سفر چین

محمد خالد صدیقی
صدر جمعیۃ علماء نیپال
وفاقی ممبر پارلیمنٹ کا ٹھمنڈو
سی چون ائرلائنس کی فلائیٹ 303902 سے پہلی بار ، تری بھون انٹرنیشنل ائر پورٹ کا ٹھمانڈو سے ،سرکاری وفد کے ایک رکن کی صورت میں چین جانے کا اتفاق ہوا۔وفد میں شمولیت نیشنل اسمبلی کی نائب صدر محترمہ ارمیلا اریال کی تحریک پر ہوئی ، جب بھی محترمہ سے ملاقات ہوتی ہے، ڈیڑھ سال پہلے کے انتخابی مناظر سامنے آجاتے ہیں ، ہمدونوں ایک ہی سیاسی اتحاد سے انتخابی میدان میں کو دے تھے ۔ ماشاء اللہ اس انتخاب میں ہم دونوں کو ہی زبر دست فتح حاصل ہوئی تھی ، ان کے شوہر ایک اچھے ، نیک دل اور شریف انسان ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے اسکالر بھی ہیں ۔آج جب ہم ان کے ساتھ کا ٹھمنڈوائر پورٹ کے VIP لا نج میں تھے ، حالاں کہ سبھی شناسا تھے ، ۷ افراد تو ایم پی ہی تھے ،پھر بھی انہوں نے بطور قند مکرر یہ کہ کر میرا تعارف کرایا کہ ان سے ملئیے ! یہ خالد جی ہیں، اور ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹوں سےکامیاب ہونے والے ممبر پارلیمنٹ یہی ہیں۔
رسمی کارروائی کے لیے پارلیمانی سکریٹریٹ کا عملہ ہمارے ساتھ تھا۔ اس لیے ہم براہ راست سی چون ائر لائنس کے طیارہ میں بیٹھے ، اندرونی ماحول بے حد پر سکون اور طیارہ کا عملہ بہت ہی چست درست مگر شائستہ اور با اخلاق دکھائی دیا۔ ارمیلااریال صاحبہ بزنس کلاس میں براجمان ہوئیں ۔ بقیہ افراد نے اکنامی کلاس میں نشستیں سنبھالیں ۔ میری عمر بھی اب” بزرگوں“ کی سی ہو رہی ہے، لیکن عمر شریف مرحوم کا جملہ نوک قلم پہ مچل رہا تھا ، ”بلکل گھر ساماحول تھا“ طیارہ کے عملہ اور پرواز کی ہمواری نے ذاتی طور پر مجھے بڑا متاثر کیا ؛گرچہ ہم برنس کلاس میں نہیں تھے ، اکنامی میں تھے،اس کے باوجود ضیافت اور ائر لائنس کے ذوق طعام نیز بار بار کی ضیافتی پذیرائی اور انواع و اقسام کی پیش کش نے فضائی سفر کی ساری یادوں کو دھندھلا دیا ۔
میں نے ایک درجن سے زائد ائر لائنس میں سفر کیا ہے ؛ لیکن ضرور ت سے زیادہ الفاظ خرچ کیے بغیر، میں بس اتنا کہوں گا کہ مجھے بہت اچھا لگا۔
۱۲بجے کا ٹھمنڈو سے پرواز ہوئی تھی ؛ نیپالی وقت کے مطابق ان شاء اللہ پونے پانچ بجے ہمارا قافلہ اپنی پہلی منزل پر پہونچے گا۔
(دوران پرواز، مقامی وقت ۲ بجے دن)

۴ ستمبر صبح۱۰ بجے سی چون ائر لائنس
صبح ۸:۳۰ بجے کےسی چون 3667 U3 کی پرواز سے چنگ دو کے ٹین فو ائر پورٹ سے لینزی کے لیےپورے قافلہ کے ساتھ روانہ ہو گیا ۔
کل دوران پرواز ہی ہما را پاسپورٹ جمع کر لیا گیا ، جب چنگ دو ائر پورٹ پہونچے تو محترمہ ارمیلا کے نام کی تختی لیے ایک بندہ جہاز کے دروازے پر مستعد تھا، یوں تو کا ٹھمنڈو سے ہی چتگ سی نام کا چینی نژاد ، چینی نوجوان مستقل سفر میں ہمارے ساتھ رہا ۔ ہم سیدھا ائر پورٹ کے vip لاونج کمرے میں پہونچے ۔vip نشست گاہ ایک کے بجائےکئی تھی،جہاں کی ہر شئے سے نفاست اور قرینہ جھلک رہا تھا ۔ چینی چائے اور لوازمات سے ہماری ضیافت ہوئی اور یہیں سے ۵/۷ منٹ کے فاصلہ پر جوئی ہب نامی5 اسٹار ہوٹل میں قیام ہوا ۔ مجھے اپنے ملک اور بیرون میں بھی کئی 5 اسٹار ہوٹلوں میں قیام کا اتفاق ہوا ہے ؛ مگر جتنا سامان راحت و تعیش یہاں باا فراط فراہم کیا گیا، کم از کم میں نے نہیں دیکھا، ہو سکتا ہے دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں مزید لگژری بنایا گیا ہو ۔
رات کا کھانا ( بمعنی روٹی ، چاول ، دال ، سبزی) کئی ماہ سے نہیں کھاتا ، یہاں کے ریسٹورنٹ میں اصحاب ناؤ نوش اور یاران میکدہ کے لیے سبھی کچھ موجود تھا؛لیکن مجھ فقیر کو صرف پھل اور سادہ چائے پر گزارا کرنا پڑا۔
قبلہ کا اتہ پتہ نہیں تھا، استقبالیہ ہمراہیوں اور ممکنہ رابطوں سے بھی قبلہ کا پتہ نہیں کرپایا۔ سوچا مزید کوشش کرتا ہوں ، جب تک کچھ ”فرض مسلمانی“ادا کرلوں ؛چنانچہ وضو کر کے مختصر تلاوت کی ، پھر موبائل اور نفس امارہ کے دیگر تقاضوں میں گرفتار ہو کر نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
صبح ہلکے ناشتہ کے بعد پھر چنگ دو ائر پورٹ آئے ۔ حسب دستور vipلاونج میں تھوڑی دیر استراحت اور چینیوں کی چائے اور ہلکے لوازمات سے پذیرائی کے بعد پرواز کےلیے بڑھ گیا ۔
موسم کی وجہ سے آج کی پرواز تھوڑی نا ہموار رہی، ضیافت کل کے مقابلہ میں ہلکی رہی ۔ شاید ملکی اور بین الاقوامی نیز طویل دورانیہ اور نسبتہ کم فاصلہ کی پرواز ہونے کیوجہ سے ایسا رہا ہو۔
(لولان ہوٹل)

