جمعہ نامہ: صبح کاذب ، صبح صادق ، پھر طلوع آفتاب

ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے:’’۰۰۰قرآن کے ذریعے پوری طاقت کے ساتھ بڑا جہاد کریں‘‘۔ مکہ مکرمہ کے اندر نازل ہونے والی اس آیت میں جہادِ کبیر کا حکم دیا گیا ہے۔ عام طور پر لوگ سیرت نبی ﷺ کےمکی زمانے کو دعوت اور مدنی دور کو جہاد سے منسوب کردتے ہیں کیونکہ وہ جہاد کا مطلب صرف قتال سمجھتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ یہاں پر جہاد کبیر کا مطلب ایسی انتہائی کوشش ہے جس میں انسان اپنی اپنا سب کچھ جھونک کر اس کا حق ادا کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اس جامع مزاحمت میں مدمقابل کو ہر محاذ پر اپنی جدوجہد سے زیر کرنے کی خاطر حق کو سر بلند کرتے ہوئے خود کو کھپا دیتاہے۔ یہ جہاد حسب موقع اور ضرورت زبان و قلم ، جان و مال اور توپ و تفنگ پر محیط ہے۔ اپنےزمانے کی سپر پاور سلطنت روما کے خلاف غزوۂ تبوک سے واپسی میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’ ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ آئے ہیں‘‘۔ یعنی جنگ سے سرخرو ہوکر لوٹنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ روحِ جہاد یہی ہے کہ انسان ہر لحظہ اپنے وسائل ذرائع کے ساتھ راہِ خدا میں جدوجہد کرتا ہے۔ مسلمانانِ ہند کو ہر سال ۶؍ دسمبر کے دن یہی جذبہ بابری مسجد کی خاطر صدائے احتجاج بلند کرنے اور اس کی بازیابی کے لیے عزمِ تازہ کے اظہار کی ترغیب دیتا ہے۔
امت کے اندر ایک طبقہ بابری مسجد کے سانحہ کو بھلا دینے کی وکالت کرتا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اب وہاں ایک مندر تعمیر ہوچکا ہے اس لیے مسجد کے بارے میں سوچنے سے کیا حاصل؟ ایسی باتیں کرنے والے انسانی تاریخ سے واقف نہیں ہیں ۔ ارشادِ قرآنی ہے :’’پھر کیا اِن لوگوں کو (تاریخ کے اس سبق سے) کوئی ہدایت نہ ملی کہ اِن سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کی (برباد شدہ) بستیوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں؟ در حقیقت اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سلیم رکھنے والے ہیں‘‘۔ اس آیت میں جن قوموں کا ذکر ہے وہ بھی کسی زمانے میں اپنے آپ کو وشو گرو سمجھتی تھیں اور پانچ ٹریلین جیسی معیشت کا خواب دیکھتی تھیں ۔ فرمان ربانی ہے:’’اور اللہ نے ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرمائی ہے جو (بڑے) امن اور اطمینان سے (آباد) تھی اس کا رزق اس کے (مکینوں کے) پاس ہر طرف سے بڑی وسعت و فراغت کے ساتھ آتا تھا پھر اس بستی (والوں) نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کے عذاب کا لباس پہنا دیا ان اعمال کے سبب سے جو وہ کرتے تھے‘‘۔ وسعت و فراغت کی حامل ناشکری قوم کے لیے بھوک اور خوف کا لباس اگر کوئی دیکھنا چاہتا ہے تو اڑیسہ میں ’سورج مندر‘ کا علاقہ دیکھ لے۔
محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعہ بابری مسجد قطعہ اراضی کی کھدائی کی گئی تو نیچے ایک قدیم مندر کے آثار نکلے ۔ عدالت کے فیصلے میں درج ہے کہ مسجد کی تعمیر کے لیے اسے گرایا نہیں گیا لیکن بعید نہیں کہ اس کا افتتاح بھی اسی شان و شوکت سے ہوا ہو کہ جیسے وزیر اعظم ایودھیا میںاگلے مہینے کرنے والے ہیں۔ اللہ کی کتاب خبردار کرتی ہے کہ:’’اور ہم نے کتنی ہی (ایسی) بستیوں کو برباد کر ڈالا جو اپنی خوشحال معیشت پر غرور و ناشکری کر رہی تھیں، تو یہ ان کے (تباہ شدہ) مکانات ہیں جو ان کے بعد کبھی آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم، اور (آخر کار) ہم ہی وارث و مالک ہیں‘‘۔ عصرِ حاضر کے طاغوت کی رعونت کا یہ عالم ہے کہ اس نے ایودھیا میں محض سڑک چوڑا کرنے کی خاطر کھجور کی مسجد کا کچھ حصہ منہدم کردیا۔ مشہور نرموہی مندر کا نومیٹر توڑ دیا اور دیگر تیس مندروں کو مسمار کرڈالا۔ اس کے علاوہ کتنے چھوٹے موٹے مندر توڑے گئے ان کا شمار نہیں ہے۔ بنارس میں بھی کاشی کاریڈور بنانے کے لیے بے شمار مندر توڑے گئے تاکہ سیر سیاحت کا مرکز تعمیر کرکے امیر کبیر سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچایا جائے۔ ان سارے جرائم کو بابری مسجد کی شہادت کے پیچھے چھپا دیا گیا۔یہ لوگ گجرات میں اس دوارکا شہر کا سمندر میں ڈوب جانا بھول گئے جسے مہابھارت کے مطابق خود کرشن نے بسایا تھا۔
طاغوتِ وقت کے جاہ وجلال سے مرعوب ہونے کے بجائے امت کو اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے ۔ فرمان ِ ربانی ہے :’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو‘‘۔ یہاں ایمان لانے کے بعد رکوع و سجود سے مراد تو نماز ہے مگر پھر رب کی بندگی کے معنیٰ زندگی کے ہر شعبے میں دین کی اتباع نیز انسانی فلاح و بہبود کے نیک کام بھی لازمی ہیں ۔ آگے دنیوی و اخروی فلاح کی خاطر یہ حکم دیا گیا ہے کہ:’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے‘‘۔ یعنی جاں فشانی کا حق ادا کردیا جائے ۔ اس کے بعد ملت کو اس کا مقام و مرتبہ یاد دلانے کے لیے فرمایا:’’ اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام "مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی ( یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ وہ ہے تمہارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار ‘‘۔ ییہاں پرجہادِ فی سبیل اللہ کا خلاصہ بیان کرکے رب کائنات کی اس تائیدو نصرت کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جو ہمیشہ مومنین کے شاملِ حال رہتی ہے۔ بابری مسجد کے حوالے سے برادرم سرفراز بزمی کا یہ شعر ضرب المثل ہے؎
کہہ رہی ہے آج بھی تاریخ آیا صوفیہ صبح کاذب ، صبح صادق ، پھر طلوع آفتاب
Comments are closed.