تحریک آزادی فلسطین میں ہندوستان کارول

ناظم الدین فاروقی
بی جے پی اسرائیل سے اپنی گہری دوستی ووفاداری میں اتنی اندھی ہو چکی ہے کہ ہندوستان کی ایک صدی قدیم فلسطینی آزادی کی حمایت و تائید کی پالیسی کو یکسر بدلتے ہوئے ظالم قابض وحشی طاقت اسرائیل کی تائید میں اپنی پوری طاقت جھونک رہی ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے ملک کی آزادی سے قبل ہی سےاَرض فلسطین کے تحفظ اور آزادی کی حمایت میں بلا توقف تحریکات جاری رکھیں جو دنیا اور عالم اسلام کی تاریخ کا ایک سنہرا باب بن گیا۔جس کی اختصار کے ساتھ تفصیلات یہاں پیش ہیں:۔
یہ 1930 کے دہے کی بات ہے کہ علامہ محمد اقبال ؔ ‘ مولانا محمد علی جوہر ‘ مولانا شوکت علی نے 1917 کےبلفور قرارداد کو ایک خود ساختہ ظالمانہ استعماری قرارداد قرار دیا تھا اور وہ اس وقت مغرب کی استعماری طاقت کی ارض فلسطین کے سلسلہ میں بدنیتی اور تشکیل اسرائیل کی کوششوں کو محسوس کرتے ہوئے شدید مخالفت اور بین الاقوامی سفارتی سطح پراس پر روک لگانے کی کوشش کا آغاز کر چکے تھے ۔
جس وقت عالمی اسلامی کا اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا خلافت عثمانیہ ختم ہو ئے تقریباً 20 سال سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا تھا ۔ آفریقہ و ایشاء اور بالخصوص عرب ممالک میں استعماری طاقتیں عوام اور حکومتوں کو اپنی غلامی میں لے چکے تھے ۔ ملت اسلامیہ کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسے شدید ملی بحران میں جب کہ عالم اسلام کی بنیادیں ایک ایک کر کے ڈھائی جارہی تھیں۔ کریں تو کیا کریں ؟ایسے افراتفری کےوقت ہندوستان کے اسلامی دانشوروں اور ملی قائدین پر عالم اسلام کی نظریں مرکوز ہو چکی تھیں ۔ ا ن نازک حالات میں ہندوستان کی ملی قیادت نے ذمہ داری بڑی خوبی سے نبھا نے کی کوشش کی۔
اس وقت کے بیت المقدس کے گورنر شریف حسین پر سے مسلمانان عالم کا اعتماد ختم ہو چکا تھا ۔ علامہ محمد اقبالؔ ؒ نہ صرف ہندوستان (موجودہ پاکستان) کے عظیم شاعر تھے بلکہ ان کا شمار عالم اسلام کے ایک مفکر مدّبر اور بصیرت افروز عقبری شخصیت اورشاعر کی حیثیت سے ہوتا تھا ۔ اس وقت ہندوستان کے ملی و سیاسی قائدین فلسطین کی تباہی دیکھتے ہوئے بہت مضطرب اور تشویش میں مبتلا تھے اور انہیں اندیشہ تھا کہ عرب قائدین فلسطین کو استعماری طاقتوں کے ہاتھوں فروخت کردیں گے اور قبلہ اوّل اور اَرض الانباء ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی ۔ ان کا یہ استدلال تھا کہ قبلہ اوّل کی حفاظت کی ذمہ داری صرف مقامی فلسطینیوں اور عربوں پر نہیں بلکہ تمام مسلمانان عالم پر اس کی ذمہ داری عائد ہو تی ہے ۔ مولانا محمد علی جوہر ڈسمبر1930ء کو ہندوستان و فلسطین کی آزادی کی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن ‘ برطانیہ تشریف لے گئے تھے ۔ اِنہوں نے کہا تھا کہ جب تک آزادی نہیں دی جاتی میں یہاں سے نہیں جا ؤں گا ‘نہیں تو میں یہیں مرجا ؤں گا اور اِنہوں نے وصیت کی تھی کہ اگر میری موت یہاں ہو جائے تو میری تدفین بیت المقد س کے قبرستان میں کردیں۔ لوگوں نے سمجھا کہ اس طرح کی باتیں قائدین کر تے رہتے ہیں ۔ ایک عجیب اتفاق ہوا ۔ مولانا محمد علی جوہر ؒ کا 4؍ جنوری 1931ء کو 54 سال کی عمر میں وہیں لندن میں اچانک انتقال ہو گیا ۔ باوسوخ ذرائع کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے فوجی خفیہ ایجنسی نے اِنہیں زہر دے دیا تھا ۔ حسب وصیت مولانا محمد علی جوہر ؒ کا جسد خاکی بیت المقدس لے جانا تھا ۔ مصر فلسطین ہندوستان پر برطانوی استعمار کی حکومت تھی ۔ حکومت کی جانب سے تدفین کی اجازت کے لئے کافی دقتیں اور مسائل کھڑے کئے گئے تھے ۔ کئی دن انتظار کے بعد اجازت ملی قاہرہ سے ہوتے ہوئے تاخیر کے بعد میت مسجد الاقصیٰ میں لائی گئی۔ شیخ مسجد الاقصیٰ نے نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین بیت المقدس کے قبرستان میں ہوئی ۔ وہاں مرحوم کی قبر پر عربی میں محمد علی جوہر ؒ الہند کے نام کا کتبہ لگا ہوا ہے ۔با آسانی تفصیلات پڑھی جاسکتی ہیں۔
اسی سال مسئلہ فلسطین پر عالمی اسلامی کانفرنس کا القدس شہر میں9 ؍ڈسمبر 1931ء کو انعقاد عمل میں آیا تھا ۔ جس میں ہندوستان سے دو عظیم شخصیات علامہ محمد اقبال ؒ اور (مولانا محمد علی جوہرؒ کے بھائی) مولانا شوکت علی کو مدعو کیا گیاتھا ۔ جس میں دونوں ابطال جلیل نےنفس بنفیس شرکت کی اوراسی کانفرنس میں عالمی اسلامی کانفرنس کا ہندوستان کو بھی ایک مستقل رکن بنایا گیا تھا۔ دونوں قائدین نے مولانا محمد علی جوہر ؒ کی قبر پر حاضری دی اور دعا کیں۔
علامہ محمد اقبالؒؔ نے یہ اشعار اُس وقت قلم بند کیئے جب اسرائیل کی تشکیل کے کوئی خاص امکانات نہیں تھے۔
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں (واشگٹن)
فرنگ کی رگِ جان پنجہ ٔ یہود میں ہے (عرب)
سناہے میں نے غلامی سے اُمّتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
علامہ محمد اقبالؒ اس وقت کی عالمی طاقتوں کی سازیشوں اور ریشہ دوانیوںاور مسلم اقوام کی صورتحال پر بصیرت نظر رکھتے تھے ۔ علامہ اقبال ؒ بڑے ہی نبض شناس تھے ۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں قائد اعظم کو ایک کھلا خط لکھا تھا جس میں فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے لئے تین مختلف حلقوں کو ذمہ دار قرار دیا تھا ۔ ان میں ایک مجلس اقوام عالم (موجودہ UNO) اور دوسرے بالخصوص ان کے اصل سرغنے برطانوی سامراج بلکہ پورا مغربی استعمار اور تیسرے نمبر پر بکوّ غلام عرب ملوکیت شامل ہے ۔
محمد اقبال ؒ نے بہت خوب کہا تھا:
یہ وہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھا تا ہے حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن پاک بھی ایک
زمیں میں جو ذر دل کے چادر زہرا کچھ بڑی بات تھی ہو تے جو مسلماں بھی ایک
بیت المقدس کے مشرقی علاقے شیخ جراح صلاح الدین ایوبی کے خصوصی معالج ڈاکٹر شیخ جراّح کا مقبرہ اور اس سے منسلک بہت بڑی مسجد ہے۔ صوفیوں خاص کر چشتیوں و قادریوں کا یہاں ایک عالمی مرکز ہے ۔ حیدرآباد کے نظام سرکار نے یہاں ایک خوبصورت عمارت دینی سرگرمیوں کے لئے تعمیر کی تھی جو اب بھی صوفیان اکرام کے زیر استعمال ہے ۔
مسلمانان ہند کی قبلہ اوّل سے اٹوٹ وابستگی اور والہانہ عقیدت دیکھتے ہوئے ہندوستان کی داخلی سیاست میں اس کا بڑا اثر غیر مسلم اکثریتی سیاسی قائدین پر پڑاپھر وہ بھی فلسطین کی آزادی کے کٹر حامی بن گئے ۔ اگر اس وقت ہندوستان کی مسلم قیادت مضبوط موقوف اختیار نہیں کرتی تو آزادی ہندوستان کے عظیم رہنما بابائے قوم گاندھی جی کی آزادی فلسطین کی جد وجہد کو غیر متزلزل حمایت حاصل نہ ہوتی ۔ گاندھی جی نے کہا تھا جس طرح روسیوں کا ملک روس ہے ‘ جرمنیوں کا ملک جرمن ‘ چینیوں کا چین اپنا ملک ہے ٹھیک اسی طرح فلسطینیوں کا اپنا وطن و ملک فلسطین ہے جو انکا اپنا پیدائشی حق ہے انہیں ملنا چاہیے ۔ تقسیم ہند کے بعد بھی کانگریس نے اپنی حکومت کی پالیسی بغیر کسی تبدیلی کے آزادی فلسطین کے حق میں جاری رکھی ۔ کانگریس کی یہ پالیسی ایک مثالی پالیسی تھی ۔ ہندوستان ابتدأ ہی سےدنیا کی تمام غلام قوموں کی آزادی کی تحریک کی تائید کرتا رہا ۔ یہی وجہہ ہے کہ الجیریا اور پھر سا ؤتھ آفریقہ کی آزادی کی تحریکات کا بھی کھل کر ہندوستان نےتائید جاری رکھی تھی۔ کانگریس اور حکومت ہند کے اصولی موقوف سے آزادی فلسطین کی تحریک کو بڑی تقویت ملی۔
1960ء میں غزہ پر اسرائیلی فوجیوں کا وحشیانہ عتاب ہور ہا تھا اور داخل فلسطین سے نہتے مقامی وطن دار فلسطینیوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔ معصوم فلسطینی مہاجرین کی لاکھوں کی تعداد غزہ کے پناہ گزین کیمپ میں جمع ہو چکی تھی اور پناہ گزینیوں کیمپوں کی بڑی کرب ناک تباہ کن صورتحال تھی ۔ ہر منٹ زخموں سے چور معصوم فلسطینی بچے عورتیں اور بوڑھے ہلاک ہو رہے تھے ۔ ایسی صورتحال میں انہیں عالمی امداد کی شدید ضرورت تھی۔
اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو دیکھا نہ گیا انہوں نے امدادی و ریلیف سازو سامان سے بھرے ہوائی جہاز کو راست لے کر /19 مئی 1960 کو بہ نفس نفیس غزہ ائیر پورٹ پر پہنچ گئے ۔ اِس دوران اسرائیل کے جنگی بمبار فضاء میں کافی دیر تک وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے ہوائی جہاز پر منڈ لا رہے تھے۔ اس پر ہندوستان نے اسرائیل سے شدید احتجاج کیا تھا۔19؍ مئی 1960 ء کو نہروجی نے ریلیف کیمپوں میں امدادی کاموں کا معائنہ کر تے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا تھا اور وہ مستقبل میں مزید امداد کے وعدہ کے ساتھ دہلی لوٹ گئے۔وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے انتقال کے بعد دو وزراء اعظم ہند آئے ان دونوں نے آزادی فلسطین کی ملک کی پالیسی کو برقرار رکھا ۔1964 میں جواہر لال نہر کے انتقال کے دو سال بعد 1966ء میں ان کی بیٹی وزیر اعظم بنیں اور انہوں نے بھی فلسطینی کاز کو تقویت پہنچائی۔
مسز اندراگاندھی نے تحریک آزادی فلسطین کی کھلے عام ڈٹ کر ہمیشہ تائید کرتیں رہی ۔وہ یاسر عرفات کی بہت گہری دوست اور مشیربھی تھیں ۔ مسز گاندھی اور یاسر عرفات کے درمیان خصوصی گہرے تعلقات تھے۔ مسز گاندھی کے دور میں ہندوستان میں بڑی کساد بازی اور معاشی انحطاط تھا اس وقت یاسر عرفاتؒ نے سعودی عربیہ اور عراق کی حکومتوں سے سفارش کر کے ہندوستان کو خصوصی رعایتی پر کم قیمت پر تقریباً 5 سال پیڑول کی سپلائی کا بندوسبت کروایا تھا۔یاسر عرفات مسز گاندھی کا ہر بین الاقوامی میٹنگس میں ذکر کیا کرتے اور شکریہ بھی ادا کرتے تھے ۔اس وقت ہندوستان سویت یونین بلاک میں ہوا کرتا تھا۔
آہنجانی وشوا ناتھ پرناپ سنگھ 1989 ء تا 1990 ء کے درمیان وزیر اعظم تھے ۔ اِنہوں نے فلسطینی سفارت خانہ کے لئے دہلی میں جگہ فراہم کی تھی اور وزیر اعظم اندرکمار گجرال (98-1997) کے دور میں فلسطین کوخصوصی موقوف دیا گیا تھا ۔
کانگریس دور حکومت میں فلسطین کے کاز کو مزیدتقویت دینے کے لئے حکومت کی ایماء پر حیدرآباد میں ایک انڈو عرب لیگ نامی ادارہ تشکیل دیا گیا تھا اس کی دعوت پر یاسر عرفات دو مرتبہ حیدرآباد تشریف لائے تھے ۔ اِنہوں نے انڈو عرب سنٹر اور مسجدکی تعمیر کے لئے 22 ؍نومبر1997ء کوسنگ بنیاد رکھا اور اس کے لئے PLO فنڈسے ایک ملین ڈالر کا عطیہ بھی دیا تھا۔ اس ادارہ کے روح رواں سید وقار الدین مرحوم کے انتقال کے بعد یہ ادارہ تباہی کا شکار ہو گیا۔