لینزی ائر پورٹ کے داخلہ پر حکام اور چینی تہذیب کو جھلکاتی ہوئی لڑکیوں نے شاندار استقبال کیا ۔ بنت حوا کا ایسا استقبال گرچہ ہمارے نقطہء نظر سے قابل اعتراض ہے؛لیکن یاروں نے پروٹوکول ہی کچھ ایسا بنا رکھا ہے ۔
تاہم میں نے انہیں بے انتہا میک اپ بھرپور آرائش و زیبائش، نفیس لباس اور چہرہ کی میناکاری کے باوجود انتہائی مہذب اور شائستہ دیکھا ۔ سر اور چہرہ کے علاوہ جسم کا بقیہ حصہ اس طرح ملفوف تھا، جس سے تہذیب و حیا کی نمائندگی ہو رہی تھی ۔ کاش کہ ہمارا ملک نیپال اور مسلم برادری چینیوں کی طرح اس بات کو سمجھتی کہ اپنی تہذیب (وہ بھی جب کہ حیادار ہو) کی بقاء اور اس کے تحفظ میں ہی قوموں کی زندگی ہے، ورنہ نقالی اور دوسروں کی گرد راہ کی تلاش بے سمتی کا شکار بنا دیتی ہے ۔ دوپہر میں لینزی سے لولان کے لیے بذریعہ بس روانہ ہو، راستہ میں ایک ہوٹل میں ظہرانہ کا انتظام تھا ، بچتے بچائے ہلکا پھلکا کھایا ، لینزی اور لولان کے درمیان سطح سمندر سے تقریبا ساڑھے تیرہ ہزار فٹ کی اونچائی پر ایک منظر دکھلانے کے لیے قافلہ رکا ۔ یہاں مجھے آکسیجن کی بے حد کمی محسوس ہوئی ، حرکت قلب خاصا تیز ہو گئی ۔ میں نے نظاروں میں گم ہونے سے بہتر واپس بس میں بیٹھ جانا مناسب سمجھا۔
لولان کے ایک ہوٹل میں قافلہ فروکش ہوا ۔ باہر سے ہوٹل کی تعمیر اور نقاشی اس طرح کی گئی ہے کہ وہ زمانہ قدیم کا محسوس ہو۔ درودیوار، ٹیرس، لاونج ، چھت ،راہداری ، ہر شئ سے قدیم روایت کو جھلکا نے کی کوشش کی گئی تھی۔
شام کے سات بجے ۲۵ / ممالک کے آئے ہوئے مہمانوں کا استقبالیہ عشائیہ تھا۔کھانے میں تکلف تو کیا گیا تھا ؛ لیکن احقر نے صرف مختصر سلاد اور ایک بریڈ پر گزارا کیا ۔ تبت کے گورنر اور کئی ایک اعلیٰ حکام اس پروگرام میں شریک تھے ۔ اس سارے ہجوم میں جو جماعت سب سے منفرد نظر آرہی تھی وہ افغانوں کی جماعت تھی”دن بدلے، رت بدلے ، سب بدلےلیکن افغان نہ بدلے گا“ کا چلتا پھرتا نمونہ یہاں نظر آیا۔ وزیر خارجہ صاحب روایتی شلوار، قمیص، صدری، ٹوپی ، عمامہ ، چہرہ پر مسنون ڈاڑھی بھاری بھر کم ؛مگر تنومند اور متانت بھرے جثہ کے ساتھ سر برا ہوں کی قطار میں نمایاں دکھائی دے رہے تھے ۔ آکسیجن کی قلت ، حرکت قلب اور پریشر میں اضافہ کی وجہ سے میں نے میزبان سے درخواست کی کہ مجھے رہائش گاہ ( ہوٹل) پہونچا دیں ۔
میرے ساتھ لہاسہ کے نیپالی سفارت کے نمائندہ بھی تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ جانے سے قبل افغانی وزیر خارجہ سے مل لیں، انہوں نے تائید کی ؛چنانچہ وزیر خارجہ کے انگریزی بولنے والے افغانی نمائندہ کے ساتھ ہم دونوں نےملاقات کی ۔ علیک سلیک اورحال احوال کا رسمی تبادلہ ہوا۔ پھر ہم ہوٹل کے لیے روانہ ہو گئے ۔
چلتے چلاتے عرض کردوں کہ اپنی تہذیب، اقدار ، روایات، مسلمات، زبان، ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے ،نہ ہی رزم گاہ حیات میں دوسروں کے نقش پا پہ چلنے کی ضرورت ہے۔ چینیوں نے ہمیشہ اپنی زبان کی حفاظت کی ؛لیکن یہ زبان ان کے لیے سد راہ نہیں بنی ، چینی زبان سے نا آشنا لوگوں کے لیے یہ بڑی مشکل زبان ہے ؛ لیکن چین نے اس کی پروا نہیں کی۔ وہ اپنی ہی زبان میں ترقی کی راہ پر چل پڑے ۔
الحمد للہ میں کسی بھی زبان کا مخالف نہیں ہوں ۔ زبان مختلف رنگ ونسل وخطہ کو جوڑنے اور اظہار خیالات اور رابطہ کا ذریعہ ہے. اللہ نے بھی زبانوں کے تعدد کو اپنی نعمتوں میں شمار کیا ہے؛اس لیے کوئی بھی زبان نعمت خداوندی ہے، مگر یہ کیا ؟ کہ اپنی زبان سے صرف اسی لئےہم راہ فرار اختیار کریں کہ دوسرے ترقی کی دوڑ میں ہم سے آگے بڑھ گئے اور ہم پیچھے پیچھے رہ گئے ہیں ۔ آپ کے سامنے روس کی مثال ہے، انہوں نے بھی چاند تک پہونچنے، ایٹمی ہتھیار بنانے اور ایک زمانے تک دنیا کے بڑے خطہ کا رہنما بننے کی لیاقت کے مظاہرہ میں کسی دوسرے زبان کی مدد نہیں لی۔ شاید یہی حال فرانس کا بھی ہے ۔
میں ایک چھوٹی سی مثال دوں کہ اگر آج اردو یا نیپال میں کینسر کا مکمل شافی علاج دریافت ہو جاتا ہے ، تو ہر سال دنیا بھر کے دو کروڑمتاثرین اس فارمولہ کی طرف پیش قدمی نہیں کریں گے ؟ اور کہیں گے کہ یہ کسی دوسری زبان کا فارمولہ ہے ۔ اصل شئی میرے بھائی فن ہے ، زبان نہیں ہے۔
افغانیوں کو کئی دہائیوں سے دنیا د ہشت گرد کہتی ہے ، ان پر نصف صدی سے دنیا کی مہذب اور ترقی یافتہ اقوام نے جنگ مسلط کر رکھی ہے ۔ اس کے باوجود انہوں نےدنیا کی کسی بھی طاقت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا ۔ نہ ہی اپنے دین ، تہذیب و اقدار ، زبان اور روایات سے کوئی سمجھوتہ کیا ، اگر افغان اپنے موقف کو دائرہ اعتدال میں رکھتے ہیں اور رد عمل کا شکار نہیں ہوتے ہیں تو میں کہہ سکتا ہوں کہ افغان اپنی ہمہ جہت ترقی کی شاہراہ پر ایک درخشاں دور کا آغاز کر سکتا ہے۔

