مالدیپ سے چین تک ناراضی ہی ناراضی

 

ڈاکٹر سلیم خان

انتخابی مہم کی تھکن اتارنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی موسمیاتی چیلنجوں کے خلاف عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے دبئی  پہنچ گئے ۔ وہاں انہوں نے بہت سارے سربراہانِ مملکت کے ساتھ سیلفی نکال کر اپنی عالمی مقبولیت  کا ڈنکا بجانے کی کوشش کی ۔ وزیر اعظم  مودی کی   مالدیپ کے صدر محمد معز کے ساتھ بھی ملاقات  تو ہوئی مگر تعلقات  ایسے تھے کہ  سیلفی کا موقع ہی نہیں آیا۔ہندوستانی وزارت خارجہ کے مطابق  دونوں رہنماوں کےدرمیان ملاقات میں تعلقات کی بہتری  کے لیے ایک دو طرفہ ‘ کور گروپ ‘ قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا ۔ اس  بیچ مالدیپ میں  موجودہندوستانی  فوج کو واپس لے جانے کا بھی مطالبہ کیا گیا کیونکہ محمدمعزاپنے ملک  میں ہندوستانی فوج کی موجودگی کو اپنی سلامتی و خود مختاری کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ وشو گرو  بننے کا خواب دیکھنے والے مودی  سے فی الحال187 جزیروں میں بکھرا ہوا  جملہ  پانچ لاکھ آبادی والا ملک بھی  سنبھالا نہیں جارہا ہے تو  وہ چین اور امریکہ جیسے سپر پاورس  سے کیا  پنگا لیں گے ؟

 امسال  ستمبر میں صدارتی منصب پر فائز ہونے والے محمد معزجہاں  چین سے قرضوں کا خیر مقدم کرتے ہیں وہیں  اپنی سرزمین پر ہندوستانی فوج کی موجودگی سے نالاں ہیں ۔مالدیپ  کے اندر اس وقت صرف 70 ہندوستانی  فوجیوں  پر مشتمل  ایک دستہ تعینات ہے۔ وہ  ممکنہ فضائی  خطرات کی نگرانی کےلیے ایک راڈار اسٹیشن  چلا تاہے۔ اس کا مقصد خصوصی اکنامک زون میں ہندوستانی طیارہ بردار جہازوں کے لیےنقل و حرکت کی نگرانی کرناہے ۔ ہندوستانی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ہری کمار نے چند روز قبل یہ   انکشاف کیا تھا کہ مالدیپ میں موجود ہندوستانی فوجی مالدیپ کےعوام  کو طبی ضروریات کے لیے آمدو رفت  میں تعاون کرتے ہیں لیکن یہ کام فوجیوں کا کب سے ہوگیا؟ انہوں نے یہ بھی بتایاتھا کہ ہندوستان کے فوجی  مالدیپ کی سمندری حدود میں غیر قانونی نقل و حرکت  کو روکتے ہیں لیکن اگر  مالدیپ کی حکومت کو ان خدمات کی ضرورت نہیں ہے تو پیش کرنے سے کیا حاصل؟

  پچھلے دنوں  قطر میں ہندوستانی بحریہ کے آٹھ سابق افسران کو جاسوسی کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی ۔ پاکستان میں حاضر سروس نیول افسر کلبھوشن دہشت گردی کے الزام میں مقید ہے۔ امریکہ اور کینیڈا میں بھی ہندوستانی سکیورٹی اداروں کے بارے میں تشویشناک خبریں گردش کررہی ہیں۔  امریکہ کے اندر پہلی  بار ریسرچ اینڈ انالیسس (رآ) کے دفتر کو بند کروا دیا گیا۔مالدیپ کے  نئے صدر کا مطالبہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔مودی اور معز ملاقات کے بعد ہندوستانی بحریہ کے سربراہ ایڈ مرل آر ہری کمار نے دہلی کے اند ایک پریس کانفرنس میں اعتراف کرلیا کہ ہندوستان بحرہند کے علاقہ  بشمول مالدیپ اور پاکستان میں چین کی سرگرمیوں پر گہری نظر جمائے ہوے ہے۔ یوم بحریہ کے موقع پر انہوں نے فرمایا ہندوستان کے بحری جہاز، آبدوزیں ،ہوائی جہاز، یو اے وی بحری طاقت کی شکل میں انڈین اوشین ایریا میں علاقائی قوت کے توازن  کو برقرار رکھنے کے لیے تعینات ہے۔  وہ بھول گئے کہ چند روز قبل انہوں نے کیا کہا تھا۔

