داڑھی رکھنے  کاشرعی حکم اورغلط فہمیاں

 

قاضی محمدفیاض عالم قاسمی

8080697348

مورخہ 17/نومبر2023ء روزجمعہ کو ممبئی کے مشہوراخبار”ممبئی اردونیوز” میں جناب  عبدالغفارصدیقی صاحب کا ایک مضمون بنام "اسلام میں داڑھی یا داڑھی میں اسلام” شائع ہوا، جس میں آں محترم نے دل کھول کر مولویوں پرلعن طعن کیا، ان کے  مطابق برصغیر میں حقیقی اسلام نہیں ہے، بلکہ  مولویوں کا تیارہ کردہ اسلام رائج ہے۔ان کے مضمون کو پڑھ کر اندازہ ہواکہ موصوف کو اسلامی تعلیمات، قرآنی احکامات، احادیث وسنن کی تفصیلات،فقہاء کرام کے مجتہدات کی ذرہ برابربھی خبر نہیں ہے، یاپھر وہ جان بوجھ کر آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔

موصوف کے مطابق اسلام میں داڑھی رکھنا واجب نہیں ہے؛ بلکہ یہ مولویوں کی پیداوار ہے؛کیوں کہ  قرآن میں داڑھی رکھنے کاحکم نہیں ہے۔حدیث میں ہے تومشرکین کی مخالفت کی وجہ سے ہے۔مشرکین کی مخالفت کے لئے خضاب کا بھی حکم دیاگیا ہے، تو خضاب سنت اور داڑھی واجب کیوں ہوگیا؟وہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ داڑھی رسول ﷺ نے رکھی  ہے، اس لئے سنت ہے،لیکن صرف یہی سنت کیوں؟ آپ کے جیسا لباس پہننا سنت کیوں نہیں؟ آپ کے جیسے دسترخوان سنت کیوں نہیں؟ جہاں دوسالن جمع نہیں ہوتے تھے، پھر سفر میں اونٹ اورگھوڑے کے علاوہ باقی ذرائع کا استعمال کیوں ناجائزنہیں؟

اس مضمون میں ہم ان کی غلط فہمیوں کا  مثبت انداز میں جواب دینے کی کوشش کریں  گے۔برصغیر کے کسی بھی عالم یا کسی بھی کتاب کاحوالہ  نہیں دیں گے،بلکہ عرب  اوربرصغیر کے علاوہ علماء کرام کی لکھی ہوئی  کتابوں کاحوالہ دیں گے ۔ ان  شاء اللہ

حقیقت یہ ہے کہ مضمون نگارکو اسلام کے مسلمہ اصولوں  سے واقفیت  نہیں ہے، اس لئے غلط فہمی کاشکار ہیں،موصوف کو سنت کاصحیح مفہوم بھی  معلوم نہیں، ا س لئےمسائل کو گڈ مڈ کررہے ہیں۔ان کے مطابق چوں کہ قرآن میں داڑھی رکھنے کاحکم نہیں ہے، اس لئے داڑھی رکھنا واجب نہیں۔ان کا یہ  ضابطہ من گھڑت اور خودساختہ ہے۔اگر یہی مان لیاجائے تو بہت سارے ایسے احکام ہیں جو قرآن میں صراحت کے ساتھ نہیں ہیں، اس کے باوجودوہ  واجب ہیں جیسےپانچ وقت کی نماز،رکعتوں کی تعداد، عید کی نماز اوران کی تعداد،قربانی وغیرہ۔اس سے معلوم  ہوا کہ  یہ ضابطہ ہی   سرے سے غلط ہے؛کیوں کہ شریعت کے بہت سارے احکام سنت رسول ﷺ سے ثابت ہیں۔قرآ ن کریم میں ہے کہ رسول ﷺ  جو کچھ تم کو بتائے اس کو لے لو، اورجن چیزوں سے روکے، رک جاؤ، اوراللہ  سے ڈرتے رہو،بے شک( عمل نہ کرنے والوں کو)اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والے ہیں۔(سورۃ الحشر:۷)۔

