سبھی کو تلقین کی کہ وہ آئین سازوں کے خوابوں کی تکمیل کے لیے کام کریں۔
ڈاکٹر راشد عثمان انصاری نے آئین کے اہم نکات بیان کئے۔ اس موقع پر بی اے ایل ایل بی کی طالبہ سمن پروین نے بھی خطاب کیا۔
پروگرام کی نظامت احمد سعید اور طوبہ سہیل نے کی جبکہ پروگرام کوآرڈینیٹر ڈاکٹر محمد عارف اور ڈاکٹر رشید احمد نے شکریہ ادا کیا۔
حاضرین کو آئین کا تمہید پڑھ کر سنایا گیا اور انہوں نے آئین کے تحفظ کا عہد کیا۔
اے ایم یو کے بیگم سلطان جہاں ہال میں آئین ہند ملک کا سپریم قانون ہے کے موضوع پر ایک مضمون نویسی کا مقابلہ منعقد کیا گیا، جس میں نبا نسیم خان نے پہلا، اقصیٰ مہک نے دوسرا اور حفصہ بانو نے تیسرا انعام حاصل کیا۔ روزی پروین اور علیمہ نشاط کو حوصلہ افزائی انعام دیا گیا۔
جے این میڈیکل کالج کے سائیکیاٹری شعبہ میں یوم آئین پر اساتذہ، طلباء اور عملہ کے اراکین نے آئین ہند کے اصولوں اور اقدار کے تحفظ کے لئے ای- حلف لیا، آئین ہند کی تمہید پڑھی اور دماغی صحت کو اس انداز میں فروغ دینے کے اپنی عزم کو دوہرایا جو تمام افراد کے آئینی حقوق اور فرائض سے ہم آہنگ ہو۔
صدر شعبہ پروفیسر وینا مہیشوری کے ساتھ پروفیسر راکیش کمار گوڑ، ڈاکٹر دیوشری اکھوری، ڈاکٹر محمد ریاض الدین، ڈاکٹر جتیندر کمار اور ڈاکٹر فیصل شان نے ای حلف تقریب میں حصہ لیا۔
سنٹر آف کنٹینیونگ اینڈ ایڈلٹ ایجوکیشن اینڈ ایکسٹینشن نے یوم آئین پر پروفیسر اسمر بیگ، ڈین، فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ایک خطبہ کا اہتمام کیا، جس میں انھوں نے سوشلزم اور سیکولرزم کے اصولوں کو برقرار رکھنے کی آئینی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کے طور پر اس دن کی اہمیت پر زور دیا جو آئین کی تمہید میں درج ہے۔
انہوں نے انصاف، مساوات اور آزادی کو رکھنے کے لیے عوام میں عقلیت پسند فکر کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا، جودر حقیقت آئین کی روح ہے۔
قبل ازیں مہمان مقرر کا خیرمقدم کرتے ہوئے سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شمیم اختر نے طلباء پر زور دیا کہ وہ اپنا حق مانگنے سے پہلے اپنے فرائض کے بارے میں سوچیں۔
شعبہ لسانیات میں منعقدہ پروگرام میں صدر شعبہ پروفیسر ایم جے وارثی نے اساتذہ اور طلباء کے سامنے آئین کی تمہید پڑھ کر سنائی ۔ انہوں نے کہا کہ یوم آئین پر ہم 26 جنوری 1950 کو ہندوستانی آئین کے نفاذ کو یاد کرتے ہیں اور اس میں درج اصولوں اور اقدار کے تحفظ کا عہد کرتے ہیں ۔
شعبہ جیولوجی میں صدر شعبہ پروفیسر رشید عمر نے یوم آئین پر منعقدہ پروگرام میں آئین کی تمہید پڑھی اور حاضرین کو آئین کے تقدس کو برقرار رکھنے اور اس کے اصولوں کو زندگی میں اپناتے ہوئے اس کی حفاظت پر زور دیا۔
٭٭٭٭٭٭
کریئر اورینٹیشن پروگرام
علی گڑھ، 28 نومبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم کے پلیسمنٹ سیل نے ایم ایڈ، ایم اے (تعلیم)، بی ایڈ، اور ڈی ایل ایڈ کرنے والے طلباء کے لیے ایک کریئر اورینٹیشن پروگرام کا انعقاد کیا۔
