Baseerat Online News Portal

تار رباب جو بھرا ہے نغمۂ درد سے

تذکرۂ حضرت مفتی اشرف عباس قاسمی دربھنگوی استاذدارالعلوم دیوبند

غالب شمس قاسمی دربھنگوی
کتنی زرخیز ہے سرزمین بہار، سیمانچل ہو یا مگدھ یا پھر گہوارۂ علم وادب متھلانچل ، قدیم زمانے ہی سے صوفیاء، محدثین، علماء ،فقہاء، اور حکماء، غرضیکہ ہرفن کے ماہرین کی ایک کثیر تعداد یہاں موجود رہی ہے، اور پھر اس میں بھی تر ہت کا علاقہ (جس کی چوہدی متھلانچل کے مطابق ہے) بڑا سبزہ زار اور زرخیز ہے، اسی زرخیز سرزمین کے گوہر گراں مایہ اور در نایاب ہیں حضرت مفتی اشرف عباس قاسمی دربھنگوی۔ آپ دار العلوم دیوبند کے مدرس عربی ہیں، آپ علم و ادب کے رمز شناس، قدیم وضع کے علم بردار، سادگی کے پیکر، خوش طبع، خوش مزاج، کامیاب معلم، مشفق استاذ، باکمال مربی، بے باک خطیب، اردو اورعربی دونوں ہی زبان کے ماہر انشاء پرداز اور کہنہ مشق قلم کار ہیں، آئے دن آپ کے مقالات و مضامین ہند و بیرون ہند کے مجلات ورسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں، چنانچہ آپ کے گہر بار قلم سے نکلا ہوا ایک مقالہ اتنا مقبول ہوا اور اتنا سراہا گیا کہ سعودی حکومت کی جانب سے "ہدیہ عمرہ "کی دعوت ملی، اور آپ شاہی مہمان ہوئے ۔ آپ کی تحریر شستہ اور سلیس ہوتی ہے، حضرت الاستاذ کواللہ تعالٰی نے ادب عربی کا خاص ذوق عطا کیا ہے؛ چنانچہ سیرت پر پانچ سو صفحات پر مشتمل عربی مقالہ آپ نے تحریر کیا، اسی طرح اصول حدیث کی سب سے معتبر کتاب "نزہۃ النظر” پر عربی حاشیہ چڑھایا، جو دار العلوم دیوبند کے نصاب میں داخل ہے، نیز فقہ پر ایک کتاب ”فقہ الاسرة“ ( عربی ) تصنیف فرمائی ہے، اردو میں پلاسٹک سرجری نامی کتاب کی تلخیص کی ہے، اسی طرح "اجزاء انسانی کا عطیہ” آپ کی مقبول تصنیف ہے، ’’صحاح ستہ: تعارف و خصوصیات‘‘ منظر عام پر آچکی ہے، قاری عبد الرحمن صاحب پانی پتی کی کتاب کشف الحجاب( غیر مقلدیت کی نقاب کشائی) پر تحقیق و تحشیہ کا کام کیا ہے۔
آپ کے مضامین ماہنامہ دارالعلوم میں قسط وار شائع ہورہے تھے، جو اب کتابی صورت میں بنام ’’دفاع سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ عنقریب شائع ہونے والی ہے، اس کتاب کے سلسلے میں مصنف خود رقم طراز ہیں:
”اس رسالہ میں خصوصیت کے ساتھ رسول مطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر معاندین ومستشرقین اور نام نہاد مؤرخین نے مختلف پہلوؤں سے جو چھینٹا کشی کر کے حق کا گلا گھونٹے کی مذموم حرکت کی ہے، اس کا جائزہ لے کر علم و تحقیق کو راہنما بنا کر حقیقت حال آشکارا کرنے کی کوشش کی ہے”۔
آپ کی دلی خواہش ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور ہو اور دینی ماحول پیدا ہوجائے چنانچہ اس خواہش کی تکمیل کے لئے 2016ء میں آپ نے اپنے علاقے میں دارالعلوم شکری ( موجودہ :قاضی پورہ، نرائن پور، ضلع دربھنگہ) کے نام سے ایک ادارے کا آغاز فرمایا، جہاں ماشاء اللہ اب ڈھائی سو طلباء زیر تعلیم ہیں، اللہ اس مدرسہ کے چشمہ فیض کو ہمیشہ جاری رکھے۔