یہ بھی یاد رہے کہ قرآن کریم  عام طورپراصولی حکم دیتاہے، حدیث رسول اس کی  تشریح کرتی ہےاور صحابہ کرام رسول ﷺ کی موجودگی میں عملی  جامہ پہناتے ہیں۔ جیسےقرآن کریم میں  صرف نماز کاحکم  ہے، رسول ﷺ نے پانچ وقت کی نماز  کی تشریح کی ہے،اورنماز  پڑھنے کاطریقہ  صحابہ کرا م   کے ذریعہ  منقول ہواہے۔پس اگر حدیث رسول ﷺ کو  نہ لیاجائے تو دورکعت نماز بھی ثابت کرنا اورپڑھنامشکل ہوجائے گا۔

یہ بات صحیح ہے کہ قرآن کریم کی آیت اور احادیث رسول ﷺ کو ان کے پس منظر میں سمجھناضروری ہے ، لیکن  یہ صرف  سمجھنے کی حدتک ہے، مسائل مستنبط کرنے کی حدتک نہیں ہے، کیوں کہ قرآن کریم کوئی داستان ،ناول یاتاریخ  کی کتاب نہیں ہے کہ اس  میں واقعات اور کہانیاں یونہی بے مقصد بیان کردیاجائے۔ بلکہ پیش آمدہ واقعہ سے بہت سارے مسائل بھی ثابت ہوں گے۔ ورنہ قرآن کریم کا بے فائدہ ہونالازم آئے گا۔ مثال کے طورپرقرآن میں ہے کہ ہم  نے بنی اسرائیل سے کہا تھا کہ  جس نے ایک انسان کو بلاوجہ قتل کیا تو گویاکہ اس نے سارے انسانوں کو قتل کرڈالا۔(سورۃ المائدۃ:٣٢)یہ حکم  جس طرح بنی اسرائیل کے لئے ہے؛ اسی طرح امت محمدیہ کے لئے بھی ہے۔ اگر  ایسانہ مانیں تو لازم آئے گا کہ بنی اسرائیل میں تو انسانیت کی  اہمیت تھی ، لیکن امت محمدیہ میں انسانیت کی  کوئی اہمیت نہیں ہے۔حالاں کہ یہ سراسر  غلط ہے۔اسی طرح  قرآن کریم میں ہے کہ  بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیاتھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک،دانت کے بدلے دانت لیاجائے گا، اورزخموں میں بھی برابرکابدلہ ہے؛لیکن کوئی اگرمعاف کردے تو  یہ اس کے لئے اپنے گناہوں کے لئےمعافی کاذریعہ ہوگا۔(سورۃ المائدۃ:٤٥)دیکھئے یہاں بھی بنی  اسرائیل کو دیا گیا حکم  قرآن کریم  میں نقل کیاگیاہے۔ تو کیا اس کو صرف نقل کی  حدتک ماناجائے گا، یاپھر امت محمد یہ کے لئے بھی یہی حکم ہوگا؟اگر صرف نقل کی حدتک مانیں تو یہ لازم آئےگا کہ  ان چیزوں کی اہمیت بنی اسرائیل  میں تھی، امت محمدیہ میں نہیں ہے، نیز قرآن کریم ایک تاریخی کتاب بن جائے گی۔ اس لئے سارے مفسرین  نے ایک اصول مرتب کیاہے کہ قرآن کریم میں اگر  گزشتہ اقوام میں سے کسی واقعہ کا ذکرہواہے اور اس میں کسی حکم کی نشاندہی  کی گئی ہے، اس کی کہیں تردید یا تنسیخ منقول نہ ہو تو وہ حکم امت محمدیہ کے لئے بھی ہوگا، گرچہ امت محمدیہ کے لئے ہونے کی صراحت نہ کی گئی ہو۔( اصول السرخسی:٢/١۰١،المستصفیٰ :١۶۶، درمختار:١۹)

