سب کے بس کی بات نہیں!

از:مدثراحمد
شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327
زمانہ تیزی کے ساتھ بدل رہاہے،اسی طرح سے لوگوں کی سوچ بھی بہت تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے۔اس وقت تعلیمی میدان کاجائزہ لیاجائے تو ہر کوئی اس بات پر اڑا ہواہےکہ وہ بنے گا تو ڈاکٹر بنے گا یاپھر انجینئربنے گا۔لیکن اس وقت جو حالات ڈاکٹرس اور انجینئرس کے دیکھے جارہے ہیں وہ آنےوالے دنوں میں مزید خطرناک ہوسکتےہیں۔اس وقت جو طلباء ڈاکٹر بنناچاہتے ہیں تو وہ ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مکمل طورپر کامیابی حاصل نہیں کرسکتے،ان کی کامیابی کیلئے اب ماسٹر ڈگری یاپھر دوسرے کورسس کا بھی ہونا ضروری ہے۔ہر کوئی طالب العلم ایم بی بی ایس نہیں کرسکتا اور ہر کوئی ایم بی بی ایس کیا ہواڈاکٹر ماسٹرس نہیں کرسکتا،اس کی دو وجوہات ہیں،اول یہ کہ سرکاری کوٹے میں ماسٹرس یا ایم بی بی ایس کی تعلیم کیلئے محدود یا پھر بہت زیادہ چالاک طلباء کو ہی موقع ملتاہے،یاپھر لاکھوں کروڑوں روپئے دیکر میڈیکل سیٹ یا ماسٹرس کی سیٹ حاصل کرنی پڑتی ہے۔اسی طرح سے انجینئرنگ کی بات کی جائے تو آج سماج میں لاکھوں طلباء انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے انجینئرس تو بن گئے ہیں،لیکن ان انجینئرس کیلئے روزگارکے مواقع بہت کم ہیں اورصرف انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کئے ہوئے طلباء کوروزگار ملنا مشکل ہے،ان طلباء کو مزید اعلیٰ تعلیم یا دوسرے کورسس میں تعلیم حاصل کرنا لازمی بن چکاہے۔ان حالات میں روزگارکے مسائل روزبروز بڑھتے جارہے ہیں،خصوصاً مسلم طبقے کے طلباء بے روزگاری کا شکارہورہے ہیں،اب تک انجینئرنگ سے فارغ ہونےوالے طلباء کی بڑی تعداد عرب ممالک میں برسرِ روزگار تھی،لیکن اب بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی اور عرب شہریوں کی خودروزگار حاصل کرنے کے جذبے کے بعد مسلم نوجوانوں کے روزگارکے مواقع کم ہوتے جارہے ہیں۔ایسے میں ہزاروں نوجوان تعلیم یافتہ ہوکر بھی بے روزگاری کاشکارہیں۔کل تک جو انجینئرس لاکھوں روپیوں کی تنخواہ لے رہے تھےوہ آج چند ہزار روپیوں کی تنخواہ لے رہے ہیں۔آنےوالے دنوں میں انجینئرس کی مانگ میں مزید کمی آئیگی،یہ بات تو طئے ہے۔ان حالات میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر نوجوانوں کو کس طرح کی تعلیم دی جائےاور کونسی تعلیم ان کی زندگیوں کو محفوظ کرسکتی ہے؟۔ماہرین کا کہناہے کہ جس طرح سے پچھلے بیس پچیس سالوں سے انجینئرس کی مانگ بڑھی تھی اور اُسی رفتارسے مانگ میں کمی آنے لگی ہے،اسی طرح سے آنےوالے دنوں میں ٹیکنیشن، اسکلڈ لیبرس،آئی ٹی آئی والوں کی مانگ میں اضافہ ہوگا۔کیونکہ اس وقت نوجوانوں کا جو طبقہ ہے وہ وائٹ کالر جاب کا خواہشمندہےاور وہ اپنی تعلیم کے مدِ نظر ٹیکنیشن یا لیبر سیکٹرمیں جانا گوارانہیں کرتے۔ان حالات میں نئی نسل کو ٹیکنیشن یا آئی ٹی آئی کورسس میں داخلے دلواکر نوجوانوں کو روزگارسے جوڑاجاسکتاہے۔اس وقت ایک انجینئرکی تنخواہ25 ہزار روپئے سے 40 ہزار روپئے ہے،جبکہ آئی ٹی آئی کیاہوا ٹیکنیشن25 ہزارروپئے سے لیکر45 ہزار روپئے تک کی تنخواہ لے رہاہے،کسی بھی کارخانے میں دس ٹیکنیشن پر ایک انجینئر نگران ہوتاہے،اس وقت دس انجینئرہیں اور ایک ٹیکنیشن کے حالات پیداہوئے ہیں۔اس وجہ سے آنےوالے دنوں میں آئی ٹی آئی اور ٹیکنیکل کورسس کے امیدواروں کی مانگ بہت زیادہ ہوسکتی ہے۔قومِ مسلم کو چاہیے کہ وہ مستقبل کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے فوری طورپر نوجوان نسلوں کو ان ٹیکنیکل کورسس سے جوڑیں،ورنہ بے روزگاری کا جو سیلاب اُمنڈ آئیگا وہ نوجوان نسل کو پوری طرح سے تباہ کردیگا۔
Comments are closed.