Baseerat Online News Portal

عالمی اردو ادب کی ایک معتبر آواز -منفرد شاعرہ اور بہترین نثر نگار :عنبرین حسیب عنبر

شایقین سننے کو بےتاب رہتے ہیں۔۔۔تم بھی ناں !
مشاعروں کی بے حد مقبول سخنور
تنقیدی تحریر میں نظر آتی ہے بے باک نثر

ایم آئی ظاہر، ہندوستان
8112236339
وہ اٹھلاتی، لہراتی،شوخی سے بل کھاتی مہکتی خوشبو، ٹھنڈی ہوا کا جھونکا، چھٹکتی چاندنی، اور دھیان میں آ کر بیٹھ کر،اپنے محبوب کو عشق میں ہم آمیز ہونے کی یاد دلانے والی خوبصورت لب و لہجہ کی منفرد شاعرہ ہیں۔ انکی شاعری کے آفاقی کینوس پر بکھرے ہوے رنگ قوص فزہ کی مانند پھیلے ہویے نظر آتے ہیں۔۔ عالمی اردو ادب کی ایسی ہی ایک معتبر آواز کا نام ہے عنبرین حسیب عنبر۔ان کی شاعری کا جائزہ لینے پر ایک بات شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ عنبرین حسیب عنبر کا ہر شعر شوخی اور نزاکت کے ساتھ بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور سامعین و قاریین پر ایک طرح کا سحر طاری ہو جاتا ہے۔وہ لاکھوں لوگوں کی پسند ہیں اور ‌انکی مقبولیت کسی فلمی ستارے سے کم نہیں ہے۔کاینات ادب کا یہ چمکتا ستارہ سخن کی کہکشاں میں جھلملا رہاہے۔
معروف شخصیت مفکر، ادیب زباں داں اور شاعر پیر زادہ قاسم نے کہا ہے کہ شاعر عقلی اور سنجیدہ انسان ہیں اور بلاشبہ اپنے روشن دماغ اور محبت بھرے دل سے دنیا میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔اس نظریہ سے دیکھیں تو وہ شاعری میں ایک نیا انقلاب لای ہیں۔ برصغیر ہندو پاک اور خلیج کے ساتھ ہر اس جگہ ان کے نام کا ڈنکا بجتا ہے،جہاں جہاں اردو ہے۔ ان کی شاعری میں روز مرہ کی زندگی بڑے ہی نفیس لہجے میں مکالماتی چہل کرتی ہویی نظر آتی ہے۔ سخن فہم شایقین ان کے شعر سننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں‌۔آج عنبرین حسیب عنبر کا نام کسی بھی مشاعرہ کی کامیابی کی ضمانت مانا جاتا ہے ۔ آخر،ان کی منھ بولتی شاعری کا انداز بالکل جداگانہ جو ٹھہرا۔عنبرین کی شاعری میں رومانیت کی مقناطیسی کشش نظر آتی ہے۔یوں تو ان کی سبھی غزلیں مقبول ہیں،لیکن مشاعرے میں بیشتر قدردان ایک غزل سننے کی فرمائش ضرور کرتے ہیں:
دھیان میں آ کر بیٹھ گیے ہو تم بھی ناں
مجھے مسلسل دیکھ رہے ہو تم بھی ناں