۲۳/۱۰/۵ ء لو لانگ ہوٹل (ایور گرانڈ)

آج شب اندیشہ ہائے دور دراز اور صحت کے مسئلہ کو سلجھاتے ہوئے گذری ، آکسیجن معمول سے گھٹ کر۸۸ سے نیچے آچکا تھا ، پریشر ۱۵۰ سے متجاوز ہو چکا تھا ، حرکت قلب معمول سے بہت زیادہ تھی ؛ اس لیے ایک چینی ڈاکٹر سے معائنہ کے بعد آکسیجن لگانے کا طے کیا گیا ، یہاں گاڑی میں بھی آکسیجن دیکھا ، ہوٹل کے کمرہ میں دیکھا ، معلوم ہوا کہ زائرین کا اس طرح کے حالات سے دوچار ہونا تعجب خیز نہیں ، تاہم ہمارے وفد سے غلطی یہ ہوئی کہ یہاں سفر سے ایک دن قبل High Ati Tuit کی دوا استعمال کرنی پڑتی ہے ۔ یہ بات انہیں معلوم تھی۔ پھر بھی انہوں نے قابل توجہ نہیں سمجھا ۔ ڈاکٹر شاہد صاحب شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے مجھے تشفی بخش گائیڈ کیا ۔
لینزی سے ہمارے قافلہ میں لہا سہ تجارتی سفارت خانہ کا ایک کارکن ساتھ ہو گیا ، ماشاء الله اہل زبان کی طرح چینی بولتے ہیں اور یہاں ساڑھے تین دہائی سے قیام کا ریکارڈ اپنے نام کر رکھا ہے۔ انہوں نے مجھے ایک کیپسول کھانے کے لیے د یا ساتھ میں ایک چھوٹی سی شیشی میں سرخ رنگ کا ایک مشروب پلایا ، اللہ کا شکر ہے کہ صحت کے تعلق سے قدرے اعتماد بحال ہوا۔
پروگرام ایور گرانڈ ہوٹل
۹:۳۰ سے ۱۲:۳۰ بجے

دنیا کا طویل ترین پہاڑی سلسلہ ہمالیائی خطہ کو کہا جاتا ہے، ۲۵ ممالک ہمالیہ کے جنوب ، شمال یا پھر مشرق و مغرب میں واقع ہیں۔ انہی ممالک پر مشتمل ایک فورم ہےجسے علاقائی ، تجارتی، ماحولیاتی، سماجی اور مشترکہ مفادات کے لیے تشکیل دیا گیا ہے، پروگرام کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ تبت کے گورنر ، کمیونسٹ پارٹی تبت کے سکریٹری جنرل اور عالی جناب وزیر خارجہ بنفس نفیس موجود تھے۔ سبھی معززین نے علاقائی تعاون پر زور دیا، نیپالی وفد کی نمائندگی محترمہ ارمیلا اریال نے کی ۔ ظہرانہ کے بعد طے شدہ پروگرام کے تحت بعض مناظر کی زیارت اور تبت کے کچھ گاؤں کے معائنہ اور مشاہدہ کی بات تھی ، لیکن میں نے آکسیجن کی قلت ، دوسرے ان سطور کو تحریر کرنے کے لیے تنہا ہی رہ گیا۔