اسی طرح داڑھی کے مسئلہ کو بھی سمجھناچاہئے کہ قرآن کریم میں داڑھی کا ذکراس طرح ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نےاپنے  بھائی ہارون  علیہ  السلام کو اپنی قوم کانگراں بنایاتھا، اس نگرانی  میں  ان سے غیرشعوری طورپراجتہادی چوک  ہوگئی،تو موسیٰ علیہ  السلام نے ان کے سراور داڑھی کے بال  کو غصہ سےپکڑکر اپنی طرف  کھینچا ۔(سورۃ طہٰ:۹٤)۔اس واقعہ سےمفسرین نے بہت سارے مسائل  مستنبط کئے ہیں، مثلااپنی جگہ کسی کو نائب بنانا درست ہے،کسی کی غلطی  پر جسمانی  سرزنش کرنے کی گنجائش ہے۔ موسیٰ علیہ  السلام نےہارون علیہ السلام کی داڑھی کو پکڑکرکھینچاتھا۔ اس سے  معلوم ہواکہ ان کی داڑھی لمبی تھی  ، اور اتنی  لمبی تھی  کہ  وہ  موسیٰ  علیہ السلام کی مٹھی میں  آگئی تھی۔پس مفسرین نے کہا کہ داڑھی ایک مشت ہونی  چاہئے۔چوں کہ داڑھی رکھنے کاحکم  صریح الفاظ میں قرآن میں نہیں ہے، لیکن واقعہ سےسمجھ میں آتاہے، ا س طرح کسی چیزکو ثابت کرنے کو اصولیین کی اصطلاح میں اشارۃ النص کہاجاتاہے۔ یعنی آیت سے یہ اشارہ ملتاہے کہ داڑھی ایک مشت ہونی چاہئے۔

اس کے علاوہ احادیث اور سنت رسول ﷺ سے بھی داڑھی کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔اصل مدعیٰ پرآنے سے قبل  عرض ہے کہ رسول ﷺ کے زمانے میں فرض، واجب، سنت ، مستحب ، نفل ، مکروہ وغیرہ اصطلاحات نہیں تھیں، بلکہ یہ تو امت پر فقہاء کرام بالخصوص امام اعظم ابوحنیفہ ؒ اوران کے شاگردوں کا احسان عظیم ہے کہ انھوں نے قرآن وحدیث میں غور وفکرکرکے احکام کے درجات مقررکئے ہیں۔ یعنی ہر حکم کی درجہ  بندی کی گئی ہے کہ کون ساحکم کس درجہ کاہے؟ کس کی کیا  حیثیت ہے،ایسا کرنا اس لئے ضروری ہوا کہ بعض احکام ایسے ہیں جن پر آپ علیہ السلام نے حکم کے ساتھ تاکید بھی فرمائی، عمل نہ کرنے پر وعیدبھی سنائی، بعض مرتبہ آپ نے سزابھی دی، لیکن بعض احکام  ایسے بھی ہیں کہ صرف آپ نےحکم  دیا، وعید نہیں سنائی، اور عمل نہ کرنے پر سزابھی نہیں دی۔ جب کہ  بعض احکام میں آپ نے صرف پسندیدگی کا اظہارفرمایا۔اسی طرح بعض مسائل کے بارے میں آپ نے سخت نکیر کی،  اورجہنم کی سزاکابھی ذکر کیا، جب کہ بعض  احکام میں آپ نے صرف ناپسندیدگی کااظہارفرمایا۔ ظاہرہے کہ رسول ﷺ کے ان  سارے رویوں کو  ایک ہی درجہ میں نہیں رکھا جاسکتاہے۔ بعض میں شدت ہے اور بعض میں نہیں ہے۔جن  احکام کو سختی سے کرنے کاحکم دیا،یا جن کے کرنے کاحکم صریح الفاظ میں قرآن میں دیاگیاان کو فقہاء کرام نے فرض کے درجہ  میں رکھا،اس سے قدرے کم شدت والےاحکام کوواجب کا نام دیا، پسندیدگی والے احکام کو بھی بغور دیکھا کہ آپ ﷺنےان کی پابندی  کی یانہیں؟اگر کی ہے تو اس  کو سنت کہا،اگر نہیں کی تو اسےصرف مستحب یا  سنت غیرمؤکدہ کہا۔

پھر فقہاء کرام نے نبی کریم ﷺ کے طوروطریقے پر غوروفکرکیا، تو پتہ  چلا کچھ امورکو آپ علیہ السلام نےشریعت کے طورپرکیاہے،اوردوسروں کو حکم دیاہے۔جیسے اذان دینا، اقامت کہنا، مسواک کرنا، نماز کے مسنون اوقات وغیرہ اور کچھ کام کو طبیعت،عرف اور سماج کی  بنیاد پرانجام دیاہے۔ تو فقہاء کرام نے اول الذکر کو سنن ہدیٰ اورثانی الذکر کو سنن زوائد  کہاہے۔جیسے اٹھنا،بیٹھنا،کھانا پینا،سونا،لنگی پہننا، گھوڑے کی سواری وغیرہ ۔اول کے چھوڑنےسے گناہ ہوگا،لیکن ثانی کے چھوڑنے سے گناہ نہیں ہوگا۔