مختصر احوال زندگی :
مفتی صاحب کا دادیہال موضع ”بتھیا“ ہے اور نانیہال” نظرا محمد آباد ہے“، والد صاحب کا نام جناب قاری عباس عادل ہے، جو علماء کے بڑے قدر دان اور نیک صفت انسان ہیں، مفتی صاحب کی پیدائش 3 جنوری 1980ء ( بہ مطابق 14صفر 1445ھ) بہ روز جمعرات اپنے نانا عباس مسیح الزماں عرف مسی کے یہاں ہوئی ، گھر اور خاندان بھرا پرا ہے، گھر کا ماحول بھی خالص دینی تھا؛ چنانچہ تعلیم کی ابتدا گھر پر والد صاحب کے پاس ہوئی، پھر مدرسہ کنز العلوم الہ آباد میں قاری محی الدین صاحب حفظہ اللہ ورعاہ کے پاس بہ عمر 9 سال حفظ قرآن کی تعمیل کرلی، پھر مدرسہ امانیہ” "لوام میں ایک سال دور کیا ، اس کے بعد1991-1992ء میں مدرسہ منبع العلوم خیر آباد میں دو سال تک اردو و فارسی اور عربی اول کی تعلیم حاصل کی، یہاں آپ کی ادبی و تقریری صلاحیت کے جوہر دکھنے شروع ہوگئے تھے۔
بعدہ 1993ء میں عربی کی تعلیم کی غرض سے گجرات کے مشہور مدرسہ جامعہ مظہر السعادة” ہانسوٹ، بھروچ ( گجرات) کا سفر کیا، اور وہیں عربی ششم تک کی تعلیم حاصل کی، آپ کے وہاں کے اساتذہ میں حضرت مفتی محمد فاروق صاحب قاسمی دربھنگوی،( شیخ الحدیث دار الاحسان بارڈولی گجرات)اور مفتی محمد صبیح اختر قاسمی( شیخ الحدیث جامعہ جلالیہ ہوجائی آسام) قابل ذکر ہیں، علمی گہرائی و گیرائی پیدا کرنے کے لئے اور علوم و فنون میں کامل دستگاہ حاصل کرنے کے لئے 1999ء مطابق شوال 1419ھ میں آپ نے علم عرفاں کی بستی دیوبند کا رخ کیا، اور 1999ء مطابق شعبان 1420ھ میں دارالعلوم سے دورۂ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی، آپ کی کتب احادیث کے اساتذہ درج ذیل ہیں:
صحیح البخاری جزءاول: حضرت مولانا نصیر احمد خان رحمۃ اللہ علیہ
صحیح البخاری جزءثانی: حضرت شیخ عبد الحق اعظمی علیہ الرحمہ
صحیح مسلم جزء اول: حضرت علامہ قمر الدین گورکھپوری دامت برکاتہم العالیہ
صحیح مسلم جزء ثانی: حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی دامت برکاتہم العالیہ
جامع الترمذی جزء اول: حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری نور اللہ مرقدہ
جامع الترمذی جزء ثانی: حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم العالیہ
سنن ابوداؤد جزء اول : بحر العلوم حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی دامت برکاتہم العالیہ
سنن ابوداؤد جزء ثانی: ابن حجر ثانی مولانا حبیب الرحمن اعظمی
سنن نسائی: حضرت علامہ قمر الدین گورکھپوری
سنن ابن ماجہ: حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ
شرح معانی الآثار: حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری
مؤطا امام مالک: حضرت قاری محمد عثمان منصور پوری رحمہ اللہ
مؤطا امام محمد: حضرت مفتی محمد امین صاحب پالنپوری دامت برکاتہم العالیہ
فراغت کے بعد ادب وفقہ سے دلچسپی کی وجہ سے پہلے آپ نے دار العلوم میں تکمیل ادب عربی کیا ، پھر تکمیل افتاء کرکے فقہ و فتاویٰ میں مہارت حاصل کی، افتاء کے بعد 2002 ء میں حضرت مفتی عبد اللہ صاحب مظاہری قدس سرہ نے آپ کی علمی و ادبی صلاحیت کی بنیاد پر اپنے مدرسہ جامعہ مظہر السعادہ( ہانسوٹ، گجرات) میں بطور مدرس مدعو کیا، ابتدا میں ” شرح تہذیب، اصول الشاشی زیر تدریس رہی، پھر ترقی کی سیڑھی چڑھتے ہوئے بہت جلد علیا کے استاذ مقرر ہوئے، اور مؤطین، ترمذی شریف، مسلم شریف کا مقبول درس دیا، چوں کہ ادب عربی سے خصوصی دلچسپی تھی اس لیے ہانسوٹ میں اللجنہ کے سر پرست و نگراں مقرر ہوئے ، پھر 2013ء میں آپ کا دار العلوم دیوبند میں ادنی کے اسکیل پر تقرر ہوا، تب سے وہاں آپ مقبول تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، شروع میں القراءۃ الواضحہ، مرقات اور شرح تہذیب آپ سے متعلق رہی، اب وسطیٰ میں ترقی پا چکے ہیں، ترجمہ کلام پاک، قطبی، اور مختصر المعانی وغیرہ کتابیں زیر درس ہیں،تکمیل ادب عربی میں البلاغۃ الواضحہ پڑھاتے ہیں، نیز آپ دارالعلوم دیوبند میں ادبی فضا قائم کرنے کے لیے مسلسل کوشاں رہتے ہیں؛ چنانچہ آپ شروع شروع میں روزانہ طلبہ کو خارج میں عربی پڑھایا کرتے تھے،اب کثیر مصروفیات کی بناء پر وہ سلسلہ باقی نہیں رہا؛ البتہ طلباء کی خیر خواہی اور علمی رہنمائی میں پیش پیش رہتے ہیں۔

