قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء:ایک تجزیاتی مطالعہ

(مولانا ڈاکٹر)ابوالکلام قاسمی شمسی
۲۰۱۹ء میں’’ نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۱۹ء‘‘ کے نام سے مرکزی حکومت نے ایک تعلیمی پالیسی کامسودہ جاری کیا تھا اور اس پر مشورے طلب کئے گئے تھے، اس وقت میں نے اس تعلیمی پالیسی کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا تھا۔ اب مرکزی حکومت نے قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کے نام سے اس کو منظور کرکے نافذکردیا ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۱۹ء کا مسودہ جن پر مشورے طلب کئے گئے تھے اور مشورے ارسال کئے گئے تھے،اس میں معمولی سی تبدیلی نظر آرہی ہے۔۲۰۱۹ء کے مسودہ میں اقلیتوں کی تعلیم کے سلسلے میں کچھ ذکر تھا،اس کا ذکر ’’قومی تعلیمی ۲۰۲۰ء ‘‘ میں نہیں ہے۔ویسے بھی یہ قومی تعلیمی پالیسی نصاب تعلیم کے سلسلے میں ہے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے تعلیم کے سلسلے میں دو قوانین جاری کئے گئے ہیں۔ ایک لازمی تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ء ہے ،اس میں پورے طور پر حکومت نے اپنی تعلیمی پالیسی کو واضح کیا ہے اور دوسرا قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء ہے، اس میں تعلیم کے نصاب کو بیان کیا گیا ہے۔ میں نے اس قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کا مطالعہ کیا ،اس کا مختصر جائزہ پیش ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کی ابتدا تعارف سے ہوتی ہے۔ اس میں اس پالیسی کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس میں تعلیم کی اہمیت اور اس کے بڑھتے تقاضے کو واضح کرتے ہوئےیہ بیان کیا گیا ہے کہ طلبہ کی ہمت جہت تعلیمی ترقی اور نشو ونما کے لئے نصاب میں ریاضی کے ساتھ بنیادی فنون دست کاری، ادب، تاریخ، فلسفہ، لسانیات، کھیل کود، زبان ،ثقافت اور اقدار کو لازمی طور پر شامل کیا جائے۔ ساتھ ہی تعلیم کے ساتھ کردار کی تعلیم بھی ضروری ہے، اس جانب بھی توجہ دی گئی ہے۔اس قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کے سلسلے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ اکیسویں صدی کی پہلی تعلیمی پالیسی ہے جس کا ہدف ہمارے ملک کی ترقی کے لئے لازمی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے۔ یہ قومی تعلیمی پالیسی ہرفرد میں موجود تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ پر خصوصی زور دیتا ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی کے وژن کو بیان کرتے ہوئےتعارف میں تحریر کیا گیا ہے کہ اس قومی تعلیمی پالیسی کا وژن ہندوستانی اقدار سے مربوط نظام تعلیم ہے، جو سبھی کو اعلیٰ ترین معیار کی تعلیم مہیا کراکر ہندوستان کو عالمی پیمانے پر علم کا سپرپاور بناکر ہندوستان کو ایک زندہ دل اور منصف علمی معاشرہ میں بڑھنے کے لئے ظاہری طور پر حصہ لے گا۔ اس پالیسی میں متصور ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کا نصاب اور طریقۂ تعلیم طلبہ میں اپنی بنیادی ذمہ داریوں اور آئینی اقدار ،دیش کے ساتھ تعلق اور بڑھتی ہوئی دنیا میں شہری کے کردار اور ذمہ داریوں کے تئیں بیداری پیدا کرے۔ اس پالیسی کا وژن ہے کہ طلبہ میں ہندوستانی ہونے کا فخر نہ صرف افکار میں بلکہ رویوں ، عقل وحکمت اور کامو ںمیں بھی پیدا ہو ، ساتھ ہی یہ ہندوستانی ہونے کا فخر ،علم وہنر ، اقدار اور سوچ میں بھی نمایاں ہونا چاہئے، جس کے نتیجے میں طلبہ حقوق انسانی، پائیدار ترقی اور زندگی گزارنے نیز عالمی فلاح وبہبود کے لئے پرعزم ہوں، تاکہ وہ صحیح معنوں میں عالمی شہری بن سکیں۔