دے جاتے ہو مجھ کو کتنے رنگ نئے
جیسے پہلی بار ملے ہو ، تم بھی ناں

ہر منظر میں اب ہم دونوں ہوتے ہیں
مجھ میں ایسے آن بسے ہو ، تم بھی ناں

عشق نے یوں دونوں کو ہم آمیز کیا
اب تو تم بھی کہہ دیتے ہو ، تم بھی ناں

خود ہی کہو اب کیسے سنور سکتی ہوں میں
آئینے میں تم ہوتے ہو ، تم بھی ناں

بن کے حسین ہونٹوں پر بھی رہتے ہو
اشکوں میں بھی تم بہتے ہو ، تم بھی ناں

میری بند آنکھیں بھی تم پڑھ لیتے ہو
مجھ کو اتنا جان چکے ہو ، تم بھی ناں

کر جاتے ہو کوئی شرارت چپکے سے
چلو ہٹو تم بہت بُرے ہو، تم بھی ناں

مانگ رہے ہو رخصت مجھ سے اور خود ہی
ہاتھ میں ہاتھ لئے بیٹھے ہو ، تم بھی ناں
ان کی شاعری کی اس نماندہ غزل میں آپ دیکھیں کہ عنبرین حسیب عنبر ایسی شاعرہ ہیں، جنہوں نے اردو زبان کو اپنے نئے اور جدید لب و لہجے سے سرفراز کیا ہے تو نیے تجربات سے مالامال بھی کیا ہے۔وہ اپنا انداز دہراتی نہیں ہیں اور انفرادیت قایم رکھتے ہویے شعر کہتی ہیں۔دیکھیں اس غزل میں آپ کو ایک جداگانہ عنبرین حسیب عنبر نظر آتی ہیں : ملا بھی زیست میں کیا رنج رہ گزار سے کم
سو اپنا شوق سفر بھی نہیں غبار سے کم

