جمعہ نامہ: نہیں کوئی چڑیا کسی ڈال پر،درختوں پہ مکڑی نے جالے بنے

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے:’’جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دُوسرے سرپرست بنا لیے ہیں اُن کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے کاش یہ لوگ علم رکھتے ‘‘۔  اسرائیل کی مرعوبیت کا شکار لوگ  تقریباً دو ماہ کی جنگ کے بعد  بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ؟ اس کا آہنی گنبد( آئرن ڈوم ) کہاں چلا گیا ؟ دنیا بھر میں وقوع پذیر ہونے والی ہر حرکت کی خبر رکھنے والی موساد کہاں سو گئی؟  سر حد کی حفاظت کرنے والا خود کار نظام کیونکر مفلوج ہوگیا ؟  اعلیٰ ترین تربیت    یافتہ  اوردنیا کے بہترین ہتھیاروں سے لیس فوجی اپنے قیدیوں کو چھڑانے میں کیوں ناکام ہوگئے ؟  حماس کی قید سے نکل کر آنے والے لوگ  جب کہتے ہیں  کہ ہم مکڑی کے جال کی مانند پھیلی ہوئی  سرنگوں میں تھے تو اچانک قرآن مجید میں بیان کردہ تارِ عنکبوت کی مثال نے اپنی جانب توجہ مبذول کراتی ہے اور  مذکورہ بالا سارے سوالات کا جواب مل جاتا ہے۔

مکڑی کی مثال اسرائیل پر ہو بہو منطبق ہوتی ہے۔ امریکہ اور دیگر  مغربی ممالک کی سرپرستی میں  ایک  مصنوعی ملک کے قیام کی خاطرمقامی آبادی کو در بدر کرکے  دور دراز سے لوگوں کو لاکر بسایا گیا۔  اس کے زمینی  توسیع کے لیے اقوام متحدہ کی سفارتکاری کو استعمال کیا گیا۔       معاشی  استحکام کی خاطر امریکہ جیسے ممالک نے اپنے بجٹ کی بہت بڑی رقم مختص کی ۔فوج کی تقویت کے لیے اسلحہ کی  کھیپ  در کھیپ روانہ کی  گئی۔  تحفظ کے لیے  جدید ترین تکنیکی  تعاون کیا گیا اور ذرائع ابلاغ کی مدد سے اسے ایک ناقابلِ تسخیر عالمی قوت کے طور پر پیش کردیا گیا۔  ہندوستان جیسے نہ جانے کتنے ممالک   نےمرعوبیت کا شکار ہوکر اس کو اپنا گرو گھنٹال مان لیا  لیکن یہ سارا   مکڑ جال ۷؍ اکتوبر کو ہونے والے حماس کے ایک  حملے سے بکھر کر تار تار ہوگیا ۔  اب یہ حال ہے کہ اسرائیل جنگ کرنا چاہتا ہے اور اس کا آقا امریکہ اسے منع کررہا ہے کیونکہ وہ سمجھ چکا کہ اس شاخِ نازک پر  تعمیر ہونے والا آشیانہ کسی صورت پائیدار نہیں ہوسکتا ۔مغرب کو اس کا احساس ہورہا ہے مگر اسرائیلی رعونت  اسے مکڑی کے کمزورجال میں جکڑے ہوئے ہے  بقول  اثر نظامی ؎

انا سے کہاں کس کو مکتی ملی ہے                         ہے مضبوط کتنا یہ مکڑی کا جالا

اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کرنے والے امریکی حکام کا اعتماد اس کے اوپر سے کتنا اٹھ گیا ہے اس کا اندازہ  سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مارک وارنر کے حالیہ بیان سے کیا جاسکتا ہے۔ موصوف نے  کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کا  جاری رہنا  بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی لازمی ہے کہ  اسرائیل فلسطینیوں کے فنڈز جاری کرے۔ اپنے مقبوضہ علاقوں میں رہنے بسنے والوں سے بلواسطہ  یا بلا واسطہ ٹیکس لینا اور اس پر سانپ بن کر بیٹھ جانا۔ اسے رعایا   کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے سے انکار کردینا بدترین خیانت ہے۔ اس پر پہلےساری دنیا خاموش تھی مگر اب  خود اسرائیل کے آقا امریکہ کی جانب سے یہ حکم دیا جارہا ہے۔  مارک وارنر نے یہ بات کسی نجی محفل میں نہیں بلکہ معروف ٹی وی چینل  MSNBC کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی اور  مزید  بولے  کہ اسرائیل دنیا بھر کے لوگوں کی ہمدردی کھو چکا ہے۔  اسرائیلی تارِ عنکبوت کے بکھرنے کاسب سے بڑا ثبوت یہ ہےکہ  امریکی عہدیدار کھلے عام اعتراف کرنےکے بعد اپنی ساکھ بچانے کی خاطر  فلسطینی ٹیکس محصولات جاری کرکے نیک نیتی کا مظاہرہ کرنے  کی تلقین  کررہاہے۔

مغربی دنیا کے لیے اسرائیل ایک سفارتی اور معاشی آلۂ کار ہے۔ اس کے ذریعہ سے امریکہ اور اس کے حلیف عرب ممالک کو بلیک میل کرکے اپنے زیر نگیں رکھنے کی کوشش کرتے تھے لیکن ۷؍ اکتوبر کے حملے نے اس صورتحال کی کایہ پلٹ دی۔  اس نے ایران اور سعودی عرب جیسے دشمن ممالک کو ایک دوسرے کا دوست بنادیا ۔ عرب امارات کو اسرائیل سے دوری بنانے پر مجبور کردیا۔  ترکی کے حوالے سے وسط ایشیا میں مو جود شکوک و شبہات  رفع کردئیے ۔ قطر اور سعودی عرب کے درمیان کی تلخی  دور ہوگئی اور مصر کے عبدالفتاح  السیسی تک کو حماس کی حمایت پر مجبور ہونا پڑا۔ اس عظیم اتحاد نے اسرائیل و امریکہ کی اس سازش کو ناکام بنا دیا جس کے تحت وہ حماس کو داعش کا ہم پلہ بنا دینا چاہتے تھے ۔ مغرب  اگر اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوجاتا تو مسلم دنیا کے اندر ایک زبردست اختلاف و انتشار برپا ہوسکتا تھا  لیکن اس کے برعکس سبھی نے یک زبان ہوکر اسرائیل کی  مخالفت اور حماس کی تائید کردی ۔  اس پیش رفت نے امریکہ کی برسوں سے جاری   سفارتکاری کو ایک جھٹکے میں ملیا میٹ کردیا ۔ 

  اسرائیل کے خلاف بننے والے  مسلم ممالک کے محاذ   میں چین اور روس  کی شمولیت نے عالمی  طاقت کےتوازن  کواپنی  جانب جھکا دیا۔  اقوام متحدہ کی پچھلی نشست میں صرف چودہ ممالک اسرائیل کے ساتھ بچ گئے تھے باقی سارے خلاف تھے۔ یہ ایک ایسی غیر معمولی کامیابی ہے جس نے مغربی ممالک کے مکڑ جال کی بھی چولیں ہلاکر رکھ دیں ۔   دوسروں کے رحم و کرم پر قائم اسرائیلی حکومت کے لیے یہ بہت  بری  خبرہے۔ آگے چل کر  اسرائیل کی پکار پر یہ لوگ  کم ہی کان دھریں گے اور اس کو اپنی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور کریں گے۔ ارشادِ قرآنی ہے :’’ یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جس چیز کو بھی پکارتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے اور وہی زبردست اور حکیم ہے یہ مثالیں ہم لوگوں کی فہمائش کے لیے دیتے ہیں، مگر ان کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں‘‘۔ قرآن حکیم کی  اس  مثال  سے  عالمی صورتحال  کو بہ آسانی سمجھا جاسکتا  ہے۔ مثالوں کی اہمیت سے متعلق   حضرت عمرو بن عاص ؓ  فرماتے ہیں میں نے ایک ہزار مثالیں رسول اللہ ﷺ سے سیکھی ہیں۔   اللہ تعالیٰ امت کو ان  مثالوں سے  دینی بصیرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Comments are closed.