Baseerat Online News Portal

آہ میرے ابا!

محمد اسعد ندوی
8877046962
گیارہ اکتوبر کا دن میرے لیے سانحہ کا دن تھا ،اسلیے اس دن میری طبیعت صبح سے ہی اچاٹ تھی، کسی کام کی طرف طبیعت مائل نہ ہوتی، وقفہ وقفہ سے گھبراہٹ ہو رہی تھی، مگر دل کو جھوٹی تسلی دیتا اور کسی طرح طبیعت کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ،اسی دوران ایک تدبیر سمجھ میں آئی کہ پرانے دوستوں سے گفتگو کی جائے ،ٹیلیفون کرتا گیا ،دوستوں سے رابطہ ہوتا گیا ،دیر تک دلچسپ باتیں ہوتی رہیں، ذہن کا تناؤ کم ہوتا گیا ، سکون کا احساس ہونے لگا، دیکھتے دیکھتے دن کے بارہ بج گئے، گھر سے فون آیا ،والد صاحب سے ویڈیو کالنگ کے توسط سے گفتگو کی، والد صاحب سر جھکائے متفکر نظر آئے ،والدہ نے متنبہ کیا تو میری طرف متوجہ ہوئے ،میں نے چونکہ ان کا معمول تھا کہ وہ فون پر صرف حال احوال دریافت کرتے اس سے زیادہ گفتگو نہ کرتے ، اس لیے صرف خیریت دریافت کی ، کہنے لگے میں صحت مند ہوں ،تمہیں اپنے کام پر دھیان دینا ہے،جہاں گئے ہو وہاں اپنی ذمہ داری پر توجہ دو،گھر آنے کی ضرورت نہیں ہے ، میں مطمئن ہوگیا کہ میرے ابا اگرچہ دو روز قبل بیمار تھے ، مگر اب پہلے کی طرح چاق و چوبند ہوچکے ہیں ، اگلا پروگرام جو میرے ذمہ تھا جسے میں نے والد صاحب سے ملاقات کی خاطر ملتوی کررکھا تھا کنفرم کر دیا ، چونکہ صبح سے دل مضطرب تھا اس لیے صبح سویرے ناشتہ سے پہلے غسل نہیں کرسکا ، ظہر کا وقت ہوا چاہتا تھا، فوراً غسل خانہ کی طرف گیا ، غسل کیا ، کپڑے پہنے نماز ظہر ادا کی ، کھانا کھایا سوگیا عصر کی اذان سنتے ہی بیدار ہوا نماز عصر پڑھی دوران نماز فون کی گھنٹی بجی نماز کے بعد فون کھولا تو گھر سے اہلیہ کا فون تھا کال بیک کی تو معلوم ہوا کہ میرے برادر نسبتی عزیزی فیاض کے گھر رحمت کا نزول ہوا ہے اسی وقت کھڑے کھڑے عزیزم فیاض سے گفتگو کی ، مبارکباد دی ،خسر محترم سے ہم کلام ہوا انہیں بھی پوتی کی مبارکباد دی ، صبح کی گھبراہٹ خوشی میں تبدیل ہو گئی ، ذہن و دماغ سکون پا گئے ، حسب معمول بعد نماز مغرب کچھ ضروری کاموں میں مصروف رہے ، اس دوران فون آتے گئے اور دوست و احباب اور اہل خانہ سے گفتگو ہوتی رہی ، عشاء کی نماز پڑھی ، میں اُن دنوں ایک ضروری کام کی خاطر المعہد العالى الاسلامی حیدر آباد میں مقیم تھا ، اور معہد میں ششماہی چھٹی ہوچکی تھی، گنتی کے طلباء موجود تھے جو طویل مسافت کی وجہ سے اپنے گھر نہیں گئے تھے ، چند طلباء جو مجھ سے مانوس ہوچکے تھے ان کے ساتھ بالعموم دوپہر اور رات کو کھانا کھانے کا چھٹی میں معمول تھا . نماز عشاء کے بعد اوپری منزل میں دستر خوان چنا گیا ، رات کا کھانا تناول کیا عزیزم معاذ محی الدین اور ارشد سے ساتھ چل کر چائے پینے کی خواہش کی، تینوں طلباء تیار ہوئے اور چائے خانہ کی راه لی ، تقریباً دس میٹر کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ یکایک فون کی گھنٹی بجی بڑے بھائی صاحب ہم کلام تھے ، ہمت جٹاتے ہوئے کہنے لگے کہ ابا اب اس دنیا میں نہیں رہے ، انکا انتقال ہوگیا ، اتنا سنتے ہی ہمارے ہاتھ پاؤں لڑکھڑا گئے، ساتھ میں جو طلباء تھے انہوں نے سنبھالا، بے ساختہ میری زبان سے ابا ابا کے الفاظ نکلنے لگے ، آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے ، ایک طرح سے ہوش و حواس کام کرنے سے معطل ہوگئے ، صرف ابا اور ابا کی یاد آنے لگی، مولانا محبوب صاحب قاسمی جو معہد کے ایک ذمہ دار با صلاحيت اور متحرک و فعال فرد کی حیثیت سے تقریباً جملہ انتظامات دیکھتے ہیں ، دوڑے ہوئے آئے ، ہمت سے کام لینے کی تلقین کرنے لگے ، میں نے فوراً ان سے کہا کہ حیدر آباد سے دربھنگہ جانے والی فلائٹ کا ٹکٹ بنائیے ، الله کے اس نیک بندے نے منٹوں کا کام سکنڈوں میں کرادیا ، ٹکٹ بنا ، سفر سے متعلق کچھ ضروری امور پر تبادلہ خیال ہوا ، درمیان میں رشتہ داروں اور دوستوں کے تعزیتی فون آنے لگے ، فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی اُن دنوں گجرات کے سفر پر تھے ، اُن سے گفتگو ہوئی، انہوں نے فرمایا کہ اس غم میں برابر کے شریک ہیں ، آپ کے غم کو اپنا غم سمجھتے ہیں ، والد صاحب کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔
رفیق محترم اور محبی فی اللہ ،مولانا محمد اعظم ندوی چونکہ حیدرآباد شہر کے قلب میں رہتے ہیں ان کا فون آیا انہوں نے اس طرح کے مشکل اوقات میں کس طرح صبر سے کام لیا جاتا ہے سے متعلق اپنے کچھ تجربات شیئر کیے جو میرے لیے بڑے کارگر ثابت ہوئے ،پھر انہوں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے والد صاحب کے انتقال کی خبر شیئر کی خبر شیئر ہوتے ہی پوری دنیا سے تعزیتی فون اور پیغامات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جو کئی دنوں تک جاری رہا ،ان تمام امور سے نمٹنے میں رات کے ڈیڑھ بج گئے ، میں نے موجود طلبہ و اساتذہ کے سامنے یہ رائے دی کہ یوں ہی بیٹھے بیٹھے رات گزار لیتا ہوں مگر اساتذہ و طلبہ دونوں نےتھوڑی دیر بستر پر دراز ہونے کی تاکید فرمائی ،بستر پر دراز ہوتے ہی دوستوں اور عزیزوں میں سے جنہیں خبر ملتی گئی فون کرتے رہے نماز جنازہ اور میرے گھر پہنچنے کی بابت دریافت کرتے رہے ،خیر آنکھ بند ہوتے اور کھلتے صبح ہوئی نماز فجر سے فارغ ہوا دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا دعا میں مانگتا کیا صرف آنسو ہی آنسو تھے جو اندرون کے جذبات کی عکاسی