جس کام پر آپ نے سختی سے نکیر کی یا جس کی ممانعت قرآن میں صریح الفاظ میں ہے، اس کو فقہاء کرام نے حرام قراردیا،جس پرآپ ﷺ نے نکیر تو کی، لیکن سختی نہیں  کی تو ان کو مکروہ تحریمی کہا،جن پر صرف ناپسندیدگی کااظہارکیا انھیں صرف مکروہ تنزیہی کہا۔کرنے والے کام میں سب سے اعلیٰ درجہ فرض کا ہے، اس کے بعد واجب، پھر سنت مؤکدہ،پھرسنت غیرمؤکدہ،اس کے بعد مندوب اور مستحب کانمبرآتاہے۔ نہ کرنے والے کاموں میں  سب سے اوپر مکروہ تنزیہی ، اس کے بعد مکروہ تحریمی  اورسب سے نیچے یعنی  سب  سےگھٹیاحرام۔ کرنے والے کام اورنہ کرنے والے کاموں کے بیچ میں مباح کےنام سے ایک درجہ ہے،جس کامفہوم یہ ہے کہ کرنا بھی جائز اور نہ کرنا بھی  جائز ۔ یعنی  کرنے سے اچھا، نہ کرنے سےکوئی خرابی نہیں۔ فقہاء کرام  کازیادہ تراختلاف اسی میں ہے۔فرائض  اور حرام میں عام طورپر اختلاف نہیں ہے۔ سنت ، مستحب، مکروہ وغیرہ  میں کسی قدراختلاف ضرور ہے، لیکن  یہ اختلاف ایساشدید نہیں  کہ اس  کی وجہ سے فاسق وفاجریاکافرکہاجائے۔(الفصول فی اصول الفقہ:٣/٢٣٥-٢٣۶،حاشیہ طحاوی علی مراقی الفلاح:١۹٤، ردالمحتار:١/١۰٣، المنھل العذب المورود:٤/٢۸۰)

عام طورپر فقہاء کرام اوراصولیین کے  یہاں لفظ سنت کا اطلاق فرض وواجب کے بعداور مستحب سے پہلے والے درجہ  پرہوتاہے، لیکن  یہ  لفظ دوسرے معنیٰ  میں بھی استعمال  ہوتاہے۔چنانچہ  محدثین کے یہاں سنت کا اطلاق حدیث پر بھی  ہوتاہے، چنانچہ بولاجاتاہے کہ  یہ  مسئلہ  سنت سے ثابت ہے،  یعنی حدیث سے ثابت ہے۔رسول ﷺ کے قول ، وفعل اورتقریرکو جس طرح حدیث کہتے ہیں،اسی طرح سنت بھی کہتے ہیں، سنت کااطلاق تہذیب  اورکلچرپر بھی  ہوتاہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ  میری  سنت کو لازم پکڑو، یعنی  میرےلائے ہوئے طریقہ ، اورتہذیب کو لازم پکڑو۔کیوں کہ اگر یہاں پر سنت سے فرض وواجب کے بعد اورمستحب سے پہلے والادرجہ (سنت) مراد لیں گے، تو مطلب یہ ہوگا کہ سنتوں پر عمل کرو، فرائض اور وواجبات پر عمل کرنا ضروری نہیں، حالا ں کہ یہ  غلط ہے۔سنت اقوال صحابہ اور ان کے فیصلوں کو بھی کہاجاتاہے۔رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کی سنت پر بھی عمل کرنے کی تاکید کی ہے۔(سنن ترمذی، حدیث نمبر:٢۶۷۶،کتاب التعریفات للجرجانی:٢١٢٢،قواعدالتحدیث  من فنون مصطلح الحدیث:۶١)