ہوٹل سنگریلا، لہا سہ۱۰/۷/۲۳ء

گذشتہ کل چوں کے طویل سفر در پیش تھا، لو لانگ سے لہا سہ بذریعہ بس ہمارا قافلہ مختلف حسین، دلآویز، رنگارنگ اور دل فریب نظاروں سے الجھتے ہوئے لہا سہ پہونچا، راستہ میں دو جگہ قضاء حاجت کے لیے ہم رکے اور پانچ گھنٹے یہ مسافت طے کرنے میں لگ لگے ۔
سب سے قبل اپنے ملک کے تجارتی سفارت خانہ میں کونسلر اور سفارتی عملہ نے ہمارا استقبال کیا ، کونسلر صاحب نےہمیں اپنی خدمات، نیپال و چین کے بہتر اور گہرے تعلقات، نیز ترقیاتی کاموں میں چینی شراکت کے بارے میں تفصیل بتائی ، ہم سب کی طرف سے محترمہ اریال نے شکریہ ادا کیا ۔ کو نسلر صاحب نےخالص نیپالی انداز میں ظہرانہ کا نظم فرمایا تھا ؛ حالاں کہ تقریبا تین بج چکے تھے ، اور یہ کھانے کا معاملہ ظہرانہ اور عصرانہ کے درمیان کا بن گیا تھا ، اس کے لئے عرف عام میں شاید کوئی مناسب لفظ نہیں ہے، اس کے باوجود چاول، دال، سبزی، چینی، سلاد، مچھلی سے خاطر خواہ لطف اٹھایا،کھانے کی میز پر مرغ اپنی انواع و اقسام کے ساتھ براجمان تھا، لیکن میں نے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی ۔ کئی دن کے بعد جی کو ایسا لگا کہ آج کھانا کھایا ہے ، مذکورہ الفاظ کے ساتھ ہی میں نے کونسلر کا شکریہ ادا کیا ۔
اس سے قبل ہی میں نے کونسلر صاحب سے درخواست کی تھی کہ جمعہ کے دن لہاسہ پہونچناہے؛اس لیے برائے مہربانی جمعہ کی نماز کی ادائے گی کے لیے میری معاونت فرمائیں ۔ انہوں نے وعدہ کیا اور ایک چینی نژاد مسلم محمد سلمان کی خدمات بھی پیشگی حاصل کر لیں ؛ لیکن ہم پہونچے ہی خاصی تاخیر سے ، پھر میں نے جمعہ نہ سہی کچھ رکعات کی مسجد میں ادائے گی کی سہولت طلب کی ، کونسلر صاحب نے محمد سلمان کو میرے ہمراہ کر دیا ، پر تپاک علیک سلیک کا تبادلہ ہوا ، البتہ یہ جان کر قدرے پژمردگی چھا گئی کہ یہ بھی اسی قبیل سے ہیں ،جن کے بارے میں کسی نے کبھی کہا تھا، زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم –
محمد سلمان کے ہمراہ قریب ہی کی ایک مسجد میں گیا ، وضو خانہ مستقل بنا ہوا تھا،چھوٹی سی قدیم مسجد تھی ، متصل میں ہی شہر خموشاں بھی تھا،جسے بقول مشتاق احمد یوسفی لوگوں نے” مرمر کے آباد کیا تھا“میں نے اتباع سنت میں اس مرحوم آبادی کو سلام کیا اور دعائے مغفرت کی ۔
واپسی کے سفر میں محترمہ پیما میرے ہمرکاب ہو گئیں ، خیر سے وہ انگریزی بول لیتی تھیں۔ انہوں نے مشہور عالم ” پوٹا لادر بار “کے مخالف سمت میں پوٹالا اسکوائر کی زیارت کرائی ۔ ۴/ بجے کے بعد یہ بند ہو جاتا ہے؛لیکن مقامی پولیس سے خصوصی اجازت نامہ لے کر انہوں نے مجھے گاڑی سمیت داخل کرایا ۔ یہ اصلا ایک پارک ہے ۔ اور ایک سمت چینی صدر محترم کی کافی وسیع و عریض تصویر پارک کے حسن کو دوبالا کر رہی تھی ، وہاں سے بدھسٹوں کی تاریخی عبادت گاہ پہونچے ، جہاں میرے رفقاء بھی پہونچ چکے تھے ، آج کل تصویر کشی اس قدر عام ہے کہ اب صف علماء میں بھی اس کی حرمت و حلت کا چرچہ تک بھی نہیں ہوتا ، جناب شیخ سے لے کر رند خرابات تک اس کے اسیر بن چکے ہیں ۔ یہ عاجز بھی اس سیلاب بلا خیز کی نذر ہو گیا، تاہم اپنے رفقاء کے مقابلہ میں %۲۵ ہی فسون رنگ و بو میں مبتلا ہوا ۔
ہماری نائب صدر محترمہ نے کچھ اشیاء ضرورت کی خریداری کا ارادہ کیا، چینی عملہ کے ہمراہ پورا ۱۱/ نفری قافلہ بازار گیا، میں نے جب بعض پسندیدہ کپڑوں ، خاص کر موسم سرما سے مناسبت رکھنے والے کپڑوں کی قیمت معلوم کی اور اسے دل ہی دل میں نیپالی کرنسی میں تبدیل کیا تو ارادہ پر پانی پھر گیا ، سانسد محتر مہ مدن کماری عرف گوما نے اپنے دو بھائی کے لیے دو جیکٹ خریدی، اس پر گاڑی میں واپس آنے کے بعد سانسد رمیش جنگ رائے ماجھی نے یہ ظریفانہ تبصرہ کیا کہ ” آج گوماجی نے سب کی عزت رکھ لی“ورنہ نیپالی وفد کے بارے میں بڑی سبکی آمیز بات پس پشت ہو سکتی تھی کہ آئے تھےتو نوابوں کی طرح اور گئے تو ایک تنکہ بھی خرید کر نہیں لے گئے ۔
شب کے کھانے کے بعد ایک ڈرامہ دکھانے کی تیاری حکومت نے کر رکھی تھی ؛ گرچہ میری طبیعت اچھی نہیں تھی، اور سطح سمندر سے ۱۱ ہزار فٹ کی بلندی پر ہونے کی وجہ سے بار بار حرکت قلب اور پریشر میں اضافہ ہو رہا تھا ۔ آکسیجن کی قلت مزید جسم کو زیر و زبر کر رہی تھی۔ اس کے باوجو میں نے ساتھیوں کے ہمراہ ڈرامہ دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ قیام گاہ سے تقریباً ر ۳۰ / منٹ کے فاصلہ پر وہ جگہ تھی ، ہمارے لیے نشستوں کا بالکنی میں خاص انتظام تھا،کھلا آسمان تھا ، سردی شباب پر تھی ، یخ ہوا نے فضا کو مزید بر فیلا بنا دیا تھا۔موسم کی مناسبت سے دبیز جیکٹ رکھا ہوا تھا، مخصوص چینی پتی کے ساتھ گرم پانی اور مختصر پھلوں کا پیالہ پہلو میں رکھا ہوا تھا ۔ پہلے تو ہم سب نے یہ سمجھا کہ شاید پر دہ سیمی پہ کچھ دکھایا جائے ؛ لیکن کھلے آسمان کے نیچے اکیسویں صدی کی شاندار ٹکنالوجی کا مظاہرہ کیا گیا تھا ۔ کسی منظر میں پورے شاہی دربار کا نظارہ ، سامنے کے میدان میں شاہ زادی کی سہیلیوں کے ساتھ اٹھکھیلیاں ، درباری جاہ و حشم، نیزه بردارفوجی ، مختلف مناظر کی حقیقی سی عکاسی ، کبھی میدان خوشی کے گیت گاتی لڑکیوں کا مسکن، تو کبھی جھیل میں متغیر، کبھی پہاڑ آتا ہوا، تو کبھی جاتا ہوا،کبھی گھوڑ سواروں کی صبا رفتار دوڑ، تو کبھی مزدوروں کے بگھی کھینچنے کی تصویر کشی ، کبھی جدائی ، کبھی ملن ، کبھی حسرت ویاس کی صدائیں ، تو کبھی خوشی و مسرت کے شادیانے ۔ یہ حقیقۃ چین اور تبت کے شہزادہ اور شہزادی کی محبت کا علامتی ڈرامہ تھا ۔ اس ڈرامہ میں کہانی کا مکمل پلاٹ میرے ذہن میں نہیں آسکا؛ لیکن لہا سہ شہر کے جوان لڑکوں اور لڑکیوں کی فن کاری، برجستگی ،متناسب اداکاری ، ناقابل فہم مگر متاثر کن گیت نے ناظرین کو الف لیلوی دور میں پہونچا دیا ، بالخصوص میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اداکاری کے اس ماحول میں انہوں نے کہیں بھی مغرب کی تقلید نہیں کی ، مکمل لباس میں تھیں ، ناظرین یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہے ہوں گے کہ یہاں جسم کی نمائش نہیں ہو رہی ، نہ ہی پردہ حیا کو چاک کیا جا رہا ہے ؛انہوں نے ثابت کیا کہ شرم وحیا اور پاکیزگی کی دولت کو ابلیسی دروازہ پر قربان کئے بغیر بھی بہتر ادارکاری اور مسحور کن نمائش ہو سکتی ہے۔
اس ڈرامہ میں بلا مبالغہ سینکڑوں افراد نے حصہ لیا، اور set تیار کرنے میں شاید کڑور ہا کڑور روپیہ کا صرفہ آیا ہوگا ۔ پیام محبت اور دنیا کو بقائے باہم کی تبلیغ کے لیے آپ اسے بہتر کوشش اور اس خطہ کی سماجی اور رومانوی زندگی کا عکاس کہہ سکتے ہیں ۔

