تلنگانہ میں لوک پول کے سروے کا ہنگامہ

ڈاکٹر سلیم خان
2024؍کا قومی انتخاب کیسا ہوگا ؟ اس کی جھلک نہ تو مدھیہ پردیش میں نظر آئی اور نہ راجستھان میں دکھائی دے سکی۔ اس لیے کہ ان دونوں صوبوں میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان کڑی ٹکرتھی۔ چھتیس گڑھ جیسا یکطرفہ معاملہ بھی نہیں ہوگا اور نہ میزورم کی طرح کانگریس دو عدد علاقائی جماعتوں سے لڑ رہی ہوگی بلکہ اس جنگ کا ماحول توتلنگانہ جیسا ہوگا جہاں کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ کوئی نہ کوئی علاقائی جماعت بھی موجود ہوگی ۔ مودی کے علاوہ یوگی اور راہل کے ساتھ کے سی آر واویسی جیسے علاقائی رہنما بھی میدان میں ہوں گے ۔ انتخابی مہم کے وزیر اعظم کے بارے میں یہ خیال کہ وہ ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں ، سچ نہیں ہے ۔ گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر مودی جی کو بھی کبھی کبھار سچ بولنا پڑ جاتا ہے مثلاً ان کی کلو کے حساب سے گالی کھانے والی بات بالکل درست ہے مگر وہ اپنے کرموں کا پھل ہے اس لیے وہ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔ دوسروں کو بیوقوفوں کا سردار کہنے والے کو پنوتی کہلانے پر شکایت کا حق نہیں ہے۔
کریم نگر میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ میں تلنگانہ میں تبدیلی کی لہر محسوس کررہا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تلنگانہ میں تبدیلی کی ہوا ہے اس لیے وزیر اعظم کا اعلان درست ہے لیکن تبدیلی کی یہ لہر کس کے حق میں اس بابت مودی جی کی قیاس آرائی ناقابلِ یقین ہے۔ ان کا گودی میڈیا بھی اس بار اپنے آقا و مالک کی تائید کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مودی جی نے فرمایا کہ ’’میں جہاں بھی جاتا ہوں، مجھے ایک ہی گونج سنائی دیتی ہے – ’تلنگانہ میں پہلی بار ۔ آ رہی ہے بی جے پی سرکار‘! عام لوگوں کے لیے یہ حیرت انگیز انکشاف ہے مگر مودی جی کا دعویٰ بھی درست ہے۔ وزیر اعظم آج کل عام لوگوں سے ملتے کہاں ہیں ۔ وہ تو دن رات جن چاپلوسں بھگتوں میں گھرے رہتے ہیں وہ سوچ سمجھ کر وہی بات کہتے ہیں جو مودی سننا چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ فی الحال کوئی چمچہ مودی جی ناراضی لینا نہیں چاہتا اس میں نہ صرف کمائی کے بند ہونے کا خطرہ ہے بلکہ جیل جانے کا بھی اندیشہ ہے۔ ان بھگتوں پر 1970؍کی فلم سفر کا یہ نغمہ صادق آتا ہے؎
جو تم کو ہو پسند وہی بات کہیں گے تم دن کو اگر رات کہو رات کہیں گے
وزیر اعظم چونکہ سچائی سننا نہیں چاہتے اس لیے کوئی ان کے سامنے اسے بیان کرنے کی جرأت نہیں کرتا ۔ ویسے مودی جی کی خوش فہمیوں کے درمیان ایک مقامی ادارے لوک پول کا ایک تازہ جائزہ شائع ہوگیا۔ اس سروے کے مطابق بی جے پی کو 9 تا 11فیصد ووٹ اور دو تا چار نشستوں پر کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ اندازے اگر ووٹ میں بدل گئے تو تناسب کے لحاظ سے سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہوگا کیونکہ پچھلی بار اس کا صرف ایک امیدوار جیتا تھا اور ضمنی انتخاب میں ایک کی کامیابی کے بعد وہ تعداد دو پر پہنچ گئی تھی۔ اس بار اگر چار جیت گئے تو یہ صد فیصد اضافہ کہلائے گا ۔ اس کے علاوہ اتحاد المسلمین کا قلعہ بھی محفوظ رہے گا اور اس کو پہلے کی ساری نشستوں پر پھر سے کامیابی مل جائے گی ۔ بی آر ایس جو پچھلی بار 25 سیٹیں بڑھا کر 88 پر پہنچ گئی تھی وہ اوسطاً 34 پر آجائے گی اور 2؍ نشستیں گنوا کر19؍ پر اترنے والی کانگریس تقریباً 73؍ پر پہنچ جائے گی۔ جہاں تک ووٹ تناسب کا سوال ہے بی آر ایس کو 37 تا 40 فیصد کے درمیان ووٹ ملیں گی جبکہ کانگریس کو 44 تا 47 فیصد ووٹ ملنے کا امکان ہے ۔ اس کھائی کو پاٹنا مشکل ہے ۔
لوک پول نے ایک ہفتہ قبل کانگریس کے72نشستوں پر کامیابی کا اندازہ لگایا تھا جبکہ بی آر ایس کے لیے38-41 فیصد کی پیشنگوئی کی تھی۔ جو پچھلی بار کے مقابلے 6 فیصد کم ہے۔ کانگریس کےبڑی چھلانگ لگا کر 28.43 فیصد سے بڑھ کر 43-46 فیصد ووٹ پانے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا ۔ یہ وہی لوک پول ہے جس کا اندازہ کرناٹک میں سب سے درست نکلا تھا پھر بھی کے جائزے تو جائزے ہی ہوتے ہیں ان کا درست ہونا ضروری نہیں ہوتا۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے جوش اور ولولہ میں اس طرح کے جائزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس نے اسمبلی کی انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں اپنی ساری طاقت جھونک دی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی، مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا تال ٹھونک کر میدان میں اترے گئے ۔ اس پر دل نہیں بھرا تو اترپردیش سے یوگی ادیتیہ ناتھ اور آسام سے ہیمنتا بسوا سرما کو بھی بلا لیا گیا ۔ ان میں سے سرما، شاہ اورنریندر مودی تو احمد آباد میں موجود تھے لیکن ان کی نحوست سے پورے ٹورنامنٹ میں زبردست کا میابی درج کرانے والی ہندوستانی ٹیم شکستِ فاش سے دوچار ہوگئی۔
کرکٹ کی مدد سے انتخاب جیتنے کا منصوبہ ناکام ہوا تو اس کے باوجود وزیر اعظم نے ٹیلیویژن پر نظر آنے کے لیےفوجی جہاز تیجس پر اڑان بھر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔انہوں نے لباس تو اس طرح زیب تن کیا کہ گویا خود جہاز اڑا رہے ہیں لیکن جب دل نہیں مانا اور ہاتھ ہلا دیا۔ اس سے پتہ چل گیا کہ وہ صرف نوٹنکی کررہے ہیں۔ ان کے ہاتھ ملانے پر لوگوں نے سوال کیا کہ وہ بادلوں کی اوٹ سے کسے ہاتھ ہلا کر مبارکباد وصول کررہے تھے ؟ تو آئی ٹی سیل نے جواب دیا کہ بغل میں ایک اور تیجس اڑ رہا تھا اور مودی جی اس کی جانب ہاتھ ہلا رہے تھےلیکن سوال یہ پیدا ہوگیا کہ کیا اس میں بھی کوئی اداکار مودی جی کے ہاتھہ ہلانے کا جواب دے رہا تھا؟ ورنہ جہا ز اڑانے والا اگر ہاتھ ہلانے لگتا تو کیپٹن ابھینندن کی مانند پاکستان کی سرحد میں گھس جاتا۔ اس کے بعد وہاں واپس لانے کی خاطر پاکستان سے منت سماجت کرنی پڑتی ۔انتخاب جیتنے کی خاطر تیجس میں اڑان بھرنے والے مودی جی بھول گئے کہ جس تیجس کی اڑان نے ان کی سب سے بڑی بھگتن کنگنا رناوت کی فلم کو سوپر ڈوپر فلاپ کردیا وہ بی جے پی کو کیسے کامیاب کر سکتی ہے؟