 اردوزبان کا ایک لفظ ہے”تیز”،اس کے مختلف معانی ہیں۔ اگر آ پ کی  والدہ سبزی کاٹ رہی ہو ں اور کہیں کہ چاقو تیز ہے، تو مطلب واضح ہے کہ  چاقو کی دھارتیز ہے۔کوئی  آپ کے بیٹے کے بارے میں کہے کہ آپ کابیٹا  تیز ہے، تو مطلب ہوگاکہ لڑکاذہین وفطین ہے، کھاناکھاتے ہوئے آپ کہیں کہ آج کا کھانا تیز ہوگیا تو مطلب ہوگا کہ مرچی  زیادہ ہوگئی۔چوراہے پرکھڑا حوالدار کسی  بائک سوارکوپکڑتاہے اورپوچھتاہے کہ  تیز کیوں چلاتے ہو؟ تو مطلب ہوگا کہ گاڑی کی رفتار زیادہ کیوں  کرتے ہو؟ ہر جگہ  تیز کا  الگ الگ مفہوم ہے، لیکن مشترکہ طورپر ہر جگہ  زیادتی  کا مفہوم پایا جاتاہے۔پس اسی طرح لفظ سنت کا اطلاق  مختلف معانی پر ہوتاہے،   علماء کرام اور فقہاء عظام سمجھتے ہیں کہ کہاں کس مفہوم میں  استعمال ہواہے۔ ہر جگہ  مشترکہ  طورپر یہ  بات ہے کہ سنت کا تعلق رسول کریم ﷺ کی ذات بابرکت سے ہے،لیکن تعلق کی حیثیت مختلف ہے۔

 اب رہی یہ بات کس وقت سنت کس معنیٰ میں  استعمال کریں گے؟یا سنت کس معنیٰ  میں کہاں استعمال ہواہے؟ تو یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن وسنت کاماہرآسانی سے سمجھ سکتاہے کہ  سنت کس معنیٰ میں کہاں  استعمال  ہواہے، فقہاء کرام کی عبارتوں اور سیاق وسباق سےمتعین ہوگا کہ یہاں  سنت کا مفہوم کیاہے، جو لوگ جس میدان میں کام کرتے ہیں ان کے لئے سمجھنا بہت آسان ہوتاہے۔ دوسروں کے لئے پریشانی ہوسکتی ہے۔ اس لئے ہر لفظ اور جملوں کا مفہوم اس میدان کے ماہرین جو طے کریں گے وہی  مراد متعین ہوگا۔اگر میڈیکل سائنس کی کسی  اصطلاح یا لفظ کی تفسیر کوئی عالم دین کرے توڈاکٹروں کے نزدیک  قابل قبول نہیں ہوگی۔ کسی بلڈنگ کی خرابی کے بارے میں انجینئرکی رائے کااعتبارہوگانہ  کہ کسی ایم بی بی ایس ڈاکٹرکی رائے کا۔

داڑھی  کے سنت ہونے کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ اس کادرجہ  واجب سے نیچے اور مستحب سے اوپر ہے؛ بلکہ  اس کا مطلب یہ  ہے کہ داڑھی رکھنا رسول اللہ ﷺ کے قول وفعل سے ثابت ہے۔آپ علیہ السلام  کی  لائی  ہوئی شریعت کی تہذیب میں شامل  ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے داڑھی کے بارے میں صرف یہ نہیں کہا کہ غیرمسلموں  کی مخالفت  میں داڑھی رکھو، بلکہ  یہ بھی  کہا ہے کہ  داڑھی رکھنا سارےانبیاء علیہم السلام کا طریقہ رہاہے، یہ انبیاءعلیہم السلام کی تہذیب کاحصہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایاکہ دس چیزیں فطرت میں سے ہیں، ان میں سے مونچیں کٹوانا اور داڑھی کو بڑھانابھی ہے۔(صحیح مسلم:٢۶١)فطرت میں سے ہونے کامطلب یہ ہے کہ   یہ انبیاء علیہم السلام کا طریقہ رہاہے،فطرت انسانی اوردین الہٰی کاتقاضہ ہے۔(شرح مسلم للنووی:٣/١٤۷،مرقات المفاتیح:١/٣۹۶)

شاہ ایران کسریٰ کے دوقاصد رسول ﷺ کی خدمت میں آئے، انھوں نے ڈاڑھی منڈارکھی تھی، آپ نے ان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کیا، کہا کہ تمہاراناس ہو، تم نے یہ کیسی شکل بنارکھی ہے، انھوں نے کہا کہ  ہمارے آقاکسریٰ نے ہمیں ایسا کرنے کاحکم دیا، آپ نے ارشادفرمایا کہ میرے پروردگارنےمجھے داڑھی بڑھانے اورمونچوں کو تراشنے کاحکم دیاہے۔(البدایۃ والنھایۃ:٤/٣۰۷)