صدر شعبہ پروفیسر مجیب الحسن صدیقی نے کریئر کے اہداف طے کرنے اور مسلسل سیکھنے میں وقت صرف کرنے کی اہمیت پر زور دیا، جبکہ مہمان مقرر مسٹر سعد حمید، ٹی پی او (جنرل) نے طلباء پر زور دیا کہ وہ کریئر کے سلسلہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ انھوں نے شعبہ تعلیم میںطلباء کے فائدہ کے لئے ’کریئر گائیڈنس فورم‘ قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
شعبہ کی ٹریننگ و پلیسمنٹ آفیسر پروفیسر نسرین نے طلباء کے کریئر کے لئے ایسے پروگراموں کو مفید قرار دیا، جب کہ پروفیسر محمود علی نے سیشن کی افادیت بیان کی ۔
٭٭٭٭٭٭
اے ایم یو کشن گنج سینٹر کے استاد نے بین الاقوامی کانفرنس میں سیشن کی صدارت کی
علی گڑھ، 28 نومبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سنٹر، کشن گنج میں بزنس ایڈمنسٹریشن شعبہ کے استاد ڈاکٹر محمد یوسف جاوید نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، اگرتلہ میں’’انٹیلی جنس ویژن اور کمپیوٹنگ‘‘ کے موضوع پر تیسری بین الاقوامی کانفرنس میں ایک سیشن کی صدارت کی۔
’ڈاٹا انالیٹکس اور کمپیوٹنگ‘ پر ہونے والے سیشن میں ملکی و غیر ملکی ماہرین اور ریسرچ اسکالروں نے مقالے پیش کیے ، جس میں آگمینٹیڈ ریئلٹی، ڈاٹا مینجمنٹ سسٹم، اوراے آئی پر مبنی فیصلہ سازی اور بزنس میں اے آئی کے انضمام پر گفتگو کی گئی۔
ڈاکٹر جاوید نے عصری کاروباری منظر نامے میں بگ ڈاٹا انالیٹکس اور ڈاٹا پر مبنی فیصلہ سازی کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے تحقیق کے معیار کو بلند کرنے میں شرکاء کی کوششوں کو سراہا۔
٭٭٭٭٭٭
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل انجینئرنگ کی طلباء شاخ کا افتتاح
علی گڑھ، 28 نومبر: ذاکر حسین کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی، اے ایم یو میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل انجینئرنگ کے اسٹوڈنٹس چیپٹر کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس سلسلہ میں ایک تقریب کیمیکل انجینئرنگ شعبہ کے کانفرنس روم میں منعقد ہوئی۔
شعبہ کیمیکل انجینئرنگ کے چیئرمین پروفیسر سید اخلاق احمد اور چیپٹر کے فیکلٹی ایڈوائزر ڈاکٹر پرویز خاں اس موقع پر موجود تھے۔ ڈاکٹر خان نے طلباء کی شاخ کا تعارف پیش کیا جب کہ پروفیسر احمد نے اس کی اہمیت، وژن اور مشن کو اجاگر کرتے ہوئے اس کا باضابطہ افتتاح کیا۔انھوں نے عہدیداروں کے ناموں کا اعلان کیا۔
طلباء شاخ کے صدر اور کیمیکل انجینئرنگ کے طالب علم مسٹر تابش رضانے اس شاخ کے قیام سے ملنے والے فوائد پر روشنی ڈالی۔ سکریٹری نرگس جہاں نے شکریہ کے کلمات ادا کئے۔
٭٭٭٭٭٭
جن جاتیہ گورو دیوس منایا گیا
علی گڑھ، 28 نومبر: اجمل خاں طبیہ کالج، اے ایم یو کے شعبہ منافع الاعضاء نے جن جاتیہ گورو دیوس کے موقع پر جنگلات کے تحفظ اور گلوبل وارمنگ کو کم کرنے پر زور دیتے ہوئے شجرکاری مہم کا انعقاد کیا اور کالج کے احاطے میں متعدد ادویاتی اور آرائشی پودے لگائے۔