کر رہے تھے اور وہی اصل دعا تھے جو مجھے امید ہے کہ رب کریم کی بارگاہ میں قبول ہو گئے ہوں گے سفر کی تیاری کی صبح سویرے حیدرآباد میں مقیم میرے علاقے کے چند سرکردہ علماء انہیں جیسے اطلاع ملی مجھ سے ملنے آگئے ،دعا و سلام اور ملتے ملاتے دس بج گئے ایئرپورٹ کی راہ لی، راستہ میں مولانا نوشاد عالم ندوی مقیم لکھنو کا فون آیا گفتگو شروع ہوتے ہی میں رونے لگا انہوں نے مجھے صبر و شکیبائی سے کام لینے کی نصیحت کی،اور کہنے لگے کہ گھر پر تمہیں ہی سبھوں کو سنبھالنا ہے ، اگر تم ہی ہمت کھو بیٹھے تو پھر کیا ہوگا ؟ایئرپورٹ تک عزیزم معاذ اور ارشد کے ساتھ مولانا اعظم ندوی صاحب کے بھائی عزیزم مولانا محمد خالد ندوی سلمہ بھی گئے ایئرپورٹ پر اترتے وقت انہوں نے مجھ سے کہا کہ مولانا تلاوت کرتے رہیے اس سے سکون بھی حاصل ہوگا اور سفر بھی آسان محسوس ہوگا جیسے ایئرپورٹ کےاندرون کی کاروائی مکمل کرائی مولانا عبدالماجد قاسمی صاحب جو گویا میرے گھر کے ایک مخلص فرد ہیں کا فون آیا پوچھنے لگے ایئرپورٹ پہنچ گئے میں نے کہا کہ ہاں میں پہنچ گیا عزیزم حاجی افتخار سلمہ اور عزیزم مفتی توحید قاسمی سلمہ کا بھی فون ایاٹ دونوں نے دعا کی کہ اللہ تعالی آپ کا سفر آسان فرمائے آمین جہاز نے اڑان بھری تو یہ اطمینان ہوا کہ انشاءاللہ گھنٹے دو گھنٹے میں دربھنگہ پہنچ جاؤں گا ،اب تو الحمدللہ منزل قریب ہے خدا کی مدد شامل حال رہی، جہاز ٹھیک اپنے متعینہ وقت دو بج کر پندرہ منٹ پر دربھنگہ ایئرپورٹ پر لینڈ ہوا ،جہاز کے لینڈ ہوتے ہی حیدرآباد میں مقیم میرے چچا زاد بھائی مولانا شاہد روح اللہ قاسمی صاحب کا فون آیا ، کیا پہنچ گئے ؟میں نے کہا کہ ہاں پہنچ گیا ہوں انہیں اطمینان ہوا پھر عزیزی معاذ سلمہ کا فون آیا ،انہوں نے بھی خیریت سے پہنچنے کے متعلق دریافت کیا عزیزم محمد ارشاد ندوی سلمہ جو تقریبا آدھاگھنٹہ قبل مجھے لینے ایئرپورٹ پہنچ چکے تھے نے فون کیا کہ جہاز لینڈ ہوا میں نے کہا کہ جی ہاں اب میری قسمت جتنی جلدی سامان مل جائے،سامان وصول کرنے میں کچھ دیر ہوئی اُس دوران میری بے چینی کو میرا خدا ہی سمجھ سکتا ہے ،دربھنگہ سے سنگرام تک کی مسافت بالکل سمٹ گئی تھی، تقریبا ایک گھنٹہ میں گھر پہنچا ،میری گاڑی جیسے ہی میرے آبائی گاؤں سنگرام کے حدود میں داخل ہوئی مجھے وہاں کا ذرہ ذرہ غمزدہ محسوس ہونے لگا سنگرام کے ہر نکڑ اور چوراہے پر کھڑے لوگ والد صاحب کے جنازہ کا انتظار کر رہے تھے، ہندو مسلمان سبھی مہر بلب تھے ،کیونکہ بازار ہو یا چوک چوراہا ہر جگہ کی رونق والد صاحب سے بحال رہتی، کبھی اپنے مخصوص انداز گفتگو سے غمزدہ لوگوں کو ہنسا دیتے ،پریشان حال لوگوں کی پریشانی کو آسانی میں تبدیل کر