مودی سے لے کر امیت شاہ اور جے پی نڈا تک سارے بڑے رہنماوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کے سی آر حکومت پر کرپشن کا الزام لگایا۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کے سی آر کو گھر بھیجنے کا وقت آچکا ہےکیونکہ وہ بدعنوانیوں میں ملوث ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ کے نتائج ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ بی آر ایس کے وزراء اور ارکان اسمبلی اراضیات پر قبضوں میں ملوث ہیں۔ جے پی نڈا نے بھی کے سی آر حکومت کو بدعنوانیوں سے تعبیر کیا اور عوام سے اپیل کی کہ اسمبلی چناؤ میں بی جے پی کو آشیرواد دیں۔ مودی جی دلت وزیر اعظم کی گارنٹی دینے والے اپنی پارٹی کے سابق صدر بنگارو لکشمن کو بھول گئے جو اتفاق سے دلت بھی تھے۔۔ 28 اپريل 2012کے دن بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق صدرکو سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے رشوت لینے کے جرم میں چار سال قید اور ایک لاکھ روپے کے جرمانے کی سزا سنائی تھی کیونکہ سن دو ہزار میں تہلکہ سے وابستہ صحافیوں نے ایک ’سٹنگ آپریشن‘ کے دوران انہیں ایک لاکھ روپے کی رقم دیتے ہوئے خفیہ ویڈیو بنا کر شائع کردی تھی۔
ملک میں دیش بھگتی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والی پارٹی کے صدر نے دفاعی سودے دلوانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس لیے سزاپانے کے بعد بنگارو لکشمن نے بہتر سال عمر کا حوالہ دے کر سزا میں رعایت کی درخواست کی تھی۔ اس پر جب جج کنول جیت اروڑا نے استفسار کیا تو لکشمن نےالتجا کی تھی کہ ’میری صحت ٹھیک نہیں رہتی ، دو مربتہ بائی پاس سرجری ہوچکی ہے۔اور اس سے پہلے میں کبھی کسی کیس میں ملوث نہیں رہا ہوں۔‘اس طرح بی جے پی کے صدر نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا تھا۔لطف کی بات یہ ہے کہ جب یہ واقعہ رونما ہوا تو اس وقت ملک میں بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کی مخلوط حکومت برسرِ اقتدار تھی اس لیے کانگریس کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا تھا ۔
بنگارو کے بعد نیتن گڈکری کو رشوت لینے کے الزام میں پارٹی صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ وہ آج بھی مرکزی وزیر ہیں۔ اس کےباوجود بی جے پی کے لیےبدعنوانی کو مدعا بناکر تو الیکشن جیتناتھا اس لیے انتہاپسند ہندو رہنما یوگی ادیتیہ ناتھ کو میدان میں لانا پڑا۔ انہوں بدزبانی کرکے تاریخی شہر حیدرآباد کا نام تبدیل کرنے کا عندیہ دے دیا۔یوگی آدتیہ ناتھ کی دلیل یہ ہے کہ وہاں شری بھاگیہ لکشمی مندر ہے اس لیے شہر کودوبارہ بھاگیہ نگر بنایا جائے گا۔ مرکزی وزیر اور تلنگانہ میں بی جے پی کے صدر جی کشن ریڈی نے بھی برسراقتدار آنے پر حیدرآباد کا نام بدلنے کی بات کہی مگر یہ لوگ بھول گئے کہ اس مدعا پر تو وہ لوگ حیدر آباد شہر کا میونسپل کارپوریشن کا انتخاب بھی نہیں جیت سکے تھے۔پچھلی بار انہوں نے کانگریس کا ووٹ کاٹا تھا مگراس بار بی آر ایس کا ووٹ کاٹ رہے ہیں اس لیے مینی فیسٹو کانیا نام بھگیہ وچن پتر کمل کے کسی کام نہیں آئے گا بلکہ راہل کا بھلا ہوجائے گا۔اسے کہتے ہیں جس اللہ رکھے اس کو کون چکھے؟ویسے اگر تلنگانی میں بھی بی جے پی ہار جائے تو اس کا جنوبی ہندوستان سے سوپڑا صاف ہوجائیگا )
Comments are closed.