پروفیسر عبید اللہ، ڈین، فیکلٹی آف یونانی میڈیسن، پروفیسر بی ڈی خان، پرنسپل، اجمل خاں طبیہ کالج ، پروفیسر اشہر قدیر، ڈاکٹر عبدالرؤف، ڈاکٹر صبا زیدی وغیرہ نے شجر کاری مہم میں حصہ لیا۔
اس موقع پر ’’دنیا میں پائے جانے والی مختلف قبائلی اور قدیم ادویات‘‘ کے موضوع پر ایک مضمون نویسی مقابلہ منعقد کیا گیا، جس میں ڈاکٹر آفرین اسرار نے اول، ڈاکٹر آفرین احمد نے دوم اور شہلا خانم نے سوم انعام حاصل کیا۔ پروفیسر اشہر قدیر مقابلے کے جج تھے۔
آرگنائزنگ سکریٹری ڈاکٹر عائشہ اعجاز نے پروگرام کی نظامت کی۔
شعبہ لسانیات میں صدر شعبہ پروفیسر ایم جے وارثی نے جن جاتیہ گورو دیوس پر اظہار خیال کرتے ہوئے اس دن کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت پر روشنی ڈالی ۔ انھوں نے کہا کہ مختلف قبائل کے درمیان لسانی تنوع مقامی قبائل کی منفرد شناخت میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
اے ایم یو کے عبداللہ اسکول میں جن جاتیہ گورو دیوس پر اسکول سپرنٹنڈنٹ محترمہ عمرہ ظہیر کی قیادت میں اساتذہ نے خصوصی شجرکاری مہم میں حصہ لیا۔ محترمہ ظہیر نے کہا کہ یہ دن عظیم قبائلی آزادی پسند رہنما برسا منڈا کے یوم پیدائش پر منایا جاتا ہے، جنہیں ملک بھر میں قبائلی برادریاں بھگوان کے طور پر مانتی ہیں۔
اس موقع پر بچوں نے اردو، ہندی اور انگریزی میں تقاریر کیں۔ اریزا عقیل، طحہ زہرہ، مدیحہ اور کزبہ نے قبائلی نغمہ، جبکہ رمشا، ادیبہ، ارمان، حماد، ہما، عائزہ اسلم اور نیاتی پچوری نے خوبصورت قبائلی رقص پیش کیا۔ قبائل کے ثقافتی ورثے کی بھرپور تاریخ کے بارے میں بیداری کے لیے مضمون نویسی اور پینٹنگ سرگرمیاں بھی منعقد کی گئیں۔
ایس ٹی ایس اسکول کے طلباء اور اساتذہ نے جن جاتیہ گورو دیوس مناتے ہوئے قبائلی رہنما برسا منڈا کو شایان شان خراج عقیدت پیش کیا۔ اسکول کے پرنسپل مسٹر فیصل نفیس نے برسا منڈا کے یوم پیدائش کو جن جاتیہ گورو دیوس کے طور پر منانے کے لئے حکومت ہند کے اقدام کو سراہا۔
اس موقع کی مناسبت سے کئی پروگرام ہوئے۔ مسٹر نور الزماں ارشد نے خطبہ دیا اور پینٹنگ، آرٹ و کرافٹ اور کوئز کے مقابلے ہوئے۔ ایک نکڑ ناٹک بھی پیش کیا گیا ۔
٭٭٭٭٭٭
فٹ انڈیا موومنٹ کے تحت کھیلوں کے مقابلے ہوئے
علی گڑھ، 28 نومبر: اے ایم یو گرلز اسکول میں فٹ انڈیا موومنٹ کے تحت اسکول کے اساتذہ اور طالبات کی ٹیموں کے درمیان ٹیبل ٹینس، کرکٹ اور والی بال کے میچ کھیلے گئے۔ تینوں مقابلوں میں اساتذہ کی ٹیموں نے جیت حاصل کی۔
پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے اسکول کی پرنسپل محترمہ آمنہ ملک نے صحت و فٹنس کے سلسلہ میں بیداری پیدا کرنے کے لیے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان صحت مند روابط کو سراہا۔
انہوں نے پروگرام کے انعقاد کے لئے کھیلوں کی کمیٹیوں کے ممبران محترمہ افشاں ڈبلیو خان، محترمہ عارفین بانو (انچارج) اور مسٹر محمد وسیم احمد کا شکریہ ادا کیا۔