خالد شیخ سفیر فلسطین شعیہ دہلی کے عہدہ پر تقریباً 17 سال ہندوستان میں مقیم رہے ۔ ان کے گاندھی خاندان سے خصوصی تعلقات تھے۔ اکثر و بیشتر سونیا گاندھی سے ملاقات کیا کرتے تھے ۔ 1997 ء کی بات ہے کہ نجمہ ھبۃ اللہ کانگریس سے مستعفی ہو کر بی جے پی میں شامل ہونا چاہتی تھیں۔ انہوں نے کافی کوششیں کیں کہ نجمہ ھبۃ اللہ کسی بھی صورت فلسطین دشمن پارٹی بی جے پی میں شمولیت اختیار نہ کرے ۔ 2002 ء میں نجمہ ھبۃ اللہ نے خالد شیخ سفیر ہند فلسطین کے متعلق اس وقت کے وزیر داخلہ یل کے اڈوانی(بی جے پی) سے شکایت کرتے ہوئےکہا کہ خالد شیخ غیر ضروری ہمارے داخلی سیاسی اُمور میں مداخلت کررہے ہیں۔ خالد شیخ کے خلاف ہندوستانی حکومت کا اعتاب ہوا اور حکومت ہند نے PLO سے فوری طور پر انھیں واپس طلب کر نے کو کہا اور ملک سے نکال باہر کردیا تھا۔
/4 نومبر 2004ء کو جب پیرس میں یاسر عرفات کا انتقال ہوا تو اس وقت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے بہ نفس نفیس فلسطینی سفارت خانہ دہلی جا کر تعزیتی بیان درج کرتے ہوئے۔ اور یاسر عرفات کو خراج تحسین پیش کیا۔ فلسطینی سفارت خانہ ایک انتہائی خراب حال بلڈنگ کے فلیٹ میں کام کرر ہا تھا ۔ من موہن سنگھ کو یہ حالت دیکھ کر سخت افسوس ہوا اور انہوں نے اپنے خصوصی حکم نامہ کے ذریعہ فلسطین کے سفارت خانے کی تعمیر کے لئے خصوصی فنڈ اجراء کیا ۔ خود ہندوستان نے اپنے اخراجات پر فلسطین کا سفارت خانہ دہلی میں تعمیر کروایا۔
RSS فلسطین کی آزادی کے لئے ہندوستان کی 100 سالہ قدیم مضبوط عملی حمایت کو بھلا کر اسرائیل جیسے وحشی جابر عالم مجرم غاصب حکومت کی تائید کررہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مودی اور بی جے پی حکومت نے اسرائیل کی غلامی میں اند ھے اور بے بہرہ ہو رہے ہیں۔17؍اکٹوبر 2023 کے بعد حماس اور فلسطینیوں کو بد نام کرنے کی جو بی جے پی نے میڈیا میں پروپگنڈہ شروع کیا تھا اس پرکسی حد تک قدغنے اس وقت لگے جب کانگریس خاص کرراہو ل گاندھی نے کھل کر فلسطین کی آزادی کی جاری جد وجہدمیں ہندوستان کی حمایت کی پالیسی کے اسباب کا دلیل کے ساتھ لگا تار کوششوں کا ذکر کیا تو ہندوستانی عوام کی بڑی تعداد کا ذہن بدلنے لگا اور صحیح سیاق و سباق کو سمجھتے ہوئے ملک کے عامۃ الناس فلسطین کی آزادی کی تائید میں اُٹھ کھڑے ہوئے ۔اور سوشل میڈیا میں بھی غزہ کو لے کر بحث و مباحثوں وغزہ کے خلاف گرم کردہ ہوا کا رخ بدلا۔عوامی پریشر کی وجہہ سے بی جے پی کو کسی قدر خاموشی سے اپنے موقوف کو بدلتے ہوئے اقوام متحدہ78 ویں اجلاس منعقدہ 7 ؍نومبر 23 میں آزاد فلسطین مملکت کے قیام کی تائید میں مجبوراً ووٹ ڈالنے پڑے۔ دو مملکتی نظریہ کی تائید میں اقوام متحدہ کے140 رکن ممالک نے ووٹ ڈالے جس میں ہندوستان بھی شامل تھا۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے ماہرین نے مودی حکومت کو متنبہ کر دیا تھا کہ فلسطین کے معاملہ میں 56 عرب و اسلامی ممالک سے ہٹ کر اسرائیل کی تائید میں کوئی بھی اقدام ملک کے لئے مستقبل میں شدید نقصان دہ ہو سکتا ہے۔مجبوراً راتوں رات مملکتی نظریہ کے مطابق ہندوستان نے خاموشی سے فلسطین کے قیام کی تائید میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔
Comments are closed.