آہ بابری مسجد! تجھے بچا نہ سکے
از قلم: مجیب الرحمٰن سلطانی ثقافی، گڑھوا جھارکھنڈ
المتعلم مرکز الثقافة السنیة الاسلامیة کیرلا فی الھند
بابری مسجد :تاریخی حقائق کی روشنی میں
1528 ء میں مغلیہ سلطنت کے بانی و بادشاہ بابر کہ کہنے پہ سپہ سالار میر باقر نے ایودھیا میں جو کہ فیض آباد سے متصل علاقہ ہے وہیں پہ ایک مسجد کی بنیاد رکھی اور بابر سے منسوب کرتے ہوئے اس کا نام بابری مسجد رکھا گیا اور ہندوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان کو فتح کرنے کہ بعد جہاں رام کی پیدائش ہوئی تھی اور مورتیاں رکھی ہوئی تھیں ان کو منہدم کرکے اسی جگہ پر بابری مسجد کی سنگ بنیاد رکھی گئی ہے جو کہ عدالت عظمیٰ 9 نومبر 2019ء کی بینچ نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا۔
خیال رہے کہ بادشاہ اکبر کے زمانے میں ہی انگریزوں کا ہندوستان آنا شروع ہوگیا تھا کچھ دن سکون کے ساتھ رہے پھر حکومت کرنے کا سوچا تو آہستہ آہستہ مغلیہ سلطنت کو منہدم کرنے میں لگ گئے یہاں تک کہ اپنے منصوبہ میں کامیاب ہوگئے بعدہ انہوں نے ہندوستان پہ قبضہ کرلیا اور بہت ظلم و ستم کرنے لگے خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔
پھر ہندوستانیوں نے انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنا چاہا تو انگریزوں اور ہندوستانیوں کے بیچ اولا جو جنگ ہوئی وہ جنگ 1857ء کی جنگ تھی جسے انگریز آج بھی غدر کے نام سے یاد کرتے ہیں اور یہی وہ جنگ ہے جو پہلی مرتبہ انگریزوں کے خلاف لڑی گئی تھی اگرچہ اس جنگ میں ہندوستانیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہی وہ جنگ ہے جس کی بدولت ہندوستان میں آزادی کی تحریک چلی اور کیا یہ نہ بتاؤں وہ مسلمان ہی تھے جن کی قیادت میں یہ جنگ لڑی گئی تھی جسے زمانہ بہادر شاہ ظفر کے نام سے جانتا ہےاور دھیان رہے کہ اس سے قبل وہاں بابری مسجد کے تعلق سے جھگڑا تھا ہی نہیں۔
خیر جنگ کے بعد انہوں نے سوچا کہ ان پہ حکومت کرنی ہے تو ان کے درمیان پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو یہی کام ان درندوں نے کیا، ہندوتوا کے کچھ خاص لوگوں کے مابین گئے اور ان سے کہاکہ رام کی پیدائش مسجد کے اندرونی حصہ میں ہوئی ہے یعنی "جو جگہ چبوترہ ہے وہی رام کا جنم استھل ہے” یہ کہنا ایسا ہی تھا جیسے کہ ہواؤں میں زہر گھول دیا ہو، جس کا اثر یہ ہوا کہ اگلے دن ہندوتوا کے لوگوں نے مسلمانوں سے بحث شروع کر ڈالی اور کہنے لگے کہ یہاں بھگوان رام کی پیدائش ہوئ ہے تو ہمیں یہ زمین لوٹا دو پھر معاملہ بڑھتا ہی گیا یہاں تک کہ دونوں فریقین کے درمیان مذہبی شکل اختیار کر گیا، 1858ء میں جھگڑے کو دیکھتے ہوئے برطانوی حکومت نے مداخلت کرتے ہوئے مسجد کا اندرونی حصہ مسلمانوں کےلیے اور بابری مسجد سے تھوڑی دور باہر کا حصہ ہندوؤں کے لیے مختص کیا۔
ہندوتوا پوجاپاٹ مسجد کے بیرونی حصہ میں کرتے تھے رام چبوترے پر وہی پہ ایک سائبان بنانے کے لیے مہنت رگھویر داس نے فیض آباد کورٹ میں عرضی داخل کی لیکن جج نے عرضی کو خارج کر دیا۔
قارئین سے معذرت چاہتا ہوں تفصیلا لکھنے کی بھرپور گنجائش نہیں اس لیے اب اصل تنازع کی طرف بڑھنا چاہتا ہوں جو کہ آزادی بعد سے شروع ہوئی ہے۔
خانہ خدا کو بت خانہ میں تبدیل کرنے کی شرمناک سازش……..