سنگریلا ہوٹل ۲۳/۱۰/۸

۷/تاریخ کو شب گزاری کے بعد صبح سبھوں کو مان سرور اور کیلاش کی طرف جانا تھا، سوچا تھا کہ سوئے حرم تو کئی بار جانا ہوا،لگتا ہے اس بار کوئے دیر بھی جانا پڑے گا؛ لیکن لو لانگ سے خرابی صحت کی گردش سے میں خود کو نکال نہیں پایا ،لہا سہ تقریبا ساڑھے گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر ہے ، ہمارا اگلا ٹھکانہ اس سے بھی بلند مقام پر واقع تھا ، حفظ ما تقدم کے طور پر میں نے مناسب سمجھا کہ لہاسہ کے ہوٹل میں ہی دو دن مزید قیام کروں ؛ چناں چہ منتظم نے ایسا ہی کیا اس سے پہلے کی رہائش جن جن ہوٹلوں میں ہوتی تھی وہ سبھی 5 اسٹار تھے ، موجودہ ہوٹل سنگریلا بھی 5 اسٹار ہے ، اس بار کی خصوصی رعایت یہ ہے کہ رہائش کے لیے صرف لگزری کمرہ ہی نہیں دیا گیا ؛بلکہ ساتھ میں نشست گاہ بھی ، یعنی یہ مکمل SUIT تھا ، میرے لیے وزارت خارجہ کا ایک اہلکار بھی موجود تھا، اور صحت کا حال احوال دریافت کرنے کے لیے ایک ڈاکٹر بھی !
ڈاکٹر میری زبان نہیں جانتا تھا اور میں ڈاکٹر کی ، درمیان میں مسٹر پا کن )وزارت خارجہ کا اہل کار (” اپنی چینی انگریزی ” میں پل کا کام کرتے تھے ۔ اور میں ” نیپالی انگریزی” میں ؛ اگر آپ دوسروں کی زبان نہ جانتے ہوں، یا دوسرے آپ کی زبان نہ جانتے ہوں، تو کوئی مسئلہ نہیں، صرف زبان ہی مدعا بیان نہیں کرتی ، مختلف اعضاء وجوارح حال دل بیان کر دیتے ہیں ۔ اشارہ کو سیا نے بین الاقوامی زبان کہتے ہیں ۔ میں اضافہ کرنا چاہوں گا کہ جسم کے انداز، اتار چڑھاؤ ، کی بھی ایک زبان ہوتی ہے۔ انگریز شایدا سے ہی باڈی لنگویج ( BodyLanguage) کہتے ہیں ۔ ہم کیا کہتے ہیں ! ہمیں اس سے مطلب نہیں ہوتا ، ہمارا مطمح نظر تو صرف اپنے خیالات دوسروں تک پہونچا دینا ہوتا ہے ؛ بسا اوقات شدید غصہ اور آپے سے باہر ہونے کی صورت میں اکثر گاؤں دیہاتوں میں دیکھا گیا ہے کہ ہاتھوں کا رمز لغت میں ناقابل تحریر باتوں کو بھی بیان کر دیتا ہے۔
کسی زمانے میں تو سنا ہے شاعر حضرات نظروں ہی سے گھائل ہو جایا کرتے تھے ، ان کے اشعار بتاتے ہیں کہ خدا خیر کرے کبھی کبھی وہ فوت بھی ہو جاتے تھے ، محبوبہ دل نواز نے زبان سے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا اور انہیں پتہ چل جاتا تھا کہ محترمہ نےمسلک شیر یں یا لیلی کو کلیجہ سے لگا لیا ہے۔
کون کہتا ہے محبت کی زبان ہوتی ہے یہ حقیقت تو نگاہوں سے بیاں ہوتی ہے۔
غالب صاحب تو اس مسئلہ میں اتنے حساس واقع ہوئے تھے کہ وہ اشارہ کنایہ تو دور کی بات ہے ، محترمہ کی ادھ کھلی آنکھوں سے مرحوم ہونے کے قریب قریب پہونچ جاتے تھے، اور مرغ بسمل کی طرح تڑپ اٹھتے تھے ۔
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کی یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ شاعر حضرات بھی عجیب مخلوق ہیں ،اپنی پوری زندگی تصور جاناں، خیال محبوب اور فکر عارض و گیسو میں صرف کر دیتے ہیں ۔ شعر و سخن کی فنی اصطلاح میں ’’ غزل ‘‘ کو "غزل ” اس وقت تک نہیں کہہ سکتے جب تک کہ کسی نامحرم کے لب ور خسار، پیچیده و در از زلفوں، عارض گلگوں، چشم و ابرو ، صراحی دار گردن ، قاتل شباب کی بھر پور تشریح و توضیح نہ فرما دیں ، خواہ اس حرکت ناشائستہ پر جناب کی گل پوشی کے بجائے تاج پوشی کیوں نہ ہو جائے، میں نے کسی نامور اور مستند شاعر کو اپنی زوجہ محترمہ پر دیوان مرتب کرتے ہوئے نہیں دیکھا ، حافظ جیسے بلند پایہ مستند ، ثقہ اور مشہور زمانہ شاعر کو اپنے محبوب کے ایک تل پر بخارا اور سمر قند بخشتے ہوئے دیکھا ہے ۔
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل ما را بخال هندوش بخشم سمرقند و بخارا را
معاف کیجئے گا قلم کا رخ کہاں سے کہاں چلا گیا ، تقریبا بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر ، تنہائی میں ایک غریب الوطن خواہ مخواہ کی بکواس نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا ؟
Mu5826 (دوران پرواز) از لہا سہ تا چندو (۲۳/۱۰/۸)

