حماس نے حاصل کیا کر لیا؟

نجم الحسن عارف
یہ سوال اسرائیل حماس جنگ کا ڈیڑھ ماہ گذر جانے کے بعد ایک ارتقاء سے گذرتا ہوا اس قالب میں ڈھلا ہے۔ اس لیے جواب تلاشنے کے لیے لازم ہے کہ ذیل میں دیے گئے سوالات پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ یہ سارے سوالات بنیادی طور پر حتمی سوال کے ہی ارتقاء کے مختلف درجے ہیں۔ ان سوالوں کی طرف آنے سے پہلے بر سبیل تذکرہ عرض ہے افغاستان پر امریکی حملہ بھی سات اکتوبر کو شروع ہوا تھا اور 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کی شروعات بھی چھ سات اکتوبر کو ہوئی تھیں۔ اب اصل موضوع سے جڑے دیگر سوالات کی طرف چلتے ہیں۔

· حماس نے اسرائیل پر حملہ کیوں کیا؟
· کیا حماس کے پاس اتنی بڑی جنگ لڑنے کی اہلیت ہے؟

· کیا حماس نے اس جنگ کے شروع کرنے سے پہلے سارا جنگی حساب کتاب لگایا تھا اور اس کے مضمرات کا بھی اندازہ کر لیا تھا؟

· اتنے بندے مروانا عقلمندی کیونکر ہو سکتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔

ایسے اور بھی بہت سے سوال ہو سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ سب سوال غیر متعلق اور غیر منطقی ہوں۔ تاہم ہر سوال کرنے والے کا اپنا پس منظر اور ہدف ہوتا ہے۔ ‘جتنے منہ اتنی باتیں’ کا دیرینہ محاورہ بھی ان سارے سوالات کے جواز کی نشاندہی کرتا ہے۔

ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال پر زیادہ سوال انہی لوگوں کی طرف سے آ رہے ہیں جو بوجوہ فلسطین ‘کاز’ سے کافی دور ہو چکے تھے۔ اس لیے ان کے سوالات کا بھی فطری جواز موجود ہے کہ انہیں زمینی حالات سے بے خبری کے باعث اسی نوعیت کے سوالات کرنے چاہییں۔

مسئلہ فلسطین کے ساتھ بے تعلقی کا یہ تعلق عام آدمی سے لے کر قومی وملکی سطح، علاقائی سطح اور بین الاقوامی سطح پر ہر جگہ موجود ہے۔ اسی طرح عسکری ماہرین، اقتصادی تجزیہ کاروں، سیاسی قیادتوں، حکمرانوں اور حتیٰ کہ بین الاقوامی اداراوں اور اقوام متحدہ میں بھی بے تعلقی کا یہی رجحان رہا۔ بین الاقوامی سطح پر بظاہر غیر حکومتی انداز میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے اداروں نے بھی فلسطین کو ایک ازکار رفتہ ایشو سمجھ کر نظر انداز کیا ہوا تھا۔

یہ اتفاق بھی دلچسپ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جو معاملہ فلسطین اور فلسطینیوں کے ساتھ ہے وہی صورت حال جنوبی ایشیا میں ریاست جموں وکشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ ہے۔ فلسطین اور فلسطینیوں کے اپنوں نے بھی ان کے ساتھ مغائرت کا سلوک شروع کر دیا تھا، جیسا کہ کشمیریوں کو پاکستان اور اہل پاکستان سے شکایت رہتی ہے کہ ان کا وکیل ہی شاید کسی اور کا ہو چکا ہے۔

اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کی اس جنگ میں اب تک کامیابی کے کئی پہلو سامنے آ جاتے ہیں۔ سات اکتوبر سے شروع ہونے والی جنگ نے ایک مردہ نہیں تو کم از کم نیم مردہ کر دیے گئے ایشو میں ایسی روح پھونک دی ہے کہ وہ زندہ وجاوید معاملے کی طرح دنیا کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے۔ سات اکتوبر کا دن جیسے اس کے لیے ‘قم با ذن اللہ’ کی صدا قرار پایا ہو۔

بہت سے لوگ غزہ کو آج ایک قبرستان قرار دے رہے ہیں۔ کوئی اسے بچوں کا قبرستان قرار دیتا ہے اور کوئی کسی اور کا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ 24 لاکھ کی آبادی کے حامل غزہ کو ہی نہیں پورے فلسطین اور ‘فلسطین کاز’ کو دنیا کے بڑوں اور خطے کے لیڈروں نے سات اکتوبر سے پہلے ایک قبرستان سے زیادہ اہمیت نہیں دے رکھی تھی۔