دیتے، یہ سارے غمناک مناظر دیکھتے ہوئے گھر پہنچا تو اس وقت صبر کا بندھن ٹوٹ چکا تھا،ماسٹر امجد جو میرے بھائی ہیں گھر کے دروازے پر کھڑے میرا انتظار کر رہے تھے گاڑی سے اترتے ہی میں اس سے بغل گیر ہوا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا کیونکہ مجھے یاد آیا جب کبھی باہر سفر سے گھر آتا والد صاحب دیوان خانہ میں بیٹھے میرا انتظار کرتے رہتے، مجھے دیکھتے ہی اچھل جاتے، خیریت دریافت کرتے، اور ایسا لگتا کہ وہ میرے پیاسے تھے ، ان کی پیاس مجھ سے بجھ گئی ہو، مگر آج تو ابا اس دیوان خانہ میں نہیں تھے آج تو وہ ابدی نیند سو چکے تھے، گھر کے مغربی حصہ میں تخت پر لیٹے ہوئے مطمئن نظر آئے چہرہ پہلے کی طرح کھلتا ہوا نظر آیا جسم کے دیگر اعضاء و جوارح کی رونق بھی بحال تھی، دونوں ہاتھ کی خوبصورتی اس حالت میں بھی قابل دید تھی، پاؤں کی انگلیاں محسوس ہوتا تھا کہ ابھی بھی سلامت ہیں، وہ کسی وقت حرکت کر سکتی ہیں ،چاروں طرف ان سے محبت کرنے والے انہیں گھیرے کھڑے تھے، غسل کی تیاری کر رہے تھے، پہنچتے ہی پیشانی کو بوسہ دیا پھر والدہ کے پاس گیا جہاں خواتین چہار جانب سے بیٹھی والدہ کا غم ہلکا کر رہی تھیں ،مجھے دیکھتے ہی رونے لگی اور میں تھا کہ میرا کنٹرول ختم ہو گیا تھا ،میرے ساتھ ہر طرف سے آہ و بکا سنائی دینے لگی، مگر چند معمر رشتہ دار خواتین نے دلاسہ دیا غسل کی تکمیل کے بعد میں بھی تیار ہوا میرے گھر کے باہر لوگوں کا جماؤڑا تھا ابا کے چاہنے والے، میرے دوست و احباب، اور میرے بھائیوں کے متعلقین، اور ہر طرف سے آنے والے ہمارے رشتہ دار جن میں مردوں کے علاوہ خواتین اور بچے بھی تھے، نماز عصر ادا کی ،نماز عصر کے بعد جنازہ اٹھانے کے لیے ہم سبھی بھائی جمع ہوئے تو اس وقت گھر اور پڑوس کی خواتین اور گھر کے بچوں کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں ،مگر قاری عبدالماجد صاحب کے ہمت کی داد دیجئے انہوں نے کہا اٹھائیے دیر نہ کیجئے جنازہ اٹھایا گیا، قبرستان لے جایا گیا ،جنازہ کے آگے پیچھے اور جنازہ گاہ میں منتظر لوگوں کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ تھا بہر کیف اس بھیڑ میں جنازہ کو منزل تک پہنچایا گیا مجھ سے بڑے بھائی مولانا ارشد ندوی مقیم دہلی نے مختصر خطاب کیا پھر نماز جنازہ پڑھائی، والد صاحب کو قبر میں اتارا گیا میرے بڑے بھائی محمد انظر صاحب نے مجھے سب سے پہلے مٹی دینے کا حکم دیا ،میں نے مٹی دی جیسے پیچھے کی طرف لوٹا مولانا فاتح اقبال ندوی قاری غزالی امام ندوی اور مولانا حسیب صاحب جن سے اب تک میری ملاقات نہیں ہوئی تھی تینوں احباب سے بغل گیر ہوتے ہی آنسو چھلک گئے ،کیونکہ ہر ملاقات میں فاتح بھائی اور قاری غزالی صاحب والد صاحب کی خیریت ضرور پوچھتے۔