1948 / 49 ء میں وطن عزیز ایسے ہی ہندو مسلم کے آگ میں جل رہا تھا اور چہار جانب افراتفری کا ماحول تھا تو اسی وقت ہندوتوا کے آتنکیوں نے 22 / 23 دسمبر کی رات کو ہنومان گڑھی کے مہنت ابھے رام داس اور اس کے کچھ چیلے چیندی لوگ مسجد میں گھس کر محراب کے نزدیک ایک مورتی رکھ دی،ابھے رام داس کے خلاف صبح تھانہ جاکر ڈیوٹی پہ مقرر کانسٹبل ماتھو پرشاد نے FIR لکھوایا جس کا مضمون کچھ یوں تھا ۔۔
ابھے رام داس شدرشن داس اور کچھ نامعلوم افراد نے مسجد میں گھس کر مورتی رکھ کر مسجد کو ناپاک کردیا ہے۔
جس کی بنیاد پہ علاقے میں شدید خطرہ لاحق ہونے کی گنجائش ہے مہربانی کرکے معاملہ کو سلجھایا جائے اس رپورٹ کی وجہ سے فیض آباد کے مجسٹریٹ نے دھارا 145 کے تحت مسجد کو تالا لگادیا اور متصل علاقے کو سیز کردیا اور پریہ دت رام چیرمین کو اس جگہ کی حفاظت کے لیے متعین کیا اور مجسٹریٹ نے فریقین سے اپنے دعویٰ کے لیے ثبوت مانگا ایسا لگتا ہے کہ یہ بہت بڑی شازش کے تحت ہوئ ہے ورنہ جہاں مسلمان چار سو سال سے نماز باجماعت جمعہ کے ساتھ ادا کرتے تھے ان سے ثبوت مانگنا کیا معنی رکھتا ہے آسان طریقہ تھا مورتی ہٹاکر مسجد مسلمانوں کے حوالے کردیتے بات ختم ہوجاتی، اس سے اور آگے کی داستان سنیں ابوالکلام آزاد اور بھی مسلم لیڈران لوگوں نے جواہر لال نہرو کو باخبر کیا لیکن وہ بھی تماشائی بنے رہے صرف ایک خط لکھا یوپی کے وزیر اعلی کو کے اس معاملہ کو جلد ختم کریں لیکن اس وقت کوئی خاص کاروائی نہیں کی گئی یوں کہہ لیاجائے آزادی کے بعد مسلمانوں کی قربانیوں کا تحفہ عبادت خانہ کو تالا لگا کر کے صبر کا حکم دیا گیا۔
اسی وقت ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ میرے ذہن میں یہ سوال کھٹکتا ہے کہ آنے والے لمحات میں مسلمانوں کو ایک ملت کی حیثیت سے قبول کیا جائےگا یا نہیں ان کا شک صحیح نکلا ہر جگہ ہم پہ ہی ظلم ہورہا ہے پھر 1986ء میں رمیش پانڈے نے ہائ کورٹ میں عرضی ڈالی کہ ہمیں رام کے جنم استھل پہ پوجاپاٹ کرنے کی اجازت دی جائے تو 1 فروری 1986 کو ہائی کورٹ نے پونے بارہ بجے یک طرفہ فیصلہ سنادیا کہ پوجاپاٹ کی اجازت دی جائے اور جو خلل ڈالے اس پہ کاروائی کریں فیصلہ کے مطابق تالا کھولا گیا جو کہ 38 سال پہلے بند کیا گیا تھا ہندوؤں کا ازدحام تھا گندی گندی گالیاں دیتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے مسلمانوں نے احتجاج کیا تو رائفل کے ذریعہ ہمیشہ کے لیے سلادیا گیا ایک رپورٹ کے مطابق 3000 مسلمانوں کی جانیں گئی گھروں کو جلایا گیا صرف ایودھیا میں ہی دنگے اور نقصانات نہیں ہوئے بلکہ کرناٹک ممبئی بنگلور بہار دہلی گجرات ہر جگہ فسادات ہوئے اور نقصان صرف مسلمانو ں کا ہوا، مسجد میں پوجاپاٹ تو کیا ہی اب منہدم کرکے اس جگہ مندر بنانے کا ارادا کر لیا حکومت کی جاہلانا حرکتوں کی وجہ سے حوصلے ان کے بڑھتے گئے یہاں تک کہ وشوہندو پریشد کے سربراہ نے زہریلا اعلان کیا کہ ہم مندر کا سیلانیاش کرنے جارہے ہیں کسی پارٹی میں دم ہے تو روک کر دکھائے اور اعلان کرایا کہ ہر گاوں سے پتھر لے کے آئیں تاکہ سیلانیاش میں لگایا جا سکے یہ وقت تھا 9 نومبر 1989 کا جب اتنا حوصلہ دیکھا تو سبھی پارٹیاں متحد ہوگئی وشوا ہندو پریشد بجرنگ دل آر ایس ایس تو