اسی تعارف نامہ میں قومی تعلیم کا خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
(۱) تعلیم کی ابتدا نرسری اور کے جی سے ہوگی اور یہ تین سال پر مشتمل ہوگا۔ اس کے درجہ اول اور دوم ہوگا۔اس طرح دونوں مل کر ۵؍سال بنیادی تعلیم کہلائیں گے۔
(۲) بنیادی تعلیم کے بعد ۳؍ سے ۵؍ درجات تک یعنی ۳؍ سال پری مڈل کہلائیں گے۔ پھر اس کے بعد درجہ ۶؍ سے ۸؍ تک یعنی ۳؍ سال مڈل کہلائیں گے۔ اس کے بعد درجہ ۹؍ سے ۱۲؍ تک یعنی ۴؍ سال سکنڈری کہلائیں گے۔ اس کی ترتیب اس طرح ہوگی۔۵+۳+۳برابر۱۵یعنی ۱۴؍ سے ۱۸سال کی عمر میں طلبا سکنڈری امتحان پاس کریں گے۔ درجات اس طرح ہوں گے۔
(۱) بنیادی تعلیم :۵؍سال یعنی نرسی ۱؍ سال اور کے جی ۲؍سال یعنی کل ۳؍ سال، پھر درجہ ۱؍اور ۲؍ یعنی ۳+۲کل ۵؍ سال
(۲) ماقبل مڈلـ: درجہ ۳؍درجہ ۴؍ اور درجہ ۵؍ یعنی ۳؍سال
(۳) مڈل :درجہ ۶، ۷،۸ ؍یعنی ۳؍سال
(۴) سکنڈری:درجہ ۹، ۱۰، ۱۱؍ اور ۱۲؍ یعنی ۴؍ سال
اس کے بعد نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کی وضاحت ۴؍ حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اول اسکولی تعلیم سے متعلق ہے۔اس میں ابتدائی تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں بنیادی خواندگی اور اعداد کے علم پر زور دیا گیا ہے۔ بچوں کے ڈراپ آئوٹ کو کم کرنے اور ہر سطح پر تعلیم کو عام کرنےکی ضرورت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس میں اسکولوں میں نصاب، درس وتدریس کو دلچسپ اور مربوط بنانے کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ اسی حصہ میں اساتذہ کی اہمیت ،ضرورت اور ان کے معیاری ہونے پر بھی بحث کی گئی ہے۔اسی طرح اس پر بھی زور دیا گیا ہے کہ مساوی اور جامع تعلیم سب کے لئے میسر ہو۔ اس میں تعلیم کو مختلف وسائل کے ذریعہ موثر بنانے کے لئے اساتذہ کی ذمہ داریوں پر بھی بحث کی گئی ہے۔ غرض اسکول کی تعلیم کو معیاری اور مرتب بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ اس قومی تعلیمی پالیسی میں اس کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ اسکولوں کے نصاب، درس وتدریس اور تعلیم کو جامع ،مربوط ومکمل خوشگوار اور دلچسپ ہونا چاہئے۔ اس میں دلچسپ اور موثر بنانے کے طریقوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس قومی پالیسی میں مادری زبان کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اس پر زور دیا گیا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو کم سے کم درجہ پنجم تک لیکن بہتر ہوگا کہ درجہ ہشتم تک اور اس سے بھی آگے تک ذریعۂ تعلیم گھر کی زبان ؍مادری زبان؍ مقامی زبان؍ علاقی زبان ہو، اس کے بعد گھر کی زبان ؍مقامی زبان کو جہاں تک ممکن ہو، زبان کے طورپر پڑھایا جاتا رہے۔ عوامی اور نجی دونوں طرح کے اسکولوں میں اس کی پابندی کی جائے۔