لیکن اب اسرائیل کی چھیالیس سنتالیس دنوں کی مسلسل بمباری سے غزہ اور اس کے رہنے والے فلسطینی ہی نہیں پورا فلسطین ایشو زندہ ہو کر بین الاقوامی اقتدار کے ایوانوں کا اہم ترین موضوع بن چکا ہے۔ عالمی اقتدار کے ایوانوں کی غلام گردشوں میں ہلچل ہے اور غلام بھی گردش میں ہیں۔

بلا شبہ اس کے لیے ہزاروں فلسطینی بچوں اور عورتوں نے قربانی دی ہے۔ صرف جانیں نہیں، گھر بار اور سکولوں، مسجدوں، ہسپتالوں سمیت سب کچھ کو قربان کر دیا ہے۔ اب صرف فلسبطین کے اندر سے ہی نہیں واشنگٹن، نیویارک، لندن، پیرس اور برلن سمیت تمام اہم عالمی شہروں اور ایوانوں میں فلسطین سر فہرست ہے۔ کیا اسے معمولی کامیابی سمجھا جائے گا؟

اب دنیا میں فلسطین کے حوالے سے ایک تبدیل شدہ منظرنامہ اور بیانیہ بن رہا ہے۔ ایسی دنیا جس میں عظمت و کامیابی کے حوالے اینٹ گارے سے بنائے جانے والے عظیم الشان مینارے اور آج کی زبان میں ‘ٹاور’ قرار دیے جاتے ہیں۔ مگر عظمت کی نئی دنیا میں ملبے نے اپنی اہمیت تسلیم کرا لی ہے۔

عظمت جدید کے حالیہ دور کی ابتداء میں یادش بخیر نیویارک کے ‘ٹوئن ٹاورز’ دنیا کو دکھتے رہے۔ وہ عظمت اور کامیابی کے مینار تھے۔ پھر ساری دنیا ہی اہرام مصر سے اونچی اور یادگاری نوعیت کی عمارات کی تعمیر میں لگ گئی۔ نئی نئی بستیوں کی تعمیر شروع ہو گئی مگر غزہ میں فلسطینیوں نے اپنے گھروں کے ملبے کو اپنے ‘ کاز ‘ کی سچائی اور بڑائی کے طور پر پیش کر دیا ہے۔

او آئی سی، عرب لیگ، گروپ ٹونٹی، برکس، یورپی یونین سے لے کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل تک سب کی توجہ فلسطین اور فلسطینی کاز کی جانب مبذول ہو چکی ہے۔ امریکی کانگریس سے لے کر دنیا کی کوئی ایک پارلیمنٹ بھی ایسی نہیں جس میں ان دنوں فلسطین پر بات نہ ہو رہی ہو۔

کیا فلسطینی اتھارٹی کے پاس بھی ایسے وسائل اور مواقع تھے کہ وہ عالمی سطح پر ایک مہم چلا سکتی، ‘لابنگ فرمز ‘ کی خدمات سے اپنی بات امریکی ارکان کانگریس اور فیصلہ سازوں تک پہنچا کر انہیں قائل کرنے میں کامیابی پا سکتی؟ یا یہ کہ مسلم دنیا کا میڈیا اتنی جان اور اڑان کا حامل ہو سکتا تھا؟

ایک اہم کام یہ ہوا کہ اسرائیل کے جوہری بم کا اسرائیلی کابینہ کے ایک رکن کی زبان سے اظہار واعتراف اسی سات اکتوبر کے بعد ہوا ہے۔ اسرائیلی سرکار نے یہ بات اس طرح پہلی بار کہی ہے۔ اس پر اگرچہ جاپان سے امریکہ تک اور برطانیہ سے جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے تک سب خاموش ہیں۔ مگر عالم عرب اور عالم اسلام کو ایک جھرجھری لانے کے لیے تو یہ کافی ہے۔ اگر کل اسرائیل ایسی طاقت میں اندھی ریاست نے اس کا استعمال غزہ یا اس سے باہر عرب دنیا کی طرف کر دیا تو اسے کوئی روک سکے گا؟ یہ منظر اگرچہ خوفناک ہے مگر سات اکتوبر کے بعد سامنے آ چکا ہے۔ اسرائیلی جوہری بم بے نقاب ہو چکا ہے۔

غزہ سے ابھر چکی فلسطینی سیاسی شناخت نے عالمی سطح پر اپنی سیاسی ہنر مندی اور بالغ نظری کو تسلیم کرا لیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کا تازہ معاہدہ اور چھ ہفتوں سے زائد تک تنہا جنگ لڑتے رہنا اسی امر کا اظہار ہے۔ اس سے قبل تو پورے خطے میں ہو کا عالم تھا۔ جیسے اسرائیلی جادو گر کے سانپ نے سب کو ہی سونگھ لیا تھا۔