ادھر وزیر اعلی کلیان سنگھ وزیروں کے ساتھ جاکر اولا یہ کام کیا کہ مندروں کے قریب کھڑے ہوکر یہ قسم کھایا کہ ہم یہاں رام مندر بنائنگے بابری مسجد سے متعلق جتنے بھی معاملات تھے سبھوں کو اپنے طور پہ سنبھالنے کا ذمہ لیا، اور وشو ہندو پریشد کے حوالے کردیا جس پر مستکحم بنیادوں کے ساتھ چبوترا زورو شور طور پہ جاری ہوگیا جب کہ عدالت نے کہا تھا کہ متنازعہ جگہ پہ کچھ نہیں کیا جائےگا عدالت کی باتیں نہ مانتے ہوئے کام کرتے رہے اور مسلم لیڈران اس غیر قانونی اقدام پہ سرکار سے احتجاج کرتے رہے لیکن اس وقت سرکار بھی متحرک نہیں ہوئ یہاں تک کہ انہوں نے منصوبہ مکمل کر لیا۔
کلیان سنگھ نے عدالت اور مرکزی کو اطمینان دلادیاتھا کہ وہاں کوئ فساد نہیں ہوگا عدالت نے جو کہا ہے اس پہ عمل پیرا رہینگے ادھر وزیر داخلہ مسلمانوں کو اطمینان دلا رہے تھے کہ مسجد کو کچھ نہیں ہوگا پورا منصوبہ بنالیا گیا ہے بابری کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے حکومت کی جانب سے کافی پولیس کو بھی بھیج دیا گیا لیکن انہیں کسی مصلحت کی بنیاد پہ دو کلو میٹر دور ہی رکھا گیا تھا وزیر اعظم کی خاص ہدایت تھی کہ رام بھکتوں پہ نہیں گولی چلانا ہے ،بہرحال ظاہری طور پہ اتنے کڑے اقتدامات کے سائے تلے 6 دسمبر کی دلخراش وقت آہی گئی۔
ادھر بھاجپا کے سابق صدر ایڈوانی سنگھل و اوما بھارتی دولاکھ کارسیوکوں کو لیکر آیودھیا پہلے ہی پہونچ گیے تھے ہندوتوا آتنکیوں نے اچانک گیارہ بج کر پچپن مینٹ پہ بابری مسجد پہ دھاوا بول دیا بغیر کسی ڈر کے چار بجے تک شہید کرتے رہے اور شہید کی ہوئ پتھروں کو پھینکتے رہے یہاں تک کہ صفحہ ارض سے بابری مسجد نام و نشان مٹ گیا۔
ایسا نہیں تھا کہ حکومت بے خبر تھی ہر خبر پہونچتی تھی لیکن پھر بھی مسجد کو محفوظ نہیں کر سکی۔
وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کی قسم والی منشا بھی پورا ہوگیا تھا تو پھر عہدے سے استفا دے دیا اور براءت ظاہر کرلیا۔
اس خبر کو سن کر مسلمانوں کی نیندیں اڑ گئیں عجیب سا جنون سوار ہوگیا تاریخی برسوں پرانی مسجد کے ٹوٹنے سے، پھرحکومت کو یہ مسلمانوں کا بلبلانا بھی برداشت نہیں ہوا احتجاج کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے سلا دیا گیا سب کچھ لٹنے کے بعد وزیر اعلی کا اعلان آیا کہ آپ کے حفاظت کی جائےگی آپ کو انصاف ملےگا بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر کراونگا اعلان کو ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا کہ شیوسنہا کے درندوں نے ممبئی پہ حملہ کردیا سینکڑوں مسلمان مارے گیے یہ رہی کچھ ظلم کی داستانیں جو ابتدا سے ہی سہتے آرہے ہیں۔
اخیر مرحلے میں امید کی کرن عدالت عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ سے تھی وہ انصاف دیگا لیکن وہ بھی انصاف کا گلا گھونٹ کر 9 نومبر 2019ء کو ہندوتوا آتنکیوں کے حوالے میری مسجد کو کردیا گیا اور وہاں پہ اب بتوں کو پرستش کی جائےگی جہاں چار سو سال سے آذانیں اور نمازیں ادا کیا کرتے تھے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز باجماعت کی توفیق بخشے اور مسجدوں کی حفاظت کی توفیق دے۔
نوچ کر پھینک دو کیلنڈر سے
اب دل دھڑکتا ہے چھ دسمبر سے
Comments are closed.