والد صاحب کی زندگی مہمان نوازی دیانتداری ڈیوٹی کی پابندی اور اہل علم سے محبت و الفت سے عبارت تھی، مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ جب کوئی مہمان آتا تو ِکھل اٹھتے، خیریت دریافت کرتے، ٹھہرنے کا انتظام کرتے اور انواع و اقسام کے پرتکلف پکوانوں سے تواضع کرتے، جب مہمان جانے لگتے تو آئندہ آنے کی خواہش کرتے، اور جب مہمان چلے جاتے تو کئی دنوں تک مہمان کی باتیں دہراتے رہتے، طبیعت اگر بحال رہتی تو آنے والے مہمان کو اردو اور میتھلی کے اشعار سناتے خود بھی محظوظ ہوتے اور مہمانوں کو بھی محظوظ کرتے مہمان کی مہمان نوازی میں اگر ہم بھائیوں سے کم عمری کی وجہ سے کوئی کوتاہی ہو جاتی تو بہت زیادہ ناراض ہو جاتے، اگر کوئی مہمان ان کے غائبانہ میں آتا اور بغیر ان سے ملے چلا جاتا تو زمانہ تک ملال رہتا جس کا اظہار اٹھتے بیٹھتے کرتے رہتے ،گویا پوری طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل پیرا تھے جس میں فرمایا گیا ہے کہ جو اللہ تعالی اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کا اعزاز کرے ۔
دیانت داری کا یہ حال تھا کہ اگر کوئی ضرورت پیش آجاتی اور وقت پر پیسہ نہیں رہتا تو سامان اُدھار ضرور لے لیتے مگر تنخواہ ملتے ہی اول مرحلہ میں ادائیگی کر دیتے اگر دکاندار اتفاقا دکان پر نہیں ملتا تو اس کے گھر جا کر پیسے دے آتے، اگر گھر کی تعمیر کا کام کراتے تو مزدور کو مزدور نہیں بلکہ مہمان سمجھتے وقت پر کھانا کھلاتے اور شام ہوتے ہی اسے مزدوری دیتے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مزدور کام کرتا رہتا اور اس سے میٹھے لب و لہجے میں باتیں بھی کرتے رہتے جس سے کام کرنے والے کا دل بہلتا رہتا اور اسے کام میں اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی ،لذت کام و دہن کی خاطر گوشت اور مچھلی کا خریدنا ان کا محبوب مشغلہ تھا جو قصاب انہیں گوشت دیتا یا جو مچھیرا انہیں مچھلی دیتا اس کو اپنا دوست بنا لیتے اور جب اسے پیسے دیتے تو خوش ہو کر دیتے اور آئندہ اسی طرح لذت آمیز اور لذت انگیز گوشت مچھلی دینے کی تاکید کرتے میرے یہاں بدھ اور ہفتہ کے دن ہاٹ لگا کرتا ہے اسکول سے آتے ہی جب ہاٹ کا رخ کرتے اور گوشت مچھلی کی دکان کی طرف قدم بڑھاتے تو کوئی ان کو چچا کہتے ہوئے پکارتا کوئی دادا کہتے ہوئے پکارتا، آواز دیتا اور اپنی اپنی تحویل میں موجود گوشت مچھلی دینے کی خواہش کرتا، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کاروباری کو ان کی امانت داری پر اتنا اعتماد تھا کہ دکان کھولتے ہی ان کو اُدھار سامان دے دیتا ،جب وہ لینے سے انکار کرتے