آکسیجن کیا ہے ؟ کتنی بڑی نعمت ہے ؟
آکسیجن کی حقیقت و ماہیت کی صحیح تشریح تو ایک ماہر فن ہی بہتر طور پر کر سکتا ہے۔ اتنا جاننا کافی ہے کہ صرف انسان ہی نہیں؛ بلکہ تمام جان دار کی زندگی اسی آکسیجین پر موقوف ہے۔ انسانی خون میں ۹۵سے لے کر۱۰۰تک ہوتا ہے ، اگر ۹۲ سے نیچے آجائے تو اسے صحت کے لیے پریشان کن سمجھا جاتا ہے۔
پہلے مریضوں کو اسپتال میں دیکھا کرتا تھاکہ انہیں آکسیجن دیا جا رہا ہے ، کرونا میں آکسیجن کی قلت کا شکار ہو کر بہت سارے لوگوں کو فوت ہوتے دیکھا ہے۔ لولانگ اور لہاسہ میں میری جو کیفیت ہوئی جوتا ہنوز جاری ہے ۔ اس سے میں ذہنی اور دماغی طور پر کافی پریشان ہوا۔ ساتھ ہی اللہ کے کلام : وان تعدو نعمة الله لا تحصوها کی عملی تفسیر جانا۔ اللہ تعالٰی اپنے بے پایاں فضل و کرم اور شان ربوبیت کے پیش نظر ہمیں کن کن نعمتوں سے نوازتا ہے ، ہمیں پتہ تب چلتا ہے جب وہ نعمت چھن جاتی ہے ۔ آکسیجن کو دنیا معمولی شئی سمجھتی ہے یہ انسانی جسم میں اگر موجود نہ ہو تو انسانی جان ختم ہو جاتی ہے ۔ اور جیتا جاگتا ، ہنستا ،مسکراتا انسان تن مردہ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
کیا ہمیں معلوم ہے کہ انسانی جسم کی مادی ضروریات کیا کیا ہیں ؟ آکسیجن اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے ۔ اللہ تعالٰی نے جسم و جان اور صحت و تندرستی کا جومیکنزم بنایا ہے ۔ وہ بے انتہا حیرت انگیز ہے۔ انسان خود اپنے بارے میں وہ سب نہیں جانتا ۔
جو اسے جاننا چاہیئے تھا۔ فبأی حدیث بعدہ یؤمنون۔