ایڈمرل صاحب  نے صاف کہا کہ ’’ہمارے مفادات بحر ہند اور اس سے آگے ہند بحرالکاہل  میں بھی ہیں۔  ہم بحری جہازوں ، آبدوزوں  اورہوائی جہازوں کی تعیناتی  کے  ذریعہ علاقے کی  نگرانی کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘‘۔ بحریہ کے سربراہ نے مشترکہ تنازعات کو دیکھنے اور مسائل سے نمٹنے  کے لیےمل جل کر کام کرنے  اور بات چیت کے ذریعہ باہمی اعتماد و تعاون کے فروغ  پر زور دیا۔ اس بیان کے اندر مالدیپ کی جانب بھی ہلکا سا اشارہ موجود ہے۔ راجیو گاندھی کے زمانے میں  مالدیپ  کی ہندوستان سے اتنی قربت تھی کہ 1988 میں  وہاں بغاوت ہوئی تو صدر مامون عبدالقیوم نے ہندوستانی فوج  طلب کرلی اور اس نے وہاں پہنچ کر حکومت کو بحال کردیا ۔آگے چل کر حالات بدلے تو  مالدیپ کے سابق صدر عبداللہ یامین اپنے دور حکومت میں نہ صرف  ہندوستان کی کھل کر مخالفت کی  بلکہ چین کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے قرضوں کی راہ  ہموار کردی۔

اس وقت حزب اختلاف کے رہنما محمد صالح نے عبداللہ  یامین پر  مالدیپ کو ’قرضوں کے جال‘ میں ڈالنے کا الزام لگا کر  کھلے عام  پر ’انڈیا  فرسٹ‘ کی پالیسی کا عہد کیا  اور ان کی انتخابی کامیابی کے بعد  نئی دہلی نے وہاں بہت سارے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شروع کردیئے، کورونا کے دوران مالدیپ کی مدد کی گئی اور وزیر خارجہ عبداللہ شاہد کو جنرل اسمبلی میں صدر منتخب کروانے کی مہم میں  بھرپور تعاون دیا۔ اس دوران چونکہ  محمد صالح نے عبداللہ  یامین کو بدعنوانی کے الزام میں ۱۱؍ سال کے لیے جیل بھیج دیا  تھا اس لیے محمد معیز کو حزب اختلاف نے اپنا امیدوار بنا دیا۔ مالدیپ کے صدارتی انتخابات میں  صالح اور معیز کے درمیان   انتخابی مہم  ’ہندوستان بمقابلہ چین‘ کی جنگ بن گئی جس میں بالآخر انڈیا فرسٹ کو انڈیا آوٹ  نے شکستِ فاش سے دوچار کردیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مالدیپ اور ہندوستانی تنازع کا تعلق وہاں کی داخلی سیاست سے ہےاور فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

 45 سالہ محمد معیز  نے برطانیہ سے سول انجینیئرنگ  کی تعلیم حاصل  کی۔ سیاست میں آنے  کے بعد وہ سابق صدور محمد نشید اور عبداللہ یامین کی حکومتوں میں ہاؤسنگ اور ماحولیات کے وزیر بنائے گئے۔سن 2013 سے 2018 کے درمیان پانچ سال کی مدت میں محمد معیز نے کئی  بنیادی ڈھانچوں کے پروجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا  جن میں  بندرگاہیں،  باغات ، سڑکیں اور مساجد کی تعمیر شامل تھی۔انہیں چار سال قبل حزب اختلاف کے اتحاد کا نائب صدر بنایا گیا۔اس کے دو سال بعد  انھوں نے مالے میں  میئر کا انتخاب جیت کر  اپنی پوزیشن مزید مستحکم کی یہاں تک کہ  پروگریسو پارٹی آف مالدیپ (پی پی ایم) نے انھیں اپنا  صدارتی امیدوار بنادیا ۔مالدیپ میں ’انڈیا فرسٹ‘ پالیسی کے غیر مقبول ہونے کی اہم ترین  وجہ ہندوستان کی جانب سے مالدیپ کو 2010 اور 2013 میں دیے جانے والے دو ہیلی کاپٹر اور 2020 میں ایک چھوٹے طیارے کی صورت میں دیے گئے ’تحائف‘ ہیں۔

