مجاہد آزادی -شفیع داؤودی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
اوسط قد، گورا رنگ، گورا بدن، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر پر جناح کیپ، خوش طبع، خوش مزاج مسکراہٹ بر لب یہ تھے مشہور مجاہد آزادی جو اپنے عالمانہ وضع قطع، مولو یا نہ رکھ رکھاؤ کی وجہ سے عوام و خواص میں مولانا محمد شفیع داؤدی اور حسن نظامی کی نظر میں ”مولا نا ہنس مکھ“ تھے شفیع واؤ دی 27 اکتوبر 1875ء مطابق 26 رمضان 1219 (کار تک 1383 فصلی بروز بدھ ویشالی ضلع (سابق مظفر پور) کے داؤ دنگر میں محمد حسن کے گھر پیدا ہوئے، بارہ سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا جس نے انہیں حساس بنا دیا، میٹرک چھپرہ ضلع اسکول سے کرنے کے بعد، بی، اے، بی ایل تک اپنی تعلیم جاری رکھی، لیکن ٹیوشن پڑھا کر، لیمپ پوسٹ کی دھندھلی روشنی میں پڑھ کر اور سخت مالی دشواریوں کا سامنا کر کے آگے بڑھتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر مفلسوں کے لیے جذبۂ ہمدردی اور جبرو استحصال کے خلاف نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا ہو گیا تعلیم کے بعد وکالت کی طرف متوجہ ہوئے، مظفر پور میں پریکٹس اچھی چل رہی تھی کہ تحریک ترک موالات چھڑ گئی، مولانا شفیع داؤدی نے وکالت چھوڑ کر تحریک ترک موالات میں حصہ لینا شروع کیا،27ستمبر1912ء میں ایک سال بکسر جیل میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، جیل سے رہا ہونے کے بعد جون 1920ء میں وہ مظفر پور کانگریس کمیٹی کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور 1927ء تک اس عہدہ پر فائز رہے، 7/ دسمبر 1920ء کو مہاتما گاندھی علی برادران کے ساتھ مظفر پور آئے اور مولانا داؤدی کے مکان پر ٹھہرے، اس وقت سے ان کا گھر جنگ آزادی کا مرکز ہو گیا، مولانا داؤدی ضلع کانگریس کے روح رواں بن گئے اور انہوں نے اپنی قیمتی زمین کا نگریس کے دفتر کے لیے پارٹی کو دے دی، گاندھی جی نے جب بدیسی کپڑوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، اور بون فائر، Bon Fire کا سلسلہ شروع ہوا تو مولانا اپنی بیوی بچوں کے ساتھ گھر گھر سے بدیسی کپڑے لا کر نذر آتش کرنے میں لگ گئے۔ اکتوبر 1921ء میں آرہ میں بہار کانگریس کے میٹنگ کی صدارت کی اور پرنس آف ویلز کے ہندوستان آمد پر بائیکاٹ کا فیصلہ لیا، اسی سال وہ صوبائی کانگریس کے نائب صدر منتخب ہوئے، 30 ا کتوبر کو جنگ آزادی کے مرکز ہونے کی وجہ سے ان کے گھر پر چھاپا مارا گیا مسلسل 12 گھنٹے تلاشی کا کام جاری رہا، جس میں پولیس کو جنگ آزادی سے متعلق بہت سارے خطوط، سائیکلو اسٹائل مشین وغیرہ ملے، چنانچہ انہیں قید کر کے ہزاری باغ جیل بھیج دیا گیا، 1922ء میں وہ رہا کئے گئے اور کانگریس کے گیا اجلاس میں شریک ہوئے، کلکتہ کے اجلاس کو کامیاب کرنے میں بھی انہوں نے گاندھی جی کے دوش بدوش کام کیا1931ء میں دوسری گول میز کا نفرنس میں مولانا داؤدی نے گاندھی جی کے ساتھ شرکت کی، یہیں علامہ اقبال سے مولانا کی ملاقات ہوئی، جس کے نتیجے میں آل انڈیا مسلم کا نفرنس کا وجود ہوا اور جنرل سکریٹری کی حیثیت سے آپ نے اس کی قیادت سنبھالی 1935 کے قانون کی رو سے 1937ء میں جدا گانہ انتخاب کے اصول پر بہار میں انتخابات ہوئے تو مولانا داؤدی ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد کی پارٹی کے امیدوار بدر الحسن وکیل سے انتخاب ہار گئے، جس سے ان کی طبیعت بجھ سی گئی 1924ء سے1934ء تک وہ سنٹرل لجسلیٹو اسمبلی دہلی کے ممبر رہے، 25 جنوری 1949ء کو رام باغ میں انتقال کیا۔
ہند و مسلم اختلاف اور ذات پات کی لعنت کے ہندوستانی سیاست میں داخل ہونے کی وجہ سے مولانا شفیع داؤدی نے آزادی کے قبل ہی اپنے کو سر گرم سیاست سے الگ کر لیا، ان پر مذہبی رنگ پورے طور پر چھا گیا، حسنین سید کی ملاقات سے وہ جماعت اسلامی کے قریب ہوئے اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک سماج کی خدمت جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے کرتے رہے۔
مجاہدین آزادی میں وہ ڈاکٹر راجندر پرشاد اور مولانا مظہر الحق کے ساتھ صف اول کے لیڈر تھے ان میں قربانی کا جذبہ تھا، اور نام و نمود سے وہ دور بھاگتے تھے، اسی لیے 1920ء سے1947ء تک سرگرم رہنے والے اس مجاہد کو لوگوں نے بھلا دیا، جب کہ کے۔ کے۔ دتا نے اپنی کتاب ”بہار کی جنگ آزادی کی داستان“ کی پہلی جلد میں، انگریز مورخ ڈیوڈ، بیچ نے ”انڈین مسلم اینڈ دی ایمپاریل سسٹم اور کنٹرول“ میں انہیں ملک گیر حیثیت کا لیڈر تسلیم کیا ہے۔ ڈکشنری آف نیشنل لیڈرس میں بھی مولانا کا ذکر موجود ہے۔ جاوید اقبال نے ”زندہ رود“ میں بھی انہیں اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے، لندن کی برٹش میوزیم لائبریری، کلکتہ کی نیشنل لائبریری اور دہلی کی نیشنل آرکائیوز میں مولانا سے متعلق تفصیلی مواد موجود ہے۔
Comments are closed.