غزہ کے ملبوں پر موت کا سناٹا

مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی
نائب امیر شریعت امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ،پھلواری شریف پٹنہ
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان چھ ہفتے بعدچار دن کی عارضی جنگ بندی ہوئی ہے۔امریکہ، قطر اور مصر کی معاونت سے ہوئے اس معاہدہ پر عمل 24 نومبر جمعہ سے شروع ہواہے۔دونوں طرف سے حملے بند ہیں،آگ اگلتے ٹینک اور میزائل خاموش ہیں۔یر غمالیوں اور قیدیوں کاآپسی تبادلہ چار دن تک چلے گا۔اس معاہدہ نے غزہ کے لوگوں کو شمال سے جنوب تک محفوظ راستہ تو فراہم کیا ہے، لیکن بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگوں کو گھر واپس جانے کی اجازت نہیں ہے۔ مظلوم فلسطینی اپنوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں، جب کہ غزہ کے ملبوں پر موت کا سناٹا اورنام نہاد انسانیت نواز قاتلوں اور ظالموں کی ان کہی کہانی ہے۔اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ غزہ جس جہنم سے گزر رہا ہے،کیا عارضی جنگ بندی اس سے نجات دلاسکے گی؟ یا پھر مکر وفریب کے نئے جال میں پھنسانے کے لئے بنجامن نیتن یاہو نے ایک نئی چال چلی ہے۔دنیا ’واچ اینڈ ویٹ‘ کی حالت میں سانس روکے پل پل بدلتے منظر کو دیکھ رہی ہے۔اس جنگ میں اب تک 12 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جس میں اقوام متحدہ سے منسلک 103 کارکنان شامل ہیں۔کثیر تعداد میں اسرائیلی فوجی بھی جنگ کے شکار ہوئے ہیں۔ دونوں طرف کے عوام درد میں ڈوبے ہوئے ہیں،وہ جنگ نہیں امن چاہتے ہیں۔
فاشسٹ نیتن یاہو،غاصب صہیونی اورظالم امریکہ حماس کو ختم کرنے کے لئے کسی بھی طرح کی ناروا حرکتوں سے باز نہیں آرہے ہیں۔ وہ کچھ بھی کہہ لیں اس جنگ نے پوری دنیا کو صاف پیغام دیا ہے کہ حماس کو ختم کرنے کے چاہے جتنے حربے استعمال کر لیں اس میں انہیں کبھی کامیابی نہیں ملنے والی ہے۔مٹھی بھر اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے سامنے عالمی پنچایت اقوام متحدہ اور دنیا کی بڑی طاقتیں جس طرح بے بس نظر آ رہی ہیں؛ اس نے امن کے ٹھیکداروں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کے پاس مغرب کی طرف سے فلسطینی معصوم بچوں، کمزور عورتوں اور مظلوم شہریوں کو مارنے کے لیے مطلوبہ مینڈیٹ ہے۔
اسرائیل کے ظلم وستم نے پوری دنیا میں ایک نیا محاذ پیدا کر دیا ہے۔ انصاف کے حامی لوگ غصے سے بھڑک اٹھے ہیں، یہاں تک کہ مغربی دنیا کے یہودیوں نے خود مورچہ کھول دیا ہے اور سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ وہ دور لد چکا جب اسرائیل کی حامی لابیوں نے بیانیے کو قابو میں کر رکھا تھا۔آج کا دور سوشل میڈیا کاہے،جوظلم کی خوفناک تصاویر کو ریئل ٹائم میں دکھا رہا ہے۔گودی میڈیا کی طرح نیتن یاہواور مغربی میڈیا کی غلط معلومات اور پروپیگنڈے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عمر رسیدہ امریکی سیاست دان مٹتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں؛ جب کہ اوباما نے اپنے جانشینوں کو خبردار کیا ہے کہ ’اگر آپ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو پوری سچائی کو اپنانا ہو گا اور پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی کے ہاتھ صاف نہیں ہیں، بلکہ ہم سب قاتلوں میں شریک ہیں۔پوری دنیا میں غزہ کے قتل عام کے خلاف احتجاج ہورہے ہیں۔یورپ تناؤ میں ہے۔روس، آئرلینڈ اور سپین واضح طور پر فلسطینیوں کے حامی ہیں۔
غزہ کے ملبوں پر کھڑے ہو کر ایک فلسطینی بچے نے جو درد بھری صدا لگائی ہے، اسے ضرور سننا چاہیے۔8سالہ الفہیم ہمدانی کہتا ہے:
