ارض فلسطین سے مسلمانوں کا دائمی تعلق

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
جامعہ نعمانیہ، قاضی پیٹ، وی کوٹہ (آندھرا پردیش)
فلسطین آج سے تقریباً ساڑھے چار ہزار قبل سے آباد ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی تاریخ بہت ہی قدیم ہے، دنیا کے تین قدیم مذاہب کا اس سے تعلق رہا ہے سب سے پہلے آل بنی یعقوب علیہ السلام، بنی اسرائیل (یہودی) ان کے بعد نصاریٰ (عیسائی) اور پھر مسلمان ،اور آخر الذکر کا صبح قیامت تک اس سے تعلق قائم رہے گا، کیونکہ نبی کریم ﷺ کی نبوت کے بعد یہود ونصاری کا مذہب منسوخ ہوچکا ہے مسلم شریف کی روایت ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ، وَلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ(رواه مسلم)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : “قسم اُس ذاتِ پاک کی ، جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے ، اس اُمت کا (یعنی اس دور کا) جو کوئی بھی یہودی یا نصرانی میری خبر سُن لے (یعنی میری نبوت و رسالت کی دعوت اُس تک پہنچ جائے) اور پھر وہ مجھ پر اور میرے لائے ہوئے دین پر ایمان لائے بغیر مر جائے ، تو ضرور وہ دوزخیوں میں ہو گا” ۔
اس حدیث پاک میں صریح لفظوں میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کی نبوت کے بعد آپ پر ہر انسان کو ایمان لانا لازم و ضروی ہے ورنہ وہ جہنمی ہے ، حدیث میں "یہود و نصارٰی”کا لفظ بطور تمثیل ہے کہ یہ لوگ اپنے اپنے نبی و کتاب کو مانتے ہیں اس کے باوجود ان کو نبی کریم ﷺ پر ایمان لانا ضروری ہے تو جو لوگ نبی و کتاب کو نہیں مانتے ہیں وہ بھی ناری اور جہنمی ہوں گے ۔
مذکورہ بالا حدیث پاک کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ "ارض فلسطین”سے اب صرف اور صرف اسلام کے ماننے والوں کا ہی تعلق ہے اور یہ شام قیامت تک باقی رہے گا اس کے ان گنت دلائل ہیں یہاں ہم تین دلائل پیش کرتے ہیں اور یہ دلائل عقل سے قریب اور حکمت سے لبریز ہے ۔
ارض فلسطین سے مسلمانوں کا اٹوٹ رشتہ و تعلق ہے اور یہ تعلق ابتداء اسلام سے ہی قائم ہے جو کبھی اور کسی حال میں بھی ختم نہیں ہوگا ان شاء اللہ
پہلی بات! معراج کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو مکہ مکرمہ سے شہر "القدس”(اسی شہر میں مسجد اقصیٰ ہے) لائے اور پھر یہاں سے سفر معراج ہوا، مکہ مکرمہ روئے زمین پر سب سے مقدس ترین جگہ ہے کیونکہ اسی شہر میں”بیت اللہ” ہے ، چاہئیے تو یہ تھا کہ وہیں سے سفر معراج ہوتا؛ تاکہ مقدس مقام سے مقدس سفر ہوتا ؛لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ مکہ مکرمہ سے القدس لائے گئے اور پھر یہاں سے سفر معراج ہوا ۔
اس میں جہاں بہت سی حکمتیں ہوسکتی ہیں اسی میں ایک یہ بھی ہے کہ "مسجد اقصیٰ”سے مسلمانوں کو وابستہ کرنا تھا کہ مسلمانوں کو ہمیشہ "مسجد اقصیٰ”سے تعلق قائم رکھنا ہے اسے کبھی اور کسی حال میں بھی فراموش نہیں کرنا ہے۔
دوسری بات! نبی کریم ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو صحیح قول کے مطابق 17/ماہ تک نبی کریم ﷺ اور اصحاب پیغمبر مسجد اقصیٰ کی طرف ہی رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے ، جہاں تک یہود کی رعایت کی بات ہے تو یہ رعایت نبی کریم ﷺ بذات خود نہیں کیے تھے کیونکہ نبی کریم ﷺ کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے:
*”وما ینطق عن الھوی ،ان ھو الا وحی یوحی”*(النجم:٤/٣)
اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے،یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھجی جاتی ہے۔
مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنا اس میں بھی یہ حکمت ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ کو ہمیشہ یاد رکھنا ہے ۔
تیسری بات: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد ،مسجدى هذا ،و مسجد الحرام و المسجد الاقصى(صحیح مسلم)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:کسی مسجد کے لیے سفر کرنا ہے تو صرف تین مسجدوں کے لئے سفر کرسکتے ہیں میری مسجد، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم "مسجد اقصیٰ”کو مسجد حرام اور مسجد نبوی کے ساتھ بیان کئے ہیں اور اس میں "مسجد اقصیٰ” کی طرف سفر کرنے کی اجازت دی گئی ہے اس وجہ سے کہ مسجد حرام اور مسجد نبوی کی طرف تو مسلمان سفر کریں گے ہی اس کے ساتھ "مسجد اقصیٰ” کا بھی نام لیا گیا تاکہ مسلمان "مسجد اقصیٰ”کا بھی سفر کریں، اس سے صاف معلوم ہوتا کہ مسلمانوں کو "مسجد اقصیٰ” سے بھی مسجد حرام اور مسجد نبوی جیسا ہی ہمیشہ تعلق قائم رکھنا، اور یہ تعلق صرف فلسطین کے مسلمانوں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو ہمیشہ ” مسجد اقصیٰ”سے تعلق قائم رکھنا ہے۔
مذکورہ بالا تینوں باتوں سے عیاں ہے کہ مسلمانان عالم کو”مسجد اقصیٰ”سے ہمیشہ تعلق قائم رکھنا ہے، اللہ تعالیٰ ہم مسلمانان عالم کو "مسجد حرام و مسجد نبوی جیسے ہی”مسجد اقصیٰ” سے بھی محبت و تعلق عطا فرمائے۔ (آمین)
Comments are closed.