داڑھی  رکھنے،داڑھی چھوڑنےاور داڑھی بڑھانے  کے بارے میں کثرت سے روایتیں آئی ہیں؛ اس لئے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ  ڈاڑھی کامونڈناحرام ہے، ایک مشت رکھنا واجب ہے۔چاروں مکاتبِ فقہ یعنی فقہ حنفی، مالکی ، شافعی اور حنبلی   کا اس پراتفاق ہے، کسی کا بھی  اختلاف نہیں  ہے۔(الفقہ علی المذاہب الاربعۃ:٢/٤٣،المحلیٰ لابن حزم:١/٤٢٤، عمدۃ  الاحکام:٥٤/۹،فتاویٰ ابن تیمیہ:٥/٣۰٢،درمختارعلی تنویرالابصار:١٤۸،ردالمحتارعلی درمختار:۶/٤۰۷، المنھل العذب المورود:١/١۸۶،  موسوعۃ الفقہ الاسلامی:٢/٣٢٤،موسوعۃ فقیہ کویتیہ:٣٥/٢٢٥)

اسی طرح فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ داڑھی مونڈنے والے کی اقامت اور امامت مکروہ تحریمی ہے؛کیوں کہ وہ فاسق ہے، دین کے ایک ایسے امر کی جس کے بارے میں کثرت سے حدیثیں وارد ہوئی ہیں، جوانسانی فطرت میں سے ہے، انبیاء علیہم السلام کی سنت اور طریقہ رہاہے،خلاف ورزی کررہاہے؛ تو وہ اقامت اور امامت جیسی عظیم الشان عبادت  کو کیسے انجام دے سکتاہے؟ ہاں اگر مجبوری ہوتو اقامت  بھی کہہ   سکتاہے اور نماز بھی  پڑھاسکتاہے۔(درمختار:٥۶،ردالمحتار:١/٥۶۰)

آپ کوئی سامان خریدنے کے لئے جاتے ہیں تو اعلیٰ  سے اعلیٰ کوالیٹی تلا ش کرتے ہیں۔ کسی ہوٹل میں کھانے کے لئے جاتے ہیں تو اپنی پسندکے مطابق کھاناکھاتے ہیں، کسی کو کوئی ہدیہ  پیش کرتے ہیں تو آپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اُنھیں جو پسند ہووہی دوں، تو نماز جیسی عظیم الشان عبادت کے بارے میں بھی یہی  تصوررکھناچاہئے کہ تمام سنن و آداب کی رعایت کے ساتھ پڑھی ہوئی  نماز بارگاہ خداوندی میں  پیش کروں۔دنیاکے سارے کاموں میں آپ اچھا سے اچھا کرنےکی  کوشش کرتے ہیں ، لیکن نماز میں صرف جواز یعنی ” کام چلاؤ "والا تصوررکھتے ہیں،کیا یہی آپ کا ایمانی تقاضہ ہے؟

ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب داڑھی مونڈے شخص کی  اقامت اور امامت مکروہ ہے، تو اس کاچندہ مدرسہ اور مسجد کے لئے  کیوں لیاجاتاہے؟

رسول ﷺ نے تو کافرسےبھی  ہدیہ لیاہے، دعوت قبول کی ہے، اور چندہ  بھی لیاہے۔ امام بخاریؒ نے تو باضابطہ  باب قائم کیا ہے کہ  مشرکین  سے ہدیہ  قبول کرنے کاباب۔اس میں ہے کہ  ایک نصرانی نے آپ ﷺ کو ایک جبہ  ہدیہ  میں پیش کیا،(صحیح بخاری:٢۶١٥،صحیح مسلم:٢٤۶۹،)شاہ ایران کسریٰ نے آپ کے لئے ہدیہ بھیجا تو آپ  نے قبول فرمایا۔(سنن ترمذی:۱۵۷۶)جب رسول ﷺ ہجرت کرکے مدینہ  جارہے تھےتو ایک غیرمسلم کی بکری  سے دودھ پیاتھا۔(مسنداحمد:٤٤١٢)۔مکہ میں قیام کے دوران کئی مشرکین نے اورمدینہ میں قیام کے دوران کئی  یہودیوں نے آپ ﷺ کی دعوت کی ،اور آپ نےان کی  دعوت قبول  بھی فرمائی، ان کے گھرتشریف لئے گئے اور کھانا تناول فرمایا۔

