Baseerat Online News Portal

اسرائیل: وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع

بصیرت نیوزڈیسک
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے خلاف یروشلم میں پیر چار دسمبر کو بدعنوانی کے مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ جنگی حالات کی وجہ سے مقدمے کی سماعت روکنے کی مدت گزشتہ ہفتے ختم ہو گئی تھی۔
تین سال سے زائد عرصے سے جاری مقدمے میں نیتن یاہو پر مبینہ دھوکہ دہی، بھروسہ توڑنے اور رشوت لینے کا الزام ہے۔ اس حوالے سے ان پر تین مختلف مقدمات قائم ہیں جن میں طاقتور میڈیا شخصیات اور دولت مند افراد بھی ملوث ہیں۔
ایک مقدمے میں بینجمن نیتن یاہو پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ بطور وزیر اعظم انہوں نے موافق رپورٹنگ کے بدلے میں وزیر مواصلات کی حیثیت سے اسرائیلی ٹیلی کام کمپنی بیزیک کو مراعات کی پیش کش کی تھی۔
ایک اور مقدمے میں نیتن یاہو پر الزام ہے کہ انہوں نے 2007ء سے 2016ء کے درمیان تقریبا سات لاکھ شیکل مالیت کے لگژری تحائف وصول کیے جن میں زیورات، سگار اور گلابی شیمپین شامل ہیں۔ یہ رقم ایک لاکھ 74 ہزار یورو کے برابر بنتی ہے۔ الزام کے مطابق اس کے بدلے انہوں نے ایک قانون کی توسیع کی حمایت کی جس سے اسرائیلی ہالی ووڈ پروڈیوسر آرنن ملچن کو ٹیکس ادائیگی میں لاکھوں روپے کی بچت ہوتی۔
اسرائیل میں رشوت خوری کے الزامات میں 10 سال تک قید یا جرمانے یا پھر دونوں کی سزا ہوسکتی ہے۔ دھوکہ دہی اور اعتماد کی خلاف ورزی پر تین سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
نیتن یاہو نے ہمیشہ ان تمام الزامات کی تردید کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ انہوں نے صرف دوستوں سے تحائف قبول کیے اور کبھی رشوت نہیں مانگی۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق 74 سالہ صدر کو فوری طور پر عدالت میں طلب کیے جانے کی توقع نہیں ہے لیکن آنے والے مہینوں میں انہیں طلب کیا جا سکتا ہے۔
سال 2020ء میں شروع ہونے والا یہ مقدمہ کسی موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف پہلا مقدمہ ہے۔
اسرائیلی عدالتی نظام میں تمام فوری نوعیت کے علاوہ مقدمات کی طرح نیتن یاہو کے خلاف مقدمہ بھی سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل میں دہشت گردانہ حملے کے بعد عارضی طور پر روک دیا گیا تھا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس حملے میں 1200 سے زائد اسرائیلی ہلاک ہوئے۔
اس حملے کے بعد نیتن یاہو نے ہنگامی جنگی کابینہ تشکیل دی جس نے غزہ پٹی پر مہلک جوابی حملوں کا حکم دیا۔ حماس کے زیر انتظام غزہ میں حکام کے مطابق اب تک ساڑھے پندرہ ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔

Comments are closed.