عصری تعلیم
آپ قدیم و جدید کے حسین سنگم ہے، علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی کافی استفادہ کیا ہے، دارالعلوم دیوبند کی سند فضیلت کو بنیاد بنا کر 2010ء میں موصوف نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے تاریخ اور اردو میں ڈبل ایم اے ( فاصلاتی) کیا، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے 2003ء میں ڈپلومہ ان فنکشنل عربک کیا، 2011ء میں ڈپلومہ ان اردو لنگویج کیا، اسی طرح قومی کونسل سے ہی کمپیوٹر ایپلیکیشنز ، بزنس اکاؤنٹنگ اور کثیر لسانی ڈی ٹی پی میں ڈپلومہ کیا۔

بیعت و خلافت
آپ کو تصوف و سلوک سے بھی بڑا لگاؤ ہے، آپ کی تکمیل حفظ کی دستار بندی حضرت مولانا محمد احمد نقشبندی مجددی پرتاب گڈھی رحمۃ اللہ علیہ نے کی، اور سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی، اور فرمایا کہ آئندہ یہ بڑا آدمی بنے گا، ان سے قلبی وابستگی کی بناء پر انہیں کے خلیفہ و مجاز عارف باللہ شیخ طریقت حضرت مولانا محمد قمر الزماں الہ آبادی خویش و مجاز مصلح الامت مولانا شاہ وصی اللہ الہ آبادی چشتی طاب ثراہ سے بیعت ہوئے، چنانچہ جب بھی موقع ملتا، اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے، رمضان میں حضرت کے ساتھ اعتکاف کرتے، حضرت شیخ مولانا قمر الزماں الہ آبادی دامت برکاتہم العالیہ نے آپ کو اجازت خلافت بھی مرحمت فرمائی ہے، خط کا مضمون یہ ہے:
’’ماشاءاللہ! آں عزیز سے دیرینہ تعلق ہے، آپ کی علمی و عملی صلاحیت سے واقفیت ہے، اس لئے عرصہ سے خیال تھا، کہ آں عزیز کو اجازت و خلافت دے دوں، الحمد للّٰہ آج وقت آگیا، اور دلی تقاضہ کی بناء پر لکھ رہا ہوں، کہ آں عزیز کو تعلیم و تلقین اذکار کی اجازت دیتا ہوں، اور اگر طالب صادق آئے، اور بیعت کی درخواست کرے، تو اس کو بیعت کرلیا کریں، چاروں سلاسل صوفیہ میں بیعت کرنے کی اجازت دیتا ہوں، اس کو قبول کریں اور تعلیمی سلسلہ کے ساتھ طریق و سلوک کی تعلیم و تربیت کے سلسلے کو جاری کریں، ان شاءاللہ نفع ہوگا۔‘‘
اللّٰہ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے ، مزید ملی و فلاحی کاموں کی توفیق دے، آپ کے سایہ عاطفت کو تادیر قائم رکھے۔ آمین

Comments are closed.