اس حصہ میں اس کی بھی وضاحت موجود ہے کہ ابتدائی درجات کا انتظام آنگن باڑی کے ملازمین اور این سی آر ٹی کےذریعہ نصاب تعلیم کے ذریعہ کیا جائے۔ دھیرے دھیرے بچوں کو پیشہ وارانہ تعلیم کی طرف متوجہ کیا جائے۔
اس حصہ میں اس کا بھی ذکر ہے کہ نصاب تیار کرانے اور طریقۂ تعلیم کی ذمہ داری وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کی ہوگی۔بچو ںکی دیکھ بھال اور تعلیمی نصاب کی منصوبہ بندی اور عمل آوری وزارت برائے فروغ انسانی وسائل ،وومن اور چائلڈ ڈیولپمنٹ اور وزارت برائے ترقیات خواتین واطفال، ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفیئر کے ذریعہ مشترکہ طور پر کی جائے گی۔ اسکولی تعلیم میں بچپن کی ابتدائی دیکھ ریکھ اور تعلیم کے سہل انتظام اور ہمہ جہت رہنمائی کے لئے ایک خصوصی مشترکہ ٹاسک فورس کی تشکیل کی جائے گی۔
حصہ دو م میں اعلیٰ تعلیم کا بیان ہے۔ اس میں معیاری یونیورسٹیاں اور کالج بنانے اور ہندوستان کے ہائر ایجوکیشن سسٹم کے لئے ایک نیانظریہ پیش کیا گیا ہے،جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ نیا اور دور رس نظریۂ تعلیم ہے، اس میں موجودہ اعلیٰ تعلیمی نظام کو درپیش مشکلات اور دشواریوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ پھر اس کے مقابلے میں قومی تعلیمی پالیسیوں کی خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کےلئے حوصلہ مند، فعال اور قابل فیکلٹی، اعلیٰ تعلیم میں جامعیت و مساوات اور جدید نیشنل ریسرچ فائونڈیشن کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ نیز اعلیٰ تعلیمی اداروں کےلئے موثر انتظامیہ اور قیادت سے بھی بحث کی گئی ہے۔
حصہ سوم میں دیگر قابل غور بنیادی معاملات کے تحت پیشہ وارانہ تعلیم ، تعلیم بزرگاں، ہندوستانی زبان، فنون وثقافت کے تحفظ سے بھی بحث کی گئی ہے۔ ساتھ ہی ٹیکنالوجی کے استعمال اور آن لائن تعلیم کی اہمیت کو بھی واضح کیا گیا ہے۔
باب چہارم کا عنوان ہے عمل درآمد کی حکمت عملی۔اس کے تحت درج کیا گیا ہے کہ اس ہدف کو سینٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن اور وزارت برائے فروغ انسانی وسائل اور ریاستی سطح پر مشہور اکائیوں اور اداروں کے ساتھ مل کر پورا کیاجائے گا۔
یہ ہے قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کا مختصر تجزیاتی مطالعہ۔ اب اس سلسلے میں چند خصوصی نکات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
(۱) ہمارے ملک میں دو طرح کے ادارے چل رہے ہیں۔ ایک اسکول، کالج یعنی عصری ادارے اور دوسرے مدارس ، پاٹھ شالے، گروکل غیرہ یعنی روایتی ادارے۔میرے مطالعہ کے مطابق اسکول، کالج یعنی عصری اداروں کے لئے قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء جامع اور مفید ہے۔اس پالیسی کو صحیح انداز سےنافذ کیا جائے تو مثبت نتائج سامنے آئیں گے، میرے خیال سے مسلم طلبہ کو ایجوکیشن کے مین اسٹریم سے الگ کرنا نقصان دہ ہوگا۔ نیز متبادل انتظام بھی بہت مشکل ہے، جس کا تجربہ کیا جاچکا ہے۔ ویسے کوشش کرکے پھر سے تجربہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