اس لئے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ غیرمسلم کامال مسجد،مدرسہ وغیرہ کے لئے سکتے ہیں،غیرمسلم ذمی کی طرف سےمسجدمدرسہ کے لئے وقف کیاجانابھی  درست ہے۔ بشرطیکہ وہ اس کو کارخیر سمجھتاہو۔جب غیرمسلم کا مال لے سکتے ہیں تو کسی فاسق وفاجر کامال مسجداور مدرسہ کے لئے بدرجہ اولیٰ لے سکتے ہیں۔کیوں کہ فسق کا گناہ کفر سے بہرحال کمترہے۔ (البحرالرائق:٥/٢۰٤)دراصل چندہ کاتعلق انسان کے حالات سے نہیں ہے بلکہ مال سے اوردینے والے کی نیت سے ہے۔ اگر مال حلال ہے اور مقصد بھی درست ہے تو ہدیہ ا ورچندہ وغیرہ درست ہے۔ اوراگر مال ہی حرام ہے یا مقصد درست نہیں ہے تو ہدیہ  اورچندہ  لینا بھی درست نہیں ہے۔

جہاں تک رہی بات خضاب، دسترخوان،لباس،اونٹ اورگھوڑے کی سواری کی۔ یقینایہ ساری چیزیں رسول ﷺ سےثابت ہیں، لیکن چوں کہ ان امورسے متعلق تاکید ثابت نہیں ہے، رسول ﷺ کی طرف سے عمل نہ کرنے پر ناگواری بھی ثابت نہیں ہے، اس لئے ان کی حیثیت داڑھی کی حیثیت سے کم ہے،چنانچہ فقہاء کرام نے احادیث  مبارکہ،صحابہ کرام  کےطریقے وغیرہ کو دیکھ کران کی مختلف حیثیتیں مقررکی ہیں۔ چنانچہ دسترخوان بچھاکرکھانے کو سنت،کالے رنگ کےعلاوہ خضاب لگانے کو مستحب،اور ایک سالن والے کھانے کو بہترکہاہے۔معاشر ہ میں متقی وپرہیزگار لوگوں کےلباس  کواچھا لباس گردانا ہے۔دوسرے الفاظ میں ان امورکو سنن زوائداورامورعادیہ میں شمارکیاہے۔اونٹ اورگھوڑے کی سواری کو صرف مباح قراردیاہےکہ کرے تو  ٹھیک ،نہ کرے تو بھی ٹھیک ہے۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے آج کل بائک اور موٹروغیرہ سے سفرکرنے کاحکم لگایاجائے گا کہ ان ذرائع سے سفر کرنامباح ہے، سنت یاواجب نہیں ۔(مرقاۃ المفاتیح:۷/٢۶۹۶،درمختارمع ردالمحتار:۶/٤٢٢)

ذراغورکیجئے اگر داڑھی کی طرح ان چیزوں کو بھی واجب قراردیاجاتا،یعنی   اگر کوئی  اونٹ اورگھوڑے سے سفر نہیں کرتا تووہ  فاسق وفاجر ہوتا،توجو لوگ  اونٹ اورگھوڑا خریدنہیں سکتے ہیں، یا جن علاقوں میں  اونٹ اورگھوڑے نہیں ہوتے ہیں یاکم ہوتے ہیں، ان کےلئے بڑی دشواری ہوتی، عمل نہ کرنے پر سب کے سب گنہگارہوتے۔یہ حکم یقیناً ان کے لئے حرج عظیم ہوتا،حالاں کہ حرج عظیم شریعت کے مزاج خلاف ہے، قرآن کریم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں حرج نہیں رکھاہے۔(سورۃ الحج:۷۸)برخلاف داڑھی کے کہ اس کو رکھنےمیں کوئی دشواری نہیں ہے۔ ایک پیسہ بھی خرچ کرنا نہیں پڑتاہے،اس پر عمل کرنا امیر وغریب ،عرب وعجم ہرعلاقہ کےلوگوں کے لئےآسان ہے۔اس لئے فقہاء کرام نےقرآنی آیات اوراحادیث مبارکہ میں  خوب خوب غوروفکرکرکےاحکام کی   درجہ بندی کی ہے۔

 اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن وحدیث کو سلفِ صالحین، صحابہ  کرام،تابعین، اورتبع تابعین ، بزرگان دین کی تشریح کے دائرہ میں رہ کرسمجھیں گے تو عافیت میں رہیں  گے اوراگران کے  طریقے سے ہٹ کرسمجھنے کی کوشش کریں گے تو ٹھوکرکھاناپڑےگا، اوریہ ٹھوکر پتہ نہیں کہاں لے جاکر گرائے گی؟

 

Comments are closed.