٭٭٭٭٭٭
فیکلٹی آف لاء میں آئی پی آر بیداری پروگرام کا انعقاد
علی گڑھ، 28 نومبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی فیکلٹی آف لاء نے ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ کے تحت نیشنل انٹلیکچوئل پراپرٹی بیداری مشن (این آئی پی اے ایم ) 2.0 کے زیر اہتمام دانشورانہ حقوق املاک (آئی پی آر) کے سلسلہ میں ایک بیداری پروگرام کا انعقاد کیا۔
مہمان مقررین کے طور پر این آئی پی اے ایم کی کوآرڈینیٹرز، اور ایشین پیٹنٹ اٹارنی ایسوسی ایشن (اے پی اے اے ) کی ممبران، محترمہ مانسی چودھری اور محترمہ رمشا خان نے اپنے خطاب سے مستفید کیا۔
مہمان مقررین کا خیرمقدم کرتے ہوئے پروفیسر محمد ظفر محفوظ نعمانی، ڈین، فیکلٹی آف لاء نے مستقبل میں آئی پی اور انوویشن سے متعلق اس طرح کے دیگر پروگرام منعقد کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ فیکلٹی آف لاء، اے ایم یو میں ایک نئی انوویشن و آئی پی سوسائٹی قائم کی جا رہی ہے جس کے عہدیدار طلباء ہوں گے۔
محترمہ مانسی چودھری نے ہندوستان میں پیٹنٹ اور ڈیزائن کے تحفظ پر ایک انتہائی معلوماتی پرزنٹیشن دیا۔ انھوں نے تعلیمی حلقہ میں آئی پی آر کے تئیں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا ذکر کیا۔ آئی پی ایکو سسٹم کا تعارف پیش کرتے ہوئے محترمہ چودھری نے پیٹنٹس اور ڈیزائن سے متعلق قوانین اور طریق ہائے عمل پر اپنے وسیع عملی اور نظریاتی علم و تجربات سے مستفید کیا۔
اسی طرح محترمہ رمشا خان نے ہندوستان میں ٹریڈ مارکس اور جغرافیائی اشاریے(جی آئی) کے تحفظ پر ایک پریزنٹیشن دیا۔ انھوں نے عملی مثالوں کے ساتھ اس بات کی وضاحت کی کہ ٹریڈ مارک کے لئے درخواست کیسے دی جاتی ہے اور جغرافیائی اشاریے (جی آئی) کیا ہوتے ہیں۔
پروگرام کا ایک اہم حصہ مقررین کی جانب سے اپنے اپنے عنوانات پر دکھائی جانے والی اینیمیٹڈ ویڈیوز تھیں، جس نے تخلیقی انداز میں موضوع کے بارے میں معلومات میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔
پروگرام میں پروفیسر محمد اشرف، چیئرمین، فیکلٹی آف لاء، اے ایم یو کے ساتھ دیگر اساتذہ اور طلباء نے آن لائن اور آف لائن طریقہ سے شرکت کی۔ سوال وجواب کے سیشن کا بھی اہتمام کیا گیا۔
ڈاکٹر سید محمد یاور، اسسٹنٹ پروفیسر، فیکلٹی آف لاء نے شکریہ کے کلمات ادا کئے۔
مسٹر دھرو ناگپال نے پروگرام کی نظامت کی۔ طالب علم کوآرڈینیٹروں میں منتشا سلطانہ، نویش ورما، روشن احمد، نورین انصاری، علیمہ نشاط، ریتھم شرما، اور انجم سنجر شامل تھے۔
٭٭٭٭٭٭
’’پوسٹ ٹروتھ: عصری ادب اور سنیما میں نمائندگی‘‘ موضوع پر کانفرنس کا آغاز
علی گڑھ، 28 نومبر: ہم جس زمانے میں رہتے ہیں اس میں جھوٹ سے سچ کو الگ کرنے کے طریقوں پر غور وخوض کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی نے ’’پوسٹ ٹروتھ (مابعد سچائی): عصری ادب اور سنیما میں نمائندگی‘‘ موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز کیا۔
اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے اپنے صدارتی کلمات میں ہندوستان میں حال میں منعقد ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس کی کامیاب تکمیل اور ہندوستان کی آزادی کے 75 سالہ جشن کے تحت آزادی کے امرت مہوتسو کا ذکر کیا ۔ ان واقعات نے موجودہ کانفرنس کے لئے پس منظر کا کام کیا جس میں عصری ادب اور سنیما میں سچائی اور نمائندگی پر بحث کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ پروفیسر گلریز نے کہا کہ پوسٹ ٹروتھ وہ حقیقت ہے جسے ہم سمجھتے اور فرض کرتے ہیں، جو کہ حقیقت سے کافی بعید ہو سکتی ہے۔
اپنے خیرمقدمی کلمات میں شعبہ انگریزی کے سربراہ پروفیسر محمد عاصم صدیقی نے انتھروپوسین اور پوسٹ ٹروتھ جیسے متنوع موضوعات پر کانفرنسوں کے انعقاد کی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شعبہ انگریزی کی جڑوں میں یہ بات ہے کہ ان موضوعات پر تبادلہ خیال ہو ۔ شعبہ کے اولین سربراہ سر والٹر رالے ،جنگ کے پس منظر میں پمفلٹ لکھتے رہے جسے پوسٹ ٹروتھ کی ایک اہم مثال کہا جا سکتا ہے۔ پوسٹ ماڈرن تحریروں میں سچائی پر گفتگو کے حوالے سے پروفیسر عاصم صدیقی نے اقتدار کے مراکز سے جاری ہونے والے سرکاری بیانات میںپوسٹ ٹروتھ کے رجحان کی جڑوں اور سرکاری بیانیہ پر عدم اعتبار کے رجحان پر تبصرہ کیا ۔
تقریب کی مہمان خصوصی ڈاکٹر رخشندہ جلیل نے اردو ادب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پوسٹ ٹروتھ کوئی نیا مظہر نہیں ہے، اور یہ وقت کے کسی خاص لمحہ تک محدود نہیں ہے۔ لفظ پوسٹ کا استعمال زمانی معنی میں نہیں بلکہ سچائی کے تناظر میں ہوتا ہے جس پر پروپیگنڈے کے باعث گہن لگ جاتا ہے۔ انھوں نے نازی ازم سے لے کر بلقان کی جنگوں تک اور مغل سلطنت کے خاتمے سے لے کر ہندوستان میں موجودہ حکومت تک کے دور میں پوسٹ ٹروتھ کے ابھار کا ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ادب اور تاریخ کے ایک دوسرے سے ملن سے پوسٹ ٹروتھ کے مثالیں جنم لیتی ہیں جس کا مشاہدہ ہر عہد میں کیا جاسکتا ہے ۔
ڈاکٹر جلیل نے سچائی کی موضوعیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جو کچھ لوگوں کے لئے سچ ہے وہ دوسرے کے لیے جھوٹ ہوسکتا ہے، جو ایک لوگوں کے لیے ترتیب و استحکام ہے وہ دوسرے کے لیے انتشار و بدنظمی ہے۔ انہوں نے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے ہندوستان کے اردو شعراء کا حوالہ دیا جنہوں نے اپنے عہد کے سیاسی اور سماجی تغیرات پر دکھ کے اظہار کے لیے شاعری کا استعمال کیا۔ وہ ایک ایسی دنیا کی تصویر کشی کرتے ہیں جہاں ہر شئے بے ترتیب ہے، جہاں ’بھیڑیے آزاد ہیں اور چرواہے زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں‘، جنھیں ماقبل جدید تحریروں میں پوسٹ ٹروتھ کا نمائندہ کہا جاسکتا ہے۔