ترے فراق میں دل کا عجیب عالم ہے
نہ کچھ خمار سے بڑھ کر نہ کچھ خمار سے کم

ہنسی خوشی کی رفاقت کسی سے کیا چاہیں
یہاں تو ملتا نہیں کوئی غم گسار سے کم

وہ منتظر ہے یقیناً ہوائے سرسر کا
جو حبس ہو نہ سکا باد نوبہار سے کم

بلندیوں کے سفر میں قدم زمیں پہ رہیں
یہ تخت و تاج بھی ہوتے نہیں ہیں دار سے کم

عجیب رنگوں سے مجھ کو سنوار دیتی ہے
کہ وہ نگاہ ستائش نہیں سنگھار سے کم

مری انا ہی سدا درمیاں رہی حائل
وگرنہ کچھ بھی نہیں میرے اختیار سے کم

وہ جنگ جس میں مقابل رہے ضمیر مرا
مجھے وہ جیت بھی عنبرؔ نہ ہوگی ہار سے کم

تنقید اور نثر کی خوبصورت مثال
عنبرین حسیب عنبر نے شاعری کے ساتھ ساتھ متعدد تنقیدی جواہر پارے بھی لکھے ہیں.ان کی بہترین نثر کا ایک نمونہ دیکھیں :
رشتہء مرد و زن اور منٹو۔۔۔۔ ایک اقتباس
منٹو ایک مکمل معروضی اور غیر جانب دار افسانہ نگار ہے جو اپنے کرداروں کو کسی نظریے، عقیدے یا کلیہ کے تحت انگلی پکڑ کر نہیں چلاتا ہے۔ وہ انھیں بالکل آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ اسی لیے وہ مصنف کے sentimental ہونے کے سخت خلاف ہے. منٹو اسے افسانہ نگاروں کا بچپنا اور سستی جذباتی کیفیت کہہ کر مسترد کرتا ہے کہ وہ اپنے کریکٹر کے برے کام کو یہ سمجھ کر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بری حرکت خود ان سے سرزد ہوئی ہے اور اگر ان کا کوئی کریکٹر اچھا کام کرے تو وہ اسے بھی اپنا ذاتی خیال سمجھ کر خوش ہوتے ہیں اور یہ مسرت ان کے کریکٹر کے چہرے پر نظر آنے لگتی ہے۔ منٹو کے خیال میں اعلیٰ درجے کے ادب میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔
منٹو کے کردار کلی طور پر آزاد ہیں یہی سبب ہے کہ وہ کٹھ پتلیوں کی طرح بے جان نہیں بلکہ جیتے جاگتے اور جاندار ہیں۔یہ کردار اپنی اصل میں جیسے ہیں وہی منٹو کے لئے سب سے بڑی حقیقت ہے، چناں چہ وہ اس حقیقت کی تعظیم کرتا ہے، چاہے وہ مرد کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
دوسری بات یہ کہ منٹو جب عورت اور مرد کے درمیان فاصلے اور لرزتی دیوار کو ختم کرنے کی بات کرتا ہے تو یہ مادر پدر آزادی نہیں،یعنی یہ جسم سے جسم تک کی دوری نہیں ہے، بلکہ یہ جسم سے روح تک کی دوری ہے جو انہیں ایک اکائی میں ڈھلنے نہیں دیتی۔
تیسری بات یہ ہے کہ عورت صرف ایک مرد کی ہو کر رہنا چاہتی ہے۔ منٹو کے نسوانی کردار کہیں بھی بانو قدسیہ کے ایک کردار کی طرح صاف لفظوں میں یہ تو نہیں کہتے کہ :
’’عور ت چاہے تو طوائف ہو، چاہے سوسائٹی گرل، چاہے گھر والی، چاہے کنواری، ہمیشہ ایک مرد کا سوچتی ہے‘‘۔ (خلیج)
مگر ان کے ذہنی و نفسیاتی رویے اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہیں۔ اب اگر ایسا ہے تو پھر اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے کہ منٹو کے افسانے "جانکی” کے مرکزی کردار جانکی کی زندگی میں تواتر سے مردوں کی آمد اور جسمانی تعلقات کا سبب کیا ہے؟جانکی جو عزیز سے محبت کرتی ہے، وہ بمبئی آنے کے بعد سعید سے محبت کرنے لگتی ہے اور پھر اس کی زندگی میں نارائن آ جاتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں یہاں مسئلہ جانکی کی آوارہ مزاجی کا نہیں ہے اور نہ ہی یہ مسئلہ اس کی مادرانہ فطرت کا ہے کہ وہ سب سے محبت اور خلوص کا رشتہ رکھتی ہے، بلکہ یہ عورت کی اس تلاش کا ہے جس میں صرف ایک مرد کی ہو کر رہنے کی خواہش پوشیدہ ہے۔ اس کی زندگی میں آنے والے عزیز اور سعید یک سر روایتی مرد ہیں، جو عورت کے خلوص، محبت اور خدمت کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جانکی کے اس خلوص اور محبت کا صلہ دینا تو دور کی بات ہے، وہ اس کو محسوس تک نہیں کرتے اور اسی لیے ان دونوں کی گفتگو میں جانکی کا ذکر تک نہیں آتا اور نہ تعلق توڑتے وقت کوئی احساس دامن گیر ہوتا ہے، جب کہ نرائن ایک سچا، کھرا اور مخلص مرد ہے۔ جانکی کے مسئلے پر گفتگو کو ذرا یہاں روک کر ضمنا” ایک اور بات کی نشان دہی کرنا مقصود ہے، اس کے بعد ہم پھر اپنے سوال کی طرف آ جائیں گے۔ نرائن کھرا اور سچا مرد ہے اور اسی لئے منٹو کو بہت پسند ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اب تک نقادوں نے منٹو کے اس کردار پر خاص توجہ نہیں دی ہے، یہاں تک کہ ممتاز شیریں نے جانکی اور زینت کے ساتھ شیام اور بابو گوپی ناتھ کا نام لیا ہے مگر نرائن کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا۔ وہ لکھتی ہیں:
’’جانکی اور زینت کی سی عورت کی حمایت میں منٹو نے سعید اور شفیق طوسی کی طرح کے مرد کی سخت مذمت کی ہے۔ اس مرد کو وہ ملامت بھری نظر سے دیکھتا ہے، جو عورت سے ناجائز فائدہ اٹھائے۔ عورت سے اس کا خلوص، محبت، اس کے وجود کی گرمی لے اور اس کے بدلے اسے کچھ نہ دے۔ منٹو کو شیام کا سا مرد پسند ہے جو عورت کو بدلے میں وہی خلوص،محبت اور گرمی دے سکتا ہے اور بابو گوپی ناتھ، جو عورت کے سچے خلوص کی سچی قدر کر سکتا ہے۔‘‘ (ترغیب _ گناہ___ منٹو: نوری نہ ناری)
میرے خیال میں اس فہرست میں نرائن کے نام کا اندراج لازمی ہے،جو ایک عورت کے اس سچے خلوص کی بھی سچی قدر کر سکتا ہے جو اس کے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے ہے۔ اب واپس جا نکی اور نرائن کے مسئلہ کی طرف آتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نرائن ایک ایسا مرد ہے جو عورت کو بدلے میں ہی خلوص، محبت اور گرمی نہیں دیتا بلکہ خود پہل کرتا ہے۔ ایک ایسی عورت جو اسے دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیتی ہے اور اپنے کمرے میں اس کی موجودگی کی بھی روادار نہیں، نرائن اس کے لیے فوجی ہسپتال سے پینسلین کے انجیکشن چراتا ہے اور رات رات بھر جاگ کر انجیکشن کو ابالتا اور ٹھیک وقت سے جانکی کو لگاتا ہے اور جی جان سے اس کی تیمارداری کرتا ہے۔ یہاں اس پُر خلوص عورت جانکی کو جو جسم اور روح کے ساتھ محبت کرنے پر آمادہ ہے، بالآخر وہ مرد مل جاتا ہے جو نہ تو عورت کو صرف جسم سمجھتا ہے اور نہ خود محض جسم ہے۔ اس مرحلے پر مرد اور عورت کا تعلق روحانی اور جسمانی اکائی کا حامل ہو جاتا ہے۔ یہیں افسانے کا اختتام عورت کی اس خواہش اور اس کی تلاش کی تکمیل کا اعلامیہ ہے۔ اس سے پہلے کا ہر تعلق عدم توازن کا شکار تھا اس لیے قائم نہ رہ سکا اور جانکی کی زندگی میں خلا رہا۔جب کہ یہ وہ تعلق ہے جہاں مرد، عورت سے کسی طور کم نظر نہیں آتا۔ یوں چاہنے اور چاہے جانے کا دائرہ مکمل ہوجاتا ہے۔ اگر یہ دائرہ مکمل نہ ہو تو مرد یا عورت میں سے کوئی ایک فریق استحصال کا شکار ہوتا ہے۔ یہ صورت ہمیں "میرا نام رادھا ہے” میں نظر آتی ہے جہاں مرد صرف چاہے جانے کے خبط میں مبتلا ہے اور اسی لئے اس کے پاس کسی کو چاہنے کی نہ ہمت ہے اور نہ صلاحیت۔ اپنی اس محرومی کو چھپانے کے ڈھونگ میں وہ ایک سراسر جھوٹے اور ریاکار شخص کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یہاں اگر نرائن کو راج کشور کے برابر رکھ کر دیکھا جائے تو یہ دونوں کردار ایک دوسرے کی ضد ہیں، یعنی عورت کی طرح منٹو کے مرد بھی صرف نام ہی سے نہیں بلکہ اپنے کردار اور نفسیات سے بھی ایک دوسرے سے کہیں الگ اور کہیں متصادم ہیں۔
( تنقید کی کتاب "عصری ادب کے رجحانات” میں شامل ایک مضمون سے اقتباس: عنبریں حسیب عنبر) سماجی مسائل پر تخلیقات:
عنبرین حسیب عنبر نے ہماری نوجوان نسل کے حوالے سے سماجی مسائل پر بھی خوب کام کیا ہے۔ ان کی تخلیقات اخبارات میں بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔ان کی تحریروں میں موجودہ دنیا کے بارے میں نیے خیالات ان کی شاعری کو ایک منفرد اور نازک رنگ دیتے ہیں۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اردو ادب میں پہلی پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کیا ہے اور ان کی پی ایچ ڈی کا مضمون بھی یہ ہی ہے ۔ انہوں نے کھیلنے کودنے کی عمر میں غیر رسمی طور پر 9 برس کی عمر میں شاعری شروع کی تھی۔ اس کے بعد وہ اپنے خوبصورت خیالات و الفاظ کو شاعری کی شکل میں ڈھالنے کی کوششیں کرتی رہیں۔ پھر 1991 میں ان کی نظم کا مطالعہ کرنے کے بعد رفعت صدیقی نے انہیں اس پر سنجیدگی سے کام کرنے کا مشورہ دیا۔ اسکے ساتھ ہی انہوں نے اپنے والد سے بھی کچھ رہنمائی لینے کے لیے کہا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کے والد کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ اس قدر لکھتی ہیں۔ انہوں نے 1995 میں اپنی شادی کے بعد رسمی طور بر لکھنا شروع کیا۔ جب ان کے شوہر کو معلوم ہوا کہ وہ لکھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں تو انہوں نے ان کی خوب حوصلہ افزائی کی اور اسے سنجیدگی سے لینے کی تاکید کی۔
قوت حیات اور اظہار کا مخصوص انداز:
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ شادی کے بعد اتنی نزاکت اور مؤثر طریقے سے کام کرنے میں کیسے کامیاب ہوییں، انکا ماننا ہے کہ دراصل قوتِ حیات اپنے اظہار کے طریقے تلاش کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہمارے معاشرے میں شاعری کو بیچلر لائف کا مشغلہ سمجھا جاتا ہے، لیکن انکے نزدیک یہ ایک سنجیدہ اور پر سکون فن ہے۔ شاعرانہ صلاحیتیں ورثے میں ملنے کی بات پر انکا خیال ہے ضرور، لیکن یہ ذاتی دلچسپی پر منحصر ہے۔وہ مانتی ہیں کہ یہ سب اپنے گھر کے ماحول میں پرورش کی وجہ سے ہوا، جہاں معروف شخصیات کا آنا جانا رہتا تھا، لیکن وہ اکیلی ایسی رہیں جو شاعری کرتی تھیں۔ اب یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ شاعرانہ مہارت وراثت میں ملتی ہے لیکن سوال اس ہنر کو تخلیقی انداز میں استعمال کرنے کا ہے۔ مادیت پسندی کے بارے میں انکا خیال ہے کہ ایسے حالات میں نایاب شاعری کرنا مشکل ہے۔ان کی شاعری کی طرح انکا یہ جملہ بھی کتنا خوبصورت ہے کہ شاعری صرف وہی شخص جاری رکھ سکتا ہے جس کے لیے شاعری زندگی کا سوال ہو۔عنبرین حسیب عنبر کا خیال ہے کہ ہماری زندگیوں کی مابعد الطبیعیات مکمل طور پر بدل چکی ہیں اور ہم اپنے معاشرے میں اقدار کے زوال کا مسلسل مشاہدہ کرتے ہیں۔ انکا ماننا ہے کہ درحقیقت شاعر کے لیے ان تمام تبدیلیوں میں سانس لینا اور اپنے اندرونی اور بیرونی ماحول کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ رکھنا مشکل ہے۔ صرف شاعرہ ہونے کی بات پر محترمہ عنبر کا خیال ہے کہ لوگ رنگوں سے مسحور ہو کر مصور بن جاتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ الفاظ کی طرف متوجہ رہتے ہیں ،کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شخصیت کا جوہر الفاظ میں چھپا ہوتا ہے۔ اپنی شاعری کے استعارے کے بارے میں انکا خیال ہے کہ کائنات اور خدا کے ساتھ انسان کا تعلق ہمیشہ سے شعور کا مرکز رہا ہے ،لیکن اس دور میں لوگ نئے معنی تلاش کر رہے ہیں۔
تانیثیت کے نظریہ سے :
تانیثیت کے نظریہ سے دیکھیں تو عنبرین حسیب عنبر مانتی ہیں کہ ایک خاتون ہونے کی وجہ سے انکے لیے خواتین کے مسائل کو نظر انداز کرنا مشکل ہوتا ہے، ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ان تصورات پر زور دینے کی دانستہ کوشش نہیں ہے، بلکہ یہ ان کی شاعری میں ذہن کے بے ساختہ بہاؤ کے طور پر آتے ہیں۔ آدھی دنیا پر انکا یہ خیال قابل ذکر ہے کہ عورت ہونے کی وجہ سے وہ زندگی کے کچھ ایسے تجربات محسوس کر سکتی ہے جن کے بارے میں مرد کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔
کائنات کو سمجھنے کی شعوری کوشش:
عنبرین حسیب عنبر سماجی مسائل کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بناتی ہیں۔ انکا خیال ہے کہ وہ جان بوجھ کر اس کائنات کو سمجھنے کی شعوری کوششوں اور اس کائنات کے خالق کے ساتھ اپنے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کے بارے میں لکھنے کی سعی کرتی ہییں- اس کے علاوہ وہ لوگوں کے سماجی اور نفسیاتی رویوں پر بھی کام کرتی ہیں۔ان کی یہ غزل بھی شوخی کے ساتھ نیے رنگ اور نیے لب و لہجہ کی عکاسی کرتی ہے:
کب موسم بہار پکارا نہیں کیا
ہم نے ترے بغیر گوارہ نہیں کیا