حماس اسرائیل جنگ کے دروان سب سے پہلے اسرائیل کے جدید دفاعی نظام ‘آئرن ڈوم’ کی کارکردگی اسرائیلی دعوؤں کے مقابلے میں بہت شرمناک ثابت ہوئی ہے۔

اسرائیلی موساد کی اہلیت پر اس سے قبل کبھی سوال نہیں اٹھ سکے تھے جو سات اکتوبر کے بعد اٹھنا شروع ہو چکے ہیں۔

سات اکتوبر کو ہونے والی کارروائی کی شدت کا ہی ادراک تھا جس کے سبب امریکہ کو فوری طور پر اپنے فوجی بیڑے کو اسرائیلی مدد کے لیے بھیجنا ضروری سمجھا۔

سات اکتوبر کے حملے کے ساتھ حماس کی سیاسی قیادت نے عالمی طاقت کے متبادل مراکز میں اپنے سفارتی فعالیت سے اپنی مضبوطی کا اظہار کیا ہے۔

فلسطین کاز کے لیے عالمی شہری مراکز میں بالعموم اور امریکہ مغرب میں بطور خاص نوجوانوں میں آگاہی اور ہمدردی کی لہر ایک غیر معمولی حقیقت کے طور پر سامنے آئی ہے۔

مستقبل میں اسلام دشمنی کی مغربی لہر کو روک لگنے سے نسل پرستی کے خاتمے کی تحریک آگے بڑھے گی۔ سبھی انسانوں کے لیے بقائے باہمی اور برابری کے اصولوں کے ساتھ پرامن زندگی گذارنے کا راستہ کھلے گا۔

اسرائیل کے لیے ہر ممکن امریکی ومغرب امداد کی موجودگی میں چھ ہفتوں سے زائد تک جنگ میں کھڑے رہنے کو حماس کی نہیں کسی اور کی کمزوری پر قیاس کیا جانا چاہیے۔

اگر دو سوا دو سال پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو افغانستان کے طالبان کے ساتھ دوحہ میں امریکی حکام ایک معاہدے پر دستخط کر رہے تھے۔ طالبان حکومت کو اگرچہ ابھی عالمی سطح پر سفارتی پذیرائی نہیں ملی مگر طالبان ایک جیتی جاگتی حقیقت ہیں۔ وہ کس کی طاقت بن سکتے تھے۔ طاقت کے عالمی عدم تواز میں بہتری لانے کے لیے وہ بھی ایک موقع تھا۔

مشرق وسطیٰ میں بھی ویسی ہی صورت گری ہو رہی ہے۔ یہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد پہلا موقع ہے کہ اسرائیل فلسطینی عرب نوجوان کے ہاتھوں مشکل میں گھرا نظر آ رہا ہے۔ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے تیز رفتار کوششیں کر کے اس طاقت کو روز مرہ کے امور کی طرف راغب بھی کیا جا سکتا ہے اور اپنی طاقت کے طور پر ساتھ بھی ملایا جا سکتا ہے۔

اسرائیل ایسی ‘ان کنٹرولڈ’ ریاست کو ‘واک اورر’ دینا صرف فلسطینیوں کی قربانیوں اور ‘فلسطین کاز’ کے لیے خطرناک نہیں ہو گا یہ پورے خطے کے مستقبل کے لیے بھی سود مند نہیں ہوگا۔

محض مادی ومعدنی وسائل کی فراوانی بھی اسرائیل اور اس قماش کی ریاستوں اور طاقتوں کے لیے بجائے خود دعوت جنگ ہوتی ہے۔

لیکن کیا حماس کو یہی مقصود تھا کہ ایک غلغلہ بپا ہو جائے۔ یقیناً جواب نہیں میں ہے۔ جس طرح اسرائیل حماس کو تباہ کرنے کو اپنی جنگ کا اول وآخر ایجنڈا بتا رہا ہے حماس کا ایجنڈا بھی فلسطینی آزادی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ اسی کی جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اشارہ کیا ہے کہ ‘حماس نے یہ سب خلا میں نہیں کیا ہے۔ ‘اس لیے یہ سمجھنا کہ حماس کی کد و کاش اور قربانیوں کا وقت ختم ہو گیا ہے؛ درست نہ ہو گا۔

چار دنوں کے لیے جنگ بندی کے معاہدے تک جو کامیابی فلسطینیوں کو ملی ہے اسے مستحکم کرنا ہو گا۔ عالمی رائے عامہ میں اس کے ‘کاز’ کو جو پذیرائی ملی ہے اسے مزید گہرا کرتے ہوئے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں تبدیل کرنا ہو گا۔

Comments are closed.