انھوں نے شہرِ آشوب کے تصور پر بھی گفتگو کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ یہ کانفرنس کچھ اہم سوالات اٹھائے گی، جن میں سب سے اہم یہ ہوگا کہ ’کیا فنکارانہ سچائی حقیقی سچائی سے مختلف ہوتی ہے؟‘۔
دی ہندو اخبار کے ڈپٹی ایڈیٹر مسٹر انوج کمار نے پلینری سیشن نے ہندی سنیما میں (غیر) سچائی پر اظہار خیال کیا۔ انھوں نے واضح کیا کہ کس طرح سنیما پوسٹ ٹروتھ کے مطالبات کو پورا کر رہا ہے، نہ صرف موجودہ عہد میں بلکہ تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے لیے ماضی کی بھی نمائندگی کررہا ہے۔
انہوں نے نفرتی بیانیہ کا ذکر کرتے ہوئے خاص طور پر کشمیر فائلز، دی کیرالہ اسٹوری، آدی پورش، غدر سیریز جیسی فلموں کا حوالہ دیا اور ایسی فلموں کو بنانے کی منشا پر بھی بحث کی۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہاکہ فن میں منشا اور ارادہ کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔
پروفیسر نثار احمد خان، شعبہ اقتصادیات،اے ایم یو نے مہمان اعزازی کے طور پر گفتگو کرتے ہوئے معاشی دنیا میں پوسٹ ٹروتھ کی نمائندگی پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے اڈانی-ہنڈن برگ مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ پروپیگنڈے اور جھوٹے بیانیہ کی وجہ سے نام نہاد سچائی کس طرح گمراہ کن ہو سکتی ہے۔ انہوں نے طاقت اور پوسٹ ٹروتھ کے درمیان تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ دنیا بھر میں مختلف حکومتیں اقتدار میں آنے کے لیے جھوٹ اور جھوٹے وعدوں کا سہارا لے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر وقت، جسے ہم باخبر انتخاب کہتے ہیں وہ اب باخبری نہیں ، بلکہ جوڑ توڑ اور متاثر ہونے کا شاخسانہ ہے۔
افتتاحی اجلاس میں دو کتابوں : قرۃ العین حیدر پر ایک مونوگراف کا انگریزی ترجمہ از پروفیسر محمد عاصم صدیقی اور پریم چند کے ڈرامے ’کربلا‘ کا انگریزی ترجمہ ، از ڈاکٹر حارث قدیر اور پروفیسر سمیع رفیق کا اجراء عمل میں آیا۔ دونوں کتابیں ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی نے شائع کی ہیں۔
کانفرنس کنوینر ڈاکٹر کشور ظفیر نے کانفرنس کے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے مسٹر بھابھا کی جانب سے سچائی کے نظریات کا ذکر کیا، جنھوں نے فوکو کے حوالہ سے کہا تھا کہ اب عالمگیر سچائی کا تصور موجود نہیں ہے۔ انھوں نے جارج آرویل کی تصنیف’ 1984‘ اور مارگریٹ ایٹ ووڈ کی ’دی ہینڈ میڈز ٹیل‘ کا ذکر کیا جو ادب میں پوسٹ ٹروتھ کی اولین نمائندگی ہے۔
اپنے خطاب میں پروفیسر عارف نذیر، ڈین، فیکلٹی آف آرٹس نے پوسٹ ٹروتھ کی مثالوں کو زمانہ قدیم سے جوڑتے ہوئے منوسمرتی کے ایک شلوک کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’سچ بولو جو میٹھا ہو۔ وہ مت کہو جو سچ ہو لیکن ناگوار ہو‘‘۔
ڈاکٹر محمد ثاقب ابرار نے شکریہ کے کلمات ادا کئے، جبکہ معاون کنوینر ڈاکٹر ادیبہ فیاض نے پروگرام کی نظامت کی۔
٭٭٭٭٭٭

Comments are closed.