دنیا تو ہم سے ہاتھ ملانے کو آئی تھی
ہم نے ہی اعتبار دوبارہ نہیں کیا

مل جائے خاک میں نہ کہیں اس خیال سے
آنکھوں نے کوئی عشق ستارا نہیں کیا

اک عمر کے عذاب کا حاصل وہیں بہشت
دو چار دن جہاں پہ گزارا نہیں کیا

اے آسماں کس لیے اس درجہ برہمی
ہم نے تو تری سمت اشارا نہیں کیا

اب ہنس کے تیرے ناز اٹھائیں تو کس لیے
تو نے بھی تو لحاظ ہمارا نہیں کیا
اگر ہم ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے نظریہ کی بات کریں تو مختلف ادبی تقریبات کے مواقع پر وہ یہ کہتی رہی ہیں کہ ایک شاعر کے لیے تحریک کے بہت سے ذرائع ہوتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب انہوں نے 1991میں شاعری کا آغاز کیا تو کراچی شہر کے حالات ان کے لیے کچھ کہنے کے لیے بہت متاثر کن تھے۔وہ مانتی ہیں کہ ہم شاعری کو اس کا درمیانی حصہ قرار دے سکتے ہیں جو انسان سوچتا ہے اور زندگی میں اس کا تجربہ ہوتا ہے اور یہ تجربہ کسی بھی شاعر کے لیے سب سے بڑا محرک ہوتا ہے۔انہیں 2005 کے زلزلہ نے خود بخود کچھ لکھنے پر مجبور کیا۔ اخبار میں شائع ہویی ان کی پہلی نظم اس طرح کے خوفناک واقعے کی عکاسی پر مبنی تھی۔
پروین شاکر سے جدا شاعری:
انکی شاعری کے انفرادی مزاج کے بارے ذکر کرتے ہویے یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے ادبی تربیت کے زیر اثر بہت سے شعر پڑھے اور وہ ان سے لطف اندوز ہوئیں، لیکن ان میں سے کسی شاعر کی نقل کرنے کی کوشش نہیں کی‌۔اس لے اس لیے قاریین اور سامعین ذہن میں پروین شاکر اور زبان پر عنبرین حسیب عنبر کے اشعار گنگنانے کی عادت میں بدلاؤ لاییں۔راقم الحروف ایک ادیب اور شاعر کے ساتھ صحافی اور مدیر بھی ہے تو اسے اپنے نداز میں یوں کہنے کی جسارت کروں گا کہ آپ جب عنبرین حسیب عنبر کی شاعری سنیں یا پڑھیں تو آپ کے ذہن میں صرف عنبرین حسیب عنبر ہی رہیں اور ذہن سے دیگر تمام باتیوں‌ کی ادارت کر دیں۔
عام طور پر بیشتر لوگ پروین شاکر کا یہ شعر کوٹ کرتے ہیںجو انکی شاعری کا نمائندہ شعر ہے:
کمال ضبط کو میں خود بھی آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی
اس شعر میں پروین شاکر اپنے محبوب سے بے انتہا محبت کے باوجود ایک ناکام محبوبہ کے اپنے محبوب سے از حد محبت اور صبر کی انتہا کا ذکر کر رہی ہیں ۔جب کہ عنبرین حسیب عنبر منفرد انداز میں کہتی ہیں۔اس میں نہ کسی اور شاعر کا رنگ ہے اور نہ ہی اس کی تقلید ۔یہ بات عنبر کے کئی اشعار سے ثابت ہو تی ہے۔ ان کی شاعری میں محبوبہ محبوب سے منفرد انداز میں بات کہتی ہے،جس میں محبوبہ ترک تعلق کے باوجود اپنی بات جدا انداز میں کہتی ہے۔ان اشعار میں کسی بھی شاعر کا نظریہ، خیال یا رنگ نظر نہیں آتا ہے۔وہ صرف اور صرف عنبرین حسیب عنبر کا ہی منفرد انداز اور وہی جانا پہچانا شوخی بھرا لہجہ ہے ۔ عنبرین حسیب عنبر کے ان اشعار سے یہ بات ثابت بھی ہو رہی ہے:
اب کے ہم نے بھی دیا ترک تعلق کا جواب
ہونٹ خاموش رہے آنکھ نے بارش نہیں کی
عنبرین حسیب عنبر، صرف عنبرین حسیب عنبر
بہرحال ان تمام نکات سے یہ بات ثابت ہے کہ عنبرین حسیب عنبر صرف عنبرین حسیب عنبر ہیں۔وہ بس اپنے آپ میں ایک منفرد شاعرہ ہیں۔ انہیں اور نکی شاعری کو کسی اور چشمے سے نہ دیکھیں۔ان کی شاعری،نثر اور تنقیدی تحریر کا جائزہ لینے پر یہ بات ثابت ہے کہ پروین شاکر اور عنبرین حسیب عنبر دونوں کی شاعری کا رنگ جدا۔گانہ ہے۔عنبر حسیب عنبر عالمی اردو ادب کی کہکشاں کا ایک چمکتا اور مہکتا ہوا ستارہ ہیں۔
( مصنف امور خارجہ، ادب،تہذیب اور فنون لطیفہ معاملات سے جڑے بین الاقوامی شہرت یافتہ سینیر صحافی،نیوز ریڈر،نیوز اینکر،شاعر، اسکرپٹ رائٹر،عالمی تحریک اردو صحافت اور بزم ریختہ کے کنوینر ہیں)

Comments are closed.