”ہم فلسطین کے یتیم اور بے سہارا بچے ہیں۔ نہیں معلوم ہم مزید کتنے دن زندہ رہیں گے۔ ہمارے گھر اسرائیلی بمباری میں تباہ ہوگئے،والدین شہید ہو گئے۔ ہم وہ بچے ہیں جو زخمی ہو کر ہسپتالوں میں پہنچے اور پھر ہم ان ہسپتالوں میں بھی بمباری کا نشانہ بنے۔ کچھ مارے گئے کچھ ہسپتالوں کے ملبے سے زندہ نکال لئے گئے۔ ہو سکتا ہے اگلی بمباری میں ہم بھی مارے جائیں اور ہمیں بھی ہزاروں فلسطینیوں کی طرح اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا جائے۔ دفن ہونے سے قبل ہم دنیا بھر کے بچوں تک اپنا ایک پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ ہمارا قصور صرف یہ تھا کہ ہم سمندر کے کنارے غزہ کی پٹی میں فلسطینی والدین کے گھر پیدا ہوئے اور قبلہئ اول کی بازیابی کے لئے جد وجہد کر رہے ہیں“۔
خیال رہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں میں اختلاف کی وجہ ہیکل سلیمانی ہے۔ یہودی اسے اپنا مقدس مقام سمجھتے ہیں اور بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔صہیونیوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں نے ان کے مقدس مقام پر مسجد تعمیر کی لیکن مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ یہاں مسجد پہلے سے موجودتھی جیسے کہ خانہ کعبہ بھی ظہور اسلام سے پہلے موجود تھا۔ مسجد اقصیٰ کی معروف نسبت حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ ہے۔ ان کا محل یہاں موجود تھا جو ہیکل کہلاتا تھا۔ بعض روایات کے مطابق اس محل کے اندر ان کی عبادت گاہ بھی موجود تھی۔نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سفر معراج کے دوران مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ پہنچے اور تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد معراج کے سفر پرروانہ ہوئے۔ قرآن مجید کی سورۃ الاسراء گواہی دیتی ہے کہ یروشلم پر مسلمانوں کے قبضے سے پہلے یہ مسجد وہاں موجود تھی۔ ایک حدیث کے مطابق نبی کریمؐ نے فرمایا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد، مسجد الحرام (بیت اللہ) ہے اور دوسری مسجد،مسجد اقصیٰ ہے،جو پہلی مسجد بننے کے چالیس سال بعد وجود میں آئی۔مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہئ اول ہے۔ پہلے پہل مسلمان مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے پھر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم آیا۔ مسلمانوں نے حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں بیت المقدس کو فتح کیا تو یہاں پر ایک باقاعدہ مسجد تعمیر کی گئی۔ صلیبی جنگوں میں عیسائیوں نے اس پر قبضہ کرلیا؛لیکن صلاح الدین ایوبی نے اسے واپس لے لیا۔مسجد اقصی کی بازیابی سے مسلمان کبھی دست بردار نہیں ہو سکتا۔اسی مسجد کو بنیاد بنا کر صہیونیوں نے نصف صدی سے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیاتھا اورسات اکتوبر 2023ء کے بعدسے غزہ دنیا کی سب سے بڑی قتل گاہ بن چکی ہے۔ اقوام متحدہ سمیت بڑی طاقتیں اور تعیش پسند عرب قوتیں بے حسی کی چادر اوڑھے بیٹھی ہیں۔مرنے والے بچوں کی مائیں چیخ رہی ہیں؛لیکن کسی کوکچھ سنائی نہیں دے رہا ہے۔
مغرب کا میڈیا اسرائیل کا نظریاتی حلیف؛ بلکہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہے۔اس لئے غزہ سے سچی خبر کی اشاعت مشکل ہے،چنانچہ دنیا وہی دیکھ رہی ہے جو اسرائیل دکھانا چاہتا ہے، لیکن سخت سینسر کے باوجود کچھ حساس صحافی اپنے سیٹلائٹ فون سے اسرائیل کے لیے ”ناخوشگوار“ خبریں جاری کردیتے ہیں، ان خبروں سے چھن چھن کر یہ بات سامنے آرہی ہے کہ قوتِ قاہرہ کے وحشیانہ استعمال،ہزاروں ٹن بم باردو گرانے اور معصوم فلسطینیوں کی نسل کُشی کے باوجود عسکری محاذ پر اسرائیلی فوج کوہزیمتوں کا سامنا ہے، وہ اپنے ہدف سے بہت پیچھے ہے۔ اسرائیل اسلام دشمنی، ہٹ دھرمی ضد اور انا کی جس راہ پرچل پڑا ہے، وہ تباہی اور بربادی کی طرف لے جا تا ہے، مظلوموں کا خون رائیگاں نہیں جائے گااور دیر سویر اسرائیل کا سورج غروب ہو کر رہے گا۔
Comments are closed.