ہوٹل جوائے ہب چندو

جہاز میں بیٹھتے ہی سینے کی گرانی تقریبا ختم ہو گئی ، ہوٹل پہونچتے پہونچتے بدن کافی ہلکا پھلکا محسوس ہوا، دوسرے ساتھی بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہے تھے ۔ میں نے زبان حال سے اور زبان قال سے بھی رب کریم کا شکر ادا کیا، بلا شبہ یہ انسان کیا شئے ہے۔ پوری کی پوری کائنات اللہ کے اشارہ "کن” کی محتاج ہے ۔ بھلا یہ ابن آدم کیا بساط رکھتا ہے؟ کاش کہ ہم اپنے محسن اور ساری انسانیت کے محسن خاتم النبين جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ، ہدایات اور پیاری سنت کو حرز جاں بناتے ۔ عشائیہ کے بعد کمرے میں آگیا ، پہلی شب اسی ہوٹل میں گزری تھی اور چین کی آخری شب بھی اسی ہوٹل میں گزری، تاہم تھوڑا فرق رہا، پہلے وسیع و عریض کمرہ دیا گیا تھا۔آج کمرہ کے ساتھ نشست گاہ بھی ہے یعنی Suit فراہم کیا گیا ۔
کھاناوہی روز مرہ کا تھا، یعنی چینی ذوق کے مطابق! بر صغیر کے لوگوں کو اس طرح کے کھانوں میں ذائقہ محسوس نہیں ہوتا ، بندہ اگر مسلم ہو تو اس کے لیے اور بھی دشواری ہے۔ کیا کھائے ؟ اس ایک ہفتہ میں گرچہ 5 اسٹار کا اہتمام تھا ؛ لیکن اپنے گھر اور احباب کی روکھی سوکھی یاد آ رہی تھی ۔ اپنے تجارتی سفارت خانہ (لہا سہ) کے علاوہ تقریبا سبھی کھانا ذوق اور طبیعت پر گراں گزرا، ٹیم کے احباب میرے اوپر ترس بھی کھاتے تھے کہ بے چارے کا وقت کیسے گزرے گا ؟ لیکن بندہ اللہ سے اپنی مرضیات کی دعائیں کرتا ہے اور آرزو رکھتا ہے تو بلا شبہ اللہ تعالٰی نعم البدل عطا فرماتا ہے ۔ یا پھر صبر و سکون کی بیش بہا دولت سے نواز دیتا ہے۔

سی چون ائر لائن 3u3901 ۲۳/۱۰/۹

جس سی چون ائر لائنس سے کا ٹھمنڈو سے آئے تھے اسی سے واپسی بھی ہو رہی ہے ۔تقریبا پون گھنٹہ تک موسم خراب رہا، پرواز ناہموار رہی ، پھر معمول پر آنے کے بعد حسب دستور ضیافت کا سامان لے کر ائر ہوسٹس آگئی ؛ چو نکہ میں نے ناشتہ بہت ہلکا پھلکا کھایا تھا؛ اس لیے جی بھر کھا یا، ٹکٹ لیتے وقت ہماری انتظامیہ نے ائر لائنس کو بتا دیا تھا کہ خالد گوشت کی اقسام سے اعراض کرے گا- کاش کہ ایک ہفتہ کے سفر میں اس بات کا اہتمام کیا جاتا تو میرے ذوق اور طبیعت پر اس قدر گراں نہیں گزرتا ۔ دو تین دن تو طبیعت متلون رہی ، جسم اور دل و دماغ پر ایسا منفی اثر پڑا کہ ایک دن کھانے کے تعلق سے انتہائی نامعقول و نامناسب خواب بھی دیکھا ، بند آنکھوں کا نظارہ اس مادی جسم کو براہ راست کسی قدر متاثر کرتا ہے، پہلے بھی اس کا تجربہ ہوا۔ اس بار نا خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ انسانی زندگی میں خواب کا کیا درجہ ہے ؟ اس کے اثرات کیسے مرتب ہوتے ہیں ؟ یہ ایک مستقل باب ہے ۔ کتاب وسنت نے بھی خواب کو اپنی تمام اقسام کے ساتھ ثابت کیا ہے ۔ البتہ اس کی تعبیر کے سلسلہ میں انتہا درجہ حزم و احتیاط کی ضرورت ہے . اللہ ہم سب کی برے خواب اور اس کے اثرات بد سے حفاظت فرمائے۔
آج کے سفر میں میرے پہلو میں ایم پی اور میرے ہم منصب جناب گوپی جی ہیں۔ موصوف انتہائی شریف، سادہ مزاج، خلیق اور متواضع انسان ہیں۔ بکرم سمبت ۶۴ میں ایوان نمائندگان کے لیے انتخابی میدان میں کو دے تھے ۔ کامیاب بھی ہوئے تھے، ۔ اور چھ ماہ کے لیے وزیر برائے کھیل کو د بنے تھے ۔ کل شب میں نے تنہائی میں ان سے ملک کے حالات کا بالخصوص معاشی درماندگی ، عوامی بیداری کی کمی ، رجعت پسندوں اور تبدیلی مخالف طاقتوں کی سرگرمی پر بات چیت کی ،ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہمیں ملک اور عوام کے لیے کچھ کرنا چاہیئے ۔ ہم اس ملک میں پیدا ہوئے ،پلے بڑھے ، نشو و نما پائی، ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوئے ؛ اس لیے ملک کو صحیح سمت لے جانے اور اس کی فلاح و بہبود کے لیے مشترکہ کاوش بہت ضروری ہے ۔ ہم بہت کچھ تو نہیں کر سکتے لیکن ہاتھ پاؤں ،دل و دماغ کی جنبش اور مضبوط ارادہ و حسن نیت کے ساتھ قدم بڑھانا بہر حال ہماری بھی ذمہ داری ہے ۔ چین ایک بڑا ملک ہے، آبادی بھی بہت زیادہ ہے، تقریبا ڈ یڑھ ارب !ہمارا ملک جغرافیائی لحاظ سے چھوٹا ہے اور آبادی کے لحاظ سے بھی ! دو کڑور نوے لاکھ کی آبادی کوئی بہت بڑی آبادی نہیں ہے ۔ اتنی آبادی تو دنیا کے کئی ایک شہروں کی ہے۔ آج چین سائنس و ٹکنالوجی ، صحت، تعلیم، زراعت ،سیاحت ہر میدان میں ایک مثالی ملک بنتا جا رہا ہے ۔ ہم اس کے پڑوس میں ہونے کے با وجود بھی مثبت اثرات قبول نہیں کرتے ، ہمارا منصوبہ سازی کرنے والا طبقہ اور ہمارے سیاسی حکمران اپنا سارا زور جوڑ توڑ پر صرف کر دیتے ہیں ۔ عوام میں بھی بیداری کی خاصی کمی پائی جاتی ہے ۔ میری نظر میں اگر نیپال کو اپنے پڑوسی جیسا بنناہے تو سب سے پہلے اپنے ملک کے تئیں مخلص اور صحیح معنوں میں وفادار بننا پڑے گا ۔ ملک کو صنعت و حرفت، بہتر زراعت، آب پاشی ،سیاحت کے میدان میں انقلالی اقدام کرنے ہوں گے ؛ کیوں کہ جب تک ہم صرف خریدار بنے رہیں گے ۔ بہتر پیداوار فراہم کرنے والے نہیں بنیں گے، بیرونی سرمایہ آپ کے ملک میں نہیں آئے گا،آپ ملک کی تعمیر وترقی، تعلیم و صحت اور روزگار کے مسئلہ کو حل نہیں کر سکتے، اللہ جانے ہم کب اپنے ملک کو جنت نظیر بنا سکیں گے ؟
دنیا میں اپنے عوام اور ملک کو ترقی دینے والے یہی دو ہاتھ دو پاؤں کے انسان رہے ہیں ، بحیثیت مجموعی اللہ تعالٰی نے کرہ ارض کے ہر خطہ میں بسنے والے انسانوں کو ضرورت کے مطابق صلاحیت بخش رکھی ہے۔ کسی میں کم کسی میں زیادہ ، صلاحیتوں میں کمی یا زیادتی کی وجہ سے قومیں ترقی نہیں کرتیں ، نہ ہی انحطاط و زوال کا شکار ہوتی ہیں ؛ بلکہ اصل معاملہ صلاحیتوں کے استعمال، اس کی قدردانی اور وقت وصلاحیت کے درمیان توازن کا ہے ۔ نیز اس بات کا بھی کہ کس صلاحیت و لیاقت کا استعمال کہاں کیا جائے، اگر عالم دین سڑک اور پل بنانے لگیں، انجینئر کی صلاحیت فتوی نویسی میں صرف ہو، ڈاکٹر زراعت کریں اور کسان آپریشن ! تو اس ملک کا اور عوام کا حال کیا ہوگا ؛ اگر ہم اپنے ملک کا محاسبہ کریں تو یہ پتہ چلے گا کہ ملک کی بہت بڑی آبادی ایسی ہے جو نکمی اور بے روزگار ہے ۔ بہت سارے لوگ تو ایسے ہیں کہ اگر ان کا کوئی جواں سال لڑکا صاحب روزگار ہو جائے تو پھر مفت خوری کو اپنا حق اور فرض تصور کرتے ہیں ۔
( ۲۳/۱۰/۱۰ باغ بازار کا ٹھمنڈو)