(۲)اس نصاب تعلیم کو نافذکر نے کا اختیار مرکزی اور ریاستی حکومت دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہوگی۔
(۳) قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق نصاب اور نظام چلانے کی ذمہ داری ریاستی حکومت کی بھی ہوگی، البتہ اس کی نگرانی سینٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن کے ذریعہ کی جائے گی۔
(۴) قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کی ابتدا میں ہندوستان کی قدیم روایات کا ذکر ضرورہے، یہ ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس پر نظر رکھے کہ وہ اپنے اسٹیٹ میں دیومالائی نصاب تعلیم رائج کرتی ہے یاسیکولر جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔اگر اسکول ،کالج یعنی عصری اداروں میں کوئی ایسے قوانین نافذ کئے جاتےہیں جو کسی کے مذہبی عقائد سے متصادم ہوتو اس کو ریاستی حکومت سے مل کر اس پر گفتگو کرکے درست کرایا جاسکتا ہے۔
(۵)جہاں تک مدارس، پاٹھ شالے، گروکل وغیرہ کی بات ہے تو اس قومی تعلیمی پالیسی میں مدارس، سنسکرت، پاٹھ شالے، گروکل، اقلیتی اسکول وغیرہ کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ حالانکہ ملک کے آئین میں مذہبی اقلیتوں کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے پسند اور اپنی تہذیب وثقافت کی حفاظت کے لئے اپنے ادارے قائم کرے۔ اس قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء میں خاموشی سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ ادارے حسب سابق چلتے رہیں گے، چونکہ یہ رائٹ ٹو ایجوکیشن سے بھی مستثنیٰ قرار دیئے گئے ہیں اور مرکزی حکومت نے اس کو جاری رکھنے کے لئے رائٹ ٹو ایجوکیشن کے لئے گائڈلائن بھی جاری کیا ہے۔جب تک اس سلسلے میں کوئی دوسرا گائیڈ لائن جاری نہ ہو، ان اداروں کو حسب سابق جاری رکھنا چاہئے، البتہ دھیرے دھیرے ان کو معیاری بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں، مثلاً مدار س کے نصاب تعلیم میں ابتدائی درجات میں اضافہ کرکے میٹرک تک کی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ این آئی او ایس سے پرائیویٹ طور پر امتحان کا انتظام کیا جائے، درجات کی تعیین کی جائے، تعلیم کے معیار کو بلند کیا جائے، ہاسٹل اور قیام وطعام کے معیار کو درست کیا جائے، زمین کو مدرسہ کے نام رجسٹرڈ کیا جائے،ساتھ ہی مدارس کو بھی کسی این جی او ز سے مربوط کرکے رجسٹرڈ کرایا جائےوغیرہ۔
(۶) رائٹ ٹو ایجوکیشن ،مدارس اور اقلیتوں کو مستثنیٰ قرار دیئے جانے والے ٹوٹیفکیشن اور قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء پر ماہرین وکلا سے قانونی مشورہ کی ضرورت ہے کہ ان قوانین کی موجودگی میں مدارس اور اقلیتی ادارے وغیرہ چلانے کی اجازت ہے کہ نہیں؟ میرے مطالعہ کے مطابق رائٹ ٹو ایجوکیشن سے مدارس ،سنسکرت، پاٹھ شالے وغیرہ مستثنیٰ قرار دے دیئے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء میں ان اداروں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔البتہ اس سلسلے میں قانونی مشیر کی رائے ضرور حاصل کی جائے۔
(مولانا ڈاکٹر)ابوالکلام قاسمی شمس
موبائل: 9835059987
Comments are closed.