کہ ان دِنوں پیسے نہیں ہیں تو وہ زبردستی دیتا اور یہ کہتا کہ آپ سامان اُدھار لیں یا نقد لیں آپ کے لینے سے سامان بڑی آسانی سے فروخت ہو جاتا ہے یعنی آپ کا خریدنا کوئی عام آدمی کا خریدنا نہیں ہوتا بلکہ آپ کا خریدنا اپنے ساتھ بہت سی برکتیں لے کر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب والد صاحب کے انتقال کی خبر عام ہوئی تو کیا مسلم کیا ہندو کیا چھوٹا کیا بڑا کیا مالدار کیا غریب انسانی سماج کے ہر طبقہ کو صدمہ پہنچا ہر کوئی آتا رہا آخری دیدار کرتا رہا اور مارے غم کے روتا رہا اور یہی شکایت کرتا رہا کہ جب وہ بیمار تھے تو آپ لوگوں نے ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی مگر ہم لوگ یہی کہتے رہے کہ وہ بیمار ہی نہیں تھے تو ہم اپ کو بتاتے کیا؟ گھر یا رشتہ داری میں شادی بیاہ کا موقع ہوتا تو بڑے شوق سے سامان کی فہرست تیار کرتے اور ایک ایک سامان خوشی خوشی خرید کر لاتے اور گھر میں والدہ کے اور بعد میں بڑی بھابھی یا میری اہلیہ کے حوالے کرتے نہ کبھی گرانی کا شکوہ کرتے اور نہ اخراجات کے بڑھنے کا۔
ڈیوٹی کے بڑے پابند تھے جس دن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے اسکول نہ جاتے تو انہیں پورے دن ایک طرح سے ہم لوگ مضطرب دیکھتے، اگلے دن وقت سے پہلے ہی تیار ہو جاتے اور وقت ہوتے اسکول نکل جاتے دوران ملازمت ایسا بھی ہوا کہ ان کا ٹرانسفر ہوا ایسی جگہ جہاں آنے جانے میں تقریبا چالیس کلومیٹر کی مسافت طے کرنی پڑتی تھی، بائیس سال تک پابندی سے سائیکل سے چالیس کلومیٹر جاتے اور آتے مگر ڈیوٹی کو اپنے لیے بوجھ نہ سمجھتے، سرراہ چلتے چلتے اگر کوئی شناسا مل جاتا تو بڑے تباک سے ملتے، خبر گیری کرتے ،ساتھ میں چائے نوشی کرتے اور رخصت ہو جاتے، گھر پہنچتے ہی والدہ سے ملاقات کا تذکرہ کرتے ایک دن کا واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں ندوہ میں زیر تعلیم تھا مگر اُن دنوں چھٹی میں گھر پر تھا اسکول سے آتے ہوئے ان کو بتایا گیا کہ کل اسکول کا کچھ ایسا تقاضا ہے جس کے لیے ذرا جلدی جانا مناسب ہے شام ہوتے ہی کل کی فکر دامن گیر ہو گئی صبح جلد اٹھنے کے عادی تھے بیدار ہوئے تیار ہوئے، چائے پی ،کھانے کا کچھ سامان اپنے ساتھ رکھا اور روانہ ہو گئے ،لوگ راستہ میں پوچھتے رہے آخر آج اس قدر جلدی کیوں ؟ کہنے لگے آج کا تقاضا کچھ ایسا ہی ہے جس کی وجہ سے جلدی جا رہا ہوں روزانہ وقت سے اسکول تو پہنچتے ہی ہیں اگر آج کچھ پہلے پہنچ جائیں تو کوئی حرج نہیں ، اہل علم سے محبت ان کے رگ و ریشے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لیے جوانی کے وقت سے بڑھاپے تک جب گاؤں میں کوئی صاحب علم بزرگ آتے ان سے ملنے چلے جاتے ، دعائیں لیتے اگر کوئی بات کسی کی طرف سے کسی بڑی شخصیت پر تنقید کی قبیل سے ہوتی تو اس پر ناراضگی ظاہر کرتے، ہمیشہ چھوٹوں کو بڑوں کا ادب ملحوظ رکھنے کی تاکید فرماتے ، ہمارے علاقے میں جب سے سڑکیں چوڑی ہوئیں اور ہائیوے کی تعمیر ہوئی اس وقت سے اب تک دہلی ،سہارنپور ،لکھنو ،بینگلور اور حیدرآباد کے بزرگوں کے آنے کا سلسلہ جاری ہے،حضرت مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن صاحب اعظمی مد ظلہ العالی اپنے چند دیدہ ور علماء و اصحاب قلم کے ساتھ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار تشریف لائے جب ان کی آمد کی اطلاع والد صاحب کو دیتے مارے خوشی کے جھوم اٹھتے صبح ہوتے ہی پوچھنے لگتے فون کرو دیکھو حضرت اس وقت کہاں ہیں ،پہلی بار جب مہتمم صاحب تشریف لائے اور تعارف ہوا ، پھر ایک دوسرے کے حال احوال سے واقف ہوئے والد صاحب نے فرمایا الحمدللہ طبیعت تو ٹھیک رہتی ہے، مگر گھٹنے میں درد رہتا ہے ،مہتمم صاحب مدظلہ نے اپنا حال بتایا اور ہمت دی کہ یہ کوئی مرض نہیں ہے بلکہ رفیق حیات ہے دوا کھاتے رہیں ، اور وقت گزارتے رہیں اس کی جانب توجہ بالکل نہ دیں جب مہتمم صاحب رخصت ہو گئے تو زمانہ تک مہتمم صاحب کی بات ہر ملنے والے کو سناتے رہے، اور مہتمم صاحب جیسی عبقری جہاں دیدہ تجربہ کار بالغ نظر شخصیت سے ملاقات کو اپنے لیے فال نیک سمجھتے رہے ایک بات بار بار سنی۔۔۔ علم اور صاحب علم کی قدر علم یافتہ ہی کرتا ہے کوئی دوسرا نہیں کرتا۔
اردو اور انگریزی ان دونوں زبانوں سے گہری وابستگی تھی انگریزی پڑھاتے وقت جھوم جاتے کبھی وجد میں ہوتے تو اردو کے اشعار بے ساختہ ان کی زبان سے جاری ہو جاتے تو کبھی جواہر لعل نہرو سے لے کر دیگر لیڈران کی تقریروں کے انگریزی جملے سناتے اور سمجھاتے کبھی ہمارے متھلانچل کی میتھلی زبان بولنے لگتے،اور غیر مسلم بھائیوں سے ہم کلام ہوتے تو وہ لوگ میتھلی زبان میں ان کی مہارت کا لوہا مان لیتے، کبھی اپنے ہم منصب اساتذہ کے درمیان ہوٹلوں میں چائے کی چوسکی لیتے ہوئے میتھلی کے اشعار سنانے لگتے تو پوری مجلس قہقہہ زار ہو جاتی مجلس میں موجود ہر شخص محظوظ ہوتا اور آئندہ دوبارہ ملنے کی درخواست کرتا، اللہ ان کی مغفرت کرے ان میں بڑی خوبیاں تھیں اب تو میرے لیے صرف یادیں ہیں آج جب کہ ان کے انتقال کو پونے دو ماہ ہو گئے ہیں میں اپنے کام میں بھی مصروف ہو گیا ہوں مگر جب جب وہ یاد آتے ہیں میں اپنے آنسو روک نہیں پاتا ہوں آج بھی مجھے ان کی خوشبو محسوس ہو رہی ہے اور ائندہ بھی محسوس ہوتی رہے گی (انشاءاللہ) مجھے امید ہے کہ وہ جنت میں ہوں گے اور رب کے دربار میں ان کی پذیرائی ہو رہی ہوگی۔

Comments are closed.