الحمدللہ ! آج کی شب گہری نیند سویا، شامی (مولانا خیام خالد قاسمی) نے پاؤں دبانا شروع کیا اور کس وقت آنکھوں نے پلکیں گرائیں ، پتہ ہی نہیں چلا۔ صبح بر وقت اٹھنے اور لوازمات نیز واکنگ سے فارغ ہونے کے بعد چند سطریں لکھنے بیٹھ گیا۔
عوامی جمہوریہ چین ہمارے ملک کے شمال میں واقع ہے ، جغرافیائی لحاظ سے کافی بڑا ملک ہے ، مذہبی لحاظ سے ملک لادین یا سیکولر ہے ، پہلے یہاں بادشاہت قائم تھی ، موجودہ چین کی موجودہ حالت میں تاسیس ۱/اکتوبر ۱۹۴۹ ء میں ہوئی۔ اس کی ثقافت کا فی قدیم ہے ۔ چار انسانی قدیم تہذیب میں ایک چین بھی ہے ، جس کی قدامت چھ ہزار سال بتائی جاتی ہے ، خود لہاسہ شہر کے قیام کی مدت ایک ہزار سال ہے، جب کہ چیندو تین ہزار دو سو سال پرانا شہر ہے ۔ تقریبا ڈیڑھ ارب کی اس کثیر آبادی والے ملک میں مختلف افکار و مذاہب : مثلاً: کنفیوشش ازم ، تاؤ ازم ، اپنے اجداد کی پرستش، بدھ ، اسلام ، مسیحیت وغیرہ پائے جاتے ہیں ۔ حکومت کی نگرانی میں کوئی بھی مذہب یا فکری جماعت حرکت و عمل کی مجاز ہے ۔ ملکی زبان چینی ہے ۔ تاہم قدرے مختلف یا بالکل مختلف ۵۶/زبانیں بولی جاتی ہیں ، ملک کو کئی با اختیار صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ایک صوبہ میں تو مسلمانوں کی بھی اچھی خاصی آبادی ہے ۔چینی کرنسی پر فارسی رسم الخط میں وہاں کےمقامی مسلمانوں کی لسانی شناخت کو جھلکانے کی کوشش کی گئی ہے۔ غذائی پیداوار میں چاول کو اولیت حاصل ہے اور چینی اسی کا استعمال بھی زیادہ کرتے ہیں ۔ ضروریات زندگی کی مختلف انواع و اقسام کی پیداوار میں چین اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔ بھلے ہی اسلحہ میں امریکہ ، الیکٹرونک اشیاء میں جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک بعض چیزوں میں صف اول میں ہوں ، لیکن روزمرہ کی عام ضروریات اور تعیشات کے سامان کے سلسلہ میں وہ بھی سستے نرخ پر ، چین نے دنیا کے بازار کے بڑے حصہ پر اپنا وجود تسلیم کرا لیا ہے ۔ خود ہمارے ملک سے تاجرین کی آمدورفت اور تجارت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔
صنعت و حرفت، تجارت، زراعت ، سیاحت، ترقیاتی منصوبوں میں دنیا میں خاص مقام حاصل کرنے کی کئی ایک وجوہ ہو سکتی ہیں ۔ میری نظر میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پوری قوم منضبط ، منظم اور منصوبہ بند زندگی گزارتی ہے۔ ہر فرد اپنی ذمہ داری کو اپنے وقت میں امانت و دیانت کے ساتھ ادا کرتا ہے ۔ مفت خوری اور دوسروں کی کمائی پرجسم پروری کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔
بلا شبہ میرے اور آپ کے نقطہ نظر کے مطابق بہت سی چیزیں قابل اعتراض ہو سکتی ہیں؛لیکن بحیثیت مجموعی تعمیر و ترقی کے معاملہ میں چین کو آپ ایک کامیاب ملک کہنے پر مجبور ہوں گے ۔

Comments are closed.