حزب اختلاف نے اس  پرمحمد صالح کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا  تو یہ صفائی دی گئی کہ  تحفے میں دیئے جانے والے اس جہاز کا مقصد امدادی نوعیت کا ہے اور اسے طبی انخلاء کے لیے استعمال کیا جائے گالیکن 2021 میں جب مالدیپ کی دفاعی فورس نے یہ انکشاف  کردیا کہ ان طیاروں کو چلانے اور دیکھ بھال کے لیے مالدیپ میں تقریباً 75 ہندوستانی فوجی اہلکار مقیم ہیں تو پھر سے ہنگامہ ہوگیا۔ اس کے فوراً بعد  اپوزیشن نے ’ہندوستان آؤٹ‘ مہم شروع کرکے  ہندوستانی سکیورٹی اہلکاروں سے مالدیپ چھوڑنے کا مطالبہ کردیا۔ حزب اختلاف کی  دلیل یہ تھی  کہ ان فوجی اہلکاروں کی موجودگی سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق  ہے ۔  انتخابات کے دوران یہی بحث  عروج پر پہنچ گئی ۔  صدر ابراہیم صالح ان  خدشات کو  مبالغہ آرائی کہہ کر مسترد کردیا ۔ ان کی دلیل تھی کہ ہندوستانی  اہلکار مالدیپ کی نیشنل ڈیفنس فورس کی کمانڈ کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ عوام اس  دلیل سے  مطمئن نہیں ہوئے اور  انتخاب  میں ہرادیا۔

 مالدیپ میں نئے صدر محمد معیز نے  حلف برداری کے ساتھ ہی  اپنے ارادے ظاہر کردیئے۔ انہوں نے دہائیوں پرانی روایت کو توڑتے ہوئے  اپنے پہلے غیرملکی  دورے  کے لیے  ہندوستان کے بجائے ترکی کا انتخاب کیا  ۔ اس سے قبل’انڈیا فرسٹ‘ پالیسی کے تحت  مالدیپ کے صدر حلف اٹھانے کے بعد اپنے پہلے سرکاری  دورے پر ہندوستان آتے آ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مالدیپ کے  چین نواز صدر محمد معیز نے  ترکی کو  کیوں ترجیح دی ؟ دراصل ترکی ایک ایسا مسلم ملک ہے ۔وہ پاکستان کے قریب ہے اور اس کے  ہندوستان سے اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ ترکی مختلف عالمی فورمز پر پاکستان کی حمایت اور ہندوستان  کی مخالفت کرتا رہا ہے۔اس طرح محمد معیز نےاپنا  منصوبہ صاف  کردیا  کہ وہ  مالدیپ کا ہندوستان پر انحصار ختم کرنا چا ہتے ہیں ۔ اس  کے بعد  انہوں نے متحدہ عرب امارات کا دورہ بھی  کیا اور ابوظبی سے مال برداری کا ایئر پورٹ تعمیر کرنے  کے منصوبے کی خاطر 80 ملین ڈالر کے فنڈز کی یقین دہانی کرائی۔ اس منصوبے کے لیے ہندوستان  پہلے ہی 136.6 ملین ڈالر کی کریڈٹ لائن دے چکا ہے۔ متحدہ عرب امارات سے 80 ملین ڈالر کی ٹاپ اپ فنڈنگ کی یقین دہانی کا مطلب ہے کہ مالدیپ کو دوسری قسط کے لیے ہندوستان پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔

اس طرح مالدیپ کے ہندوستان سے دور ہوکر عرب ممالک اور چین کے قریب پہنچ جانے کے اشارات واضح ہوگئے ہیں۔ محمد معز نے  انتخابات کے دوران  جو ہندوستان مخالف  موقف اختیار کیا  تھا وہ اس پر مسلسل آگے  بڑھ رہے ہیں۔ ان کی حکومت ہندوستان کے ساتھ ماضی میں کیے جانے والے 100 سے زائد معاہدوں کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔ مالدیپ میں موجود ہندوستانی فوجی دستوں  کی واپسی اس تابوت کی آخری  کیل ثابت  ہوسکتی ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ دنیا بھر میں اپنی برتری کا دعویٰ کرنے والی مودی سرکار اپنے کسی بھی پڑوسی ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار نہیں کرپائی۔ اس فہرست میں ہندو اکثریتی نیپال، بودھ مذہب کے ماننے والوں کا سری لنکا، اور مسلم ممالک جیسے پاکستان اور اب مالدیپ بھی شامل ہیں ۔ بنگلادیش کا استثناء شیخ حسینہ واجد کے سبب ہے ۔ وہ اگر غیر جانبدارانہ انتخاب کرواکرہار جائیں  تو بنگلادیش کی اگلی سرکار کے تعلقات بھی حکومت ہند سےمالدیپ کی مانند  بگڑ جائیں گے ایسے علاقائی برتری  کے خواہاں  چین سے نمٹنا ناممکن ہوجائے گا  ۔  وزیر اعظم مودی کو چاہیے کہ وہ  انتخابی مہمات  کا کام  بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کے حوالے  کر کے اپنے فرضِ منصبی پر توجہ دیں۔ اس لیے کہ عوام نے انہیں پارٹی نہیں  ملک چلانے  کی ذمہ داری سونپی ہے۔   

Comments are closed.